اہم خبریں

کسی سانحہ کی طرف بڑھتی ہوئی اسکولز کی صورت حال


موجودہ صورتحال   تیزی سے کسی سانحہ کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے تقریباً 90 فی صد اسکولز متاثر ہوں گے۔اگر وزیر تعلیم کا رویہ یہی رہا تو ستمبر 2020  تک50 فی صد ایسے تمام اسکولزجوماہانہ پانچ ہزار سے کم فیس وصول کر رہے ہیں، بند ہو جائیں گے ۔ حالیہ بحران کو سمجھنے کیلئے صرف یہ عرض ہے کہ ہر کام کا ایک Business model اور سالانہ Cycle ہوتا ہے۔ ان 90 فیصد سکولوں کا تعلیمی سال مارچ/ اپریل سے شروع ہوتا ہے۔ امسال داخلے شروع ہوئے اور لاک ڈاون ہو گیا، نئے داخلے نہیں ہوئے، سیشن شروع نہ ہو سکنے سے مارچ کی فیس بھی وصول نہ ہو سکی۔ معیشت کے اجتماعی حالات کی وجہ سے مفاد عامہ میں سالانہ اضافہ بھی نہ ہو سکا لیکن اس سب پر مستزاد یہ ہوا کہ حکومتی غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے والدین نے فیسیں روک لیں اور اس وقت حقیقی تصویر یہ ہے کہ چوتھا مہینہ سر پہ آن پہنچا ہے لیکن ایک ماہ کی فیس بھی پوری وصول نہیں ہوئی۔
 ہم نے حکومت کی طرف کبھی کسی رعایت کیلئے نہیں دیکھا بلکہ عملا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہی احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں لیکن اس بحران میں کہ جہاں تعمیراتی، ٹیکسٹائل اور دوسرے شعبوں کو غیر معمولی سہولت دی جا رہی ہےاور اس میں اصول و ضوابط تک کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، کالے دھن کیلئے ایمنسٹی اسکیمیں دی جا رہی ہیں، بین الاقوامی امداد آ رہی ہے لیکن بدقسمتی سے پورے ملک میں صرف ایک ہی شعبے سے قربانی لی جارہی ہے جو کہ پانچ ہزار سے کم فیس لینےوالے 90 فیصد سرونگ سکولز ہیں۔ اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ صرف سیاسی چال کے طور پر پنجاب حکومت کی طرف سے 20 فیصد رعایت کا شوشہ چھوڑ دیا گیا یعنی واہ واہ بھی کروانی ہے تو پرائے مال سے۔ ہم نے اس کو بھی پوری طرح قبول کیا بلکہ انفرادی سطح پر مزید رعایات دیں اور ہم جو پہلے سے کئی طرح کی رعایت اور وظائف دے رہے ہیں، حتی کہ کئی طلباء مفت پڑھ رہے ہوتے ہیں، والدین کے انفرادی مسائل میں ہر ممکن تعاون کرتے ہیں، ملک میں ہر طرح کی قدرتی آفت اور آزمائش میں بھی ہراول دستہ ہوتے ہیں توپھر ہم ہی سےمزید قربانی کیوں؟کردار شکنی الگ جاری ہے، نوٹیفکیشن کی بجائے Tweet اور میڈیا ٹاک سے کام چلایا جاتا ہے تا کہ عدالتی کاروائی کا حق بھی نہ مل سکے، پنجاب حکومت کی طرف سے ظالمانہ آرڈیننس لاگو کیا گیا ہے جس سے اضلاع تک کی یکسانیت ختم ہو گئی ہے۔ہر فیصلہ سازی آمرانہ انداز میں متعلقین کے بغیر کی جاتی ہے، حتی کہ غیر آئینی اور غیر اخلاقی قانون سازی کی کوشش بھی جاری ہے۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ تعلیم دینا بہت غلط ہو گیا ہے یا ہمارے فیصلہ ساز حواس کھو بیٹھے ہیں۔ اساتذہ کی تنخواہوں کی بات ہوتی ہے تو اس بھدے انداز میں کہ جیسے سکول نیشنلائز کر لیے گئے ہیں۔ دوسری طرف فیسوں کی وصولی یا سکول چھوڑنے پر کوئی قانون سازی نہیں۔ فیس کے دینے نہ دینے، سکولوں کے کھولنے نہ کھولنے پرشخصی فیصلوں کی وجہ سے وفاقی و صوبائی وزراء کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی بھرمار ہے۔ آمرانہ مزاج اور متعلقین سے عدم مشاورت کی وجہ سے بیان کا غلط وقت بھی شدید نقصان کا باعث بن رہا ہے اورشاہانہ زبان ایسی ہے کہ الامان الحفیظ۔
 خدارا! اس شعبےکو، 50 لاکھ لوگوں کے روزگار کواور5 کروڑ بچوں کے مستقبل کو بچا لیجیے۔ آپ کی آواز موثر ہے، اس کو خیر اور بھلائی کیلئے اٹھائیے اور کہیں ہماری اصلاح مقصود ہے تو ہم حاضر ہیں۔ اس مقدس شعبے کو فوری مدد کی ضرورت ہے، جس کے لیے درج ذیل اقدامات تجویز کرتے ہیں:
1۔ نجی تعلیمی ادارہ سکول ہو یا مدرسہ، کالج ہو یا یونیورسٹی، جس کے متعلق کسی بھی قسم کی فیصلہ سازی مقصود ہو، متعلقین کو تناسب سے شامل کیا جائے۔ زیادہ بہتر ہے کہ حکومت موجودہ حالات میں مختلف سطح پر ہفتہ وار (کم از کم) مشاورت کے فورم تشکیل دے۔
2۔ فیصلہ سازی، خصوصا ًسکول کھولنے نہ کھولنے میں ماہرین صحت کی رائے، اس عمر کے عالمی اور ملکی اعداد و شمار اور دیگر ملکوں کے طریقوں کو مد نظر رکھا جائے۔ الحمد للہ، 17 سال سے کم عمر افراد/ بچوں میں یہ بیماری اور اموات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مشاورت کے فورم میں ایسے ماہرین کو باقاعدہ شامل کر لیا جائے۔
3۔ ماضی گواہ ہے کہ جب بھی SOP کی بات ہوئی، پرائیویٹ سکولوں نے من و عن عمل کیا بلکہ اپنی استعداد سے اسے زیادہ بہتر کیا۔ موجودہ صورتحال میں کہ بازار کھلے ہیں، مالز کھلے ہیں، ٹرانسپورٹ کھل رہی ہے اور اب تو ریستوران تک کھل رہے ہیں جبکہ SOP پر عملدرآمد سب کے سامنے ہے۔ ماضی کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ:اگر کہیں SOPs پر یقینی عملدرآمد ہو گا تو وہ ان شاء اللہ سکول ہوں گے۔اس لیے SOP بنا کر سکول بھی کھول دئیے جائیں۔
4۔ فیصلہ سازی میں، متناسب نمائندگی میں، فیس کے فرق اور دیگر معاشی و معاشرتی تفریق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔پنجاب حکومت متنازعہ آرڈیننس کو واپس کرے۔
5۔ سکول سب سے زیادہ متاثر بھی ہیں اور سب سے زیادہ رعایت بھی دے رہے ہیں۔ ان کو واضح ریلیف پیکج دیا جائے۔
6۔ فیسوں کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اب تک 4 ماہ کے بقایا جات ہو چکے ہیں جو مزید بڑھیں گے، ایسی صورتحال میں سکول کھلنے پر والدین بچوں کو باقی بچ جانے والے سکولوں میں سے کسی اور میں داخل کروا دیں گے۔ اس پر حکومتی سطح سے واضح مشاورت، حکمت عملی، فیصلہ سازی بلکہ ضرورت پڑنے پر قانون سازی اور اس کے مطابق رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔
7۔ واضح رہے کہ پانچ ہزارسے کم فیس والے سکولوں کے پاس اب عمارات کے کرایوں، اساتذہ اور سٹاف کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے لیے رقم نہیں ہے۔ ریلیف پیکج اور ہر طرح کے ٹیکسوں کے خاتمے کے علاوہ بلا سود قرض بھی فوری فراہم کیا جائے۔
9۔ امتحانی بورڈز نے امتحانی فیس کی مد میں اربوں روپے وصول کئے ہوئے ہیں جن کا کوئی استعمال نہیں ہوا۔ اس رقم اور مزید سرمائے کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کے کثیر تعداد میں اور مسلسل ٹیسٹ کئے جائیں اور ان کی قوت مدافعت بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
10۔ کبھی دہشت گردی کے باعث سکول بند، کبھی سموگ کا مسئلہ، کبھی انتہائی موسم، جولائی ،اگست میں ڈینگی اور ملیریا۔۔ کیا حکومت اس کیلئے ابھی سے تیار ہے؟ خدارا! نئی نسل کو ان غیر یقینی کیفیات کیلئے ذہنی و جسمانی طور پر تیار کریں ورنہ خدانخواستہ مستقبل میں کمزور شخصیات کیلئے تیار رہیں۔ ہم اس ضمن میں بھی ہر طرح سے حاضر ہیں۔
11۔ پرائیویٹ سکولز نے ہمیشہ حکومتی اقدامات پر سر تسلیم خم کیا ہے۔ کبھی کسی ایسوسی ایشن کی بہت ضرورت محسوس نہیں کی گئی یا شاید حکومت کا اس طرح کا منتقم مزاج رویہ کبھی نہیں رہا۔ کچھ دوستوں کے مشاورت اور تھنک ٹینک نما فورم یقینا موجود ہیں جوکہ باعث احترام ہیں۔

1 تبصرہ:

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.