اہم خبریں

ادھوری کتاب سے چند سطریں ۔۔۔۔۔ : صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی ۔ بشکریہ ذوالفقار رضا منڈی بہاؤالدین



پتہ نہیں میرے نصیب میں آئے، یا پھر میں نے خود چنے۔۔ مگر میں چلا ہمیشہ ان راستوں پر جن پر بہت کم لوگ  چلے تھے۔۔۔
مجھے سمجھنے میں دونوں کو ہی بہت پریشانی ہوئی۔۔۔روایت پسندوں کو بھی اور جدت پسندوں کو بھی۔۔۔
نہ روایت پسندوں کو روایت کا علم تھا اور نہ ہی جدت پسند جدت کے مفہوم سے آشنا تھا۔
مفروضوں کو بنیاد بنا کر زندگی گزارنے والے اپنی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے والی زندگی کودیکھنےسے قاصر رہتے ھیں۔
پہچان کا سفر یہ نہیں کہ آپ اپنے آپ کو منوانے نکل کھڑے ہوں۔
وہ کہتے تھے کہ خدا کے قریب ہونے کے لیے تمہیں لفظ یاد کرنا ہوں گے ، پڑھنا ہوں گے۔
ارباب حافظہ (men of memories )کو استاد یا عالم کہتے ھیں۔ اچھی یادداشت علم تو چھوڈ معلوم کی بھی دلیل نہیں۔ یہ یونہی ہے کہ ایک غیر معمولی طوطا  جسکی یادداشت یوں ہو کہ جو وہ سنے اسے یاد رہ جائے (parrot with memory and mimicry) اور وہ اسکو فوری دھرا بھی دے۔ ایسے کسی دو طوطوں میں سے ایک کو دینی اور دوسرے کو غیر دینی جامعات میں داخل کرا دیا جائے اور دیگر طلبا کے میز کرسی کے ساتھ اسکا پنجرہ بھی رکھ دیا جائے۔
پانچ چھ سال بعد ایک طوطا مفتی و عالم دین و راہبر شریعت ہو گا اور دوسرا طوطا Phd ڈاکٹر، محقق و دانشور و ادیب۔۔۔۔
پتہ نہیں لوگ “کام چلانے” سے کیا مراد لیتے ھیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ پورا معاشرہ ، انفرادی و اجتماعی طور پر انسانی برادری “ کام ہی چلا” رہی ہے۔ گزارا ہی کر رہی ہے۔ ایک بدذائقہ اور توانائی سے محروم گھاس کھانے والے دو پائے اور جیتے جاگتے انسان میں فرق ہونا چاہیے۔
یہ کس کے حکم پہ تم سوچنے سے روکتے ہو
خدا تو سوچ کی دعوت کو عام کرتا ہے
لوگ اسی لیے صوفی کو مار دیتے ھیں، کہ معاشرہ اسے اپنے وضع کردہ نظام کے خلاف خطرہ سمجھتا ہے ۔ صوفی لوگ غائب نہیں ہوئے اب خاموش ہوگئے ھیں کہ اب بہت ہوا اب سولیوں پر خود ہی چڑھو اور زہر بھی خود ہی پیو۔
ادھوری کتاب سے چند سطریں ۔۔۔۔۔
التماس دعا صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.