اہم خبریں

امام قصائی 💢 تحریر: محمد یوسف جمال قادری کراچی


 💢  امام قصائی
۔۔۔۔۔۔۔
( امسال کھالوں کے ریٹ میں ہونے والی شدید کمی کے نتیجے میں مدارس کو پہنچنے والے نقصان پر ایک مکالمہ )
۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے مولانا صاحب کو انہی کے گاڑھے انداز میں سلام کیا تو وہ چونک کر پیچھے مڑے اور پھر پہچان کر مجھ سے عید ملتے ہوئے سلام کا جواب دیا
لیجیے مولانا آٹھ عدد کھالیں گاڑی سے اتروا لیں دو بیل میرے تھے اور بقیہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے وصول کی ہیں۔
سیٹھ صاحب، آپ فون کر دیتے مدرسے سے کوئی آ کر لے لیتا۔
مولانا نے میری بے تکلفی کا روکھا سا مختصر جواب دیا۔
بس جناب یہ آپ کی سحر بیانی کا اثر ہے کہ ہم آپ کے پاس کھنچے چلے آتے ہیں۔ آج عید کی نماز میں آپ نے خود فرمایا تھا کہ کسی کا انتظار کیے بغیر خود ہی قربانی کی کھال مدرسے پہنچائیں۔
جزاک اللہ۔
مولانا نے ایک بار پھر اسی لہجے جواب دیا تو میں نے پوچھ ہی لیا :
مولانا، خیریت تو ہے؟ ہر وقت ہنسنے مسکرانے والا عید کے دن اداس!
میں کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور مولانا کے چہرے پر نظریں جما دیں۔
نہیں نہیں کچھ خاص نہیں، بس ویسے ہی ذرا۔۔۔ پریشانی میں ان سے جملہ بھی پورا نہ ہو سکا۔
مولانا، اگر کوئی پرائیویٹ بات نہیں تو بتا دیں، میں مدد نہ بھی کر سکا تو کم از کم آپ کے دل کا بوجھ تو ہلکا ہو ہی جائے گا۔
مولانا کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے، پھر دھیمی آواز میں بولنے لگے :
وقار صاحب۔۔۔ قربانی کی کھالوں سے مدرسے کو اچھا خاصا سہارا لگ جاتا تھا، گزشتہ سال بھی ریٹ کم ہونے کی وجہ سے ہمارا ادارہ مقروض ہو گیا تھا۔۔۔
انہوں نے مجھے پہلی مرتبہ نام سے مخاطب کیا اور پانی کی بوتل اٹھا کر گلاس میں انڈیلنے لگے تو مجھے ان کی پریشانی کی شدت کا احساس ہوا۔ دو دو گھنٹے بغیر رکے تقریر کرنے والا ایک جملے کے بعد ہی پانی کی طلب محسوس کر رہا تھا۔
اس سال کھالوں کا ریٹ بہت کم ہے، ابھی تو پچھلا قرض بھی نہیں اترا۔ بس یہی فکر ذہن کو کھائے جا رہی ہے کہ آگے کیا ہوگا؟
انہوں نے بات مکمل کی اور پانی پی کر گلاس ایک جانب رکھ دیا۔
ہممم۔ بات تو واقعی پریشان ہونے والی ہے۔
کچھ دیر کے لیے میں بھی سوچ میں پڑ گیا۔
میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں ان کی پریشانی ایک چیک دے کر دور کر سکتا تھا، لیکن کب تک؟ اس لیے میں نے انہیں مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنے پر لگانے کا فیصلہ کیا۔
مولانا، نہایت معذرت کے ساتھ اگر آپ برا نہ مانیں تو کچھ عرض کروں؟
جی فرمائیے، انہوں نے ایک اور مختصر جواب دیا۔
ہر تقریر میں الفاظ کا جادو جگانے والے کو آج بولنے کے لیے الفاظ میسر نہ تھے۔
مولانا ایک بار پھر معذرت، الفاظ کچھ سخت ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ گنتی کے چند لوگوں کو چھوڑ کر ہمارا مولوی طبقہ انتہائی سست، نکما اور بے عمل ہو چکا ہے۔ یہ طبقہ اچھے کام کا کریڈٹ تو بڑے فخر کے ساتھ لیتا ہے لیکن اپنی کمی اور کوتاہی کا اعتراف کبھی نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ دوسروں پر الزام دھر کے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے خیال میں تو آپ حضرات کے بیشتر مسائل آپ ہی لوگوں کی اپنی سستی اور نا اہلی کی وجہ سے ہیں۔ آپ اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنے کے بجائے اوروں کی جانب سے نظرِ کرم کے منتظر رہتے ہیں۔
کیا مطلب؟ اس بات کا اس مسئلے سے کیا تعلق؟
ان کے لہجے میں حیرت کے ساتھ ہلکا سا غصہ بھی شامل تھا۔ کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے مولانا سے اس انداز میں بات کی تھی۔
دیکھیں ناراض نہ ہوں مجھے اچھی طرح یاد ہے آپ نے کچھ ماہ پہلے اپنی ایک تقریر میں بتایا تھا کہ پہلے کے علماء تحصیلِ علم کے ساتھ کاروبار بھی کرتے تھے۔ مجھے سب تو یاد نہیں لیکن امامِ اعظم ( رحمہ اللہ تعالی ) کا نام ضرور یاد ہے کہ ان کا کپڑے کا کارخانہ تھا۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے سیٹھ بھی تھے۔۔۔
اور ہاں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کے متعلق بھی تو آپ ہی نے بتایا تھا کہ وہ بھی مختلف کاموں میں اپنا پیسہ انویسٹ کیا کرتے تھے۔
بلکہ ایک دو اور بھی یاد آ رہے ہیں ۔۔۔ ایک تو شاید ۔۔۔ برتن بناتے تھے اور ۔۔۔ دوسرے جوتے۔
جی، وہ امام قدوری ( رحمہ اللہ تعالی ) اور امام خصاف ( رحمہ اللہ تعالی ) تھے۔ مولانا نے سر ہلاتے ہوئے یاد کرایا۔
بالکل، اور حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ( رحمہ اللہ تعالی ) کا تفصیلی تذکرہ بھی آپ ہی نے فرمایا تھا کہ وہ خود بھی بہت بڑے بزنس مین تھے اور ان کے مدرسے میں دینی تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھایا جاتا تھا۔
مجھے مولانا کی پرانی تقریر کا ایک اور حصہ یاد آیا تو جھٹ سے کہہ دیا۔
ٹھیک ہے لیکن میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ میری تقریر مجھے ہی سنانے پر کیوں تلے ہیں؟
مولانا صاحب الجھن زدہ لہجے میں بولے۔
میں بتاتا ہوں، لیکن مجھے آپ کی تقریر کا ایک اور حصہ یاد آ گیا پہلے وہ سن لیں، آپ نے فرمایا تھا کہ امام قدوری کا ترجمہ موجودہ دور کے لحاظ سے بنتا ہے امام کمہار، اور امام خصاف کا ترجمہ بنتا ہے امام موچی، اس پر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جس طرح اس دور میں امام کمہار یا امام موچی ہو سکتے تھے تو اس دور میں امام کباڑیہ، امام برگر والا، امام انجینئر، ڈاکٹر وغیرہ کچھ اور بھی تو ہو سکتا ہے۔
جی سیٹھ صاحب مجھے یاد ہے، اور میری اس تقریر کا مقصد تھا کہ عالمِ دین ہوتے ہوئے کام کاج کرنے میں کوئی برائی نہیں، صرف ائمہ کرام ہی نہیں بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی مختلف کام کاج یا کاروبار سے ہی اپنی گزر اوقات کرتے تھے۔
لیکن میں ابھی بھی آپ کی بات نہیں سمجھ سکا، آپ میری پریشانی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
مولانا معذرت چاہتا ہوں، صرف ایک سوال اور، جس طرح آپ نے فرمایا کہ امام کباڑیہ یا امام برگر والا ہونے میں کوئی برائی نہیں تو امام قصائی ہونے میں کیا برائی ہے؟
تو میں نے کب کہا کہ برائی ہے؟
مولانا صاحب کے لہجے میں غصہ بڑھنے لگا تو میں نے گفتگو کو انجام تک پہنچانے کا ارادہ کر لیا۔
دیکھیں مولانا، آج سے تقریبا پندرہ دن پہلے آپ سے مارکیٹ میں ملاقات ہوئی تھی جب آپ دو ہفتے بعد آنے والی عید کے لیے انگیٹھی، سیخیں اور کوئلہ وغیرہ خرید رہے تھے، اس وقت آپ نے مذاق مذاق میں بڑے کام کی بات کی تھی کہ انسان کو ہمیشہ آنے والے وقت کی منصوبہ بندی پہلے سے تیار رکھنی چاہیے۔
اگر کھانے کی منصوبہ بندی دو ہفتے پہلے ہو سکتی ہے تو اتنے بڑے نقصان سے بچنے کی منصوبہ بندی ایک سال پہلے کیوں نہیں؟
اس بار مولانا صاحب نے مجھے نہیں ٹوکا، خاموشی سے صرف سر ہلا دیا۔
ان کی خاموشی دیکھ کر میں نے پھر بولنا شروع کیا۔
جب آپ خود تسلیم فرماتے ہیں کہ علماء کے کام کاج کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تو میرا سوال ہے کہ کیا آپ کے ادارے میں چند افراد بھی ایسے نہیں جو " امام قصائی " بننے پر تیار ہوں، علمی خدمات کے ساتھ اس کام کو بھی جاری رکھ سکیں؟
کیا ہمارے پاس چند ایسے ادارے بھی نہیں جو مالی لحاظ سے مضبوط ہوں، اور پورا سال اس کام سے وابستہ رہ سکیں؟
یقیناً ہیں، افراد بھی اور مالی لحاظ سے مضبوط ادارے بھی۔
مولانا صاحب نے سر ہلاتے ہوئے ایک اور مختصر جملہ کہا۔
بس میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ حضرات کے پاس سرمایہ بھی ہے، جگہ بھی ہے اور افرادی قوت بھی، کمی ہے تو صرف آپس کے اتفاق اور پلاننگ کی۔
تو آپ کے خیال میں یہ اتنے بڑے بڑے ادارے ہم بغیر پلاننگ کے چلا رہے ہیں؟
مولانا کا لہجہ طنز سے بھر پور تھا، شاید میری بات بری لگی تھی۔
معذرت چاہتا ہوں، میرا یہ مقصد نہیں تھا، مجھ سے الفاظ کے انتخاب میں غلطی ہو گئی، " طویل المیعاد منصوبہ بندی ( Long Term Planning ) " کہنا چاہتا تھا۔
وجہ یہ کہ آپ حضرات ہمیشہ فوری فائدے کو دیکھتے ہیں، جبکہ بڑے کاموں کے لیے بڑی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے، پھر کہیں جا کر ان کا نتیجہ نکلتا ہے۔ ابھی تو آپ صرف کھالوں کے ریٹ کو رو رہے ہیں حالات جس طرف جا رہے ہیں ہو سکتا ہے کل آپ کے کھالیں جمع کرنے پر ہی پابندی لگ جائے، نہ بھی لگی تو کمی ضرور آ جائے گی۔ اور یہی حال دیگر عطیات کو بھی ہو گا۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر چند بڑے ادارے اپنی جگہ اور پیسے کو استعمال کرتے ہوئے کھالوں کو لمبے عرصے کے لیے محفوظ کرنے کا انتظام کر لیں تو وقتِ مناسب پر انہیں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ تھوڑا سا پیسہ اور محنت نہ صرف بڑے نقصان سے بچا لیں گے بلکہ کئی گنا منافع بھی وصول ہوگا۔
ہممم۔۔۔ انہوں نے ایک لمبا سانس خارج کیا، اور گویا ہوئے :
آپ کی بات درست ہے، لیکن بڑے اداروں کی حد تک۔ ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں، چند لاکھ کی کھالوں کے لیے اتنا بڑا سیٹ اپ بہت مشکل ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی زیادہ فائدہ ہوگا۔ پورے سال میں صرف تین دن ہمارے پاس کھالیں جمع ہوتی ہیں۔
اب کی بار مولانا صاحب نے کئی جملے بولے تو میں سمجھ گیا کہ ان کا ذہن پریشانی کے حصار سے نکل کر سوچنے لگا ہے۔
مولانا آپ نے میری گفتگو کے کچھ حصے نظر انداز کر دیے۔ میں نے دو چیزوں کا ذکر کیا تھا، آپس کا اتفاق اور طویل المیعاد منصوبہ بندی۔
اب میری بات ذرا توجہ سے سنیں
جس طرح آپ کا ادارہ ہے ایسے بہت سے چھوٹے ادارے اس شہر میں اور بھی ہیں۔ آپ سب یا اکثر آپس میں اتفاق کر لیں تو اس میں سب کا فائدہ ہو جائے گا۔
برابر کا خرچ اور محنت کریں اور برابر کا فائدہ اٹھائیں۔
بات تو آپ کی درست ہے لیکن شاید سب ادارے اس پر متفق نہ ہوں۔ آپس میں اختلافات اتنے ہیں کہ یہ کام بہت مشکل ہوگا۔
مولانا، آپ کی سحر بیانی کس دن کام آئے گی؟ ایک اجلاس بلا کر مناسب انداز میں مسئلہ سامنے رکھیں جب سب کو فائدہ نظر آئے گا تو راضی ہو جائیں گے۔ رہے اختلافات تو وہ کہاں نہیں ہوتے۔ ہم کاروباری لوگوں کی بھی آپس میں ہزاروں دشمنیاں چلتی رہتی ہیں لیکن جب مفاد ہوتا ہے تو سب اکھٹے بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ کوشش تو کریں، پہلے سے کیوں ناکامی فرض کر رہے ہیں۔
ہممممم۔ مولانا نے ایک اور لمبا سانس خارج کیا اور کہنے لگے :
آپ کے بات درست ہے کوشش ضرور کرنی چاہیے۔۔۔ اور اگر کوئی بھی راضی نہ ہوا تو میرے پاس شہر سے باہر ایک جگہ ہے۔ وہاں آنے والے کئی سال تک مدرسہ بننے کا امکان نہیں اسے استعمال کروں گا۔ بلکہ وہاں اتنی گنجائش ہے کہ ہم کچھ معاوضہ کے عوض کئی اداروں کا مال وہاں رکھ سکتے ہیں۔
بلکہ ایک اور چیز میرے ذہن میں آ رہی ہے۔۔۔
مولانا نے خلاء میں نظریں جما کر سوچنے لگے۔
میرے کچھ شاگرد ہیں جو علمی لحاظ سے زیادہ قابل نہیں اور بیروزگار بھی ہیں انہیں اس کام میں لگایا جا سکتا ہے۔
اور اگر وہ مستقل طور پر اس کام سے وابستہ ہو گئے تو ان کے روزگار کے ساتھ مدرسے کا یہ کاروبار پورے سال چلایا جا سکتا ہے۔۔۔
یہ مولانا صاحب کا اخلاص تھا کہ وہ اسے مدرسے کا کاروبار ہی کہہ رہے تھے۔ شاید اسی اخلاص نے ان کی باتوں میں اثر پیدا کیا تھا۔
مثلا اگر پندرہ بیس شاگرد مختلف علاقوں میں دکانیں کھول لیں اور ہر دکان پر روزانہ دو جانور ذبح ہوں تو تیس چالیس کھالیں روزانہ تو اپنی ہی ہو جائیں گی۔ اس سے مدرسے کو اچھا خاصا سہارا لگ جائے گا اور ایک بے کار جگہ بھی کام میں آ جائے گی۔
مولانا بولنے پر آئے تو بولتے چلے گئے۔
میں سمجھ گیا کہ اب انہوں نے پریشانی کا طوق اتار پھینکا ہے۔
اب آپ نے خالصتاً کاروباری انداز میں سوچا ہے۔ اس پر مجھے آپ کی ایک اور تقریر یاد آ گئی غالباً آپ نے امام شافعی (رحمہ اللہ تعالی ) کا فرمان سنایا تھا کہ پریشانیاں اور مصیبتیں پتھروں کی مانند ہوتی ہیں، کم ہمت لوگ ان کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں اور ہمت والے انہی پتھروں پہ چڑھ کر بلندی پر فائز ہو جاتے ہیں۔
اس بار مولانا ہمیشہ کی طرح کھل کر مسکرائے اور کہنے لگے: سیٹھ صاحب، آپ نے میری ساری تقریریں رٹ رکھی ہیں؟
جواباً میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا :
مولانا آپ کی بات پر ایک اور چیز میرے ذہن میں آئی، مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور لوگوں کی نفسیات کو سمجھیں، اللہ کا شکر ہے ابھی بھی مسلمان حلال کی فکر کرتے ہیں، خصوصاً گوشت کے معاملے میں، حتی کہ حرام کمانے والا بھی حلال گوشت کو ہی ترجیح دیتا ہے اور مرغی بھی اپنے سامنے اونچی تکبیر سے ذبح کرواتا ہے۔
نفع نقصان تو رب کے ہاتھ میں ہے لیکن سوچیں کہ اگر آپ کی دکان پر بورڈ لگا ہو کہ فلاں مدرسے کے عالم دین اپنے ہاتھ سے شرعی طریقے کے مطابق ذبح کرتے ہیں، اور آپ کی دکان ہر نماز کے وقت بند بھی ہو جاتی ہو تو میں اپنے کاروباری تجربے کی روشنی میں لکھ کر دے سکتا ہوں کہ آپ کی دکان کبھی خسارے میں نہیں جائے گی۔
آپ چاہیں تو اپنی دکان کے گوشت کا برانڈ بھی بنا سکتے ہیں۔ دوسرے شہروں میں بھی اس کی شاخیں کھولی جا سکتی ہیں۔
بلکہ گوشت ہی کیا عوام تو ہر چیز میں ملاوٹ سے تنگ ہیں اگر آپ جیسے نیک اور ایماندار طبقہ فوڈ بزنس میں آ جائے گا تو لوگوں کو حلال اور خالص کھانے کو ملے گا اور آپ حضرات کے مالی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔
بس بس سیٹھ صاحب آپ بہت آگے نکل گئے ہمیں مدرسہ بھی چلانا ہے، کچھ بھی ہو اسے نہیں چھوڑ سکتے، یہی ہماری زندگی کا اصل مقصد ہے۔
میں ہرگز نہیں کہہ رہا کہ آپ مدرسہ چھوڑ دیں۔ آپ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے دونوں کام کنٹرول کر سکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کو اپنے ہاتھوں سے کام کرنا ہے، آپ کو صرف کنٹرول سنبھالنا ہے کام تو دوسرے لوگ کریں گے۔
اور اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کروڑوں روپے کی ضرورت ہوگی تو یہ ذہن سے نکال دیں۔ تقریباً 5 لاکھ سے چھوٹا موٹا سیٹ ایپ لگایا جا سکتا ہے۔
میرے ایک دوست کا یہی کاروبار ہے، زیادہ تفصیل تو نہیں جانتا لیکن اتنا معلوم ہے کہ صفائی ستھرائی کے بعد یہی چمڑا فٹ کے حساب سے بکتا ہے لیکن سمجھنے میں آسانی کے لیے ہم وزن سے حساب لگاتے ہیں۔ سال کے مختلف ایام میں اس کا ریٹ بڑھ کر 1200 روپے فی کلو تک بھی چلا جاتا ہے۔
ایک کھال 20 کلو کی فرض کر لیں۔ صفائی اور رنگائی وغیرہ کے بعد 10 کلو سمجھ لیں۔
اور ایک چمڑے پر آنے والے اخراجات 1500 لگا لیں، مثلا نمک، مختلف کیمیکل، گندھک، تیزاب، پانی، مزدوری، صفائی، رنگائی اور سیکیورٹی وغیرہ۔ یہ سب تقریبا دو ماہ کی محنت ہے۔ فی کلو پر منافع کا حساب آپ خود لگا لیں۔
اور چمڑا تو پھر بھی بہت سستا ہے لیکن لیدر پروڈکٹس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں یوں سمجھ لیں کہ یہ لوگ چمڑے سے مختلف اشیاء تیار کر کے 200 فیصد تک منافع کما رہے ہیں۔
کاروبار کے معاملے میں جیسی معاونت ومشورہ چاہیں گے میں ہر وقت حاضر ہوں۔ آپ اللہ کا نام لے کر شروع کریں۔ ضرورت ہوئی تو میں آپ کو اپنے دوست سے بھی ملوا دوں گا۔
ٹھیک ہے سیٹھ صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ، اللہ تعالی آپ کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے میں عید کے فوراً بعد علماء کا اجلاس بلا کر اس آئیڈیے پر کام شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے مہمانوں کے لیے جہاں اتنے پاپڑ بیلتے ہیں ایک یہ بھی سہی۔
مولانا کا لہجہ ان کے پختہ عزم کی گواہی دے رہا تھا۔ میں نے اپنا کام کر دیا تھا اس لیے اجازت لے کر چلا آیا۔
اللہ کے مہمانوں کی اس ادنی خدمت سے ملنے والے خوشی عید کی خوشی پر بھاری محسوس ہو رہی تھی۔
محمد یوسف جمال قادری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.