اہم خبریں

🌹 پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی حیات وخدمات 🌹 تحریر :✍🏻 مفتی محمدرمضان جامی

  

🌹 پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی حیات وخدمات 🌹

تحریر :✍🏻 مفتی محمدرمضان جامی

مفسر قرآن عظیم سیرت نگار،سندالمحققین، پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق قریشی رحمہ اللہ اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتاہے
 یادگار اسلاف پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی رحمہ اللہ5 مارچ1938ءمیں انڈیا کے ضلع امرتسر میں نامور بزرگ علامہ محمد بشیر الحق صدیقی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں پیدا ہوے ۔ انڈیا میں ابتدائی تعلیم کے مراحل سے گزر رہے تھے کہ مملکت خداداد پاکستان کا قیام معرض وجود میں آگیا۔
اپنی فیملی کے ساتھ ہجرت کرکے شاھدرہ لاہور تشریف لائے اور لاہور مسکن بنالیا ۔اپ کے والد گرامی انتہائی متبحر عالم دین،صوفی منش اور درویش صفت انسان تھے۔ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی صاحب نے اپنے والد گرامی سے فارسی،عربی سمیت تمام دینی کتب کی تکمیل کی ۔آپ کی  فیملی کچھ عرصہ تک  شاھدرہ لاہور میں مقیم رہی پھر  مستقل طور پر لائلپور فیصل آباد میں مقیم ہوگئے ۔
ڈاکٹر محمداسحاق قریشی رحمہ اللہ جن کے خمیر میں علم و عرفان کا ذوق رچا بسا تھا آپ نے شاھدرہ لاہور میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، میٹرک کے امتحان میں بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے شاھدرہ پہنچے تو شاھدرہ لاہور کے لوگوں نے علاقائی روایات کے مطابق پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے اس نونہال ملت کا والہانہ استقبال کیا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن اور اورنٹیئل کالج پنجاب یونیورسٹی سے نمایاں نمبروں  کے ساتھ ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس  کیا ۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج ساہیوال میں  بطور لیکچرار اپوائنٹ ہوے، متعدد شہروں کے کالجز میں خدمات انجام دینے کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل آباد تشریف لائے اور ریٹائرمنٹ تک گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔
اسی دوران ڈاکٹر صاحب مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے جن میں ڈائریکٹر کالجز فیصل آباد ڈویژن ،صدر شعبہ عربی و اسلامیات گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد بطور خاص شامل ہیں۔
گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے محی الدین اسلامک یونیورسٹی نیریاں شریف آزاد کشمیر میں بطور وائس چانسلر خدمات سر انجام دیں اور یونیورسٹی کو دنیا بھر میں مقبول کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر صاحب انتہائی متقی پارسا شخصیت اور بے پناہ اوصاف کے مالک تھے۔ اللہ تعالی نے انہیں تحریر و تقریر میں بے مثال ملکہ عطا فرمایا تھا جو چند ہی لوگوں کو عطا ہوتا ہے
انتہائی علمی گفتگو فرماتے تھے ۔چھوٹے چھوٹے جملوں میں انتہائی پر مغز کلام فرماتے، ہزاروں کے مجمع سے بھی خطاب فرماتے تو لوگوں پر سکتہ طاری ہو جاتا تھا،
عربی زبان و ادب پر گہرا عبور حاصل تھا آپ کو عربی نعت  میں پی ایچ ڈی کرنے پر اللہ تعالی نے جو عزت عطا فرمائی تو ایک نمایاں اعزاز ہے آپ خطاب میں عربی دوانین کے اشعار پڑھتے اور فارسی زبان وادب گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔
آپ ہمیشہ صوفیانہ افکار کو اپناتے آپ پیر خادم حسین چوراہی چوراشریف کے دست حق پرست پر بیعت تھے ۔تصوف سے گہرا لگاؤ تھا ۔آپ نے ایک درجن سے زائد سیرت ،تصوف اور مختلف موضوعات پہ کتب تصنیف فرمائیں ۔

ڈاکٹرصاحب فرماتے تھے کہ مجھے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طالب علمی دور میں جب کبھی موقع ملتا میں حضور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں اکتساب فیض کی غرض سے لائل پور حاضر ہوتا تو آپ کمال شفقت فرماتےکئی بار  اپنے درس حدیث میں زانوئے تلمذ طے کرنے کا اعزاز بخشا۔
ڈاکٹر صاحب ایک عظیم نقاد،محقق و ادیب تھے آپ کے دل میں ملت اسلامیہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی صاحب نے  اپریل 2002  میں مرکز تحقیق فیصل آباد کی بنیاد رکھی جس کا پہلا صدر دفتر جامعہ قادریہ رضویہ ٹرسٹ فیصل آباد میں قائم کیا گیا۔
مرکز تحقیق میں ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی رحمہ اللہ صدر صاحبزادہ عطاء المصطفی نوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نائب صدر ڈاکٹرعبدالشکور ساجد انصاری جنرل سیکرٹری منتخب ہوے اور پھر  ملک پاکستان کے درجنوں پروفیسرز،ڈاکٹرز اور دانشور حضرات مرکز تحقیق فیصل آباد کے پلیٹ فارم سے منسلک ہوگئے  اورڈاکٹر صاحب کی قیادت پہ اطمینان کا اظہار کیا۔
 مرکز تحقیق فیصل آباد کے پلیٹ فارم سے تقریبا نصف درجن سے زائد مختلف عنوانات پر ملکی سطح کے سیمینارز کا اہتمام کیا گیا۔ ان سیمینارز میں پیش کیے جانے والے مقالہ جات کو حتمی شکل دیکر شائع کیا گیا ۔
مجھے ایک سال مرکز تحقیق میں بطور ممبر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا کئی بار ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ڈاکٹر صاحب کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ، کم گو شستہ طبیعت اور نفیس عادات واطوار کے مالک تھے۔ تحقیق کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے دنیا بھر کے محققین سے رابطے میں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ مرکز تحقیق کی ایک میٹنگ میں  کہنے لگے کہ میری خواہش ہے کہ ملک بھر کی تمام یونیورسٹیز، کالجز اور مدارس اسلامیہ کے محققین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کروں اور  ایک موضوع پہ ان کے مقالہ جات لکھواؤں  تا کہ یہ اثاثہ  آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے۔
مرکز تحقیق فیصل آباد کے قیام کے بعد ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی صاحب نے جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد میں درس قرآن کا آغاز کیا جس میں مجھے بطور طالب علم حاضری کا شرف حاصل ہوا۔
درس قران میں  مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوتے تھے تھے جن میں پروفیسرز، ڈاکٹرز انجینئرز اور مدارس اسلامیہ کے طلبہ کی کثرت ہوا کرتی تھی ڈاکٹر صاحب ایک ایک آیت پر طویل   لیکچر دیا کرتے آیت کا شان نزول بتاتے اور مختلف تفاسیر کے حوالے سے نکات لکھواتے۔ جس سے ڈاکٹر صاحب کی علمی  گہرائی اور گیرائی کا اندازہ ہوتا تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی رحمہ اللہ  اور محسن اھل سنت صاحبزادہ عطاء المصطفی نوری رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان گہری محبت تھی جو آج تک دونوں خاندانوں میں قائم ہے۔ ان دونوں ہستیوں نے تمام یونیورسٹیز کالجز اور مدارس کے طلبہ کے لئے ایک علمی تحقیقی ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ جس میں ملک بھر سے دانشور حضرات نے تدریس کے فرائض سرانجام دیئے اس سات روزہ تربیتی ورکشاپ میں ملک بھر سے 70 سے زائد طلبہ نے شرکت کی
اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد ورکشاپ تھی جس میں اصول تحقیق پر گفتگو کی گئی اور طلباء کے تحقیقی مقالہ جات کو بامقصد بنانے کیلیے اصول تحقیق کے  متعدد موضوعات پر لیکچرز دئیے گئے۔

ڈاکٹر صاحب نے تفسیر ضیاء القرآن کی تکمیل پہ ضیاء القرآن شریف کے اوصاف پر ایک آرٹیکل لکھا جس  کے آخر میں لکھا کہ مصنف یعنی حضور ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے دماغ میں سیرت النبی پہ مشتمل کتاب کا مسودہ  بھی موجود ہے جس کا متوقع نام ضیاء النبی ہوسکتا ہے
ایک باردوران سفر راقم الحروف (محمدرمضان جامی) نے اس آرٹیکل کے حوالے سے استفسار کیا کہ کیسے آپ نے اتنی بڑی پیشین گوئی فرمادی تھی تو فرمایا کہ ضیاءالقرآن میں جا بجا بکھری سیرت النبی کی خوشبو کو محسوس کرکے میرے وجدان نے کہا کہ مصنف یعنی حضرت ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کے دماغ میں سیرت النبی پرمشتمل کتاب ضیاء النبی کا ایک مسودہ موجود ہے جس کا متوقع نام ضیاء النبی شریف ہوگا۔

 حضور ضیاءالامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس وجدان کو بہت پسند فرمایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پیر صاحب نے اسی موضوع پر کتاب لکھی جس کا نام ضیاء النبی شریف ہے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کا یہ وجدان ڈاکٹر صاحب کا روحانی تصرف تھا-

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ملک پاکستان میں خانقاہی نظام کی بحالی کے لیے کوشاں رہے۔ ملک پاکستان کے طول و عرض میں موجود متعدد سلاسل کی خانقاہوں کے مشائخ کے ساتھ گہرا تعلق تھا انہوں نے تصوف کے موضوع پر کتب لکھیں
ڈاکٹر صاحب خود بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ داتا علی ہجویری رحمہ اللہ کے عرس کے موقع پر مجھے خطاب کا موقع ملا  اس وقت کے وزیر اعلی میاں محمد نواز شریف صاحب بھی سٹیج پہ موجود تھے میں نے دوران خطاب اس خواہش کا اظہار کیا کہ داتا علی ہجویری کے نام پر ایک یونیورسٹی قائم کی جائے اور پنجاب بھر میں موجود خانقاہوں اور درباروں پر اس کے کیمپس تعمیر کیے جائیں تو میاں محمد نواز شریف نے اس خیال کو بہت پسند کیا فوری طور پر یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کردیا  اگرچہ تاحال اس پہ عمل نہیں ہوسکا ۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی رحمہ اللہ انتہائی اعلی زندگی گزارنے کے بعد دوبیٹوں  چاربیٹیوں ،ہزاروں شاگردوں اور محبت کرنیوالوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ واناالیہ راجعون

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.