اہم خبریں

بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔ تحریر: * محمد اسمٰعیل بدایونی *

*گدھے کی آواز*
 تحریر: *محمد اسمٰعیل بدایونی*
 میں بہت دیر سے ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا اور گزرے دنوں کو یاد کررہاتھا  ویٹر مجھ سے آرڈر لے کر جاچکا تھا ۔
کتنے سال گزر گئے معلوم ہی نہیں چلا یہی ہوٹل تھا اور یہیں فٹ پاتھ کے ساتھ  درخت کے نیچے ٹیبل  پر ہم دوست  آپس میں پیسے جمع کرکے نہاری کھایا کرتے تھے ۔۔۔دو دفعہ تو گریبی  بھی منگاتے تھے۔  ابھی انہی سوچوں میں گم  مسکرا رہا تھا کہ  کسی نے مجھے سلام کیا ۔
السلام علیکم !
وعلیکم السلام ! سلام کا جواب دے کر  میں اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا لیکن پہچان نہیں سکا اس نے مجھ سے کہا: آپ ادریس ہو ؟
اس نے میرا نام لیا تو میں چونک پڑا میں نے کہا : میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔
ارے میں ادریس یار! تیرا دوست !  اُسامہ
ایک  لمحے میں ہی میں  بیس سال پیچھے چلا گیا وہ دبلا پتلا  کمزور سااُسامہ جس کو ہم کہا کرتے تھے بھائی باہر نکلنے سے پہلے کچھ ریزگاری  جیب  میں ڈال لیا کر آج کل ہوا بھی تیز چل رہی ہے کہیں اڑ نہ جائے ۔۔۔ایک صحت مند توانا شخص کی طرح میرے سامنے کھڑا تھا ۔
یار اُسامہ ! میں گرمجوشی سے اس سے گلے ملا ۔تو،  تو یار پہچاننے میں ہی نہیں آرہاہے۔ماشاء اللہ اب تو خوب صحت بنا لی ہے ۔
کہاں ہو یار تم ! اسامہ نے مجھ سے کہا ۔
تم یقین کرو یا نہیں کرو ابھی کچھ دیر پہلے میں وہی دن یاد کررہا تھا جب ہم  دوست یہاں بیٹھ کر  اور آپس میں پیسے جمع  کرکے نہاری کھایا کرتے تھے ۔
ہاں اور ہم اب بھی مہینے میں ایک دفعہ  یہاں پر نہاری کھاتے ہیں  ۔  مزمل ، شہاب ، مغیث اور میں ۔
ارے واہ تو اس کا مقصد ہے مزمل ، شہاب اور مغیث تمہارے رابطے میں ہیں کیا کررہے ہو تم سب ؟
میں تو اپنے والد کے کاروبار میں ہی ان کا ہاتھ بٹاتا ہوں اور مغیث کی مارکیٹ میں بچوں کے کپڑوں کی دکان ہے ۔۔۔مزمل کسی  میڈیا چینل میں کام کررہاہے۔۔۔اور شہاب کنسٹرکشن کا کام کررہاہے  اور تم سناؤ تم کیا کررہے ہو ۔
میں ایک چھوٹی سی فیکٹری چلا رہاہوں میں نے بتایا ۔
ویٹر   نے کھانا  میز پر  سرو کیا تو میں نے  ادریس سے  کہا تم کھانا میرے ساتھ کھاؤ گے اور اس نے بلا  جھجھک میری آفر کو قبول بھی کر لیا اورکہنے لگا تمہاری آفر میں نے قبول کر لی اور میری ایک درخواست ہو گی وہ تمہیں قبول کرنا ہو گی ۔۔۔
اور اگر میں نہ کرسکا تو  ،یعنی ہو سکتا ہے تم ایسی درخواست رکھو جو میرے بس میں ہی نہ ہو ۔
نہیں نہیں وہ تمہاری دسترس میں ہو گی ۔ٹھیک ہے تو کھانا شروع کریں ؟
ہاں کیوں نہیں میں نے  ہنستے ہوئے کہا ۔
کھانا کھانے سے فارغ ہوئے تو  میں نے  اُسامہ  سے کہا اب بولو ! کیا درخواست ہے تمہاری ؟
اس کھانے کا بل میں ادا کروں گا ۔۔۔اُسامہ نے کہا۔
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے جس کھانے کا آرڈر میں نے دیاہے اس کابل تم کیوں ادا کرو گے ؟
میں نے  تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میری درخواست قبول کرنا ہو گی اور پھر میرے  نہ کہتے کہتے  بھی  اس نے کھانے کا بل ادا  کر دیا ۔
ٹھیک ہے تم نے  کھانے کا بل ادا کر دیا تمہیں وہ دن یاد ہوں گے جب ہم آپس میں پیسے جمع کرکے یہاں  باہر  فٹ پاتھ کے ساتھ درخت کے نیچے   نہاری کھایا کرتے تھے ۔۔۔جو مزہ ان دنوں کھانے میں تھا وہ اب نہیں ہے حالانکہ اب پیسوں کی کمی نہیں ہے ۔
ہاں ! ادریس ٹھیک کہہ رہے ہو نہ جانے وہ دن کہاں چلے گئے ۔
خیر یہ میرا کارڈ ہے میری خواہش ہے کہ تم کل لنچ میرے ساتھ  میری فیکٹری میں کر و اور ممکن ہو تو مغیث ، شہاب اور مزمل کو بھی ساتھ لے کر آنا میں انتظار کروں گا ۔۔۔
ارے بھئی میں ابھی باقی تینوں کو بھی  کال کانفرنس  پر لیتا ہوں   تم انہیں خود ہی دعوت دے دو ۔
ہاں یہ  تو اور بھی اچھا ہو جائے گا ۔
اسامہ نے کال ملائی تینوں کو  کانفرنس کال پر لیا
 میں نے سلام دعا کے بعد ان سب کو  کل فیکٹر ی میں لنچ کی دعوت  بھی دے دی ۔
ٹھیک ہے ان شاء اللہ ! کل ملاقات ہوتی ہے ۔
دوسرے دن ہی چاروں میری فیکٹری میں پہنچ چکے تھے۔۔۔کچھ دیر ہم پانچوں ماضی کی باتیں یاد کرتے  رہے  ایک دوسرے کو  اسکول میں  کی گئی شرارتیں سُناتے رہے پھر  میں نے چاروں کو فیکٹری کا وزٹ کرایا اوراس دوران میں مختلف لوگوں پر چیختا چلاتا بھی رہا۔۔۔کبھی ڈرائیور پر برستا تو کبھی خانساماں کی کلاس لیتا ۔۔۔کبھی مالی کو بلا کر ڈانٹتا ۔۔۔کبھی پیون  کو سُناتا ۔۔۔  مزمل نے اس بات  کو محسوس کیا  کہ فیکٹری میں موجود سپر وائیزر بھی ایسے ہی اپنے سے نیچے ورکرز سے  چیخ کر بات کررہے تھے ۔۔۔
کچھ دیر  بعد سب نے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور کھانے کے بعد مزمل نے مجھ سے کہا ۔
یار ادریس ! یہ بتاؤ یہ تمہاری چیخنے اور چلانے کی عادت کب سے پڑی اسکول کے زمانے میں تو تم بہت نرم لہجے میں  بات کرتے تھے  اور ہم سب تو خود تم سے بہت متاثر تھے  کہ تم بہت برد بار اور سمجھدار ہو ۔
بس یار! اگر ان ورکرز کو ٹائیٹ نہ کیا جائے نہ تو کام نہیں لیا جا سکتا  ۔میں نے وضاحت  پیش کی ۔
نہیں ادریس !  یہ سوچ درست نہیں ہے  ہم سب کو اپنے روئیے درست کرنے کی ضرورت ہے  قرآن بیان کرتا ہے ۔
وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠(۱۹)لقمان
 اور اپنے چلنے میں  درمیانی چال سے چل اور اپنی آواز کچھ پست رکھ، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔
 ادریس بھائی ! چیخنے اور چلانے سےآدمی کی اپنی وقعت کم ہوتی ہے ورکر کے سامنےاور سب لوگوں کے سامنے  اپنے ورکر کو ڈانٹنے سے  اس کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے  جس کے سبب اس  کی کارکردگی متاثر ہو تی ہے اور یقینی طور پر اس سے  تمہاری فیکٹری کو نقصان پہنچے گا۔
ہاں کہہ تو تم ٹھیک ہی رہے ہو میں نے فوراً تسلیم کیا ۔
ادریس  بہت کچھ تبدیل ہو گیا لیکن تمہاری یہ عادت آج  بھی تم میں ویسے ہی موجود ہے  کہ تم اپنی غلطی فوراً تسلیم کرلیتے ہو ۔اسامہ نے کہا ۔
نصیحت مخلص دوست ہی کرتے ہیں اس لیے ان کی بات مان لینی چاہیے ۔۔۔میں نے کہا ۔
کچھ دیر بعد چائے کا دور شروع ہو ااور پھر  چاروں دوست رخصت ہو گئے ۔
پیارے بچو ! کہیں آپ  تو دوسروں سے چیخ کر اور چلا کر تو بات نہیں کرتے ۔۔۔آپ اپنے ملازمین ، ڈرائیور ، خانساماں اور مالی کو  چیخ کر اور چلا کر تو نہیں بلاتے ۔۔۔ ہا چھوٹے بہن  بھائیوں سے چیخ کر تو بات نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو فوراً ہی اس بری عادت سے جان چھڑا لیجیے اور اس آیت کو ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں رکھیے ۔
وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠(۱۹)لقمان
 اور اپنے چلنے میں  درمیانی چال سے چل اور اپنی آواز کچھ پست رکھ، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.