اہم خبریں

کرنسی نوٹ " حامل ھذا کو مطالبے پر ادا کرے گا" بشکریہ محمد اسلم الوری راولپنڈی



محلے کے حجام کی دکان بھی ایک یونیورسٹی ہے. تین سے چار مختلف درجات کے سٹوڈنٹ اس کے پاس ہوتے ہیں. اور گاہک ان کی لائیو کلاس ہوتی ہے. نوجوان فیشن کے دلدادہ گاہکوں کو استاد یا سینئر شاگرد دیکھتے ہیں. ہمارے جیسے سادہ گاہک کو اکثر رش میں درجہ سوئم کے شاگردوں کے حوالے کیا جاتا ہے.  درجہ سوئم کے شاگرد سے آج پوچھا مستقبل کا کیا پروگرام ہے.؟ پتہ چلا اس نے مستقبل کا پروگرام کیا علاقہ، کتنی کرسیاں لگانی ہیں سے لے کر کیا کیا سروس دینے تک کی پلاننگ کی ہے. کیا بلا کا اعتماد تھا.

کیا یہی اعتماد ہماری یونیورسٹی کے طلبا میں پایا جاتا ہے.؟ آپ کسی طالب علم سے بات کریں. آپ کو مستقبل پر مکمل کنفیوژن اور خوف ملے گا. کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام ایک حجام یا کسی مستری کے پاس کام کرتے اس کے شاگردوں جتنا اعتماد بھی اپنے طلبا کو نہیں دے پاتا. اور کیسے دیں گے.؟ اس سسٹم میں انکا کوئی کردار ہی نہیں ہے.(  کتاب انگریزی زبان میں، امتحان انگریزی زبان میں؛ نہ شاگرد کی زبان انگریزی ہے ، نہ استاد کی۔ اردو کا نفاذ ہو جائے تو کچھ پلے بھی پڑے، کچھ اعتماد بھی پیدا ہو۔ انگریزی رٹنے سے خود اعتمادی تو پیدا ہونے سے رہی *) یہ بس obedient workers کی ایک کلاس تخلیق کر رہے ہوتے ہیں. جو تکمیل پر صرف جگہ جگہ نوکری کی درخواستیں بیجھنا جانتے ہیں.

آپ بھلے تسلیم نہ کریں. لیکن ایسے سسٹم میں جسکے ضمانتی نوٹ پر لکھا ہوا ہوتا ہے " حامل ھذا کو مطالبے پر ادا کرے گا" وہاں مطالبات سننے کیلئے کوئی نہیں. فرض کیا دو سال پیچھے آپ نے دن رات محنت کر کے دو لاکھ یہ ضمانتی کاغذ جمع کئے ہوں جن سے آپ چار تولہ سونا تب خرید سکتے تھے. آج وہ سوا دو تولے پر آگیا. کیا باقی سونا آپ کو یہ سسٹم مطالبے پر دے دے گا.؟؟

جہاں ماسٹر ڈگری ہولڈر نوکری نہ ملنے پر اپنا رزق نہ کماسکے. اسے کوئی ہنر کوئی کام ایسا نہ آتا ہو جو اسکا کچن چلا سکے وہاں معاشرے کو فرسودہ رسموں اور فرسودہ خیالات کی نہیں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے. اگر آپ سسٹم نہیں بدل سکتے تو کم از کم خود کو تو بدل لیں. خود ساختہ بھرم کی یہ خیالی زنجیریں ہی توڑ دیں.

ریاض علی خٹک

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.