💓غزالئی زماں علامہ کاظمی رح کی اپنے تلامذہ سے محبت کا ایک روح پرور واقعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زینت الواعظین، فخرالصالحین مولانا مفتی عبدالقادر رح کا شمار علامہ سید احمد سعید کاظمی رح کے اولین تلامذہ میں ہوتا ہے۔آپ ایک بلند پایہ عالم، شیریں بیاں خطیب، شفیق و کہنہ مشق استاد، سیاسی و سماجی شعور سے بہرہ ور کارکن ، صوفی منش اور درویش صفت دینی رہنما تھے۔ وعظ و تقریر میں قرآن و حدیث، مثنوی مولانا روم رح، گلستان سعدی، شاہنامہ اسلام اور بزرگان دین کے اقوال و واقعات اس خوبصورتی اور دل نشیں پیرائے میں بیان کرتے کہ لوگ گھنٹوں سنتے اور سیر نہ ہوتے۔ تحریک پاکستان کے دوران خانیوال شہرکو احراری اور کانگریسی رہنماوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر سید نوازش علی شاہ مرحوم اور دیگر اہل محبت کی پرزور فرمائش پر غزالئی زماں نے اپنے سب سے ہونہار شاگرد اور دینی خدمت کے جذبہ سے سرشار نوجوان مولانا عبدالقادر کو ڈھیروں دعاوں کے ساتھ مرکزی جامع مسجد خانیوال کی خطابت کے لئے نامزد فرمایا۔ مولانا اس وقت خواجہ غریب نواز رح کے عرس مبارک کی تقریب میں شرکت کے لئے اجمیر شریف بھارت گئے ہوئے تھے۔ واپس تشریف لائے تو کاظمی رح نے خانیوال کے لئے رخت سفر باندھنے کا حکم دیا اور وقت رخصت نصیحت فرمائیں مولانا وہاں جاکر خود کو کانوں سے بہرہ اور زبان سے گونگا جان کر کام کرنا۔ استاد گرامی کا پیغام واضح تھا،مولانا کہتے تھے میں نے ساری عمر اس نصیحت پر عمل کیا، نا کسی کی برائی سنی اور نا کسی کو طعن و تشیع کا جواب دیا۔ آپ کی شب و روز محنت، دینی حمیت ، سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کی بدولت چند ماہ میں شہر و دیہات کی سیاسی و مذہبی فضا یکسر تبدیل ہوگئی۔1946ء کے عام انتخابات میں مطالبہ پاکستان کی علمبردار مسلم لیگ کے امیدوار بڈھن شاہ مرحوم کو کانگرس و احرار کے حمائتی یونینوں پارٹی کے امیدوار فرید خاں ڈاھا کے مقابلے میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔
14 اگست 1947 ء کی صبح آزادی کا سورج طلوع ہوا تو تقریب آزادی پر سبز ہلالی پرچم لہرانے اور رضاکاروں کے دستہ سے سلامی لینے کی سعادت آپ کے حصہ میں آئی۔ جامعہ عنائتیہ، مدرسہ اسلامیہ عریبیہ جامع العلوم ، جامعہ مہریہ سعیدیہ سمیت خانیوال، کبیروالہ، سلانوالی، وہاڑی، شجاعباد اور دیگر شہروں میں درجنوں مساجد و مدارس کی بنیاد رکھی اورجمعیت ابرار ہند، انجمن اصلاح المسلمین اور متعدد تنظیمات قائم کرکے نوجوانوں کی اخلاقی و سماجی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ آپ نے اپنے اخلاق عالیہ اور دینی و روحانی ذوق و شوق سے سید ممتاز حسین شاہ سہروردی، ڈاکٹر سید نوازش علی شاہ، سید سبطین الرشید زیدی، صوفی محمد رمضان، ماسٹر فضل الرحمان، محمد صدیق فانی، بابا فقیر حسین جمالی پیر سہارے شاہ گولڑوی، مفتی فرید ہزاروی، ملک چراغ دین، پروفیسر شمشاد علی اشک، قاری غضنفر علی زیدی، مفتی عبدالحق عتیق ،حاجی محمد اکرم، حاجی محمد اسماعیل ٹھیکیدار، حاجی محمد صادق، صوفی محمد ریاض قادری، حاجی فیاض رضوی، برادر ساجد محمود رحما للہ اجمعین جیسے رجال کار اور نفوس قدسیہ کی کثیر تعداد تھی جسے اپنے گرد جمع کرلیا تھا۔
آپ کا اچانک وصال ہوا تو غزالئی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رح شدید علیکم تھے اور ایک روز قبل نشتر اسپتال سے گھر منتقل ہوئے تھے۔ ان کے معالجین نے درس و تقریر، ملنے جلنے اور سفر کرنے کی سختی سے ممانعت کررکھی تھی۔ ایسے میں مولانا عبدالقادر سعیدی رح کی رحلت کی خبر موصول ہوئی۔ آپ کی تجہیز و تکفین کا انتظام آپ کے آبائی علاقہ ضلع ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے دور افتادہ قصبہ جلال پور پیروالہ میں ہونا قرار پایا تھا۔ تلمیذ رشید کے وصال کی اندوہناک خبر سن کر طبیعت بے چین ہوگئی، غمزدہ آواز میں فرمایا مجھے مولانا کی نماز جنازہ میں شرکت کرنی ہے۔ اہل خانہ اور معالجین کے لئے یہ ایک نہایت پریشان کن صورت حال تھی۔صاحبزادگان و مخلصین نے منت سماجت کی کہ آپ کی جسمانی حالت اس خطرناک سفر کے قابل نہیں ہے۔ صاحبزادہ مظہر سعید کاظمی نے عرض کی ابا جی میں خود چلا جاتا ہوں اس لئے آپ گھر پر آرام کیجئے۔ معالجین نے سمجھایا کہ جلال پور پیروالہ کے سفر سے خدا ناخواستہ آپ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اپنے عزیز شاگرد سے بے پناہ محبت و شفقت کا دریا موجزن تھا اور پھر آپ کی قوت استدلال کے سامنے کون ٹھہر سکتا تھا۔رندھی ہوئی آواز اور غم ناک لہجے میں فرمایا: دیکھو اگر مولانا کے جنازے میں عدم شرکت کے قلق سے مجھے کچھ ہوگیا تو کون ذمہ دار ہوگا۔اس لئے بس گاڑی بلاول اورمجھے لے چلو۔بس اب سوائے تعمیل ارشاد کے کس کو یارا تھا کہ دم مارے۔ غزالئی زماں شدید تکلیف کی حالت میں اونچی نیچی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور کچے پکے راستوں پر سفر کی اذیت برداشت کرتے جلال پور پیروالہ کے دور افتادہ و پسماندہ قصبہ پہنچے۔ عاشق صادق کے جنازے میں شریک ہزاروں افراد آپ کے منتظر تھے۔ بعد نماز ظہر آپ نے نہایت کے باوجود کھڑے ہوکر نماز جنازہ کی امامت کی اور اس کے بعد کرسی پر بیٹھ کر مولانا کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعا فرمائی۔ اس موقع پر موجود حافظ محمد شریف مستری نے راقم کو بتایا کہ غزالئی زماں رح نے مولانا عبدالقادر سعیدی رح کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا:
"مولانا آپ بھی چلے گئے، آپ ہی تو میرے محرم راز تھے، اب میں راز و نیاز کی یہ باتیں کس سے کیا کروں گا؟"

دیکھنے والوں کا کہنا تھا کہ مولانا عبدالقادر چھپے رستم نکلے، ہمیں آج اندازہ ہوا کہ مولانا علمی میدان میں ہی نہیں باطنی دنیا میں بھی بلند مقام پر فائز تھے۔ علامہ کاظمی رح نے شدید علالت کی حالت میں طویل و تکلیف دہ سفر کے بعد مولانا عبدالقادر سعیدی کی نماز جنازہ میں شرکت کرکے اپنے شاگردوں سے قلبی محبت و پدرانہ شفقت کی ایک قابل تقلید مثال کردی۔ ہمیں یقین ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد خود غزالئی زماں کے وصال پر باغ جناں میں پہلے سے منتظر ان کے شاگرد رشید اور ہمارے ممدوح مولانا عبدالقادر سعیدی رح کی سعید روح نے بھی اسی طرح والہانہ عقیدت و محبت سے اپنے عظیم استاد و مغربی کا شاندار استقبال کیا ہوگا۔