اہم خبریں

ادیب اور غیر ادیب کے اظہارِ خیال کا ایک موازنہ . بشکریہ : محمد یوسف جمال قادری




ایک عالمِ دین کے لیے علمِ ادب سیکھنا کیوں ضروری ہے؟
( ادیب اور غیر ادیب کے اظہارِ خیال کا ایک موازنہ )

ایک مبلغ یا عالمِ دین جس زبان کو ذریعہ اظہار بناتا ہے اگر اس زبان کا ادب بھی سیکھ لے تو اس کے کام کو چار چاند لگ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ادیب کا طریقہ اظہار عام انسان سے کہیں بلند اور دلچسپ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی بات ذہنوں پر اپنا دیرپا اثر چھوڑ جاتی ہے۔
مثال کے طور اگر ایک غیر ادیب یہ بتانا چاہیے کہ " ساری رات کتے کے بھونکنے کی آوازیں آتی رہیں " تو اس کے الفاظ کیا ہوں گے؟ " ساری رات کتوں نے بھونک بھونک کر ناک میں دم کیے رکھا "، یا اسی جیسا کوئی ایک آدھ جملہ ہو سکتا ہے۔
اب دیکھیے ایک ادیب اسی مفہوم کو کس طرح بیان کرتا ہے؟ ایک غیر اہم بات میں اندازِ بیان نے کیسی دلچسپی پیدا کر دی کہ برسوں ذہن سے محو نہ ہونے پائے۔

اقتباس :
" کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آکر طرح کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کر دیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھئے، کم بخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے، وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ ” آرڈر آرڈر ” پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پردھان کی بھی کوئی بھی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے۔ "
( پطرس بخاری کے لافانی مضمون " کتے " سے اقتباس )

محمد یوسف جمال قادری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.