اہم خبریں

’روحِ بلالی ‘‘سے خیرات ✨ انتخاب: پیر سعید احمد چشتی پاکپتن




 ’روحِ بلالی ‘‘سے خیرات
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو ، کوئی خواب آیا۔ شاہی مُعَبِّر ، مُنَجِّم، ستارہ شناس اور زائچہ گر طلب کیے گئے ، بعد از طویل غوروفکر اور بحث و تمحیص--- بادشاہ سلامت کو مطلع کیا گیا کہ ، جہاں پناہ! آپ کی آنکھوں کے سامنے ،آپ کے سارے عزیز،دارِ فانی سے رخصت ہو نگے، اور اُن کے جنازے آپ اپنے کند ھوں پر اُٹھائیں گے ۔ بادشاہ نے خبر کو از حد منحوس اور بدشگون جانا ، پریشان ہوا اور غُصے میں شاہی مُعبّراور مُنّجم کو گرفتار کروا کے جیل میں ڈال دیا، اور ساتھ ہی شہر میں اعلان کروایا کہ کوئی اور تعبیر بیان کرنے اورستاروں کا حال بتانے والا حاضر ہو، اذنِ باریابی کے بعد ، ایک اور ماہر پیش ہوا، جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کیساتھ حکمت اور زبان و بیان کی نعمت بھی عطا کر رکھی تھی، اُس نے بادشاہ کے سامنے کارروائی کے طور پر کاغذوں پر خط کھینچے ،ز ائچے بنائے، تعمق اور تفکر کا بھر پور تاثر اور ماحول قائم کیا ۔ بعداز طویل غورو خوض ،بادشاہ کو مبارک پیش کی گئی کہ یہ خواب تو از حد نیک شگون ہے ، اِس میں تو آپ کی درازی عمر کی نوید عطا ہے ۔ خوشیوں کے شادیانے بجے ، مسرتوں کی برکھا برسی ، اعلان ہوا، بادشاہ سلامت :اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے خاندان میںسب سے طویل عمر ہونگے۔ بادشاہ نے مُعبّر کو انعام و اکرام سے سرفراز کرنے کے بعد کہا مانگ اور کیا مانگتا ہے۔ مُنَجّم نے عرض کی، جہاں پناہ! بس میرے استاد کو رہا کردیں، بادشاہ نے وضاحت چاہی ، تو مُعبّر نے کہا کہ گرفتارمُعبّراور مُنّجم میرا استاد ہے، بات وہ بھی وہی کرنا چاہ رہا تھا ، جو میں نے کی ہے ، بس وہ الفاظ کے انتخاب میں محتاط نہ ہوسکا۔ بادشاہ سلامت!آپ اپنے عزیزوں سے زیادہ عمر پائیں گے یا آپ کے عزیز آپ کے سامنے مریں گے ، بات ایک ہی ہے ، محض اسلوبِ بیان ، چیزوں کی خصلت ،رنگت"Complexion" کو تبدیل کردیتا ہے ۔ سیفؔ اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے ورنہ دنیا کی کوئی بات نئی بات نہیں گویا الفاظ کو معنی ومفہوم کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اصل چیز تو وہ جذبہ اوربولنے والے کا لہجہ ہوتا ہے ،جس میں ڈھل کر وہ الفاظ فضائوں میں بکھرتے اور معنوں میں اُترتے ہیں ، بڑے بڑے موثر ’’سلوگن‘‘اور نعرے جب بے جان اور مردہ انداز میں ادا ہوتے ہیں ،تو ان کی تاثیر بلکہ تعبیر اور تشریح ہی بدل جاتی ہے ،محض’’لینگوئج‘‘نہیں ’’باڈی لینگوئج‘‘بھی اہم ہوتی ہے ۔ ہم بعض اوقات اپنی زبان سے اپنی عاجزی اورنیازمندی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں ،لیکن ہماری جسمانی حرکات وسکنات ہمارے لب ولہجہ کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی، بلکہ ہمارا رعونت اور تکبر ہمارے ایک ایک لفظ اور جملے سے ٹپک رہا ہوتا ہے ۔الفاظ اورذخیرہ الفاظ کو محض لغت اور ڈکشنری کے پیرائے میں دیکھا جانا کافی نہیں بلکہ ’’الفاظ‘‘بولنے اور ادا کرنے کے لیے مقامی تہذیب وتمدن اور روایت کو پیش نظر رکھنا بھی ، لکھنے اور بولنے والے کے پیش ِ نظر رہنا چاہیے ،بصورتِ دیگر ایسے طوفان تو اُٹھیں گے،جیسے اُٹھے ہوئے ہیں ،’’خطیب ِ شہر‘‘ اگر الفاظ کی حُرمت اور اپنے لب ولہجہ اور زیر وبم سے بھی آگاہ نہیں ، اگر اُسے اس بات ہی کا ادراک نہیں کہ پُر سوز الفاظ کو ،کچھ سوز---بولنے والے کا سوزِدُروں بھی عطا کرتا ہے ۔سامعین اور مخاطبین کو اتنا شعور تو ہوتا ہے کہ خطیب کن الفاظ کو کس لہجہ اور کتنے زوردار طریقے سے ادا کرکے ، کس تاثر اور تصوّر کے ساتھ لوگوں کے قلب ونظر میں اُتارنا چاہتا ہے ۔خوبصورت ترین الفاظ کو اگر کرخت ترین لہجہ میسر آ جائے تو لفظوں سے میٹھاس زائل ہو جاتی ہے ۔مولانا رومؒ نے ایک طویل حکایت ،جس میں انہوں نے ایک بد آواز اور کریہہ لب ولہجہ کے حامل موذن کی داستان بیان کی ہے ،جس کو خوش فہمی یہ تھی کہ اس کی آواز از حد دلنشیں اور سُریلی ہے ،اور وہ صبح وشام خوب حلق پھاڑ پھاڑ کر اذانیں پڑھتا ، خطبے دیتا ،پوری سوسائٹی او رمعاشرہ اُس کی حرکتوں سے تنگ تھا ۔لوگوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد ، اُس سے جان چھڑانے کے لیے ،اسے حج پر بھیجنے کی سکیم تیار کی ۔مؤذن صاحب کے زادِ سفر سمیت دیگر امور کا بندوبست کرکے ،انہیں حج کے ایک قافلے کے ساتھ روانہ کردیا۔مولانا رومؒ لکھتے ہیں کہ سفر کی پہلی منزل پر ہی ،عشاء کے وقت مؤذن صاحب جن کو اپنے مترنم اور متبسم لہجے کا بڑا زعم تھا ،اذان دی، بستی کے سردار نے، جوکہ کافر تھا،ہاتھ میں شمع تھامے ،حلوے کا تھا ل،نفیس پوشاک اور دیگر تحفے مؤذن کی نذر کیئے ،اور اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ،کہ میری اکلوتی بیٹی ، کسی خوش الحان اور پُر تاثیر قاری اور مبلغ کے لب ولہجے کے سبب اسلام سے متاثر ہو چکی تھی ،کوشش کے باوجود ہم اس کو اس کے ارادے سے متزلزل نہ کرسکے ،بلکہ اسلام قبول کرنے کی خواہش اس میں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی ، جس کے سبب میں پریشان تھا ،میری ہر کوشش غارت گئی ،آج آپ نے بستی میں جو صدا بلند کی ،تو اس کو بتا یا گیا کہ مسلمانوں میں عبادات کی طرف بلانے کا یہی طریقہ ہے ،مؤذن کے خوفناک لب ولہجہ سے لڑکی کا خوف سے رنگ ذرد ہو گیا اور اسلام قبول کرنے کی رغبت اس کے دل ودماغ سے محو ہوگئی ۔سردار نے کہا کہ یہ تحائف آپ کو آپ کی اس مہربانی پر پیش کیے ہیں کہ آپ کے اسلوبِ بیان نے وہ کام کر دکھا یا جس کے لیے ہمارے سارے جتن ناکام ہو گئے۔ اچھی دعوت ،اچھا پیغام ---اگر اچھے اسلوب اور عمدہ پیرایۂ اظہار میں بیان ہوں تو تبھی اچھے نتائج نکلتے ہیں ۔محض فلسفہ ،منطق اور علم الکلام سے اس وقت تک کام نہیں چلتا ،جب تک ’’تلقینِ غزالی ‘‘میسر نہ ہو ۔ رسمِ اذاں سے تبھی مثبت اور عمدہ نتائج نکلیں گے، جب ’’روحِ بلالی ‘‘سے خیرات حاصل ہو ۔ ہمارے لاہور کے ایک صوفی مفکر کہا کرتے تھے ، کہ ہم نے الفاظ کے استعمال پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے ، ہم بے جہت وبے سمت الفاظ کے سیلاب میں ڈوبے جارہے ہیں ،میٹھے بول ختم ہورہے ہیں ،’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘یعنی دل سے کہیں اور دلوں میں اُتار دیں ،والی صورتحال نظر نہیں آتی، دلوں کو زخمی اور محبتوں وعقیدتوں کو مجروح کرنے والے الفاظ کی سوداگری عام ہے ، انسان کو انسان کے قریب کرنے والے الفاظ گم ہوگئے ،اپنی کوتاہی اور غلطی پر معافی یا معذرت کی توفیق بھی ختم او رالفاظ بھی... اصل میں صحیح وقت پر صحیح الفاظ کا استعمال...یہ الگ سے ایک توفیق اورنعمت ہے ،جوکہ کم انسانوں کو نصیب ہوتی ہے ،الفاظ تبھی پُر مغز اور جاندار رہیںگے، اگر اُن سے نتائج اچھے نکلیں اور معاشرہ آسودگی پائے ،بصورتِ دیگر خالی الفاظ نگلنے اور اُگلنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ مسئلے سنگین سے سنگین تر ہوتے ہیں ۔’’ناپختہ عقیدہ‘‘اور فکرِ خام چھوٹے برتن کی طرح جلد گرم ہو جاتا ہے ۔ دراصل ظرف میں وسعت اور افکار میں پختگی تو اہل بیت کے دامنِ کرم سے وابستگی پر عطا ہوتی ہے ،بلند عقیدے... بلند دروازوں سے عطا ہوتے ہیں ،محبت نہ ہو تو عقیدہ بلند نہیں ہوسکتا اورنہ ہی نفرت رعونت اور تکبر سے عقیدوں کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔جس دل میں نفرت پرورش پائے وہ خود عقیدے اور عقیدت سے محروم ہے ۔ تلخ الفاظ معاشر ے کو تباہ اور سوسائٹی کو برباد کردیتے ہیں ،جب الفاظ کا احترام کم ہوتا ہے تو انسان کا احترام بھی کم ہو جاتا ہے ، اسی لیے بعض اوقات ہماری زبان تلوار کی کاٹ سے بھی زیادہ تیز اور سفاک ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر طاہر رضا بخاری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.