اہم خبریں

فکری ارتقاء (قاسم علی شاہ کی کتاب، بڑی منزل کا مسافر سے ماخوذ) بشکریہ :ذوالفقار حیدر سیالوی




فکری ارتقاء
(قاسم علی شاہ کی کتاب، بڑی منزل کا مسافر سے ماخوذ)
 ارتقا کا مطلب ہے رفتہ رفتہ ترقی کرنا ، انسان کی سب سے پہلی ارتقا اس کی دانش کا ہوتا ہے ۔اس کی سو چ اور فکر کو تبدیلی اور نمو کی ضرورت ہوتی ہے۔ فکری ارتقاکے لیے کیا کرنا چاہیے ؟اس کے تین ذرائع ہیں:
1۔ باقاعدہ طور پر سوچنا سیکھیے۔ کوشش کیجیے اور آپ کسی ایسی دنیا کے تھینک ٹینک کو ضرور پڑھیں جوسوچنا سکھاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایڈورڈ ڈی بونو کو ضرور پڑھیں۔ وہ بڑے آسان آسان طریقے بتا تا ہے کہ سوچنا کیسے ہے، اپنی فکر اور سوچنے کی صلاحیت کو بہتر کیسے بنانا ہے۔
2۔ کتابیں پڑھیے، مطالعہ کیجیے۔ اگر آپ کا مطالعہ اچھا ہے تو پھر آپ نئی معلومات، نئی چیزوں کے بارے میں آگاہ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ بہتر ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کائنات کی وسعت اور بنانے والے کے مظاہر کو نہیں دیکھتے تو پھر آپ کی نظر چھوٹی رہتی ہے۔ چھوٹی نظر والوں کا دل بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ وہ ذات چھوٹے دل میں سما نہیں سکتی۔ وہ مومن کے دل میں سماتی ہے اور مومن کے دل میں اتنی وسعت ہوتی ہے کہ وہ ارتقا کے ذریعے یادِ خدا کو دل میں لے آتا ہے۔
3۔ سیکھنے کا کوئی موقع ضائع نہ جانے دیجیے۔ اگر آپ کو کوئی کارپینڑ بھی اچھی بات سکھائے تو اس سے لے لیں۔ حلوائی سے بھی ملے تو لے لیں۔ موچی سے بھی ملے تو لے لیں۔ دنیا میں زیادہ تر لوگ اپنی ناکامیوں سے نہیں سیکھتے اور دنیا کے کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں، جو دوسروں کی ناکامیوں سے سیکھتے ہیں۔ یہ دنیا اور آپ کی زندگی ایک کتا ب ہے۔ اس میں علم بکھرا پڑا ہے، وہ جگہ جگہ موجود ہے۔ فقط آپ نے آگے بڑھنا ہے، پیاسا بننا ہے۔۔۔ علم کا پیاسا۔۔۔ اور اس پیاس نے آپ کی علم کی طلب کو پورا کرنا ہے۔
فکری ارتقا کی تلاش
 بڑے بڑے علم والے لاہورشہر آئے اور چلے گئے۔ لیکن طالب علم ان تک نہیں پہنچ سکے۔ اگر آپ کم از کم لاہور جیسے شہرکے دانش مندوں تک نہیں پہنچے تو پھر آنے والے وقت میں کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔ جب تک لوگوں کے اندر ہی کوئی تبدیلی نہیں آتی، اس وقت تک ان کے حالات و واقعات بھی ویسے ہی رہتے ہیں۔ آپ یہاں علمی محافل تلاش کیجیے۔ پاک ٹی ہاؤس میں کون سی کتاب کی رونمائی کہاں ہو رہی ہے،پلاک میں کیا ہو رہا ہے، الحمرا میں کیا ہو رہا ہے،حست ونیست میں کیا ہو رہا ہے، دبستان میں کیا ہو رہا ہے، ایوانِ اقبال میں کیا ہو رہا ہے، اقبال اکیڈمی کیا کرارہی ہے، کون سی علمی ادبی شخصیت آئی ہے۔ ان کے بارے میں ضرور جانیں۔ ایک ملک میں ادب کے نوبل انعام یافتہ کو سننے کیلئے لوگ لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔ جبکہ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اول تو ہم لا علم ہیں اور دوسرا، لڑاکا طیارے ہیں۔ ہم میں نہ بہتری ہے، نہ لچک ہے اور ضد اتنی زیادہ ہے کہ ہر کوئی ہمیں کافر لگتا ہے۔ اگر ہمارا حلیہ مذہبی ہے اور دوسرے کا مذہبی نہیں ہے تو ہمارے دل میں سوال آئے گا کہ یہ بخشا نہیں جائے گا۔ سوال ہے کہ کیا بخشنا ہم نے ہے یا اللہ تعالیٰ نے۔۔۔ایسا صرف اور صرف فکری ارتقاء نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
 ہم اگر اپنی تقسیم کا لیول دیکھیں تو ہم نیچے تک تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہم پہلے پاکستانی، پھر صوبوں میں، پھر ذاتوں میں، پھر نظریوں میں، پھر سیاست میں اور اس کے بعدکرتے کرتے ہم اپنے بہن بھائیوں اور خاندان میں بھی تقسیم در تقسیم ہیں۔ کسی سے رابطے میں نہیں ہیں۔ خاندان کے تباہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ لوگ آپس میں ملنا چھوڑ رہے ہیں۔ خاندان سے رابطہ ختم ہوچکا ہے۔ والدین نے ذمے داریاں لینی چھوڑ دی ہیں۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ نظریوں سے اختلاف ہے۔ لچک نہیں ہے۔ بہتری کی طرف نہیں گئے اور نہ جانا چاہتے ہیں۔ جب بھی آدمی بہتر ہوتا ہے تو اسے نفرت محسوس نہیں ہوتی۔ اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ بڑھیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر روز کوڑا پھینکتی تھی، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی معاف فرما دیتے تھے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظرف تھا۔ طائف کے بچے پتھر مارتے ہیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر پوچھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرمائیں تو پہاڑوں کو آپس میں ملا کر طائف والوں کو ختم کردیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے معاف کیا، کیونکہ میں رحمت بن کر آیا ہوں، یہ لوگ نہیں جانتے جو بات میں کر رہا ہوں، آنے والا زمانہ انھیں بتا دے گا۔ یہ تو سمجھ آتا ہے کہ یہ جملہ کسی بڑے انسان کا جملہ ہے۔ آپ صرف اس جملے کو سامنے رکھیے اور سوچیے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم میں کتنا ظرف ہے۔ کتنے لوگوں سے ہم نے نفرت پالی ہوئی ہے۔ ہمارا فوکس، ہماری اندر کی شخصیت کی بہتری، ہماری یکسوئی، ہمارا ارتقا۔۔۔ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ ہم عمر میں بڑے ہو جاتے ہیں، لیکن اندر کا انسان ناسمجھ بچہ اور ڈفر سا انسان رہ جاتا ہے۔
 کوشش کیجیے کہ آپ اپنے نظریات پر کام کریں۔ دنیا میں رویے پر جو نئے نئے نظریات آ رہے ہیں، جو تحقیقات ہو رہی ہیں، انھیں ضرو ر پڑھیں۔ جب آپ زمانے کا علم لیتے ہیں تو آپ میں وسعت آتی ہے۔ نئے تجربے کیجیے۔ کوشش کرکے نئی جگہوں سے سیکھیں۔ نئے شہروں سے سیکھیں۔ سوال والے انسان بنیں۔ ایک حدیث کا مفہو م ہے کہ ’’آدھا علم سوال میں ہے‘‘۔ آپ سوال والے انسان بنتے ہیں تو پھر علم بھی آپ کی طر ف چل کر آنے لگتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس سوال نہیں ہیں تو پھر آپ بہتر نہیں ہو سکتے۔
 اپنی بہتری کیلئے مسلسل کوشش کیجیے۔ اپنی وہ صلاحیتیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کوگفٹ کی ہیں، جن سے آپ کی شناخت ہونی ہے، اگر آپ بہتر ہوتے ہیں تو کامیابی کیلئے ارتقائی عمل مکمل کرتے ہیں۔ پھر، یقین کیجیے کہ یہ چیزیں آپ کی غلام بن جاتی ہیں۔ یہ ارتقا اتنا ضروری ہے کہ حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’ہلا ک ہو ا وہ شخص جس کا آج کا دن پچھلے دن سے بہتر نہیں ہے۔‘‘ اگر آپ پچھلے دن سے بہتر نہیں ہو رہے، آج کے دن کچھ نیا نہیں سیکھا، کچھ اپنی عادات پر کام نہیں کیا، اپنی غلطیوں کو بہتر نہیں کیا تو پھر دن گزریں گے، ہفتے گزریں گے، مہینے سال بن جائیں گے اور سال زندگی کو تمام کرکے چلے جائیں گے۔ دنیا میں کسی کو خبر بھی نہیں ہو گی کہ آپ آئے تھے اور آپ چلے گئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.