اہم خبریں

طوطئِی شکر مقال ۔ حضرت خواجہ امیر خسرو(رح) ازقلم پروفیسر محمد جعفر قمر سیالوی بشکریہ ذوالفقار حیدر سیالوی




طوطئِی ہند ۔ حضرت خواجہ امیر خسرو(رح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلسلۂِ چشت یوں تو بے شمار معتبر مقرب اور بے مثال بزرگان سے بھرا پڑا ہے لیکن خاندانِ چشت کی آواز ، شان اور  طوطئِی ہند محبوب الہٰی خواجہ نظام الدین اولیاء(رح) کے محبوب و مقرب مرید حضرت خواجہ امیر خسرو(رح) کا مقام و مرتبہ سب منفرد اور نرالا ہے آپ کو ربِ ذوالجلال نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہوا تھا آج 795 سال گزرنے کے باوجود آپ(رح) اپنے عشق و مستی اور سوز و گداز میں ڈوبے کلام اور اپنے شیخِ کامل حضرت محبوبِ الہٰی(رح) کی بے لوث محبت کے باعث راہیانِ صدق و وفا کو مشعلِ راہ دیکھاتے نظر آتے ہیں
  حضرت خواجہ امیر خسرو(رح) کا اصل نام ابوالحسن ۔لقب یمین الدولہ۔تخلص خسرو اور عرفِ عام میں امیر خسرو تھا آپ کے والدِ بزرگوار سیف الدین ترک  لاچین قوم کے سردار تھے اور منگولوں کے حملوں کے باعث ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لے آئے تھے اور آگرہ میں سکونت اختیار فرمالی وہ انتہائی صوفی منش طبیعت کے مالک تھے ہندوستان تشریف لانے کے بعد انہوں نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی  آپ(رح) کی پیدائش 1253ء  آگرہ میں ہوئی
حضرت امیر خسروؒ کی حضرت نظام الدین اولیاؒ سے بیعت کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔
 ان کی عمر اس وقت آٹھ برس تھی جب ان کے والد انہیں اور ان کے بڑے بھائی کو لے کر حضرتؒ کی بارگاہ میں لے جانے لگے تو انہوں نے والد سے پوچھا کہ مرید ارادہ کرنے والے کو کہتے ہیں جب تک میرا خود ارادہ بیعت کا نہ ہو تو کیونکر مرید ہو سکتا ہوں۔ والد کمسن بیٹے کے اس جواب پر حیران ہوئے اور بڑے بھائی سے ارادہ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو ارادہ کیا ہے وہ یقیناً میری بھلائی کے لئے کیا ہے لہٰذا میں اندر جا کر بیعت کروں گا، حضرت امیر خسروؒ نے والد سے باہر بیٹھے رہنے کی اجازت مانگی اور وہیںبیٹھ کر والد اور بڑے بھائی کا انتظار کرنے لگے۔ اسی دوران کمسن امیرخسروؒ نے ایک شعر اپنے ذہن میں موزوں کیا اور یہ خیال کہ اگر حضرت نظام الدین اولیاؒ ولی کامل ہیں تو میرے اس شعر کا جواب شعر میں دیں گے اور میں تب اندر جا کر ان کا مرید ہوں گا وگرنہ اپنے والد اور بھائی کے ساتھ گھر واپس لوٹ جائوں گا۔ جو شعر انہوں نے فارسی میں موزوں کیا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
-
’’تو ایسا بادشاہ ہے کہ اگر محل کے کنگورے پر کبوتر آن بیٹھے تو تیری برکت سے وہ کبوتر باز بن جائے پس ایک غریب اور حاجت مند تیرے دروازے پر آیا ہے وہ اندر آ جائے یا الٹا چلا جائے؟‘‘
-
کمسن امیر خسروؒ یہ شعر ذہن میں موزوں کرکے چپ چاپ بیٹھ گئے کہ اچانک حضرت کا خادم دروازے سے باہر آیا اور ان سے پوچھاکہ کیا وہ ترک زادے ہیں۔ کم سن امیر خسرو نے جواب دیا ہاں، میرے والد اور بھائی اندر گئے ہیں یہ سن کر وہ خادم بولا مجھے حضرت نے حکم دیا ہے کہ دروازے کے باہر ایک ترک زادہ بیٹھا ہے اس کے سامنے یہ شعر پڑھ کر واپس آ جائو۔ خادم نے جو شعر پڑھا اس کا ترجمہ سنیئے:۔
-
(اندر چلا آئے حقیقت کے میدان کا مرد تاکہ ہمارے ساتھ کچھ دیر ہمرازبن جائے اور اگر وہ آنے والا ناسمجھ اور نادان ہے تو جس راستے سے یہاں آیا اسی راستے سے واپس چلا جائے)
-
شعر سنتے ہی کم سن امیر خسروؒ دیوانہ وار اندر دوڑے اس وقت ان کے والد اور بھائی کے علاوہ حضرت سیدمحمدکرمانیؒ بھی وہاں موجود تھے، دونوں نے ایک دوسرے کو غور سے مسکرا کر دیکھا اور پھر حضرت امیر خسروؒ نے حضرت نظام الدین اولیاؒ کے قدموں میں سر رکھا دیا۔ حضرت نے بے ساختہ فرمایا کہ آ جا آ جا اے مرد حقیقت اور ایک دم کے لئے ہمارا ہمراز بن جا جسکے بعد حضرت نے انہیں بیعت سے سرفراز فرمایا۔ اس موقع پر امیر خسروؒ نے یہ شعر کہا۔ ترجمہ:۔ حضرت کی غلامی پر مجھے فخر ہے میرے خواجہ نظامؒ ہیں اور میں نظامی ہوں) یہ شعر سن کر حضرت کے دیگر مریدوں میں بھی خود کو نظامی کہلانے کا جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔
 تو امیر خسرو بچپن میں ہی حضرت کے یوں ہمراز بنے کہ پھر ان کے سوا کوئی بھی حضرت کا ہمراز نہ تھا اور نہ ہی ان سے زیادہ حضرت نے کسی سے محبت فرمائی اور موت بھی اس ہمراز کو مرنے کے بعد اپنے محبی سے جدا نہ کر سکی۔
حضرت محبوب الہیؒ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر شریعت میں اجازت ہوتی تو یہ وصیت کرتا کہ امیر خسروؒ کو بھی میری قبر میں دفن کیا جائے۔
ایک مرتبہ حضرت نے ارشاد فرمایا… میں سب سے تنگ آ جاتا ہوں مگر اے ترک تجھ سے کبھی تنگ نہیں ہوتا، دوسری بار فرمایا کہ میں سب سے تنگ ہو جاتا ہوں، یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی مگر سوائے تیرے اے ترک

ایک مرتبہ تخلیہ میں ارشاد فرمایا کہ میری سلامتی کی دعا مانگا کر تیری سلامتی میری سلامتی پر منحصر ہے کیونکہ تو میرے بعد جلدی دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور یہ بھی دعا کر کہ لوگ تجھ کو میرے قریب دفن کریں اور انشااللہ ایسا ہو گا
حضرت محبوب الٰہی فرمایا کرتے تھے کہ روز حشر جب یہ سوال ہو گا کہ نظام الدین دنیا سے کیا لایا تو میں بارگاہ ایزدی میں عرض کروں گا کہ خسرو کے سینے کا سوز  لایا ہوں
ایک مقام پر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء(رح) نے فرمایا

گر برائے ترک ترکم آرہ بر تارک نہند
ترک تارک گیرم و ہرگز گیرم ترک ترک
ترجمہ
لوگو اگر میری پیشانی پر آرا بھی رکھ دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اپنے ترک کو چھوڑ دے تو میں اپنی پیشانی کو چھوڑ دوں گا لیکن اپنے ترک (خسرو) کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا

حضرت امیر خسرو کا بیشتر کلام اپنے مرشد کی شان میں ہے انکی مشہور زمانہ منقبت
 چھاپ تلک سب چھین لی رے  موسے نیناں ملائے کے۔
ترجمہ
تیری اک نظر میں کیا تاثیر تھی کہ جس نے میری پیشانی سے بت پرستی کے تمام نشان اتار دیئے

محبتِ شیخ نے آپ(رح) کو قرب الہٰی اور عشقِ مصطفیٰ(صل اللّٰہ علیہٖ وآلِہٖ وسلم) کی ایسی معراج پہ پہنچا دیا اور ایسے ایسے مشاہدات سے روشناس فرمایا کہ ایک مقام پر آپ کیف و سرور کے عالم میں ایسا کلام کہا جو مقبولیت کے درجے پہ فائز ہے آپ فرماتے ہیں

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
میں نہیں جانتا کہ وہ منزل کیا تھی کل رات میں جہاں تھا
بس ہر ایک جانب رقصِ بسمل تھا کل رات میں جہاں تھا

پری پیکر نگارے، سروقدے، لالہ  رخسارے
سراپا آفتِ دل  بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
وہ کیا خوبصورت پری پیکر صنم تھا،شاندار سرو جیسا قد اور خوبصورت گال
اتنا حسیں کہ ان کے حسن کا اظہار کرتے میرا دل پھٹ جائے جہاں کل رات میں

رقیباں  گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں
سُخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے،وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا
وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات جہاں میں تھا

خدا خود میرِ مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
اے خسرو خدا تو خود اس محفل کا  میرِ مجلس تھا جو لامکاں پہ رہتا ہے
اور حضرت محمد(صل اللّٰہ علیہٖ وآلِہٖ وسلم) اس محفل کی شمع تھے کل رات جہاں میں تھا
آپ کا بے شمار کلام آج بھی راہیانِ صدق و وفا کے قلوب میں عشق و مستی  کی وہ آگ جلاتا ہے کہ جس جلنے والے اک عجیف کیف و سکون کے عالم داخل ہوتے ہیں جس کا نہ اظہار ممکن ہے اور انکار کرے تو اہلِ وفا کے قبیل سے باہر نکل جائیں

اپنے محبوب مرشد کے وصال کے وقت آپ بنگال میں تھے، یکایک حضرت نظام الدین اولیاؒ کی یاد میں دل بے چین ہوا اور انہوں نے دہلی کی راہ لی جہاں ان کی آمد سے قبل ہی ان کی دنیا اجڑ چکی تھی اور کائنات کی سب سے قیمتی متاع منوں مٹی تلے دفن ہو چکی تھی،
-
حضرت محبوب الہیؒ کی وصال کی خبر سن کر سر ٹکرا کر چیخ ماری اور کہا کہ واہ! آفتاب زیر زمین ہے اور خسرو زندہ ہے اور بے ہوش ہو گئے، ہوش آتے ہی اپنی تمام املاک اور نقد سب کچھ محبوب الہی(رح)  کی روح کے ایصال کے لئے فقیروں اور مساکین میں تقسیم کر دیا اور دنیا و مافیا سے بے نیاز ہو کر اپنے پیر و مرشد کی تربت مبارک پاس بیٹھ   گئے اپنے پیر و مرشد کے وصال کے چھ ماہ  بعد آپ اس دنیا فانی سے کوچ فرماگئے 18 شوال کو اپنے وصال سے چند روز قبل آپ نے اپنے مرشد کی یاد میں یہ شہرہ آفاق دوہا پڑھا تھا۔…؎
-
گوری سوے سیج پہ مکھ پر ڈارو کیس
چل خسرو گھر آپنے رات بھئی چوندیس
-
میرے پیر حضرت محبوب الہیؒ جو گیسو دراز تھے وہ اپنے رخ زیبا کو اپنے بالوں سے ڈھانپ کر محو خواب ہیں، اے خسرو تو بھی اب اپنے اصلی گھر چل کیونکہ شام کی تاریکی ہر طرف چھا گئی-
اللّٰہ پاک حضرت امیر خسرو(رح) کے درجات اپنی شان کے مطابق بلند فرمائے آپ کا فیض تاقیامت جاری و ساری رہے اور خاندانِ چشت کے تمام بزرگان مریدین عقیدت مندان الغرض تمام مسلمین مسلمات مؤ منین مؤمنات کی بخشش و مغفرت فرمائے آمین
ازقلم
پروفیسر محمد جعفر قمر سیالوی
سگِ اہلِ بیت(ع) و  سلطان الہند(رح)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.