اہم خبریں

گلوبل ویلج اورمستقبل کی پیش بندی، تحریر:(ڈاکٹر) سعید احمد سعیدی ادارہ علومِ اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور،بشکریہ سعید احمد چشتی




 پاکستان میں معاشرتی توازن۔۔۔۔۔۔۔۔ سنی صوفی مسلمان اہل علم سے چند گذارشات

معاشرے میں توازن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہر طبقہ اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہو اور معاشرے میں اس کی موجود آبادی کے مطابق اسے نمائندگی ملے۔مذکورہ بالا یہ طبقہ ہمیشہ افراط وتفریط کے مابین توازن پیدا کر کے معاشرے کو جوڑنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے زمام کار فکری طور پر غیر متوازن اور مطلوبہ دعوتی اخلاق سے عاری شخصیات کے پاس ہے،جس کی طرف توجہ کرنا لازمی عصری تقاضا ہے۔ براہ کرم جدید مسائل کے حوالے سے چند گذارشات ہیں،جن کی طرف ہم سب کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے:
1- الحاد۔۔۔۔۔۔ ستر فیصد کے لگ بھگ دنیا اللہ کریم کے وجود کی منکر ہو چکی ہے۔ان کے اٹھائے ہوئے اعتراضات اور شکوک وشبہات کے ازالے کی سعی فرمائیں۔
2- استشراق۔۔۔۔۔۔۔۔ مسیحی و یہودی مستشرقین کے اٹھائے ہوئے سوالات کا عصری تناظر میں جواب دینے کی طرف توجہ فرمائیں۔
3- تجدد۔۔۔۔۔۔ متجددین،جو گھر کے بھیدی ہیں،ان کے پھیلائے ہوئے غبار میں چھپے حقیقت کے رخ زیبا کو بے نقاب کرنا ہوگا۔
4- سی پیک اور چینی تہذیب یلغار۔۔۔۔۔۔۔۔سی پیک کی صورت کی صورت میں چینی تہذیب کی غارتگری سر پر کھڑی ہے،لیکن ہم نے اس حوالے سے کوئی تیاری نہیں کی، براہ کرم انگلش اور عربی کے ساتھ ہمیں چائنیز لینگویج سیکھنے کی طرف توجہ کرنی ہوگی۔
5- پاکستان میں کم و بیش مختلف مسالک کے وفاق سے سوا  لاکھ کے قریب علماء فارغ التحصیل ہوتے ہیں،جن میں اہل سنت کے بہ مشکل بیس ہزار علماء بھی نہیں ہوں گے۔ہمیں ادارے بنانے کی طرف توجہ کرنی ہوگی،ورنہ مساجد آپ کی ہوں گی اور امام و خطیب ان کے۔ خدا را اس طرف توجہ دیں۔
6- پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں آپ کی نمائندگی بہت کم ہے،اگلا دور ریسرچ آرٹیکلز کا ہے،ریسرچ آرٹیکلز تیار کریں تاکہ سوسائٹی میں توازن قائم کرنے کے لئے مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
7- آپ کے کافی سارے آستانے رافضی ہو چکے ہیں یا تفضیلیت کے راستے مائل بہ رافضیت ہیں، مندرجہ ذیل پہلوؤں پر کام کرنا نہایت ضروری ہے:
الف۔ ہر سجادہ نشین کے ساتھ ایک ایم فل/ پی ایچ ڈی سکالر لگانا ہوگا جو انہیں متعلقہ موضوع پر جدید تقاضوں کے مطابق گفتگو کا مواد پیش کرے تاکہ مطالعہ کر کے اپنی ارادتمندوں سے مخاطب ہو،جس کے نہایت دور رس مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
ب- ہر خانقاہ پر ایک دینی ادارے/ریسرچ سنٹر/ صوفی چیئر کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔
ج- ہر خانقاہ پر کم از کم ایک سکول/ کالج کا قیام جس میں اولیائے کرام کی تعلیمات بالعموم اور متعلقہ خانقاہ کے بزرگوں کی تعلیمات بالخصوص شامل کی جائیں تاکہ خانقاہ سے وابستہ نسلوں کے عقائد کو محفوظ کیا جا سکے۔
8- ایڈمنسٹریٹر پوسٹس پر پہنچنے کے لیے آپ میں سے کچھ دینی فکر رکھنے والے لوگوں کو سی ایس ایس اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے ذریعے پوزیشنز حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی،اس کی اہمیت کا اندازہ 21 رمضان المبارک کو ہو گیا ہوگا۔
9- محض ماضی میں پھنسے رہنے کی بجائے اپنے سنہرے ماضی کو حال کے ساتھ ریلیٹ کرکے مستقبل کی راہیں نکالنی ہوں گی اور اس کا طریقہ اسلام کو سماجی معاملات سے مربوط کرنا ہے۔
10- ہم الفاظ کے استعمال میں نہایت غیر محتاط واقع ہوئے ہیں۔لہذا ان سے ہمیں کند کلہاڑے کی بجائے مرہم کا کام لینا ہوگا،اس کے لیے تصوف کی امھات الکتب کو خود بھی پڑھنا ہوگا اور درس نظامی کے سلیبس میں بھی شامل کرنا ہوگا۔دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے،باہمی مذہبی و مسلکی رواداری اور حفظِ مراتب کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ محض رد عمل دینے کی بجائے مستقبل کی پیش بندی کرنی ہو گی۔آپ میں سے کسی ایک کی بدخلقی،پورے نقطۂ نظر کو مجروح کر دینے کے مترادف ہو گی۔

تلك عشرة كاملة

(ڈاکٹر) سعید احمد سعیدی
ادارہ علومِ اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.