اہم خبریں

موضوع:- تعارف سورة الفاتحہ اور اسکے اسماء 💦 از پروفیسر محمد جعفر قمر سیالوی




سلسلہءدروس قرآن از پروفیسر محمد جعفر قمر سیالوی
 ماخوذ من تفسیر تبیان القرآن
درس قرآن پاک  نمبر 1
💦 موضوع:- تعارف سورة الفاتحہ اور اسکے اسماء و فضائل و مضامین و مسائل (پارٹ 1)
الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ الطیبین و اصحابہ الطاہرین
اما بعد!
فأَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۞
ترجمہ:
اللہ ہی کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو نہایت رحم فرمانے والا بہت مہربان ہے
سورة فاتحہ کے اسماء :
 سورة فاتحہ کے بہت اسماء ہیں، اور کسی چیز کے زیادہ اسماء اس چیز کی زیادہ فضیلت اور شرف پر دلالت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ بہت شرف اور مرتبہ والی سورت ہے، ان اسماء کی تفصیل حسب ذیل ہے :
 (١) فاتحۃ الکتاب : فاتحۃ الکتاب کے ساتھ اس سورت کو اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ مصحف کا افتتاح اس سورت سے ہوتا ہے، تعلیم کی ابتداء بھی اس سورت سے ہوتی ہے اور نماز میں قرأت کا افتتاح بھی اس سورت سے ہوتا ہے اور ایک قول کے مطابق کتاب اللہ کی سب سے پہلے یہی سورت نازل ہوئی تھی اور بہ کثرت احادیث میں تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کو فاتحۃ الکتاب فرمایا۔
 امام ترمذی روایت کرتے ہیں :۔
 حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے فاتحۃ الکتاب کو نہیں پڑھا اس کو نماز (کامل) نہیں ہوئی۔ (جامع ترمذی ص ٦٣، مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)
 اس حدیث کو امام ابن ماجہ (امام ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ، سنن ابن ماجہ ص ٦٠ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی) اور امام احمد، ٢ (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٢ ص ٤٢٨، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔
 (٢) ام القرآن : کسی چیز کی اصل اور اس کے مقصود کو ام کہتے ہیں اور پورے قرآن کا مقصود چار چیزوں کو ثابت کرنا ہے، الوہیت (اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات) معاد (مر کر دوبارہ اٹھنا ) ، نبوت اور قضاء وقدر، سورة فاتحہ میں ” الحمد للہ رب العالمین الرحمان الرحیم “۔ کی الوہیت پر دلالت ہے اور ” مالک یوم الدین “۔ کی معاد پر دلالت ہے، ” ایاک نعبد وایاک نستعین “۔ کی اس پر دلالت ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضاء اور قدر سے ہے اور انسان مجبور محض ہے نہ اپنے افعال کا خالق ہے اور ” اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و لا الضالین “۔ کی نبوت پر دلالت ہے، کیونکہ اس آیت میں اس راستہ کی ہدایت کی دعا کی گئی ہے جو انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے اور انعام یافتہ لوگ انبیاء (علیہ السلام) ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کو ” ام القرآن “ فرمایا ہے امام داری روایت کرتے ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : الحمد للہ ” ام القرآن “ ہے اور ” ام الکتاب “ ہے اور ” سبع مثانی “ ہے۔ (سنن دارمی ج ٢ ص ٣٢١، مطبوعہ نشرالسنۃ ملتان) اور امام مسلم (رح) نے حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کیا ہے کہ ” لا صلوۃ لمن لم یقرء بام القرآن “ جو ام القرآن نہ پڑھے اس کی نماز کامل نہیں ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ١٦٩ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراچی، ١٣٧٥ ھ)
 (٣) سورة الحمد : اس سورت کا نام ” سورة الحمد “ بھی ہے کیونکہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد ہے، جیسے سورة بقرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سورت میں بقرہ کا ذکر ہے، اسی طرح سورة اعراف، سورة انفال اور سورة توبہ کے اسماء ہیں، نیز مذکور الصدر ” سنن دارمی “ کی حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کو الحمد للہ سے تعبیر فرمایا ہے۔
 (٤) السبع المثانی : قرآن مجید میں ہے :
 (آیت) ولقد اتینک سبعا من المثانی، (الحجر : ٨٧) ہم نے آپ کو سات آیتیں دیں جو دہرائی جاتی ہیں۔
 امام بخاری (رح) نے روایت کیا ہے :
 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (آیت) ” الحمد للہ رب العلمین “۔ السبع المثانی ہے اور وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٧٤٩، مطبوعہ نور محمداصح المطابع، کراچی، ١٣٨١ ھ)
 سنن دارمی کی مذکور الصدر حدیث میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کو السبع المثانی فرمایا ہے۔ اس سورت کو السبع اس لیے فرمایا ہے کیونکہ اس میں سات آیتیں ہیں اور مثانی فرمانے کی حسب ذیل وجوہ ہیں :
 (اول) اس سورت کے نصف میں اللہ تعالیٰ کی ثناء ہے اور نصف میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے (ثانی) ہر دو رکعت نماز میں اس کو دو مرتبہ پڑھا جاتا۔
 (ثالث) یہ سورت دو بار نازل کی گئی ہے۔
 (رابع) اس سورت کو پڑھنے کے بعد نماز میں دوسری سورت کو پڑھا جاتا ہے۔
 (٥) ام الکتاب : سنن دارمی کی مذکور الصدر حدیث میں اس سورت کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” ام الکتاب “ فرمایا ہے اور ” صحیح بخاری “ میں ہے : حضرت ابوسعید خدری (رض) نے ایک شخص پر سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا جس کو بچھونے کاٹا ہوا تھا اور کہا : میں نے صرف ام الکتاب پڑھ کر دم کیا ہے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٧٤٩، مطبوعہ نور محمداصح المطابع، کراچی، ١٣٨١ ھ)
 (٦) الوافیہ : سفیان بن عینیہ نے اس کا نام سورة وافیہ رکھا، کیونکہ صرف اس سورت کو نماز میں آدھا آدھا کرکے نہیں پڑھا جاسکتا لیکن یہ توجیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سورة الکوثر کو بھی ایک رکعت میں آدھا آدھا کرکے نہیں پڑھا جاسکتا لہذا یوں کہنا چاہیے کہ اس سورت کے مضامین جامع اور وافی ہیں اس لیے اس کو وافیہ کہا جاتا ہے۔
 (٧) الکافیہ : اس سورت کا کافیہ اس لیے کہتے ہیں کہ دوسری سورتوں کے بدلہ میں اس سورت کو پڑھا جاسکتا ہے اور اس سورت کے بدلہ میں کسی سورت کو نہیں پڑھا جاسکتا۔ حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ام القرآن “ دوسری سورتوں کا عوض ہے اور دوسری کوئی سورت اس کا عوض نہیں۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص۔ ٩ الجامع الاحکام القرآن ج ١ ص ١١٣)
 (٨) الشفاء : امام دارمی روایت کرتے ہیں :
 حضرت عبد الملک بن عمیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فاتحۃ الکتاب ‘ ہر بیماری کی شفاء ہے۔ (سنن دارمی ج ٢ ص ٣٢٠‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان )
 امراض جسمانی بھی ہیں اور روحانی بھی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق فرمایا ہے : (آیت) ” فی قلوبہم مرض “۔ (البقرہ : ١٠) ان کے دلوں میں بیمار ہے ‘ اور اس سورت میں اصول اور فروع کا ذکر ہے ‘ جن کے تقاضوں پر عمل کرنے سے روحانی امراض میں شفاء حاصل ہوتی ہے اور اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی ثناء اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے جس سے جسمانی اور دیگر ہر قسم کی بیماریوں سے شفاء حاصل ہوتی ہے۔
 (٩) سورة الصلوۃ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس سورت پر صلوۃ کا اطلاق کیا ہے ‘ امام مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے : میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نماز ( سورة فاتحہ) کو میرے اور میرے بندہ کے درمیان آدھا ‘ آدھا تقسیم کیا گیا ہے اور میرے بندہ کے لیے وہ ہے جس کا وہ سوال کرے ‘ پس جب بندہ کہتا ہے : (آیت) ” الحمد للہ رب العلمین “۔ تو میں کہتا ہوں : بندہ نے میری حمد کی۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ١٧٠۔ ١٦٩‘ مطبوعہ نور محمداصح المطابع ‘ کراچی ١٣٧٥ ھ)
 (١٠) سورة الدعا : یہ سورت اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے شروع ہوتی ہے ‘ پھر بندہ کی عبادت کا ذکر ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی دعا ہے اور دعا اور سوال کا یہی اسلوب ہے کہ پہلے داتا کی حمد وثناء کی جائے ‘ پھر دست طلب بڑھایا جائے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی ہے ‘ پھر اپنے لیے دعا کی ہے :
 (آیت) ” الذی خلقنی فھو یھدین والذی ھو یطعمنی ویسقین واذا مرضت فھو یشفین والذی یمیتنی ثم یحیین والذی اطمع ان یغفرلی خطیئتی یوم الدین رب ھب لی حکما والحقنی بالصلحین واجعل لی لسان صدق فیی الاخرین واجعلنی من ورثۃ جنۃ النعیم (الشعراء : ٨٥۔ ٨٧)
 ترجمہ (وہ جس نے مجھے پیدا کیا تو وہی مجھے ہدایت دیتا ہے اور وہی مجھے کھلاتا ہے اور وہی مجھے وفات دے گا اور پھر زندہ فرمائے گا اور اسی سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن وہی میری (ظاہری یا اجتہادی) خطائیں معاف فرمائے گا اے میرے رب ! مجھے حکم عطا فرما اور مجھے نیکوں کے ساتھ لاحق کر دے اور میرے بعد آنے والی نسلوں میں میرا ذکر خیر جاری رکھ اور مجھے جنۃ النعیم کے وارثوں میں شامل کر دے۔
 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی :
 (آیت) ” فاطر السموت والارض انت ولی فی الدنیا والاخرۃ، توفنی مسلما والحقنی بالصلحین۔ (یوسف : ١٠١)
 ترجمہ : اے آسمانوں اور زمینوں کو ابتداء پیدا کرنے والے ‘ تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کار ساز ہے ‘ میری وفات اسلام پر کر اور مجھے نیکوں کے ساتھ لاحق کر دے
 سو دعا کا یہی طریقہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی جائے، پھر اس سے سوال کی جائے ‘ اور سورة فاتحہ میں اسی طریقہ سے دعا کرنے کی تعلیم دی ہے ‘ اس لیے اس کو سورة دعا کہتے ہیں۔ علامہ بقاعی نے ان اسماء کے علاوہ سورة فاتحہ کے اسماء میں اساس ‘ کنز ‘ واقعہ ‘ رقیہ ‘ اور شکر کا بھی ذکر ہے۔ علامہ بقاعی نے ان اسماء میں نظم اور ربط کو بیان کیا ہے ‘ وہ لکھتے ہیں
 (١) فاتحہ کے اعتبار سے ہر نیک چیز کا افتتاح اس سورت سے ہونا چاہیے۔
 (٢) اور ام کے لحاظ سے یہ ہر خیر کی اصل ہے۔
 (٣) اور ہر نیکی کی اساس ہے۔
 (٤) اور مثنی کے لحاظ سے دو بار پڑھے بغیر یہ لائق شمار نہیں۔
 (٥) اور کنز کی حیثیت سے یہ ہر چیز کا خزانہ ہے۔
 (٦) ہر بیماری کے لیے شفا ہے۔
 (٧) ہر مہم کے لیے کافی ہے۔
 (٨) ہر مقصود کے لیے دافی ہے۔
 (٩) واقیہ کے لحاظ سے ہر برائی سے بچانے والی ہے۔
 (١٠) رقیہ کے اعتبار سے۔
 (١١) ہر آفت ناگہانی کے لیے دم ہے۔
 (١٢) اس میں حمد کا اثبات ہے صفات کمال کا احاطہ ہے۔
 (١٣) اور شکر کا بیان ہے جو منعم کی تعظیم ہے۔
 (١٤) اور یہ بعینہ دعا ہے ‘ جو مطلوب کی طرف توجہ ہے ‘ ان تمام امور کی جامع صلوۃ ہے۔ (نظم الدرر ج ١ ص ٢٠۔ ١٩‘ مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی ‘ قاہرہ ‘ ١٤١٣ ھ)
 علامہ آلوسی نے سورة فاتحہ کے بائیس اسماء کا ذکر کیا ہے ‘ ان میں فاتحہ القرآن ‘ تعلیم القرآن ‘ تعلیم المسئلہ ‘ سورة السوال ‘ سورة المناجاۃ ‘ سورة التفویض شافعیہ ‘ اور سورة النور بھی ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.