اہم خبریں

حضرت سچل سرمست رحمۃ ُاللہ علیہ تحریر:سید محمد رفیق شاہ

 



حضرت سچل سرمست رحمۃ ُاللہ علیہ 

تحریر:سید محمد رفیق شاہ 

سر زمین سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس دھرتی پر ایسے مردِ قلندروں کا مسکن بنا جنہوں نے اپنے قول  عمل اور کردار   کے ذریعے تطہیری عمل کو پروان چڑھایا،جس سے معاشرہ  امن،سکون وسلامتی  رواداری کا گہوارہ بن گیا اِن ہی میں ایک نام صوفی شاعر حضرت سچل سرمست کا ہے آپ 1739ء میں خیر پور کے چھوٹے سے گاؤں درازا میں حضرت صلاح الدین کے گھر میں تولد ہوئے آپ کا پو را خاندان مذہبی تھا۔آپ کا اصل نام عبد الوہاب فاروقی تھا مگر صاف گوئی دیکھ کر لوگ انہیں ”سچل“یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے بعد میں ان کی شاعری کے شعلے دیکھ کر سچل کے ساتھ”سرمست“ بھی کہا جانے لگا۔

آ پ کا سلسلہ نسب خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم  کے پوتے حضرت شہاب الدین بن عبدالعزیر 93 ھجری  میں محمد بن قاسم کے ہمراہ سندھ أۓ تھے فاروقی جلال بھی آپ کے مزاج میں شامل تھا،آپ کے والد محترم نے آپ کی تعلیم وتربیت پر اول روز ہی سے تو جہ دینا شروع کردی تھی،روزانہ آپ کے کانوں میں اذان دیتے اور آپ کو گود میں لیکر بابلند آواز قرآن مجید کی تلاوت سناتے،آپ کی عمر جب چھ برس کی تھی کہ والد محترم کا قضاءالٰہی سے وصال ہو گیا۔

پھر آپ کے چچا میاں عبد الحق نے آپ کی تربیت و پر ورش  کی کچھ عرصے  کے بعد آپ ممتا کی محبت و صحبت سے بھی محروم ہو گئے والدہ کے انتقال کے بعد آپ کے چچا نے آپ کیلئے ایک حبشی آیا کا انتظام کیا جس نے بڑی شفقت ومحبت سے آپکی پرورش کی۔سچل سرمست آپکو اماں کہہ کر پکا رتے تھے۔آ پ نے جلد ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔چودہ برس کی عمر میں عربی و فارسی دونوں زبانوں پر عبور حاصل کرلیا۔تعلیم کی تکمیل کے ساتھ آپ کے چچا نے آپکو علم باطنی سے بھی منو رکیا،شریعت کے ساتھ طریقت کے بھی مراحل کو انتہائی توجہ سے طے کیے پھر اپنے چچا میاں عبد الحق کے ہاتھو ں بیعت ہوئے معرفت وسلوک کی منزلیں طے کروانے کے بعد آپ کے مرشد وچچا نے آپ کو خرقہ خلا فت سے بھی نوازا،اس موقع پر جو نصیحت آپ نے فرمائی وہ  متلاشیانِ طریقت کیلئے ہر زمانے میں رہنمائی کرتی رہے گی۔

آپ کے مرشد نے فرمایا،بیٹا عشق الٰہی اپنی شال،ذکر الٰہی اپنی قال اور حکم الٰہی کو اپنا مال بنانا قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالو،خدمت خلق کو اپنا شعار عاجزی وانکساری کو اپنا وقار اور عبا دت و ریاضت کو اپنا ہتھیا ر بنا ؤں۔یہ حیات ناپائید ار محض عرصہ امتحان وآزمائش ہے۔لہٰذا اس کی زیبا ئش میں نہ کھو جانا مو ت کو ہمہ وقت یاد رکھو ں،خدا اور رسول ﷺکو لمحہ لمحہ دل میں آباد رکھو ں۔

حضرت سچل سرمست نے سندھ کے کلہوڑہ اور تالپور حکمرانوں کے ایسے دور اقتدار میں زندگی گذاری جہاں انتہا پسندی ومذہبی نفرتیں اپنے عروج پر تھی ایسی فضا میں سچل سرمست نے اپنی شاعری کے ذریعے امن کی دھر تی کو پھر سے امن وآئشتی کا گہوارہ بنادیا۔

آپ  ہفت زبان شاعر کہلاتے ہیں،کیونکہ آپ کا کلام دنیا کی سات زبانوں میں دستیاب ہے۔سچل سرمست کو آپکے چچا ومرشد نے اپنی دامادی میں داخل کیا، یعنی ا پنی بیٹی کی شادی آپ سے کروائی مگر ان کی کوئی اولا د نہیں ہوئی۔

حضرت سچل سرمست کی تقریباً آٹھ سال کی عمر میں اپنے زمانے کے عظیم صوفی بزرگ ولی کامل حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی سے ملاقات ہوئی۔ملا قات کا احوال کتب میں موجود ہے کہ آپکے مرشد جو خود بھی حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے ہم عصر تھے شاہ عبد اللطیف بھٹائی سے بڑی عقیدت ومحبت کے تعلقات رکھتے۔ایک دن میاں عبد الحق نے شاہ عبد اللطیف کو بااصرار اپنے گھر دعوت پر مدعوکرنا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ صرف ایک شرط پر کہ اُس ملاقات میں عبدالوہاب فاروقی یعنی سچل سرمست بھی موجود ہو ں،میاں عبد الحق نے فوراًحامی بھرلی ملاقات کے وقت حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے قوت کشف سے جان لیا کہ آپ مستقبل میں معرفت کے اعلیٰ مقام پر ہونگے شاہ صاحب نے سچل سرمست سے وحدانیت سے متعلق چند سوالات کئے۔ جن کا مدبررانہ جواب سن کر آپ کے مرشد بھی حیران ہوگئے۔

اس موقع پر شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے فرمایا ہم نے معرفت کی لذت اگر چہ دل میں محسوس کی ہے تاہم جو دیگ ہم نے پکائی ہے اس کا ڈھکن سچل ہی اُتاریں گے۔جب سچل سرمست 13برس کے تھے حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی وصال فرما گئے۔تاہم سچل سرمست نے آپکے خلیفہ حضرت میاں سخی قبول محمد سے رابطہ رکھا۔آپ کے مرشد وچچا کے انتقال کے بعد سچل سرمست نے سخی قبول محمد کے ہاتھ پر بیعت کر لی آپ نے خرقہ خلافت سے بھی نوازا۔یوں سچل سرمست بھٹائی سلسلہ میں شامل ہوگئے۔شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زندگیوں کے درمیان ستر سال کا فاصلہ ہے،ستر سال بعد جب سچل صوفیانہ شاعری میں آۓ تو اِ ن کی وجد انیت بھی منفرد تھی۔آپ تصوف میں وحدت الوجود کے نظریے پر تھے۔

14رمضان 1242ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ ہر سال ماہ رمضان کی 14تاریخ کو آپ کا عرس انتہائی عقیدت واحترام سے منایا جا تا ہے۔سچل سرمست کی پوری زندگی حقوق اللہ،حقوق العباد میں گذری آپ عشق الٰہی میں مستغرق رہے خلافِ شرع کسی عمل کا حصہ بنے اور نہ کسی کو بننے دیا ارکان اسلام پر سختی سے کا ربند رہے۔محبت اہل بیت احترام صحابہ و تعظیم اولیاء کا درس دیتے عرس کے نام پر ہونے والی خرافات کا عرس اور صاحب عرس کی تعلیمات سےکوئی تعلق نہیں ایک سازیش کےتحت دین بیزار سیکولر عناصر مزارات پر عرس کے مواقعوں پر میلوں کا اہتمام کرتے ہیں جس کا صاحب عرس  کے عقیدت مند بھی شکار ہوجاتے ہیں اور خرافات کاحصہ بن جاتے ہیں ہمیں چاہیے کہ صاحب عرس کی تعلیمات کو اپناہیں اور ہر قسم کی خرافات سے خود کو محفوظ رکھیں





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.