اہم خبریں

(عموماً) ذہین اور قابل افراد چھوٹے اداروں میں کیوں نہیں ملتے؟ انتخاب :ڈاکٹر محمد تیمور خان


تحریر:محمد یوسف جمال قادری

چھوٹا ادارہ، بڑا ادارہ
اس تحریر میں :
· چھوٹا ادارہ چھوٹا کیوں ہوتا ہے؟
· بڑا ادارہ بڑا کیسے بنتا ہے؟
· (عموماً) ذہین اور قابل افراد چھوٹے اداروں میں کیوں نہیں ملتے؟
· چھوٹے ادارے نرسری کے طور پر بڑے اداروں کے خادم کیسے بن جاتے ہیں؟
· وہ کون سے دو اُمور ہیں ہیں جو کسی ریاست یا ادارے کو آسمان سے زمین اور زمین سے آسمان پر لا سکتے ہیں؟
1
آج 29 مئی ہے اور‏ 29 مئی ( 1453ء) وہ عظیم الشان دن ہے جب مخبرِ صادق ﷺ کی بشارت کے عین مطابق قسطنطنیہ فتح ہوا۔ اور یہ عظیم سعادت سلطان محمد فاتح کے حصے میں آئی۔ آج کے دن کی مناسبت سے قسطنطنیہ کی فتح کا سبب بننے والے ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گاجس میں ہم سب کے لیے عبرت ہی عبرت ہے۔ریاست ہو یا ادارہ کامیاب یا ناکام کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں اس عظیم الشان تاریخی واقعے میں مل جاتا ہے۔
2
حضور نبی کریم ﷺ کی بشارت کی وجہ سے قسطنطنیہ کی فتح مسلمانوں کا دیرینہ خواب تھی۔ کئی مسلمان حکمرانوں نے اس سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اسی وجہ سے فاتحِ قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح ایک ایسی بڑی توپ بنوانا چاہتے تھے جو قسطنطنیہ کے مضبوط قلعے پر کاری ضرب لگا سکے۔ لیکن کوئی ایسا انجینئر نہیں مل رہا تھا جو مطلوبہ معیار کا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
دوسری جانب فرانس میں ایک قابل ترین انجینئر کو اس کی تمام تر قابلیت کے باوجود حکومتِ وقت مناسب تنخواہ دینے سے انکاری تھی۔
جانبین کی ضرورتیں ٹکرائیں تو سلطان محمد فاتح نے اس باصلاحیت فرانسیسی انجینئر کو منہ مانگا معاوضہ دے کر اپنے پاس رکھ لیا۔
سلطان محمد فاتح کی یہ حکمتِ عملی رنگ لائی اور آخرِ کار اس باصلاحیت انجینئر نے سلطان کی مطلوبہ توپ بنا کر دے دی۔ یاد رہے کہ اسی توپ نے قسطنطنیہ کی فتح میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔  یعنی انجینئر کو دیا گیا بھاری معاوضہ کئی سو گنا منافع کے ساتھ وصول ہو گیا تھا۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب مغرب اپنے ذہین اور قابل افراد کو ان کی قابلیت کے مطابق معاوضہ دینے پر راضی نہیں تھا، اور مسلمان مغرب کے قابل اور ذہین ترین افراد کو منہ مانگے معاوضے پر اپنے پاس رکھتے تھے۔
پھر تاریخ کے اوراق پلٹے اور صورتِ حال یکسر الٹ کر رہ گئی۔ آج ہم اپنے قابل اور ذہین ترین افراد کو بھاری تو چھوڑیں مناسب معاوضہ دینے پر بھی رضامند نہیں جو ان کی روزمرہ ضروریات کی کفایت کر سکے۔ اور مغرب ہمارے بہترین دماغوں کو بھاری معاوضہ دے کر استعمال کر رہا ہے۔  نتیجہ دو جمع دو کی طرح سب کے سامنے ہے۔
اور شاید یہی دو بڑی وجوہات تھیں جن کی بنا پر اس دور کے مسلمان کامیابیاں سمیٹ رہے تھے اور مغرب کے حصے میں ناکامیاں ہی ناکامیاں تھیں۔
3
ہمارے ہاں کوئی شخص بڑا کاروبار شروع کرتا ہے تو عموماً وہی اس کا کرتا دھرتا ہوتا ہے۔ متعلقہ شعبے میں تجربہ ہو یا نہ ہو بہر صورت جملہ انتظامی اُمور اور فیصلے اسی کے اشارۂ ابرو سے ہوتے ہیں۔
جبکہ دنیا بھر کی کثیر القومی کمپنیاں وہی حکمتِ عملی استعمال کرتی ہیں جو اوپر بیان ہو چکی۔ دنیا بھر کے ذہین اور اہل افراد کو بھاری معاوضوں پر بھرتی کر کے کمپنی کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان کمپنیوں کے مالکان کا صرف کاروبار ہی نہیں سوچ بھی بڑی ہوتی ہے۔ یہ مالکان جانتے ہیں کہ یہ افراد ہم سے بہتر ہمارا کاروبار چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اپنے کاروبار کی خاطر یہ مالکان اپنی ذات کو پیچھے کر کے ذہین اور اہل افراد کو سامنے لے آتے ہیں۔
اور یہی وہ اسباب ہیں جن کی ذریعے کثیر القومی کمپنیوں کے کاروبار دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل جاتے ہیں۔
4
کچھ دہائیوں پیچھے جھانک لیں گانے بجانے اور رقص وغیرہ کو معاشرے میں نہایت بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اور اس پیشے سے وابستہ افراد کے لیے کنجر جیسا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ لیکن آج دیکھ لیں کہ بھاری معاوضوں نے ان کو آرٹسٹ اور فنکار کا نام دے دیا۔ اس کے برعکس ملا، مولوی جیسے بھاری بھرکم الفاظ کو معاشرے کی نظر میں بری طرح سے پامال کر کے رکھ دیا گیا۔
اگرچہ دیگر وجوہات بھی ہیں لیکن ان دونوں شعبوں کے زیر وزبر ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی دو امور ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔ ایک شعبے کے افراد نے ان اُمور پر عمل کیا تو اوپر اٹھ گئے، دوسرے شعبے کے افراد نے ان اُمور کر ترک کیا تو قحط الرجال کا شکار ہو کر رہ گئے۔
5
تحریر کے آخر میں اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کا مدارس وعلماء کے لیے دس نکاتی ایجنڈہ نقل کیا گیا ہے۔ آپ اس ایجنڈے کا بھی بغور جائزہ لیجیےتو اس کا مرکزی خیال انہی دو نکات کے گرد گھومتا دکھائی دے گا، اہلیت کے مطابق منصب دینا اور بھاری معاوضے۔
آج ہماری نئی نسل عالم، مفتی یا مدرس بننے کے لیے تیار نہیں، جبکہ ڈسکو ٹائپ کے نام نہاد نعت خواں، جعلی عامل، دو نمبر بابے  اور ڈبے پیر  ہر اینٹ پتھر کے نیچے سے برآمد ہو رہے ہیں، کیوں؟
اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے دس نکاتی ایجنڈے کی روشنی میں اس کا جواب ڈھونڈنا مشکل نہیں ۔
6
آخر میں مذکورہ دونوں اُمور کی تائید کے لیے مخبرِ صادق ﷺ کے دو فرمودات نقل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا:
عن أبي هريرة رضی الله عنه قال: قال رسول االلہ صلی الله تعالی عليه وآله وسلم: إذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة، قال: کيف إضاعتها يا رسول اللہ؟ قال: إذا أسند الأمر إلی غير أهله فانتظر الساعة. (رواہ البخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ : یا رسول اﷲ! امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا: جب اُمور نااہل لوگوں کے سپرد کیے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔
حقیقت یہی ہے کہ جس ریاست یا ادارے میں مناصب نا اہلوں کے سپرد کیے جاتے ہیں وہاں قیامت سے پہلے قیامت آ جاتی ہے۔
دوسری روایت اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے دس نکاتی ایجنڈے میں نقل کی گئی ہے: ’’آخر زمانہ میں دین کاکام بھی درہم ودینار سے چلے گا‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ([1]))
7
نتیجہ یہ نکلا کہ بڑا ادارہ بڑا اسی لیے ہوتا ہے کہ وہ اہل افراد کا انتخاب کرتا ہے اور انہیں صلاحیت کے مطابق معاوضہ بھی دیتا ہے۔ نتیجۃً ذہین اور قابل افراد رفتہ رفتہ اس ادارے کے ساتھ جڑنے لگتے ہیں۔
اور تجربہ شاہد ہے جس ادارے میں ذہین اور قابل افراد کلیدی عہدوں پر موجود ہوں وہاں نکمے اور خوشامدی لوگوں کی دال نہیں گلتی، نتیجۃً ایسے افراد خود بخود ان اداروں سے چھٹنے لگتے ہیں۔
اس کے برعکس چھوٹے اداروں میں ناتجربہ کار افراد آتے ہیں، کچھ سال کم معاوضے پر کام کر کے تجربہ حاصل کرتے ہیں اور جیسے ہی کوئی مناسب جگہ ملتی ہے اڑن چھو ہو جاتے ہیں۔ یوں یہ چھوٹے ادارے بڑے اداروں کے لیے تجربہ کار افراد مہیا کرنے کی نرسری بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ ناتجربہ کار افراد کو اپنے پاس بھرتی کریں، پیسے بھی دیں اور کام بھی سکھائیں، اور جب ان سے فائدہ اٹھانے کا وقت آئے تو بڑے اداروں کے حوالے کر دیں۔
گویا کہ چھوٹے ادارے بیج بوتے ہیں، پودے کو پانی دے کر تناور درخت بناتے ہیں، اور اس ساری محنت کے بعد جب اس درخت سے پھل کھانے کا وقت آتا ہے تو یہ درخت کسی اور کے آنگن میں اپنی بہاریں لٹاتا دکھائی دیتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ان دو اُمور پر عمل کرنے سے کوئی بھی ریاست، کمپنی، ادارہ  یا شعبہ زمین سے آسمان کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ اور ان کا ترک آسمان سے زمین پر پٹخ دیتا ہے:
اولاً: قابل اور باصلاحیت افراد کا انتخاب کرنا۔
ثانیاً: انہیں ان کی قابلیت وصلاحیت کے مطابق معاوضہ دینا۔
محمد یوسف جمال قادری
6 شوال المکرم 1441ھ
فروغ اہلسنّت کیلئے امام اہلسنّت کا دس نکاتی پروگرام
1.  عظیم الشان مدارس کھولے جائیں۔ باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔
2.  طلبہ کو وظائف ملیں کہ خواہی نہ خواہی گرویدہ ہوں۔
3.  مدرسین کی بیش قرار تنخوا ہیں ان کی کاروائیوں پردی جائیں۔
4.  طبائع طلبہ کی جانچ ہوجو جس کام کے زیادہ مناسب دیکھا جائے۔معقول وظیفہ دیکر اس میں  لگایا جائے۔
5.  ان میں جو تیار ہوتے جائیں تنخواہیں دے کر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریر وتقریر اور وعظ  ومناظرہ اشاعت دین ومذہب کریں۔
6.  حمایت مذہب ورد بدمذہباں میں مفید کتب ورسائل مصنفوں کو نذرانے دے کرتصنیف کرائے  جائیں۔
7.  تصنیف شدہ اور نو تصنیف رسائل عمدہ اور خوشخط چھاپ کر ملک میں مفت تقسیم کیے جائیں۔
8.  شہروں شہروں آپ کے سفیر نگراں رہیں جہاں جس قسم کے واعظ یامناظر یا تصنیف کی حاجت ہو آپ کو اطلاع دیں، آپ کو سرکوبی اعداء کیلئے اپنی فوجیں،میگزین، اور رسالے بھیجتے رہیں۔
9.  جو ہم میں قابلِ کار موجود اور اپنی معاش میں مشغول ہیں وظائف مقرر کرکے فارغ البال  بنائے جائیں اور جس کام میں انہیں مہارت ہو لگائے جائیں۔
10.  آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک میں بقیمت وبلا قیمت روزانہ یا کم سے کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔
حدیث کا ارشاد ہے کہ
’’آخر زمانہ میں دین کاکام بھی درہم ودینار سے چلے گا‘‘
اور کیوں نہ صادق ہو کہ صادق ومصدق ﷺ کاکلام ہے۔
(فتاویٰ رضویہ)
([1](  میری کم علمی وکوتاہ نظری کہ باوجود کوشش کے یہ روایت کسی کتاب میں نہیں ڈھونڈ پایا۔ فتاویٰ رضویہ کی تخریج میں کشف الخفاء کا حوالہ دیا گیا تھا، وہاں بھی نہیں ڈھونڈ پایا۔ اس لیے فتاویٰ رضویہ پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو نقل کر رہا ہوں۔

#المدرس
اہلسنّت وجماعت کے اردو بولنے / سمجھنے والے مدرسینِ درسِ نظامی کے لیے فیس بک کا ایک مفید گروپ
شمولیت سے قبل گروپ کی پہلی پوسٹ کا بغور مطالعہ فرمائیں
https://www.facebook.com/groups/almudarris
وٹس ایپ
المدرس 1
https://chat.whatsapp.com/FEU3k5Ok8lXAtnNgSeVk4x

المدرس ٹیلی گرام چینل
t.me/almudarris
@almudarris

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.