اہم خبریں

حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ 💟 انتخا ب : پروفیسر محمد جعفر قمر سیالوی

 


 

💟غوث زمان حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان المعروف پیر پٹھان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ

ہندوستان میں سلطنت مغلیہ اپنی زندگی کی آخری سانس لے رہی تھی ۔ پنجاب سکھوں کے قبضہ میں جا چکا تھا ۔ انگریز تاجر اپنی عیاری سے اس ملک کا حکمران بننے کا خواب دیکھ رہا تھا ۔ مسلمانوں کی معاشرتی زندگی بھی تباہ ہوچکی تھی اور مذہبی زندگی بھی ۔ بعض جہاد بالسیف کا نعرہ لگا رہے تھے ۔ انھیں دنوں ایک مرد کوہستانی جو فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کیلئے پیدا ہوا تھا جہاد بالنفس کا درس دے رہاتھا ۔ دنیا اس مرد کوہستانی کوحضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے ۔ جنھوں نے تونسہ شریف میں آستانہ عالیہ سلیمانیہ کی بنیاد رکھ کر دیک ایسا مرکز شریعت و طریقت قائم کیا جس نے ملت کے تنِ مردہ میں جان ڈال دی ۔

ولادت و خاندان:سلسلہ چشتیہ نظامیہ سلیمانیہ کے بانی سلطانِ تارکاں ،برہان عارفاں ، غوثِ زمان ، شہباز طریقت حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان المعروف پیر پٹھان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت ۳۸۱۱;247;ھ بمطابق 1769ء میں ہوئی ۔ آپ کے والد گرامی کا نام محمد زکریا بن عبدالوہاب بن عمر خان بن خان محمد تھا ۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام زلیخا تھا ۔ آپ کی جائے پیدائش موضع گڑگوجی ہے جو کہ کوہِ سلیمان میں تونسہ شریف سے مغرب کی طرف تیس کوس کے فاصلہ پرہے ۔ آپ کا خاندان افغان قوم کے قبیلہ جعفر سے تعلق رکھتا تھا ۔ آپ کا ایک بڑا بھائی جس کا نام یوسف تھا وہ جوانی میں ہی انتقال کر گیا تھا ۔ آپ کی چار بہنیں تھیں جن کی اولاد تونسہ شریف میں سکونت پذیر ہے ۔

مادر زاد ولی:منقول ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت سے قبل آپ کی والدہ محترمہ ایک چشمہ سے پانی بھر کر گھر کی طرف آرہی تھیں کہ ایک درویش جس کا لباس بھی ہندوستانی تھا اور زبان بھی ہندوستانی تھی ۔ ایک عجیب عالم میں راستہ میں کھڑا تھا جونہی اس درویش کی نظر آپ کی والدہ محترمہ پر پڑی تو کہنے لگا سبحان اللہ اس شکم میں بادشاہِ دوجہان ہے جو اپنے زمانہ میں سلیمان ِ زمانہ بنے گا ۔ ہزارہا مخلوق کو فیض پہچائے گا اور تمام جن و انس اس کی تعظیم کریں گے ۔ یہ کہنے کے بعد وہ درویش آنکھوں سے غائب ہوگیا اور اس کے بعد کبھی نظر نہ آیا ۔

تعلیم و تربیت: آپ کے والد گرامی آپ کی ولادت سے قبل ہی فوت ہوگئے یوں آپ نے یتیمی کے عالم میں آنکھ کھولی ۔ جب آپ کی عمر چار سال چند ماہ ہوئی تو آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کو ملا یوسف جعفر افغان کے پاس بھیجا ۔ ان سے آپ نے پندرہ پارے پڑھے ۔ اس کے بعد وہیں ایک ولی کامل اور صاحب نسبت بزرگ حاجی صاحب سے پڑھنا شروع کیا ۔ دن کے وقت اپنے استاد گرامی قدر کے مویشیوں کو چراگاہ میں لے جاتے اور رات کو اپنے استاد محترم سے سبق لیتے ۔ آپ نے حاجی صاحب کے پاس قرآن پاک ختم کیا اور ایک دو فارسی کتابیں بھی پڑھیں اس کے بعد حاجی صاحب نے فرمایا: ’’مجھے کشف سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ تمہیں رتبہ بلند اور مقام اعلیٰ عطا فرمائے گا ۔ تم پہلے تونسہ جا کر علم حاصل کروگے وہاں سے قصبہ لانگھ اور پھر وہاں سے کوٹ مٹھن جا کر مزید تعلیم حاصل کروگے ۔ وہاں مہار شریف سے ایک کامل بزرگ آئیں گے جن سے تم بیعت کروگے وہ تمہیں نعمت و خلافت عطا کریں گے ۔ اس کے بعد تم تونسہ آکر مخلوق خدا کو اللہ تعالیٰ کا راستہ بتاوَ گے ۔ ‘‘

تونسہ شریف ٓآمد: آپ اپنے استاد محترم حاجی صاحب کے ارشاد گرامی کے مطابق تونسہ شریف آگئے اور میاں حسن علی صاحب کے پاس پڑھنا شروع کردیا ۔ میاں حسن علی صاحب صالحان وقت میں سے تھے اور قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی;231; کے خلیفہ حضرت مولوی نور محمد صاحب نارووالہ ;231;کے مرید تھے ۔ میاں صاحب آپ پر بہت شفقت فرماتے تھے ۔ اس جگہ آپ نے فارسی کی چند کتابیں (پندنامہ،گلستان سعدی، بوستان سعدی وغیرہ )پڑھیں ۔ ایک دن آپ تونسہ شریف سے موضع سوکڑ ایک کتاب لینے کیلئے گئے وہاں دوران سفر حضرت مولوی نور محمد صاحب نارووالہ ;231;سے ملاقات ہوئی ۔ نارووالہ صاحب ;231; نے آپ کی بہت تعظیم کی ۔ باوجود ضعیفی و پیری کے خود پیدل چلے اور آپ کو اپنے گھوڑے پر سوار کرایا ۔ جب ان کے مرید صادق میاں احمد کھوکھر نے اعتراض کیا تو انہوں نے فرمایا:’’اے میاں احمد تمہیں اس نوجوان کے مرتبہ و مقام کا علم نہیں ۔ اس کا مقام یہ ہے کہ ملا ءکہ اس کی تعظیم کرتے ہیں اور اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ نے کی آرزو رکھتے ہیں ۔ یہ وہ نوجوان ہے کہ کچھ دنوں کے بعد تمام جہان اس کے نور فیض سے منور ہوگا ۔ ‘‘

لانگھ میں آمد : تونسہ شریف میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کی خاطر آپ موضع لانگھ میں میاں ولی محمد صاحب باغبان(قوم ارائیں )کے پاس چلے گئے ۔ ان سے آپ نے مزید فارسی کتب پڑھیں اور فارسی کی تعلیم مکمل کی ۔

کوٹ مٹھن میں آمد:میاں ولی محمد صاحب سے ا کتسابِ فیض کے بعد آپ عربی و اسلامیات کی تعلیم کے شوق میں کوٹ مٹھن روانہ ہوگئے ۔ یہاں پہنچ کر آپ نے حضرت قاضی محمد عاقل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادہ قاضی احمد علی صاحب ;231; سے ان کے مدرسہ علوم عربیہ و دینیہ پڑھنا شروع کیں ۔ یہاں آپ نے چند سال قیام کیا اور منطق کی مشہور کتاب قطبی کا درس لیا اور علوم ِ فقہ پر پورا عبور حاصل کیا ۔

شہباز طریقت: منقول ہے کہ محب النبی حضرت مولانا فخرالدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خلیفہ قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ کو وصیت فرمائی تھی کہ مغرب کے پہاڑوں سے ایک شہباز آئے گا ۔ اسے جس طرح بھی ہو سکے اپنے دام میں لے آنا ۔ وہ ہماری اورتمہاری نعمت کا وارث و مالک ہوگا اور اپنے زمانہ میں مملکت ولایت کا سلیمان ہوگا ۔ اس وصیت کی بناء پر حضرت قبلہ عالم ;231; ہر سال ملک مغرب کاسفر اختیار کرتے تھے ۔ کوٹ مٹھن اوراوچ شریف کی طرف بھی آپ اس ارادہ سے آتے تھے کہ کسی وقت میدان لاہوت کا وہ شہباز دام میں آجائے ۔

بیعت:آپ جن دنوں کوٹ مٹھن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ حضرت قبلہ عالم ;231; حسب ِ معمول اوچ شریف تشریف لائے ۔ جب یہ خبر کوٹ مٹھن پہنچی تو حضرت قاضی محمد عاقل ;231; اور ان کے فرزند ارجمند حضرت قاضی احمد علی صاحب مدرسہ کے طلباء کو ساتھ لے کر اوچ شریف روانہ ہوئے ۔ آپ بھی اس قافلے میں ساتھ تھے ۔ آپ نے یہ سنا ہوا تھا کہ قبلہ عالم سماع کے قائل ہیں اور وجد و رقص بھی کرتے ہیں چنانچہ آپ اپنی کمر میں خنجر باندھ کر روانہ ہوئے اور دل میں یہ ارادہ کیا کہ حضرت قبلہ عالم ;231; سے احتساب کریں گے اور پھر انھیں سماع سے منع کریں گے ۔ جب حضرت قبلہ عالم ;231; حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری ;231; کی درگاہ شریف پر آئے اور مخدوم نو بہار شاہ ;231; سجادہ نشین اوچ شریف کو بیعت کیا جب سب لوگ اُٹھے تو آپ بھی اُٹھے ۔ اچانک قبلہ عالم ;231; کی نظرآپ پر پڑی تو متبسم ہو کر فرمایا: ’’آمدے آں یارے کہ ما مے خواستیم ۔ ‘‘ پھر ہاتھ پکڑا خانقاہ میں لے گئے اور بیعت کر لیا ۔

خلافت:آپ پندرہ سال کی عمر میں حضرت قبلہ عالم ;231; سے بیعت ہوئے تھے ۔ اپنے پیر و مرشد کی صحبتِ کیمیا اثر کا فیض صرف چھ سال تک اٹھایا ۔ آپ خود ایک جگہ فرماتے ہیں :’’مارا صحبت ظاہری قبلہ عالم ;231; شش سال یا کم بود ۔ ‘‘آپ تقریباً اکیس برس کے تھے جب حضرت قبلہ عالم ;231; نے آپ کو خلافت عطا فرمائی ۔ آپ نے اپنی زبان مبارک سے اپنی خلافت کا واقعہ اس طرح بیان فرمایا کہ جب حضرت قبلہ عالم نے مجھے خلافت عطا کی تو میں نے انکار کیا اور عرض کیا کہ قبلہ یہ بارگراں مجھ سے نہیں اٹھایا جائے گا ۔ اس زمانہ میں لوگ خدا کی نافرمانی میں مشغول ہیں ۔ میں کس طرح مخلوق کے اس بوجھ کو اپنی گردن پر اٹھاؤں ۔ حضرت قبلہ عالم نے فرمایا کہ مجھے خدا اور رسول ﷺ نے حکم دیا کہ اپنی خلافت محمد سلیمان کو دے دو میں اپنی طرف سے نہیں دے رہا ۔ میں نے معذرت چاہی کہ کہ یا حضرت یہ بار گراں مجھ سے نہیں اٹھایا جائے گا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے اور فرماتے ہیں کہ خلافت کیوں نہیں لیتا میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میں اس کام کے لائق نہیں ہوں ۔ فرمایا کہ تو اس کام کے لائق ہے اسی لئے تمہیں حکم دے رہاہوں ۔ ہم تمہیں اپنی جانب سے خلافت دے رہے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں آپ کے حکم سے خلافت قبول کرتاہوں مگر یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ میں اس وقت مخلوق کو مرید کروں گا ۔ جب مجھے یقین ہوجائے کہ حق تعالیٰ میرے مریدوں کو بخش دے گا ۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تیرے مریدوں کی شفاعت میں کروں گا اور اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا ۔ اس کے بعد میں نے حضرت قبلہ عالم ;231; سے خلافت لے لی ۔

تونسہ شریف قیام:حضرت قبلہ عالم کے ارشاد کے مطابق آپ خلافت کے بعد تونسہ شریف آگئے اور یہاں ایک خانقاہ قائم فرمائی اور اس خانقاہ میں بیٹھ کر ساٹھ سال سے زیادہ عر صہ تک تبلیغ و اشاعت اور اصلاح و ترتیب کا فریضہ سر انجام دیا ۔ تونسہ شریف ڈیرہ غازی خان سے تقریباً تیس کوس کے فاصلہ پر ایک غیر معروف گاوّں تھا مگر حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی ;231; کے قیام کے بعد مرکز رُشدو ہدایت بن گیا ۔ آپ نے وہاں مساجد، اقامت گاہیں ، مدارس اور لنگر خانے تعمیر کرکے ایک ایسی خانقاہ کی بنیاد رکھی جو علوم ظاہری و باطنی کا ایک عالمی مرکز بن گیا ۔

لنگر: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے لنگر کی حیثیت بہت ہمہ گیر تھی ۔ اس میں وسعت اور باقاعدگی تھی اور درویشوں اور طلباء کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی گئی تھیں ۔ دو ہزار طلبہ درویش اور تقریباً اتنے ہی مہمان و مسافر ہر روز لنگر سے کھانا کھاتے تھے ۔ کھانے کے علاوہ ضرورت کی ہر چیز موجود رہتی تھی ۔ حجام،لوہار،موچی،دھوبی اور آب کش وغیرہ ماہانہ تنخواہ پاتے تھے ۔ بیماری کی حالت میں مختلف اقسام کی ادویات لنگر سے بلامعاوضہ ملتی تھیں ۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ خدابخش لانگری نے عرض کیا کہ حضرت اس مہینہ میں سات سو روپیہ صرف درویشوں کی ادویات پر خرچ ہوگیا ۔ آپ نے سن کر فرمایا کہ اگر سات ہزار بھی ان درویشوں اور علماء و طلباء کے علاج پر خرچ ہوجائیں تو مجھے اطلاع نہ دی جائے ان کی جانوں کے مقابلہ میں روپیہ کی کچھ حقیقت نہیں ۔ صاحب تاریخ مشاءخ چشت لکھتے ہیں کہ ویسے تو اس زمانہ میں ہندوستان کی کئی خانقاہوں میں بڑے بڑے لنگر خانے قائم تھے اور سینکڑوں آدمیوں کا مجمع رہتا تھا مثلا ًدہلی میں شاہ غلام علی صاحب کی خانقاہ میں پانچ پانچ سو فقیر رہتے تھے اور ان کی خوردونوش کا انتظام ہوتا تھا ۔ خواجہ محمد عاقل صاحب کی خانقاہ میں بھی لنگر کا بڑا اہتمام تھا لیکن جو باقاعدگی اور جو مقاصد شاہ محمد سلیمان صاحب کے لنگری نظام میں ملتا ہے وہ کسی اور جگہ نہیں تھا ۔

محبت شیخ :آپ کو اپنے شیخ و مرشد سے بے حد محبت تھی ۔ بیعت کے بعد جب حضرت قبلہ عالم کے حکم سے دہلی شریف گئے تو اس دوران آپ کی والدہ محترمہ کو آپ کی جدائی نے ستایا ۔ جب آپ واپس مہارشریف آئے اور والدہ محترمہ کی بے قراری کا سنا تو پیرومرشد کی اجازت سے والدہ محترمہ سے ملنے کے لئے گڑگوجی حاضر ہوئے مگر مرشد سے دور ہو کر عشق کی آگ اور بھڑک اٹھی ۔ ماں کی محبت اور مرشد کے عشق میں کشمکش شروع ہوگئی ۔ آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن آپ اکثر پیدل ہی مہارشریف کو روانہ ہو جاتے اور راستے کی تمام تکالیف نہایت خوشی سے برداشت کرتے ۔ ایک بار میاں غلام حیدر اور میاں عیسٰی جعفر کے ساتھ مہارشریف کو روانہ ہو ئے راستے میں پاؤں خون سے بھر گئے ۔ یہاں تک کہ خود فرماتے ہیں ’’ ہر دہ ناخن از ہر دو پائے من جدا شدند‘‘ یعنی پاؤں کے دسوں ناخن انگلیوں سے جدا ہو گئے لیکن اسی تکلیف کی حالت میں بھی چالیس کوس اور سفر طے کیا ۔ سفر میں دو دو تین تین دن کے فاقے بھی ہوئے لیکن آپ عقیدت و ارادت اور عشق و محبت سے سرشار سب مصیبتیں جھیلتے ہوئے اپنے پیر و مرشد کے قدموں میں حاضر ہو گئے ۔

علمی مقام:حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کا مطالعہ نہایت وسیع اور علمی مقام بہت بلند تھا ۔ قرآن ، حدیث اور فقہ پر مکمل عبور تھا ۔ جب کوئی مسئلہ آپ سے دریافت کیا جاتا تو برجستہ اسناد نقل کر دیتے ۔ تصوف کی تمام مستند کتب کا عمیق مطالعہ کیا ہوا تھا ۔ آپ اپنے خاص خاص شاگردوں اور مریدوں کو جن کتابوں کا خود درس دیتے تھے وہ درج ذیل ہیں : آداب الطالبین، عوارف المعارف، خصوص الحکم، احیاء العلوم، فوائدا لفوائد، فتوحات ِ مکیہ،نفحات الانس وغیرہ ۔

اتباعِ شریعت: آپ خود کامل اتباع شریعت کرتے تھے اور اسی کی تلقین و تاکید بھی فرماتے تھے ۔ آپ کا نظریہ تھا کہ اتباع شریعت کے بغیر انسانیت کا کمال دشوار ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے کہ تزکیہ نفس اور روحانی ارتقاء اتباع شریعت کے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے ۔ صاحب نافع السالکین لکھتے ہیں کہ آپ کا ارشاد ہے:’’ یک فعل غیر مشروع بندہ را از مرتبہ ولایت بیفگند‘‘ یعنی ایک غیر شرعی فعل بندے کو مرتبہ ولایت سے نیچے پھینک دیتا ہے ۔ نیز آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ’’ ہر کہ خواہد کہ مقبول و محبوب حق سبحانہ تعالیٰ گردد باید کہ در متابعت شریعت ظاہراً و باطناً کوشش نماید چنانچہ نص دریں باب وارد است اِنْ کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّٰہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللہُ‘‘ (جو شخص چاہتا ہے کہ حق تعالیٰ کا محبوب ہو جائے اسے چاہئے کہ ظاہر وباطن میں شریعت کی متابعت کرے چنانچہ قرآن پاک میں فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری یعنی حضور ﷺ کی اتباع کرواللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا ۔ )

معمولات:آپ اپنے اوقات و معمولات کے بہت پابند تھے ۔ مغرب کے بعد ایک پہر ذکر جہر میں مشغول رہتے ۔ ذکر سے فراغت کے بعد ہر شخص کو حاضری کی اجازت ہوتی ۔ اس سے فراغت ملتی تو رات کا کھانا تناول فرماتے پھر عشاء کی نماز باجماعت پڑھ کر حجرہ میں تشریف لے جاتے ۔ تہجد کے بعد ذکر جہر کرتے ۔ اس وقت گاہے گاہے ایک مخصوص محفل سماع بھی ہوتی جس میں کسی شخص کو بھی حاضری کی اجازت نہیں تھی ۔ میاں احمد قوال کچھ سناتے ،آپ سنتے ۔ آپ سنتے ہی نماز فجر سے قبل اپنے تخت پر آرام فرماتے تھے ۔ جب اذان ہوجاتی تو مسجد میں تشریف لاتے ۔ نماز کے بعد حجرہ میں تشریف لے جاتے ۔ ایک پہرگزرنے پر مجلس عام شروع ہوجاتی ۔ اس کے بعد کھانا تناول فرماتے اور کسی قدر قیلولہ کے بعد نماز ظہر ادا کرتے پھر عصر کی نماز تک کلام پاک کی تلاوت میں مشغول رہتے ہیں ۔ مغرب تک مسجد میں قیام فرماتے سفر ہو یا حضر معمولات میں فرق نہ آتا تھا ۔

استغناء: خلافت کے بعد جب آپ نے تونسہ شریف میں رہائش اختیار کی تو یہ حالت تھی کہ رہنے کے لئے مکان نہیں تھا ۔ سرکنڈوں کی ایک جھونپڑی تھی جس میں آپ فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرتے تھے مگر کچھ عرصہ بعد جب بڑے بڑے امراء ، وزراء اور جاگیردار نواب آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے لگے ۔ فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ دنیا کی ہر نعمت آپ کے قدموں میں آگئی لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود استغنا ء کا عجیب عالم تھا نافع السالکین میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ڈیرہ غازی خان کے نواب نے درویشوں کے اخراجات کے لیے جاگیر پیش کی تو آپ نے فرمایا کہ ہم اس جاگیر کو قبول نہیں کریں گے ۔ یہ ہمارے مشاءخ کے طریقہ کے خلاف ہے ۔ اس وقت مجلس میں جو احباب حاضر تھے ان میں سے کسی نے عرض کیا کہ آپ صاحبزادہ گل محمد صاحب کے لیے قبول فرما لیں یہ سنا تو آپ نے فرمایا ’’صاحبزادہ گل محمد کو بھی اس جاگیر کی حاجت نہیں اگر یہ درویشوں کے جوتے سیدھے کرتا رہے گا تو اس کی خدمت کے لیے مقربین بطور خدمت گارمقرر ہوں گے ۔ ‘‘

عجز و انکساری:ایک مرتبہ ایک شخص محمد واصل نامی حاضر خدمت ہوا ۔ اس نے عربوں کے روحانی ودینی مرکز دیکھے ہوئے تھے ۔ جب تونسہ شریف کا نرالا عالم دیکھا تو اس نے آپ کی بہت تعریف کی ۔ آپ نے فرمایا’’ میاں اصل میں تو وہی ہوں جو تونسہ میں گدائی کر کے کھانا کھایا کرتا تھا ۔ یہ تو سب کچھ اللہ تعالی کی مہربانی ہے ۔ ‘‘

دستگیری:خاتم سلیمانی میں آپ کی آخری عمر کا ایک واقعہ درج ہے کہ ایک دفعہ آپ حضرت قبلہ عالم کے عرس مبارک میں شرکت کے دوران حضرت بابا تاج سرور چشتی کی درگاہ میں حاضر تھے کہ چند عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ ان میں سے ایک عورت نے سوال کیا کہ یا حضرت آپ نے اب تک لاکھوں غلاموں کو مرید کیا ہے اور جب تک آپ حیات ہیں تواور لوگ سلسلہ میں داخل ہوں گے اور آپ کا دستور یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنے پاس زیادہ دیر بیٹھنے نہیں دیتے ۔ ان میں سے بعض رات کو بیعت ہوتے ہیں اور بعض دن کو اور بیعت کے بعد آپ سب کو جلد رخصت کر دیتے ہیں ۔ آپ کا ہر مرید یہ امید رکھتا ہے کہ قیامت کے دن آپ ان کا وسیلہ بنیں گے ۔ پس قیامت کے دن اس ہجوم خلائق میں آپ اپنے مریدوں کو کیسے پہچانیں گے ;238;فرمایا تم نے نہیں دیکھا کہ چرواہے اپنی بھیڑوں کو دوسروں کی بھیڑوں کے ساتھ ملا کر چراتے ہیں ۔ تمام بھیڑیں ایک رنگ کی ہوتی ہیں ۔ ایک ہی طرح کے ان کے چہرے ہوتے ہیں اور ایک ہی طرح کی عادات ہوتی ہیں ۔ مگر رات کی تاریکی میں وہی چرواہے اپنی اپنی بھیڑوں کو پہچان کرکے ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں ۔ میں بھی اسی طرح اس دن اپنے مریدوں اور دوستوں کو شناخت کرکے اپنے ساتھ لے جاؤں گا ۔

مقبولیت:آپ کی مقبولیت کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے جوکہ تمام تذکروں میں موجود ہے کہ ایک دفعہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو اچانک ہزار ہا مخلوق تونسہ شریف میں آپ کے در دولت پر جمع ہو گئی ۔ ان سے پوچھا گیا کہ تمہارے آنے اور جمع ہونے کا کیا سبب ہے;238; کہنے لگے کہ ہم نے ایک آوازغیبی سنی ہے کہ جو کوئی آج حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کی زیارت کرے گا وہ جنتی ہے ۔ مخلوق خدا چالیس چالیس پچاس پچاس کو س سے آکر جمع ہو رہی تھی ۔ جب آپ نے لوگوں کا شور سنا تو اپنے خادم خاص محمد اکرم سے پوچھا کہ یہ انبوہ کثیر کس لیے جمع ہے ;238;انہوں نے عرض کیا کہ پہلے خود ہی مخلوق خدا کو بلا لیا ہے اب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ لوگ کس لیے آئے ہیں ۔ اب براہ خدا باہر تشریف لے آئےں تاکہ مخلوق خدا زیارت کر سکے ۔ پس آپ حجرہ سے نکل کر بنگلہ شریف میں بیٹھ گئے ۔ لوگ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتے جب باہر سے آنے والی مخلوق زیارت سے فارغ ہوگئی تو پھر تونسہ شریف اور قرب وجوار کے لوگ بھی زیارت کے لئے حاضر ہوئے کیونکہ صاحبزادگان مہاروی اور دیگر حضرات بھی موجود تھے وہ سب بھی آئے اور زیارت و قدم بوسی کی ۔

علالت اور وصال: صاحب مناقب المحبوبین لکھتے ہیں کہ میں 21 محرم ۷۶۲۱;247;ھ کو اپنے وطن سے براستہ پاکپتن وچشتیاں شریف سفر کرتا ہوا تونسہ شریف حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کی خدمت میں پہنچا ۔ اس دن سے لے کر وصال تک آپ کی زبان مبارک سے ایک شعر روز سنتا تھا ۔ جسے آپ ہر وقت پڑھتے تھے ۔

آہن کہ بہ پارس آشنا شدفی الحال صور ت طلا شد

اور کبھی یہ شعر پڑھتے تھے

اگر گیتی سراسر باد گیردچراغِ مقبلاں ہر گز نہ میرد

جب ماہ صفر ۷۶۲۱;247;ھ کا آغاز ہوا تو آپ نے فرمایا خدا خیر کرے ۔ اس کے بعد آپ کو زکام ہو گیا جو دن بدن شدت اختیار کرتا گیا ۔ ادویات دی گئیں مگر مرض بڑھتا ہی گیا ۔ بیماری میں بھی آپ اور اد ووظاءف مقررہ اوقات پر ادا فرماتے رہے ۔ 6صفر گزر گیا اور ساتویں رات آ گئی تو مرض زیادہ ہو گیا ۔ نماز عشاء حجرہ میں باجماعت پڑھی اور پھرمراقبہ میں مشغول ہو گئے ۔ حضرت مولانا فخر الدین دہلوی کے پوتے میاں نظام الدین دہلوی بھی موجود تھے ۔ صاحبزادہ خواجہ اللہ بخش تونسوی بھی آپ کی چارپائی پر پاؤں کی طرف بیٹھے تھے ۔ دوسرے چند پیر بھائی بھی حاضر تھے ۔ آپ پر حالت نزع طاری ہوگئی اور آپ شغل پاس وانفاس زور زور سے کرنے لگے ۔ جب تہجدکا وقت آیا تو آپ نے نماز تہجد اشارہ سے ادا کی پھر بیٹھ گئے اور تسبیح نکال کر پڑھنے لگے ۔ وظاءف سے فارغ ہوکر صاحبزادہ اللہ بخش کی طرف دیکھا اور فرمایا تو کون ہے ;238;میاں محمد نے عرض کیا قبلہ یہ آپ کے صاحبزادہ گل محمد کا بیٹا اللہ بخش ہے ۔ توجہ کا وقت ہے اپنے پوتے پر کرم فرمائیں ۔ اس وقت صاحبزادہ اللہ بخش کی طرف متوجہ ہو کر آپ نے فرمایا وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ ۔ اس کلام کے بعد آپ کا وصال ہوگیا ۔ 7صفر ۷۶۲۱;247;ھ بروز جمعرات کوآپ کا وصال ہوا ۔

سجاد گی:حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ کے پوتے حضرت ثانی خواجہ شاہ اللہ بخش تونسوی رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین ہوئے ۔

طالب دعا:غلام مجتبیٰ معینی تونسوی(ناظم اعلیٰ مدرسہ عالیہ محمودہ محمودیہ تونسہ شریف)

2 تبصرے:

  1. نہایت عمدہ پیج ھے دعا ھے اللہ کامیاب اور کامران کرے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ محترم امید ہے آپ آئندہ بھی حوصلہ افزائی فرماتے رہیں گے۔جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.