اہم خبریں

نئی نسل کو مدارس کے قریب کیسے لایا جائے؟ تحریر:محمد یوسف جمال قادری




طلبہ کی تعداد میں اضافے کے لیے نئی نسل کو مدارس کے قریب کیسے لایا جائے؟


میں نے ویٹر کی توجہ ڈش نمبر 65 کی طرف مبذول کرائی اور مسکرا کر پوچھا ”یہ کیسی رہے گی؟“
ویٹر نے جھک کر مینو کارڈ دیکھا اور مسکرا کر بولا ” یہ رائسینیا ہے، یہ ہمارے ریستوران کی مشہور ترین ڈش ہے، یہ آپ کےلئے پرفیکٹ رہے گی“
وہ اس کے بعد سیدھا ہوا اور نہایت شستہ انگریز ی میں ڈش کے اجزاءاور اس کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالنے لگا۔
اس نے بتایا ”ڈش کے چاول برازیل کے قدرتی کھیتوں میں قدرتی کھاد میں پروان چڑھتے ہیں۔ زیرہ چین کے دور دراز علاقوں سے منگوایا جاتا ہے۔ دھنیا، دالیں اور نمک انڈیا سے لایا جاتا ہے۔ یہ سارے اجزاء فرانس کے نیم گرم چشموں کے پانی میں دھوئے جاتے ہیں۔ یہ جاپانی مٹی کی ہانڈی میں ڈالے جاتے ہیں۔ ان میں ملائیشیا کا کوکونٹ آئل ملایا جاتا ہے۔ ڈش کو ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے اور یہ کھانا آخر میں برطانوی پلیٹ میں ڈال کر میرے سامنے رکھا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
میں اس نجیب الطرفین ڈش کے پس منظر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مجھے محسوس ہوا میں نے ڈش نمبر65 پر انگلی رکھ کر اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا۔ میں نے مینو کارڈ فولڈ کر کے ویٹر کے حوالے کیا، لمبی سانس لی اور کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ریستوران گاہکوں سے بھرا ہوا تھا، میں لوگوں کو کھانا کھاتے، گپ شپ کرتے اور قہقہے لگاتے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ میرا آرڈر بیس منٹ میں تیار ہونا تھا، میں یہ وقت دائیں بائیں دیکھ کر گزارتا رہا۔ میں نے بڑی مشکل سے وقت پورا کیا۔ مجھے آخر میں دو ویٹر اپنی طرف آتے دکھائی دیے، ایک نے چاندی کی بڑی سی ٹرے اٹھائی ہوئی تھی اور دوسرا میرے آرڈر کو پروٹوکول دے رہا تھا۔
پروٹوکول آفیسر نے مسکرا کر میری طرف دیکھا،میرے سامنے پڑی پلیٹ اٹھائی، جگہ بنائی، نہایت عزت کے ساتھ ٹرے میں رکھی پلیٹ اٹھائی اور میرے سامنے رکھ دی۔ میں اشتیاق کے عالم میں پلیٹ پر جھک گیا۔ دونوں ویٹرز نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ”انجوائے یور میل سر“ کہا اور لیفٹ رائیٹ کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔
میری پلیٹ کے ایک کونے میں کھیرے کی دو قاشیں پڑی تھیں، اس سے ایک انچ کے فاصلے پر سبز دھنیے کی چٹنی تھی اور اس چٹنی سے دو انچ کے فاصلے پر چار چمچ کے برابر چاولوں کی ڈھیری تھی۔ میں نے چھری کے ساتھ وہ ڈھیری کھولی، چاولوں سے کانٹا بھرا، وہ کانٹا منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی میری ہنسی نکل گئی۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے وہ رائسینیا پھیکی کھچڑی تھا اور میں کھچڑی کی ان چار چمچوں کےلئے بیس منٹ انتظار کرتا رہا تھا۔ میں نے لمبا سانس لیا، کھیرے کی قاش منہ میں رکھی۔ کوکا کولا کا لمبا گھونٹ بھرا، کھچڑی (معذرت چاہتا ہوں) رائسینیا کو زہر مار کیا اور ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کر دیا۔
و ہ بل کی بجائے ڈیزرٹس کا مینو کارڈ لے آیا اور مجھے انوکھی انوکھی سویٹ ڈشز چیک کرنے کا مشورہ دینے لگا، میں نے نہایت شائستگی کے ساتھ معذرت کر لی۔ وہ مایوس ہو کر واپس گیا اور بل لے آیا۔ میں نے بل کو غور سے دیکھا۔ مجھے کوکا کولا کا ایک گلاس پانچ سو روپے میں پڑا اور چار چمچ پھیکی کھچڑی اڑھائی ہزار روپے میں۔ بل میں سروس چارجز اور جی ایس ٹی بھی شامل تھا، یہ سب ملا کر پونے چار ہزار روپے بن گئے ۔ میں نے پے منٹ کی اور اپنی سیٹ سے اٹھ گیا، ریستوران کے آدھے عملے نے مجھے جھک کر رخصت کیا، باوردی دربان نے دروازہ کھولا، میری گاڑی پورچ میں آ گئی، میں گاڑی میں بیٹھ گیا، ریستوران کا بیرونی عملہ بھی میرے سامنے جھک گیا، مجھے بڑی عزت کے ساتھ روانہ کیا گیا۔
میں راستے میں سوچنے لگا۔۔۔! پونے چار ہزار روپے میں چار چمچ کھچڑی، کیا یہ ظلم نہیں؟ہاں یہ ظلم تھا لیکن میں اپنی فطرت کے برعکس اس ظلم پر خاموش رہا، کیوں؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا۔ میں منہ پھٹ آدمی ہوں، میں کسی بھی فورم پر کوئی بھی بات کہہ سکتا ہوں لیکن میں اس ریستوران میں یہ ظلم چپ چاپ کیوں سہہ گیا؟ میں کھوجتا رہا یہاں تک کہ وجہ کا سرا میرے ہاتھ میں آگیا۔ یہ سب ریستوران کی مارکیٹنگ کا کمال تھا۔
مارکیٹنگ کھچڑی کو دنیا کی بہترین اور مہنگی ڈش بھی بنا سکتی ہے اور اس ڈش کی زد میں آنے والے مظلوموں کے منہ پر ٹیپ بھی لگا سکتی ہے اور مظلوم کے پاس ظلم سہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔ میری ہنسی نکل گئی، مجھے ہنسنا چاہیے بھی تھا، میں بھول گیا تھا ہم مارکیٹنگ کی اس ایج میں زندہ ہیں جس میں ٹیلی ویژن کا اشتہار یہ فیصلہ کرتا ہے مجھے کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا چاہیے۔
مجھے کس کمپنی کی چائے، دودھ، چینی، انڈے، شیمپو، صابن، ڈٹرجنٹ پاؤڈر، پانی، فریج اور اے سی خریدنا چاہیے اور مجھے کس موٹر سائیکل پر بیٹھ کر زیادہ فرحت محسوس ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ یہ مارکیٹنگ ہے جو کھچڑی کو رائسینیا، آلو کے چپس کو فرنچ فرائز، چھلی کو کارن سٹک، لسی کو یوگرٹ شیک اور برف کے گولے کو آئس بال بنا دیتی ہے۔ کمپنی اپنی مارکیٹنگ کے زور پر دس روپے کی چیز ہزار روپے میں فروخت کرتی ہے اور گاہک کو اعتراض کی جرات تک نہیں ہوتی۔
یہ تحریر کچھ روز قبل نظر سے گزری تھی جس کا ابتدائی حصہ آپ کے گوش گزار کیا، بقیہ حصہ عالمی سیاسی پسِ منظر میں ہے جس کی یہاں حاجت نہیں اس لیے اسی قدر نقل پر اکتفاء کرتا ہوں۔
ایک مدرس ہونے کے ناطے یہ سب پڑھ کر میرا ذہن تعلیمی اداروں کی جانب چلا گیا۔ صاحبِ تحریر کی طرح میں نے بھی سوچا کہ مارکیٹنگ صرف کمپنیوں تک محدود نہیں رہی، مارکیٹنگ کی ضرورت تعلیمی اداوں میں بھی ہوتی ہے۔ مثلاً موجوده تعلیمی نظام کی مثال لے لیں۔ ماڈرن تعلیمی اداروں میں ہزار خامیوں کے باوجود داخلے نہیں ملتے۔ اس کے برعکس مدارسِ اسلامیہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود طلبہ کی کمی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ چند انفرادی خامیوں کو لے کر مدارس کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ایک پڑھا لکھا فرد مولوی کے نام سے ہی بدکنے لگا۔
حالانکہ اگر کوئی بھی شخص انصاف کا دامن تھام کر، اِکا دُکا انفرادی واقعات کو ایک جانب رکھ کر اکثریت کے اعتبار سے ماڈرن تعلیمی اداروں اور مدارس کا تقابل کرے تو بحمد اللہ تعالیٰ مدارسِ اسلامیہ کئی لحاظ سے ماڈرن تعلیمی اداروں سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے آپ کے سامنے کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔
  1. اجتماعی جدوجہد کی عمدہ ترین مثال: مدارسِ اسلامیہ اجتماعی ومعاشرتی جدوجہد کی عمدہ ترین مثال ہیں۔ ڈیڑھ صدی سے زائد ہو چکا کسی بھی قسم کی سرکاری امداد اور طلبہ سے فیس لیے بغیر محض عوامی چندے سے نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ پوری ذمہ داری اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود ان کا جذبہ، مقصد سے لگن اور جہدِ مسلسل نہ صرف حیران کن ہے بلکہ نصرتِ الٰہی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس اپنے شعبے میں ایسے کامیاب ہیں کہ دیگر ممالک میں بھی ان کے تعلیمی معیار کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
    اس کے برعکس ماڈرن تعلیمی اداروں کے لیے اربوں روپے کا سرکاری فنڈ بھی ہے اور مختلف مدات میں طلبہ سے بھاری فیسیں بھی وصول کی جاتی ہیں لیکن ان سب کے باوجود بین الاقوامی سطح پر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔
  2. اپنوں سے پیار: اہالیانِ مدارس اپنے دین، وطن، اقدار اور ثقافت کے سچے علم بردار ہیں۔ ان کا لباس، ان کی زبان، ان کا رہن سہن غرض کہ ہر ہر ادا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
    اس کے برعکس ماڈرن تعلیمی اداروں کا پہناوا، زبان، تعلیم، ماحول غرض کہ پورا نظام چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ ادارے نہ تو کسی اسلامی مملکت کے نمائندہ ہیں اور نہ ہی اپنے وطن اور ثقافت کے، کیونکہ ان کی ہر ہر ادا سے غیروں کی نقالی جھلکتی ہے۔ یوں یہ ادارے محض غلام پیدا کرنے کی فیکٹریاں بن کر رہ گئے ہیں۔ البتہ سال کے چند مخصوص ایام میں نام کے لیے کچھ تقریبات ضرور منعقد کی جاتی ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ عملاً ایسی تقریبات نشستند گفتند برخاستند سے زیادہ کچھ نہیں ہوتیں۔
  3. اخلاقی تربیت: آپ ماڈرن تعلیمی اداروں اور مدارس میں دی جانے والی اخلاقی تربیت کا تقابل کیجیے۔ اس معاملے میں بھی مدارس، ان سے کہیں آگے دکھائی دیں گے۔ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، حلال کمانا اور حرام سے بچنا، ہمدردی، ایثار، رشتہ داروں کے حقوق جیسے کثیر اخلاقی معاملات کی تربیت مدارسِ اسلامیہ کا طرۂ امتیاز ہے۔
  4. اساتذہ کی عزت: مدارس کے طلبہ اپنے بزرگوں خصوصاً اساتذہ کے ساتھ جس عزت سے پیش آتے ہیں وہ خود اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ صرف استاذ ہی نہیں بلکہ علم سے وابستہ ہر چیز مثلاً کتاب اور قلم وغیرہ تک کا ادب مدارسِ اسلامیہ میں سکھایا جاتا ہے۔ مدارس کی یہ خوبی ماڈرن تعلیمی اداروں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ لیکن افسوس! کتاب اور قلم کا ادب تو کیا ہوتا غیروں کی نقالی نے اِن اداروں کے اساتذہ کی عزت دو کوڑی کی کر کے رکھ دی۔ انتظامیہ، والدین اور طلبہ کے لیے ان اداروں کا استاذ ایک ملازم سے زیادہ کچھ نہیں۔ یونہی استاذ کے لیے طالبِ علم محض ایک گاہک کی حیثیت رکھتا ہے۔ صد افسوس کہ یہ ادارے استاذ شاگرد کے رشتے کا تقدس مغرب کے پیچھے دوڑتے دوڑتے کہیں گم کر چکے ہیں۔
  5. اخلاص: مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں ماڈرن تعلیمی اداروں کے مقابل آدھی بھی نہیں ہوتیں۔ اس قلیل تنخواہ میں ایک استاذ روزانہ مختلف فنون کے چھے سے آٹھ پیریڈ پڑھاتا ہے۔ اور یہ پیریڈ پرائمری یا سیکنڈری کے بچوں کے نہیں ہوتے بلکہ عامہ (میٹرک) سے عالمیہ (ماسٹرز) تک کی فنی وتحقیقی کتب کے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اہلِ مدارس کبھی اپنی ذات کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلے۔ ان کی بہت سی خدمات بھی مفت دستیاب ہوتی ہیں: غسلِ میت، جنازہ اور فتویٰ وغیرہ کے عوام الناس سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں لیتے۔ اپنے کام کو اپنی ذات اور گھر بار پر ترجیح دینا ان کے اخلاص کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
  6. طلبہ کی فیصد حاضری: کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ماڈرن تعلیمی اداروں میں حاضری کی شرح کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جبکہ مدارس میں طلبہ کی حاضری کی شرح بہت بہتر ہے ۔ اس معاملے میں بھی مدارسِ اسلامیہ، ماڈرن تعلیمی اداروں سے بہت آگے ہیں۔
  7. نقل کا رحجان: مدارسِ اسلامیہ میں نقل کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ماڈرن تعلیمی اداروں میں کس قدر نقل ہوتی ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ نقل کے علاوہ بھی امتحانات میں کامیابی کے لیے کئی غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
  8. امتحانات میں کامیابی کی شرح: نقل کر نے کا مقصد ہوتا ہے پرچہ پاس کرنا۔ لیکن یہ عجیب وغریب تماشا ہے کہ کثیر نقل اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کے باوجود ماڈرن تعلیمی اداروں میں کامیاب طلبہ کی شرح نہایت مایوس کن ہے۔ اس کے برعکس مدارس میں کامیابی کی شرح کہیں بہتر ہے۔
  9. اعلیٰ نصاب: موقع ملے تو کبھی کسی یونیورسٹی کا نصاب اٹھا کر دیکھیے۔ جو کتب مدارس میں خاصہ (انٹرمیڈیٹ) میں پڑھائی جاتی ہیں وہ آپ کو ماسٹرز (عالمیہ) کے نصاب میں نظر آئیں گی۔ اس لحاظ سے مدارس کا نصاب اپنے شعبے میں نہایت اعلیٰ معیار کا حامل ہے۔
    10.منفی سیاست سے پاک ماحول: ماڈرن تعلیمی اداروں میں سیاسی فسادات کی خبریں آئے روز خبروں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جبکہ مدارس میں ایسے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
    آپ سب کو دعوتِ تحقیق ہے۔ ماڈرن تعلیمی اداروں اور مدارس کے وسائل وکارکردگی کا جائزہ لیجیے۔ دونوں کی Input اور Outputكوسامنے رکھ کر مندرجہ بالا دس نکات پر کوئی بھی انصاف پسند تحقیق کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو مدارسِ اسلامیہ، ماڈرن تعلیمی اداروں سے بہت آگے دکھائی دیں گے۔
    لیکن کیا وجہ ہے کہ مندرجہ بالا تر خامیوں کے باوجود ماڈرن تعلیمی اداروں کو اچھا سمجھا جاتا ہے، اور تمام تر خوبیوں کے ہوتے ہوئے مدارسِ اسلامیہ کو معاشرے کا ایک بے کار پرزہ گردانا جاتا ہے؟
    کیا وجہ ہے کہ ماڈرن تعلیمی اداروں میں داخلے نہیں ملتے، اور مدارسِ اسلامیہ کی اکثریت طلبہ کی کمی کا شکوہ کرتے دکھائی دیتی ہے؟
    یہ سب کیا ہے؟
    مدارس کی لذیذ بریانی معاشرے کو کھچڑی کیوں لگتی ہے؟
    وہ کون سے طریقے ہیں جن کی مدد سے ماڈرن تعلیمی ادارے اپنی کھچڑی کو بھی رائسینیا بنا کر پیش کرتے ہیں؟ اور عوام بھاری رقوم خرچ کر کے خوشی خوشی وہ کھچڑی کھا بھی لیتے ہیں۔
    یہ سب کیوں ہے؟ کبھی اس بارے میں سوچا؟
    میری ناقص رائے میں اس کی چند خارجی وداخلی وجوہات ہیں۔
    خارجی سبب
    مدارس اور علماء کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا پر تواتر کے ساتھ ہونے والا پروپیگنڈہ عوام الناس کو ان سے دور کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔
    آگے بڑھنے سے پہلے اس پروپیگنڈے کی ایک جھلک دکھلانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
    جس طرح مدارسِ اسلامیہ چندہ لیتے ہیں اسی طرح بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں (N.G.Os) بھی لیتی ہیں۔ لیکن یہ پروپیگنڈہ کا کمال ہے کہ علماء کا چندہ مانگنا عیب، گلوکاروں اور فنکاروں وغیرہ کا "ڈونیشن" لینا خدمت کہلاتا ہے۔ مساجد ومدارس کے لیے چندہ لینے والے "چندہ خور" اور سوٹ بوٹ میں انگریزی بول کر چندہ لینے والے "خدمتِ خلق کے علم بردار" قرار پاتے ہیں۔
    مجھے حوالہ یاد نہیں ، شاید بلاغت کی کسی کتاب یا مضمون میں پڑھا تھا کہ پروپیگنڈے کا جواب جب تک اس سے زیادہ یا کم از کم اتنی ہی طاقت سے نہ دیا جائے تو وہ جواب کسی کام کا نہیں رہتا۔
    سوشل میڈیا سے پہلے علماء کے پاس صرف مسجد کا منبر تھا یا سینہ بہ سینہ دعوت۔ ٹی وی ، اخبار اور سوشل میڈیا جیسی طاقت تک رسائی نہ تھی۔ اسی وجہ سے ایسے جھوٹے پروپیگنڈوں کا جواب اتنی ہی طاقت سے نہیں دیا جا سکا۔
    نیز بیشتر جامعات نے طلبہ کو تصنیف وتالیف کی باقاعدہ تربیت بھی فراہم نہیں کی کہ وہ اپنے دفاع میں کچھ لکھ یا بول سکیں، اگر کچھ افراد اس میدان میں آئے بھی تو اپنی محنت اور صلاحیت سے۔
    لیکن اب زمانہ بدل گیا اور اس بدلتے زمانے کے ساتھ اگر ہم اپنے آپ کو بھی بدل لیں تو ایسے جھوٹے پروپیگنڈوں کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں۔
    کرنا صرف یہ ہے کہ ہر جامعہ اپنے اپنے طلبہ کے لیے جدید خطوط پر تحریر وتقریر کی تربیت کا اہتمام کرے۔ علمی مجلات جاری کریں اور سوشل میڈیا پر چینل، پیج اور گروپ بنا کر طلبہ کے ذریعے ہی انہیں فعال بنائیں۔
    بہرحال اس موضوع پر گروپ میں وقتاً فوقتاً بات ہوتی رہتی ہے اور فی الحال یہ تحریر کا مقصد بھی نہیں اس لیے اسے یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔
    داخلی سبب
    مجھے لگتا ہے کہ میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا کچھ نہ کچھ اثر اہلِ مدارس نے بھی لیا ہے۔ اور اسی پروپیگنڈے کے زیرِ اثر وہ خود بھی اپنی بریانی کو پھیکی کھچڑی ہی سمجھنے لگے ہیں۔ یا نہیں بھی سجھتے لیکن کھچڑی کے انداز میں پیش ضرور کر رہے ہیں۔
    میرا خیال ہے ہم مارکیٹنگ میں مار کھا رہے ہیں، ہمارا پرسیپشن خراب ہے، ہمیں مارکیٹنگ کو سمجھنے والے افراد کی ضرورت ہے جو ہماری لذیذ بریانی کو کم از کم بریانی کے انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
    مارکیٹنگ کا لفظ ہمارے ہاں کسی حد تک منفی معانی میں استعمال ہونے لگا ہے اس لیے وضاحت ضروری ہے کہ ان معروضات کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ جھوٹ اور غیر شرعی ہتھکنڈوں کے ذریعے کھچڑی کو رائیسینیا کا نام دے دیں۔ مقصد یہ ہے کہ دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے جدید ذہنوں کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ اس کے بعد ہی امید کی جا سکتی ہے کہ معاشرے میں نہ صرف علماء اور مدارس کا تاثر بہتر ہوگا بلکہ طلبہ کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو گا۔
    چند تجاویز
    کسی شاعر نے کہا تھا:
    ع۔ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
    حسبِ حال اس مصرعہ کو یوں تبدیل کیا ہے:
    ع۔ جہاں بھی گئے داستاں لکھ کے لائے
    اپنے مطالعے اور مشاہدات سے گزرنے والی چھوٹی چھوٹی اہم باتوں کو ڈائری پر ترتیب سے لکھنا راقم کی برسوں پرانی عادت ہے۔ موبائل فون ملنے کے بعد یہ سلسلہ مزید تیز ہو گیا کیونکہ یہ ہر وقت جیب میں موجود رہتا ہے۔ کوئی اہم خبر ہو یا واقعہ ڈائری میں ضرور نوٹ کرتا تھا۔ کوئی عبارت اچھی لگی تو اسے محفوظ کیا، کوئی طالبِ علم پڑھائی چھوڑ گیا تو اس کی وجہ؟ کسی کو سزا ملی تو اس کی وجہ؟کوئی سبق کسی طالبِ علم کو سمجھا نہیں سکا تو اس کی وجہ؟ انتظامیہ کا کوئی فیصلہ اچھا لگا یا سمجھ نہ آیا تو اس پر نوٹ لکھ لیا۔ غرض کہ ہر اہم بات کو لکھنے کی عادت ہے۔
    انٹرنیٹ سے تعلق بنا تو گوگل کے بک مارک، ون نوٹ، کلر نوٹ اور فیس بک کے محفوظات میں اتنا مواد جمع ہوتا چلا گیا کہ اب اس میں کچھ تلاش کرنا ہو تو خاصا وقت صرف ہوتا ہے۔ غرض کہ ماضی میں لکھے گئے ملاحظات کا ایک ڈھیر ہے جو آج بھی کام آ رہا ہے۔
    انہی ملاحظات کی مدد سے مدارس میں طلبہ کی تعداد میں اضافے کے لیے چند تجاویز لکھ رہا ہوں جس کی مدد سے نئی نسل کو مدارس اور علماء کے قریب لایا جا سکتا ہے، ممکن ہے کسی کے کام آ جائیں۔ ان میں سے بعض باتیں بظاہر چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن ان کے اثرات دیرپا ہیں اور ماڈرن تعلیمی ادارے بھی انہیں استعمال کر رہے ہیں۔
    دیگر احباب سے بھی گزارش ہے کہ اپنے اپنے تجربات وتجاویز سے ضرور آگاہ کیجیے۔
    کہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس ایک سیب ہے اور میرے پاس بھی ایک سیب اور ہم ان دونوں سیبوں کو جمع کر لیں تو دو ہی سیب ہوں گے۔ لیکن اگر آپ کے پاس ایک خیال (Idea) ہے اور میرے پاس بھی ایک خیال ہے، اور ہم ان دونوں خیالات کو جمع کر لیں تو جواب میں دو خیالات نہیں بلکہ چار یا پانچ خیالات آئیں گے۔
    جو کچھ میں نے دیکھا سمجھا لکھ دیا، آپ بھی سوچیے اور اپنی رائے سے آگاہ کیجیے کہ یہ ہم سب کا مشترکہ مفاد ہے۔
  10. ناظرہ کے مدارس ہمارا چہرہ ہیں: ناظرہ کا مدرسہ ہمارا چہرہ ہے۔ کیونکہ اسی کے ذریعے ہمارا پہلا تعارف ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی کو ناظرہ کے مدرسے اور درسِ نظامی کے ادارے کا فرق معلوم نہیں۔ ناظرہ کے مدرسے میں آنے والا چھوٹا سا بچہ مسجد، مدرسے اور مولوی سے ساری زندگی کے لیے متاثر بھی ہو سکتا ہے اور متنفر بھی۔ اس لیے جامعات کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں پھیلے ناظرہ کے مدارس اور اساتذہ پر خصوصی توجہ کی شدید حاجت ہے۔
    کچھ دیر کے لیے تصویر کی آنکھ سے دیکھیے کہ ایک بچہ صبح کے چار پانچ گھنٹے ایک رنگین اور خوبصورت عمارت میں گزار کر آیا ہے۔ جہاں اسے کھیل کود اور کھانے کا وقفہ بھی ملا تھا۔ جھولے بھی جھولے تھے۔ رنگ برنگی کتابوں سے نظمیں بھی پڑھیں۔ غرض کہ بچوں کی دلچسپی کا ہر سامان وہاں موجود تھا۔
    اس کے بعد وہی بچہ (ظاہر کے اعتبار سے) بے رونق عمارت، میلی دریوں اور ڈیسکوں پر نہایت سنجیدہ قاری صاحب کے سامنے بیٹھ کر دو سے ڈھائی گھنٹے تک حروفِ تہجی کے چند حروف دہراتا رہتا ہے۔ ایسے میں اس کا ذہن اسکول اور مدرسے میں سے کس جانب راٖغب ہوگا؟
    میرے خیال میں نئی نسل کو راغب کرنے کے لیے مدارس کو بھی دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے کچھ نہ کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔
    آپ کے خیال میں کیا اقدامات ہو سکتے ہیں؟
  11. بچے کے معاشی مستقبل کا خوف: بچے نے کیا پڑھنا ہے اور بڑے ہو کر کیا بننا ہے اس کا فیصلہ ہمارے معاشرے میں عموماً والدین ہی کرتے ہیں۔
    بیروزگاری تو ہر طبقے میں پائی جاتی ہے۔ لاکھوں روپے کے اخراجات اور برسوں کی محنت سے ڈگریاں حاصل کرنے والے بھی جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں۔ اب اسے بھی پروپیگنڈہ کہہ لیں یا شیطان کا وسوسہ، باوجود شدید خواہش کے درسِ نظامی کےلیے بچوں کو نہ بھیجنے کی ایک بڑی وجہ والدین کا یہی خوف ہے کہ بچہ اگر مولوی بن گیا تو کھائے گا کہاں سے؟
    اور سچی بات یہ ہے کہ درسِ نظامی کے آغاز میں ہی راقم کو بھی اس خوف نے آن گھیرا تھا، حالانکہ میرے پاس مسجد کی امامت کے ساتھ ایک اور کام بھی تھا۔ اسی خوف کے زیرِ اثر درجہ ثانیہ میں کمپیوٹر کی تربیت لینا شروع کی تھی۔ اور اس تربیت کا فائدہ بھی ہوا۔ وہ یہ کہ درسِ نظامی سے فراغت تک میرے پاس کمپیوٹر گرافکس کا کئی سالہ تجربہ بھی تھا۔
    میں نہیں سمجھتا کہ اس مسئلے کا حل بہت زیادہ مشکل ہے۔ اگر جامعات کوشش کریں تو بہت سے ایسے کام ہیں جن کی تربیت پر بہت زیادہ وقت اور پیسہ خرچ نہیں ہوتا لیکن روزگار کا اچھا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کمپیوٹر اور موبائل کو ہی لے لیں، ریپئرنگ، ٹربل شوٹنگ، نیٹ ورکنگ، گرافکس، ویب ڈیزائننگ اور مختلف قسم کی پروگرامنگ وغیرہ کی تربیت لیے آغاز میں چند ہزار روپے، ایک کمرہ، اور ہفتے میں چار پیریڈ درکار ہیں۔
    درسی علوم وفنون سے ہم آہنگ شعبوں کی بات کریں تو درسِ نظامی کے ساتھ کچھ مزید تربیت لے کر آن لائن تدریس، ترجمہ نگاری، کالم نگاری، مقالہ نگاری، معاوضہ لے کر تحقیق میں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کی مدد کرنا، مختلف اداروں کے لیے تحقیقی مضامین لکھنا اور تعلیمی اداروں کے لیے نصابی کتب لکھنے تک کے درجنوں شعبہ جات کے دروازے کھلے ہیں۔
    مقصد یہ ہے کہ داخلے کے اشتہار میں اس بات کو نمایاں جگہ دی جائے کہ فلاں فلاں کام بھی سکھایا جائے گا، تاکہ والدین کے دل سے یہ خوف نکل جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوگا۔
    لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بنیاد پر داخلے تو لے لیے جائیں لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک دینی ادارے اور منفی مارکیٹنگ کرنے والی کمپنی میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ممکن ہے ایک دو سال ایسا اشتہار چل بھی جائے۔ لیکن اس کے بعد ایسے ادارے کی ساکھ عوام کی نظر میں کیا رہ جائے گی، اس کا اندازہ ہر ذی شعور لگا سکتا ہے۔
  12. ادارے کا ظاہری منظر: ظاہر پرستی کے اس دور میں مدارس وجامعات کی عمارت کے بیرونی حلیے پر خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ درسِ نظامی درجہ اولیٰ میں داخل ہونے والا طالبِ علم اوسطاً پندرہ سولہ سال کا ہوتا ہے، اس عمر کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے جامعہ کی عمارت کے باہر مناسب آرائش کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ پھولوں کے پودے لگائے جا سکتے ہیں۔ اور دائرہ شریعت میں رہنے ہوئے رنگین مناظر بھی دیواروں پر بنوائے جا سکتے ہیں۔
  13. ادارے کا داخلی منظر: ادارے کی عمارت کا اندرونی حصہ بھی صاف ستھرا ہو کہ جس میں داخل ہوتے ہی سکون کا احساس ہو۔ نیز جگہ کو مدنظر رکھتے ہوئے گملے اور کیاریوں میں پھول پودے لگائے جا سکتے ہیں۔ دیواریں طلبہ کے بنائے ہوئے رنگ برنگے تعلیمی چارٹوں سے سجی ہوں۔ بیرونی عمارت کی طرح اندر بھی کچھ دیدہ زیب مناظر بنوائے جا سکتے ہیں۔
    داخلی دروازے کے عین سامنے کچرہ، پرانا سامان، جوتے وغیرہ کوئی ایسی چیز موجود نہ ہو جس سے دیکھنے والے پر برا تاثر پیدا ہو۔ نیز اس جگہ پر طلبہ کو سرزنش کرنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
    جامعہ کی انتظار گاہ موسم کے حساب سے پرسکون ہو۔ پانی کے لیے صاف ستھرا جگ گلاس موجود ہو۔ چند ایک عام فہم کتب یا رسالے بھی رکھے جائیں۔ تاکہ اگر کسی ملاقاتی کو کچھ دیر وہاں بیٹھنا ہو تو ایک اچھا تاثر لے کر اٹھے۔
  14. پینے کا صاف پانی: کبھی موقع ملے تو انٹر نیٹ پر چند بڑے تعلیمی اداروں کے اشتہارات تلاش کیجیے۔ ان اشتہارات میں پینے کا پانی اور صاف ستھرے استنجا خانے، نمایاں طور پر لکھے جاتے ہیں۔ وجہ؟
    وجہ یہ کہ پڑھے لکھے گھرانوں کے بچے اسکول یا مدرسے میں بھی گھر جیسا ماحول چاہتے ہیں۔ ایسے کئی بچے دیکھ چکا ہوں جو کسی دن اپنی بوتل لانا بھول جاتے تو کئی کئی گھنٹے تک اس لیے پانی نہیں پیتے تھے کہ انہیں گلاس پسند نہیں آتا تھا۔ بہت زیادہ مجبوری کی صورت میں کولر کی ٹونٹی کے نیچے ہاتھ رکھ کر پانی پیتے تھے۔
  15. صاف ستھرے استنجا خانے: ایک مرتبہ ایک بچے نے کلاس میں کپڑے خراب کر لیے تھے، بچے کی عمر ایسی تھی کہ عموماً اس عمر کے بچے ایسا نہیں کرتے۔ خیر، اگلے دن بلا کر پیار سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ استنجا خانہ گندا ہونے کی وجہ سے دو تین مرتبہ گھن کر کے واپس آ گئے تھے جس کی وجہ سے ایسا ہوا۔
    ایسے چند واقعات کے بعد اپنی عادت تبدیل کی۔ اسی گلاس میں پانی پینا شروع کر دیا جو طلبہ کے لیے کولر پر رکھا جاتا تھا۔ اور وہی استنجا خانے استعمال کرنا شروع کیے جن میں طلبہ جاتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بروقت صفائی ممکن ہو جاتی تھی۔
    پہلے کمنٹ میں سرکاری اسکول کے اشتہار کا ایک حصہ منسلک ہے۔ ذرا غور فرمائیے کن کن خصوصیات کو نمایاں جگہ دی گئی ہے؟ اور کیوں؟
  16. بلا عنوان: عنوان کو جاننے سے پہلے اپنے آپ سے ایک سوال پوچھیے، کیا آپ کسی قسم کی ذہنی وجسمانی تفریح کرتے ہیں؟ یقیناً اکثریت کا جواب ہاں میں ہوگا۔ کیونکہ سوشل میڈیا کا مروجہ استعمال بھی ایک طرح کی تفریح ہے۔
    جب آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اگلا سوال یہ ہے کہ طلبہ کو تفریح کا موقع دینا چاہیے یا نہیں؟
    اگر نہیں تو کیوں؟
    میرا جواب ہے کہ ایک حد میں رہتے ہوئے ضرور دینا چاہیے۔ خصوصاً جب کہ آپ نئی نسل کے بچوں کو مدارس کے قریب لانے کے خواہشمند ہوں تو ابتدائی درجات میں تفریح کے کچھ نہ کچھ مواقع ضرور مہیا کریں۔ مثلاً
    جامعہ کی عمارت اور طلبہ کی عمر کے حساب سے چند جھولے ہوں۔ بڑے عمر کے طلبہ کے لیے جھولوں کے بجائے لٹکنے والی پل نما سیڑھی ہو سکتی ہے۔
    ٹیبل ٹینس کی میز ایک کمرے میں رکھ کر جسمانی ورزش اور ذہنی تفریح کا بہترین سامان کیا جا سکتا ہے۔ بہت چھوٹے بچوں خصوصاً بچیوں کے لیے رسی کودنے کا کھیل کوئی خرچ نہیں مانگتا صرف ایک رسی کی ضرورت ہے۔ ایک گول تکیے کو چھت سے لٹکا کر مکا بازی کی مشق کی جا سکتی ہے۔ غرض یہ کہ سوچنے بیٹھیں تو اپنی عمارت اور بجٹ کے حساب سے بہت سے راستے نکالے جا سکتے ہیں۔
    کمپیوٹر کے پیریڈ میں ایک دن ویڈیو گیم کے لیے مختص کر دیا جائے۔ دو سال پہلے جامعہ میں اس کا تجربہ کیا گیا تھا اور بہت اچھا نتیجہ آیا۔ ٹائپنگ ڈیڈ نامی ایک گیم کے لیے ہفتے کا ایک دن مخصوص کیا گیا تھا۔ طلبہ بڑی بے چینی سے اس دن کا انتظار کرتے تھے۔ تفریح کے ساتھ ٹائپنگ میں بھی بہتری آتی گئی۔
    اور آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں؟ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ اکثر جامعات میں پہلا درجہ شروع ہوتا ہے تو کمرہ جماعت کناروں تک بھرا ہوتا ہے۔ دو تین ماہ کے بعد آدھے طلبہ بھی نہیں بچتے۔ ابتدائی دو تین سالوں میں اس نسخے کو آزما کر دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو فوائد خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
  17. مار پیٹ پر پابندی: میرا خیال ہے اس بارے میں آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔ نئی نسل کو مدارس کے قریب کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر جسمانی سزا پر پابندی لگانا ہوگی۔ اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت کرنا ہوگی تاکہ وہ مار کے بغیر پڑھانے کا ہنر سیکھ سکیں۔ مار پیٹ کے علاوہ ایسی انداز والفاظ کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی سختی سے ممنوع ہونی چاہیے جس سے طلبہ کی عزتِ نفس مجروح ہو۔
  18. کرسی نما ڈیسک: فرشی نشست کے بجائے کرسی نماز ڈیسک کو کمرہ جماعت کی زینت بنایا جائے۔ بیشتر جامعات کے دفاتر میں فرشی نشستیں ترک ہو چکی ہیں اور میز کرسی کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن کمرہ جماعت میں اکثر جگہ ہنوز فرشی ڈیسک استعمال ہو رہی ہیں جن پر بڑی کتب رکھنے میں شدید پریشانی ہوتی ہے۔ نیز لکھنے کے لیے مناسب جگہ بھی نہیں ملتی۔ نیز کئی گھنٹے تک مسلسل فرش پر بیٹھے رہنا ایک صبر آزما کام ہے۔ کم از کم مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے۔
    فرشی نشست کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ استاذ بورڈ وغیرہ استعمال کرنا چھوڑ دیتا ہے، کیونکہ اس کے لیے بار بار اٹھنا پڑتا ہے۔
    جس طرح میز کرسی پر طویل دفتری کام میں آسانی رہتی ہے اور تھکن کم ہوتی ہے اسی طرح کرسی نما ڈیسک پر مسلسل کئی گھنٹے تک پڑھنا لکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اوپر نیچے دو خانے ہونے کی وجہ سے بڑی چھوٹی کتب رکھنے کے ساتھ لکھائی میں بھی آسانی رہتی ہے۔
  19. جوتے نہ اتروائیں: "انکل۔۔۔! اسے یہاں داخل نہ کروائیں، یہاں کے بچے چور ہیں۔ میرے تین جوتے چوری ہو چکے ہیں۔ ہمارے ابو کہہ رہے تھے یہ سال نکال لو پھر تمہیں کہیں اور داخل کروا دوں گا۔" ایک بچے کے یہ الفاظ آج بھی میرے حافظے میں موجود ہیں۔ کوئی صاحب اپنے بچے کا داخلہ کروانے آئے تھے تو ایک طالبِ علم نے انہیں مفت مشورے سے نوازتے ہوئے کہے تھے۔
    بہر حال یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کثیر طلبہ کے جوتے ترتیب سے رکھوانا اور ان کی حفاظت کرنا آسان نہیں۔ آئے روز اگر جوتے گم ہوتے رہیں تو اس سے ادارے کی ساکھ بہر حال متاثر ہوتی ہے۔ اگرچہ طلبہ آپ کے سامنے بات نہ کریں لیکن گھر میں جو باتیں ہوتی ہوں گی ان کا تصور آپ کر سکتے ہیں۔ جوتا گم ہونے کی اذیت وہی جانتا ہے جو آدھ پون گھنٹے تک تلاش کرنے کے بعد مایوس ہو کر ننگے پاؤں گھر جاتا ہے۔ اور اگر یہی کاروائی مہینے میں دو تین بار ہو جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ذہنوں پر اس کا کیسا اثر پڑے گا۔
    اگر آپ کے ادارے میں بھی طلبہ جوتے اتار کر کمرہ جماعت میں جاتے ہیں تو ان کو سلیقے سے رکھوانے اور حفاظت کا معقول انتظام ضرور کرنا چاہیے۔
    بہتر یہی ہے کہ کرسی نما ڈیسک استعمال کیے جائیں تو مفتیانِ کرام کی مشاورت سے جوتوں کے ساتھ پڑھنے کی اجازت بھی دے دی جائے۔
    عموماً اس تجویز پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جوتے پہن کر دینی تعلیم حاصل کرنا ادب کے خلاف ہے۔ نیز زمین پر بیٹھ کر پڑھنا بزرگوں کا طریقہ بھی ہے۔ لہذا مندرجہ بالا دونوں تجاویز ناقابلِ قبول ہیں۔
    دینی کتب وشعار کا ادب اور بزرگوں کی ہر ہر ادا سر آنکھوں پر۔ میرا سوال یہ ہے کہ بہت سے علماء ونعت خواں ٹی وی پر آ کر درس وبیان کرتے ہیں یا نعت پڑھتے ہیں تو میز کرسی کا استعمال بھی ہوتا ہے اور اکثر اوقات جوتے بھی پہنے ہوتے ہیں۔ اگر وہاں اس کی اجازت مل سکتی ہے تو جامعات میں بھی اجازت دے دینی چاہیے۔ جبکہ اس سے کثیر فوائد کی قوی امید بھی ہے۔
    بہر حال ایک خیال ہے، ظاہر ہے ہر ایک کا متفق ہونا لازم نہیں۔
  20. شارٹ کورسز: غیر رہائشی جامعات کی عمارتیں چوبیس میں سے صرف پانچ گھنٹے کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور اس کے بعد عموماً کسی استعمال میں نہیں آتیں۔ اگر ایسی عمارات کو دوپہر سے رات تک مختلف اوقات میں شارٹ کورسز کے لیے استعمال کیا جائے تو اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے بہت سے طلبہ آ سکتے ہیں۔ شرط یہ کہ ان کو ویسا ہی ماحول دیا جائے جس کے وہ عادی ہیں۔ کورس کس چیز کا ہوگا یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ صحرا میں ریت کی، یا انٹارکٹیکا میں برف کی دکان کھولیں گے تو کوئی نہیں آئے گا۔ معاشرے کی ڈیمانڈ کو سمجھنا ضروری ہے۔ طلبہ آئیں گے تو ذہن بنانے سے کچھ نہ کچھ درسِ نظامی کی جانب ضرور آئیں گے۔ نہ بھی آئیں تب بھی اس کے بہت سے ضمنی فوائد ہوں گے۔
  21. جدید ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال: فرض کیجیے آپ کسی ادارے کے دورے پر جاتے ہیں ۔ داخلی دروازے پر واک تھرو گیٹ لگا ہو، باوردی گارڈ میٹل ڈیٹکٹر لے کر چیکنگ کر رہا ہو، سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوں، طلبہ واساتذہ فیس آئیڈنٹی فکیشن سسٹم سے حاضری لگا رہے ہوں، شیشے کے پار کمپیوٹر پر کام کرتے طلبہ دکھائی دے رہے ہوں، ناظم صاحب کی سلیقے سے سجی صاف ستھری میز پر لیپ ٹاپ رکھا ہو، انٹر کام پر ہدایات دی جا رہی ہوں، پروجیکٹر پر رنگ برنگ بریزینٹیشن کی مدد سے تعلیم جاری ہو تو میرا نہیں خیال کہ آپ متاثر ہوئے بنا رہ پائیں گے۔ جب ان چیزوں سے ایک پڑھا لکھا شخص متاثر ہوتا ہے تو ایک عام آدمی کیوں نہیں ہوگا؟
    حقیقت یہی ہے کہ بہت سے ادارے عوام کو متاثر کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہیں اور اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔
  22. درسِ نظامی کا سولہ سالہ نصاب: آگے پڑھنے سے پہلے ایک غلط فہمی دور کرنا لازم ہے کیونکہ اکثر لوگ "سولہ سالہ نصاب" کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں، کہ جناب، آٹھ سالہ کوئی پڑھتا نہیں اور آپ سولہ سالہ کا مشورہ دے رہے ہیں! پڑھتے پڑھتے بندہ ویسے ہی بڈھا ہو جائے گا۔
    سولہ سالہ نصاب کا مطلب ہے، کہ بچہ تقریباً 4 سال کی عمر میں مدرسے آئے گا، ناظرہ، حفظ اور تجوید کے ساتھ اسکول کے چند ضروری مضامین پر مشتمل ایک نصاب آٹھ سال تک پڑھے گا (یعنی موجودہ آٹھویں جماعت تک)۔ اس کے بعد موجودہ درجہ اولیٰ میں داخل ہوگا۔
    یعنی 20 سال کی عمر تک ناظرہ، حفظ (اختیاری)، ضروری تجوید اور مروجہ درسِ نظامی کے ساتھ ضروری عصری علوم کی تعلیم حاصل کر کے سندِ فراغت حاصل کر لے گا۔ اگر کوئی آٹھویں جماعت پاس کر کے آئے گا تو اسے موجودہ آٹھ سالہ نصاب ہی پڑھنا ہوگا نہ کہ دوبارہ سے پہلی جماعت میں بٹھایا جائے گا۔
    اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی "سولہ سالہ نصاب" کی مخالفت کرتا ہے تو اس سے ایک سوال کیا جائے۔
    قوم کے بچوں کو آٹھ دس سال تک ماڈرن تعلیمی اداروں کی گود میں پھینگ کر آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ وہ درسِ نظامی کی جانب آئیں گے؟
    عموماً 13 سال تک کی عمر بچوں کے ذہنی مستقبل کا تعین کرتی ہے۔13 سال سے کم عمر بچے کو درجہ اولیٰ میں داخلہ نہیں مل سکتا ہے۔ 4سال سے 13 سال کے بچوں کے لیے جامعات کے پاس کیا نصاب ہے؟
    درحقیقت "سولہ سالہ نصاب" (جس کی وضاحت کر چکا) ایک بڑا انقلاب لا سکتا ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجنا بھی چاہتے ہیں ان کے لیے جامعات کے پاس کوئی پروگرام ہی نہیں ہے۔ نتیجۃ ہمارے سامنے ہے۔
    اگر آج بھی جامعات "سولہ سالہ نصاب" لاگو کر دیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ مدارس وجامعات میں طلبہ کے بیٹھنے کی جگہ نہیں بچے گی۔
    گلی محلوں میں کھلے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بلیک میلنگ سے عوام تنگ ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی دوسرا رستہ نہیں۔
    اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی تو کچھ ہی عرصے میں اس موضوع پر تفصیلی معروضات پیش کروں گا۔
    خلاصہ ان تمام باتوں کا یہ ہے کہ جدید ذہن سہولیات کے عادی اور جدیدیت سے متاثر ہے۔ انہیں مدارس کے قریب لانا ہے تو ان کے ماحول کے مطابق جامعات کو ری ڈیزائن کرنا ہوگا، صرف عمارات ہی نہیں افراد، کتب اور تعلیمی نظام کو بھی۔ (اس سے موجوده کتب یا فنون کا ترک ہرگز مراد نہیں، بلکہ محض طریقہ کار میں تبدیلی مراد ہے۔) اور اس سلسلے میں چھوٹی سے چھوٹی بات کا دھیان بھی رکھنا پڑے گا، جیسا کہ کچھ معروضات گزشتہ صفحات میں پیش کی گئیں۔
    وگرنہ ۔۔۔ ماڈرن تعلیمی ادارے انہی چھوٹی چھوٹی باتوں کی مدد سے اپنی کھچڑی کو رائسینیا کہہ کر بیچتے رہیں گے اور آپ اپنی لذیذ بریانی کو لیے منہ تکتے رہ جائیں گے۔
    تحریر:محمد یوسف جمال قادری
#المدرس - اہلسنّت وجماعت کے اردو بولنے / سمجھنے والے مدرسینِ درسِ نظامی کے لیے فیس بک کا ایک مفید گروپ شمولیت سے قبل گروپ کی پہلی پوسٹ کا بغور مطالعہ فرمائیں
https://www.facebook.com/groups/almudarris
وٹس ایپ
المدرس 1
https://chat.whatsapp.com/FEU3k5Ok8lXAtnNgSeVk4x

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.