اہم خبریں

’’مثالی یونیورسٹی‘‘ کے بارے میں میرا ایک خواب (قلم کلامی: قاسم علی شاہ) انتخآب:خواجہ صفدر امین



’’مثالی یونیورسٹی‘‘ کے بارے میں میرا ایک خواب
(قلم کلامی: قاسم علی شاہ)

گزشتہ 22 سالوں سے میں ٹیچنگ ،کوچنگ اور ٹریننگ کے شعبے سے وابستہ ہوں ۔ اسکول ، کالجز ،یونیورسٹیزاور کارپوریٹ سیکٹرکے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کے اعلیٰ اداروں ، فوج ، بیوروکریسی اور عدلیہ میں اپنی تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔اس تمام عرصے میں میں نے اس المیے کا مشاہدہ کیا کہ Academiaاور انڈسٹری میں بہت بڑا خلا ہے۔بدقسمتی سے کارپوریٹ کے ایکسپرٹس اور پروفیشنلز اپنا تجربہ ،علم اور وزڈم صرف اپنے تک ہی محدود رکھتے ہیں اور نئے آنے والوں کے ساتھ شئیر نہیں کرتے ۔دوسرا المیہ یہ دیکھا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ فیلڈ میں عملی تجربہ نہیں رکھتے اور وہ صرف ڈگری کے سہارے چل رہے ہوتے ہیں ۔آج اگر چہ تعلیمی اداروں میں انڈسٹری سے گیسٹ اسپیکرز بلانے کا رواج بنا ہے مگر یہ بھی محدود ہے۔
اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے میں نے اپنی فاؤنڈیشن میں مختلف شعبہ جات کے ماہرین کو دعوت دی اوروہ لیکچرز جو وہ اپنے کلاس رو م دیتے تھے ،ان کو فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے یوٹیوب اور فیس بک چینلز پر وائرل کیا تاکہ طلبہ گھر بیٹھے ماہرین کے تجربے سے مستفید ہوسکیں اور اللہ کے فضل سے کئی لاکھ لوگ اس سے مستفید ہوبھی ہوچکے۔اسی دوران ہم نے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن (PHEC) کے ساتھ بھی کام کیا او راِسے Capacity building پروگرام کا نام دیا ۔اس پروگرام میں میں نے بڑے قریب سے یہ بات محسوس کی کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ میں بھی گرومنگ کی کمی ہے اور یہ طبقہ نئے دور کے نئے تقاضوں سے اس طرح واقفیت نہیں رکھتا،جیسی ہونی چاہیے ۔تعلیم کا معیار نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ایم فِل اور پی ۔ایچ۔ڈی اساتذہ میں صلاحیتوں کابڑا فقدان پایا جاتا ہے۔میرے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ ہم ملک پاکستان کے 12کروڑ نوجوانوں کی جدید دور کے مطابق تربیت کریں اور انہیں صلاحیتوں سے مزین کرکے ایک کامیاب فرد بنادیں۔اس کے لیے ہمیں دو نکتوں پر توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے جو کہ ان کی عملی زندگی میں بہت کام آنے والی ہیں۔ان میں سے پہلانکتہ مائنڈسیٹ اور دوسرا سکیل سیٹ ہے۔
مائنڈ سیٹ
مائنڈ سیٹ کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ذات ایمانیات ،یقین ،خودداری اور خودی کا مرکب ہونی چاہیے۔
سکل سیٹ
یہ وہ اسکلز ہیں جنہیں ہم نے نوجوانوں میں پیداکرنے ہیں تاکہ وہ ان کی بدولت آنے والے وقت کے چیلنجز کا مقابلہ بخوبی کرسکیں ۔World Economic Forumکی بنائی گئی 10اسکلز جو اس وقت ،وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں ،ہمیں نوجوانوں میں یہ لازمی طورپر پیدا کرنا ہوں گی نیز ہمیں اس ٹرینڈ کو توڑنا ہوگا جو میٹرک میں ہی بچوں کے ذہن میں یہ بیج بودیتا ہے کہ’’ تم نمبر لوگے تو کامیاب ہوگے وگرنہ کچھ بھی نہیں کرسکوگے ۔‘‘کیونکہ اس غلط سوچ اور نظریے نے ہمیں ڈگری یافتہ نسل تو شاید دے دی مگر وہ قابلیت اور صلاحیت سے عاری ہے۔
یونیورسٹی میں آنے والے بچوں کی عمر 18سے 24سال کے درمیان ہوتی ہے ۔اس عمر اور دور میں بچہ بات پر زیادہ توجہ دیتا ہے کیونکہ وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ اب مجھے ذمہ داری لینی ہے اور کچھ کرکے دکھانا ہے اور اس نے یونیورسٹی کے سفر کا آغاز پہلے ہی کرلیاہوتا ہے ۔اس Digital Worldمیں ڈیٹا نکالنا بڑا آسان ہے۔میری آن لائن ناظرین کی 66فیصدتعداد ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو 18سے35سال کے ہیں ۔ان لوگوں نے آنے والے پانچ سالوں میں کچھ کرکے دکھانا ہوتا ہے اور وہ اس جذبے کی شدت کو بھی محسوس کرتے ہیں ۔عین ممکن ہے کہ وہ سول سرونٹ ہوں،کسی کارپورٹ کا حصہ ہوں یا پھر کسی اور ادارے سے ان کا تعلق ہوں ،اس دورمیں وہ خود کو بہترین طریقے سے گروم کرسکتے ہیں ۔تربیتی لحاظ سے ہمارا اصل ہدف یہ نوجوان نسل ہیں ،جن کو اگر بہترین راہنمائی دے کردرست ٹریک دے دیا جائے تو ہمارا مستقبل ایک تعلیم یافتہ ، تربیت یافتہ اور باصلاحیت نسل کے ہاتھوں میں ہوگا۔
اکیسویں صدی میں موجود ہر شخص عملی طورپر چار مائنڈ سیٹ میں سے کسی ایک میں رہ کر اپنا کام سرانجام دے رہا ہوتا ہے ۔یہ چار طرح کے مائنڈ سیٹ مندرجہ ذیل ہیں:
Employee Mindset
یہ وہ لوگ ہیں جو ملازمت کرتے ہیں چاہے چھوٹی ہو یا بڑی ،اور ساری زندگی ملازمت کرتے ہی گزاردیتے ہیں ۔
Self service / Freelance Mindset
یہ ان افراد پر مشتمل ہے جو اپنا باس نہیںرکھتے بلکہ اپنی سروسز کے عوض معاوضہ لیتے ہیں۔یہ فل ٹائم نوکری نہیں کرتے البتہ معاہدے کے مطابق کام کرتے ہیں ۔مثال کے طورپر ڈاکٹر، وکیل یا ٹرینر
Entrepreneur/Business Mindset
یہ لوگ سسٹم بناتے ہیں،ٹیم بناتے ہیں اور کوئی پروڈکٹ یاسروس بیچ کر اپنا بزنس چلاتے ہیں ۔
Investor Mindset
یہ لوگ فائننشل جینییس ہوتے ہیں اورصحیح موقع دیکھ کر منافع کی جگہوں پر اپنا سرمایہ انویسٹ کرتے ہیں ۔
ہمارا المیہ :
ہمارے تعلیمی نظام کا المیہ یہ ہے کہ یہ صرف Employee Mindsetہی پیدا کررہا ہے اور باقی تین پر کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔جس کا واضح نتیجہ یہ برآمد ہورہا ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی تعلیم کے بعد پہلا کام ’’نوکری‘‘ڈھونڈنا شروع کرتا ہے ۔یہاں لوگ ملازمت دینے کے بجائے ملازمت لینا چاہتے ہیں۔مواقع بنانے کے بجائے ،تلاش کررہے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے پاس موجود فیکلٹی اور پروفیسرز کوبھی ان تھیوریز کا علم نہیں ۔
اس وقت ہمارے لیے آئیڈیل حل یہ ہے کہ ہم ایک ایسی یونیورسٹی بنائیں جو کہ پریکٹیکل لرننگ کومدِ نظر رکھتے ہوئے ایسے سرٹیفیکیشن کورس ڈیزائن کریں جنہیں ہم 7سے 8ماہ کی مدت میں ایک جامع سکل کی شکل میں کسی نوجوان میں پیدا کرسکیں۔جن میں مندرجہ ذیل قابلیتیں اور اسکلز شامل ہیں :
Presentation Skills,Effective Communication Skills
Interview Skills,Table Manners
Dress Manners, Leadership Skills
Content Writing Skills,Complex Problem Solving Skills
People Management Skills,Confidence Building
Creativity,Critical Thinking
Emotional Intelligence,Decision Making Skills
Negotiation Skills
(پریزنٹیشن ،ابلاغ اور انٹرویولینے کی قابلیت، کھانے و لباس کے آداب ، قائدانہ صلاحیتیں ، فنِ تحریر، مسائل حل کرنے کی قابلیت ، نظم و ضبط ، شخصیت میں اعتماد،تخلیقی صلاحیت، مثبت تنقیدی سوچ ،جذبانی ذہانت اور قوتِ فیصلہ )
ان میں سے کئی ایسے اسکلز ہیں جنہیں موبائل اپلی کیشن یا ویڈیو کے ذریعے فراہم کیا جاسکتا ہے مگر ایک خاص طبقہ ایسا ہوناچاہیے جس کے ساتھ ہمار ا Physical Interaction لازمی ہو۔ اس تمام کام کوہم ایک یونیورسٹی کا درجہ دے کر انڈسٹری اور پروفیشنلز کے اعلیٰ اور ذہین دماغوں کو فیکلٹی میں شامل کرسکتے ہیں۔
میرے نزدیک اس یونیورسٹی میں پانچ طرح کے ڈیپارٹمنٹس ہونے چاہییں۔
(۱) سائیکالوجی:
ایک ریسرچ کے مطابق ہر گھر میں ایک ذہنی مریض ہے اور ہر دوسر ے گھر میں ایک ایسا ذہنی مریض موجودہے جس کی کاونسلنگ ہونا لازمی ہے اور ہر سات میں سے ایک گھر میں ایک ایسا ذہنی مریض بھی موجود ہے جس کو باقاعدگی سے علاج کی ضرورت ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کاؤنسلنگ اور رہنمائی دینے والے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اگر ہم 8اکتوبر2005ء کو آنے والے زلزلے کے ہی مثال لے لیں جس میں جب 40سائیکولوجسٹ وہاں موجود لوگوں کی مدد کے لیے بھیجا گیاتو بعد میں ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر 40کے بجائے 4ہزار ماہرین نفسیات کی ضرورت تھی ۔
(۲)مینجمنٹ
مینجمنٹ کے لوگوں کی ہر سسٹم اور ہر طبقے کو ہمیشہ سے ہی ضرورت رہتی ہے ۔یہ لوگ ہیومن ریسورس مینج کرتے ہیں او ر ہیومن ریسورس کے بہترین استعمال اور ان کی سہولیات کے لیے بہترین پالیسیز بناکر لیڈر شپ کو سنبھالتے ہیں۔
(۳)میڈیا:
ہمیں میڈیا پڑھانے کی شدید ضرورت ہے ۔ہمیں میڈیا کے ان پہلوؤں کو بھی سامنے لانا چاہیے جن پرآج کل کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔اسی طرح سوشل میڈیا کو سمجھنے اور اس کے بارے میں شعور دینے کی بھی ضرورت ہے ۔اس وقت یوٹیوب کو ماہانہ 150بلین لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ اسی طرح فیس بک پر بھی اربوں لوگ موجود ہیں ۔ہمیں ان میڈیمز کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کا شعور عام کرنا ہے تاکہ نوجوان نسل ،مثبت سرگرمیوں کے ذریعے ملک وقوم کا نام روشن کرے۔
ہمیں تعمیری و تربیتی مقصد کے لیے خصوصی ٹی وی چینلز کی ضرورت ہے ،جو معاشرے میں موجود تمام طبقات کواور خاص طورپر خواتین کو ایک بہترین اور صحت مندطرزِ زندگی کا شعور دے سکے۔ا س وقت ملکِ پاکستان کوتربیتی حوالے سے ایسے معیاری ٹی وی چینل کی شدید ضرورت ہے جن کی بدولت ہم قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دیں اور پندرہ بیس سال بعد جس نسل نے ملک وقوم کی باگ ڈورسنبھالنی ہے ،ان کو ہم بہترین طریقے سے تیار کریں۔
(۴)آئی ٹی
21ویں صدی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے ۔آج آئی ٹی کے بغیر کوئی شعبہ ،کوئی سسٹم مکمل نہیں ہے ۔آئی ٹی ہمارے نوجوانوں میں وہ اسکلز پیدا کرلیتی ہے جن کی بدولت وہ گھر بیٹھے ایک معقول رقم کماسکتے ہیں، اکانومی کو سپورٹ کرسکتے ہیں اور بیرون ممالک سے زرِ مبادلہ بھی پاکستان لاسکتے ہیں ۔
(۵)اسلامک سٹڈیز:
اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایسے علماء تیار کریں جو کہ دین و دنیاکوبہترین طریقے سے چلانے والے ہوں،کہ جن کے لبوں پر اگر قرآن کے الفاظ ہوں تو ہاتھ میں لیپ ٹاپ ،وہ عوام الناس کی دینی رہنمائی بھرپور طریقے سے کریں اور جدید علوم پر دسترس رکھتے ہوئے اقوام عالم کے ساتھ بھی شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے تیار کرنا ہمارے لیے از حدضروری ہے ۔اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی ایسی سرٹیفیکیشنز متعارف کروائی جاسکتی ہیں جسے کوئی بھی شخص چند ماہ میں بہترین طریقے سے مکمل کرسکیں ۔عین ممکن ہے کہ اس شعبے میں سیکھنے والے افرادکاروبار کرنے والے یاسول سرونٹ ہوں،البتہ اس کا مقصد عوام کو دینی تعلیم دینا ہو۔
ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان پانچوں ڈیپارٹمنٹس میں ایسی سرٹیفکیشنز متعارف کروائیں جو کہ 6سے 8ماہ میں بہترین طریقے سے عملی مشقوں کے ذریعے مکمل کروائی جاسکیں۔اس یونیورسٹی میں فیکلٹی ان کامیاب افراد اور ایکپسرٹ مائنڈز کی ہوگی جو عملی طورپر اپنی فیلڈ میں مہارت رکھتے اور اپنانام بناچکے ہوں ۔ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ اس منصوبے میں روایتی لیکچرارز کو لانا یا ان کو یہ ذمہ داری دینا،ایک دفعہ پھر پرانے اور فرسودہ نتائج پیدا کرنے کے مترادف ہوگا۔ہمیں اس وقت انڈسٹری کے بہترین دماغوں کو لانے کی ضرورت ہے۔اپنے علم ،تجربے کی بنیاد پرمیں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگرمندرجہ بالاتمام نکات پر عمل پیراہوکر اس کو ایک منصوبے کی شکل دے دی جائے تو اس ملک میں انقلاب لانا ہمارے لیے ناممکن نہیں ہوگا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.