اہم خبریں

موضوع: خدمت خلق اور حالات حاضرہ 🍀🍀 تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی ☘☘ انتخاب : ذوالفقار حیدر سیالوی

🌹🌹 موضوع: خدمت خلق اور حالات حاضرہ

🍀🍀 تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

☘☘ اشاعت: روزنامہ جنگ لندن ہفتہ، 30 مئی 2020
       
خدمت خلق وہ پاکیزہ جذبہ ہے جسے ہر مذہب و ملت اور ضابطہ اخلاق میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں اس کی اہمیت اور قدر اور بھی بڑھ گئی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ جسم و جان کے رشتے کی بقاء کیلئے بنیادی انسانی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ قانون فطرت ہے کہ دنیاکی زندگی میں ہر انسان دوسروں کا محتاج ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ ایک نوالہ جو ہم منہ میں ڈالتے ہیں کتنے انسانوں کی محنت اس میں شامل ہوتی ہے۔ کسی نے بیج بویا، فصل کی حفاظت کی، اسے کاٹا اور اناج تیار کرکے بازار میں لایا، کسی نے خریدا اور کھانے کیلئے تیار کیا۔ اس طرح فطری طور پر قدرت نے انسان کو انسان کا محتاج بنا دیا ہے۔ اس کار و بار حیات میں زندگی کے حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔یہ زندگی ایک آزمائش ہونے کی وجہ سے دکھ اور سکھ کا مجموعہ ہے۔ اگر آج ہم آسائش سے سانس لے رہے ہیں تو اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے اﷲ کے شکر گزار ہوں اور دوسروں کے غموں میں شریک ہو کر ان کی داد رسی کریں۔ جہاں آج خوشیوں سے بھرپور لمحات دکھائی دے رہے ہیں کسی کو کیا معلوم کہ کل وہاں پریشانیوں اور دکھوں نے ڈیرے ڈالے ہوں۔ حال ہی میں کراچی طیارہ حادثہ کے شہداء نہ معلوم کتنے سپنے آنکھوں میں سجائے اپنے پیاروں کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے گھروں کو جارہے تھے کہ لمحوں میں دنیا ہی بدل گئی۔ درجنوں گھر ماتم کدہ بن گئے۔ ایسے واقعات ہم سب کیلئے تازیانہ عبرت ہیں۔ اللہ کریم ان شہداء کو بلندی درجات اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔ پھر دنیا کی تکلیفیں کئی لوگوں کی حقیقی شناخت کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ ’’ اگر دنیا کی زندگی میں پریشانیاں اور غم نہ ہوں تو کئی ایک اپنوں میں چھپے غیروں اور غیروں میں چھپے اپنوں کی پہچان نہ ہو سکے‘‘۔ دنیا میں جن اقوام نے بھی نام پایا اور ترقی کی ان کے اوصاف میں سے قدر مشترک خدمت خلق ہے۔ اس حوالے سے تین پہلو حد درجہ قابل توجہ ہیں ۔ خوراک، صحت اورتعلیم ۔ انسانوں کو زندہ رہنے کیلئے خوراک اوربیماری کی حالت میں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ باوقار اورسنجیدہ زندگی گزارنے کیلئے علم کی روشنی سے قلوب و اذہان کو منور کرنا بھی انسان کا فطری حق ہے۔ یورپ میں رہتے ہوئے اپنے معاشروں کا اگر اس پہلو سے موازنہ کریں توخوفناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں آنے والی ہر حکومت بلند و بانگ دعوے ضرور کرتی ہے لیکن آج تک اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی عمل میں نہیں آئی۔ طب کا شعبہ خدمت خلق کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں دولت کی حرص اور لالچ میں یہ شعبہ بھی اپنی وقعت کھوتا جارہا ہے۔ زیادہ تر ڈاکٹرز ضابطے کی کارروائی کے طور پر سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہیں جبکہ اصل علاج کیلئے مریضوں کو پرائیویٹ کلینک کا پتہ بتایا جاتا ہے۔ اس وقت پرائیویٹ ہسپتال بہت بڑا بزنس بن چکے ہیں جن میں بے کس، لاچار اور نادار لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اگرچہ کچھ خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے افراد اور تنظیموں نے خیراتی ہسپتال بھی بنائے ہوئے ہیں لیکن معیار اور آبادی کے لحاظ سے ضرورت پوری نہیں کر سکتے۔ اسی طرح تعلیم جو کہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے وہ بھی توجہ سے محروم ہے۔ ارباب اختیار کو پوری آبادی کیلئے ایسے تعلیمی نظام کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو فعال ہوں اور وقت و حالات کے تقاضوں کو پورا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں کی ابتر صورت حال اور غیر معیاری نظام تعلیم کی وجہ سے زیادہ تر بچے نجی سکولوں میں داخلہ لینے پر مجبور ہیں۔ ان نجی سکولوں میں فیس اور دیگر واجبات ادا کرنا انتہائی مشکل عمل ہے۔ ایک محنتی اور پڑھا لکھا شخص اپنی پوری تنخواہ تین بچوں کی تعلیمی فیس پر لگا دے تو باقی معاملات زندگی کیسے چلائے گا۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں اس وقت نجی تعلیمی ادارے بہت کام کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ غریبوں کی پہنچ سے دور اور بہترین کاروبار کی شکل بھی اختیار کر چکے ہیں۔ زندہ رہنے کیلئے ہرذی روح کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے بھی افرا تفری کا دور دورہ ہے۔ کچھ وہ ہیں جو عیش و عشرت میں زندگی گزار رہے ہیں اور کچھ وہ کہ جو جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے بھی پریشان حال ہیں۔ ستر فیصد زرعی آبادی کے ملک میں بھی کچھ لوگ بھوکے سوئیں تو یقینا شرمناک صورت حال ہے۔ اگر چہ انکم سپورٹ کے نام پر کچھ سکیمیں حکومتی سطح پر کام کر رہی ہیں لیکن وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں۔اس حوالے سے منیر نیازی کے بقول صورت حال کچھ یوں ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
         کہ حرکت  تیز تر  ہے اور  سفر  آہستہ آہستہ

وہ تو ہے جو بھی ہے البتہ مایوسی گناہ ہے۔ ہم پر امید ہیں کہ انشاﷲ عنقریب صورت حال تبدیل ہوگی۔ لیکن ارباب اقتدار و اختیار کے ساتھ ساتھ  اصحاب ثروت کی بھی خدمت خلق کے حوالے سے کچھ نجی ذمہ داریاں ہیں جوانہیں ادا کرنی چا ہئیں۔ ہم جس محلہ یا شہر سے وابستہ ہیں وہاں بھی کئی ایسے لوگ ہوں گے جو ہماری مدد کے منتظر ہوں گے۔ ہمارے رشتہ داروں اور اعزہ و اقارب میں بھی کئے ایسے ہوں گے جو محتاج ہوں گے۔ ان حالات میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہمیں ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھنا چاہیے۔ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کر کے ہم دین و دنیا میں عزت پا سکتے ہیں۔ مسلمان دنیا کے جس حصے میں بھی رہے وہ پہلے مسلمان ہے اور پھر کچھ اور۔ ہمارے دین نے ہمیں خدمت خلق کی طرف بھرپور طریقے سے متوجہ کیا ہے۔ یتیموں، بیواؤں، اقربا اور معاشرے کے مجبور لوگوں کی دستگیری ایک مسلمان کیلئے اعزاز سے کم نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.