✅موضوع💖:
امام احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حیات و خدمات
✍ ترتیب و تدوین
علا مہ سیدمحمدامدادحسین شاہ صدرمنھاج القران علماء کونسل لاہور
🌷نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ النبی الکریم ﷺ 🌷
بسم ﷲ الرحمن الرحیم
======================
اس دار فانی میں جن بزرگانِ دین نے اپنی بزرگیت و تصرفات و کرامت سے ہدایت کا چراغ کو پوری دنیا میں روشن کیا، ان میں سے کچھ ایسی انمول ہستیاں ہیں جنہیں دنیا کبھی ان کی علمی کارناموں سے یاد کرتی ہے تو کبھی تبلیغی خدمات کی حیثیت سے ۔ان بزرگان کو ان کے اخلاق و کردار اور روحانی مقام و مرتبے کے لحاظ سے بھی یا کیا جاتا ہے۔ان بزرگوں نے اپنے علم و علم اور تقوی و پرہیزگاری سے اسلام کی تعلیمات کو عام کیا اور کفر و شرک اور بدعت و خرافات کا قلع قمع کیا۔اس حیثیت سے اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان ایک ممتاز شناخت کے حامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے ان کو مجدد دین و ملت مانا ہے۔زیر نظر مضمون میں ان کی حیات و خدمات کے چند اہم گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ولادت با سعادت:آپ کی ولادت با سعادت بریلی شریف کے محلہ جسولی میں ۱۰؍ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابق 16؍ جون 1856ء کو ہوئی۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت، ج۱ ص۵۸ مکتبہ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
نام و نسب:آپ کا تاریخی نام ’’المختار‘‘ (۱۲۷۲ء)
ہے اورآپ کا اسم گرامی ’’محمد‘‘ ہے۔ اور آپ کے جدا مجد آپ کو احمد رضا کہہ کر پکارا کرتے اور آپ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغان کے جدامجد قیس عبدالرشید (جنہیں سرکار دو عالم، نورِ مجسم شاہ نبی آدم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضری دے کر دین اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی) کے پوتے ’’شرجنون‘‘ الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔ گویا آپ ایک صحابی رسول ﷺ کی اولاد میں سے ہیں۔
(شاہ احمد رضا خان بڑہیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی ، ص۳۵)
تکمیل تعلیم و فتوٰی نویسی : رسم بسم اﷲ خوانی کے بعد ہی دورِ تعلیم کا آغاز ہوگیااورصغر سنی می یعنی چار برس کی عمر میں قرآن مجید کا ناظرہ ختم کرلیا اور اپنے ہم عمر بچے سے آگے نکل گئے۔ آپ کی خدادادذہانت حاصل تھی اسی وجہ سے چھ سال کے عمر میں ہی آپ نے بریلی شریف میں منعقدہ پروگرام موسوم بہ ’’محفلِ میلاد النبی ﷺ‘‘ میں میلاد النبی کے موضوع پر ایک عظیم الشان خطاب فرمایا۔ پھر آپ نے اردو، فارسی اورعربی کی ابتدائی کتابیں مرزا غلام قادری بیگ سے حاصل کیں اور اکیس علوم کی تعلیم آپ نے اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان سے حاصل کی ۔ ان میں سے کچھ رقم قلم ہیں۔ علم تفسیر، علم حدیث، علم العقائد و الکلام، علم فلسفہ، کتب فقیہ حنفی و شافعی مالکی و حنبلی، اصولِ فقیہ ، اصولِ حدیث، علم تکسیر، علم نجوم وغیرہ ۔اور آٹھ سال کی عمر میں آپ نے فن نحو کی مشہور و معروف کتاب ’’ہدایہ النحو‘‘ کی عربی شرح لکھی۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کے عمر میں یعنی 16؍ شعبان المعظم 1286ھ بمطابق 19؍ نومبر 1869ء کو جملہ مروجہ علوم و فنون سے فارغِ التصیل ہوئے اور ’’العلماء ورثتہ الانبیاء‘‘ کا تاج آپ کے سر پر رکھا گیا۔ اسی دن آپ نے رضاعت کے متعلق پہلا فتوی لکھا، جواب بالکل درست تھا، والد ماجد علامہ نقی علی بریلوی (م1297ھ )نے خوش ہوکر فتوی نویسی کی اجازت دے دی اور مسند افتا پر بٹھا دیا۔ پروفیسر محمود احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’مولانا احمد رضا خاں رحمتہ اﷲ علیہ نے تیرہ سال دس مہینے اور چار دن کی عمر میں 16 شعبان 1286ھ کو اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان کی نگرانی میں فتوی نویسی کا آغاز کیا۔سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتوی نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔ پھر جب 1297ھ میں مولانا نقی علی خان کا انتقال ہو تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتوی نویسی کے فرائض انجام دینے لگے۔ آپ کے فتوی کا انداز آپ کے کتب فتوی سے کیا جاسکتا ہے
۔ (حیات مولانا احمد رضا خان بریلوی، از پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد، مطبوعہ کراچی ص۵۶)
سلسلہ ارادت و طریقت : ۱۲۹۴ھ / ۱۸۷۷ء کو بغرض بیعت اپنے والد محترم کے ہمراہ کا شانہ مرشد حضرت آلِ رسول مارہروی (علیہ رحمتہ و الرضوان، م ۱۸۷۸ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہوکر اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے۔ اعلیحضرت نے اپنے دیوان میں مرشد کے شان میں ایک منقبت لکھی جس کا مطلع یہ ہے۔
خو شاد لے کہ دہند ولائے آلِ رسول
خوشامردے کہ کنندس فدائے آلِ رسول
آپ کو مندرجہ ذیل سلاسل میں اجازت تھی۔ سلسلہ قادریہ برکاتیہ جدیدہ ، سلسلہ قادریہ آبابیہ قدیمہ، سلسلہ قادریہ الھدیہ، سلسلہ قادریہ رزاقیہ، سلسلہ قادریہ منوریہ، سلسلہ چشتیہ محبوبیہ و احدیہ، سلسلہ چشتیہ نظامیہ قدیمہ، سلسلہ سہروردیہ واحدیہ ، سلسلہ سہروردیہ فضلیہ، سلسلہ علویہ منائبہ، سلسلہ بدیعیہ مداریہ، سلسلہ نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ، سلسلہ نقشبندیہ علائیہ علویہ۔ ان سلاسل میں اجازت کے علاوہ اربعہ مصافحات کی بھی سند ملی۔
زیارت حرمین شریفین :ذو الحجہ ۱۲۹۴ھ مطابق دسمبر ۱۸۷۷ء میں پہلی بار آپ نے زیارت حرمین شریفین اور طوافِ کعبہ فرمایا۔ اسی موقع پر امام شافعیہ حسین ابن صالح نے آپ کو دیکھکر فرمایا تھا ’’انی لاجد نوراﷲ من ھذا الجبین‘‘ اور آپ کو سلسلہ قادریہ کی سند اپنے دستخط خاص کے ساتھ عطا فرمائی ،نیز صحاح ستہ کی بھی سند مرحمت فرمائی۔ دوسری بار آپ نے ربیع الاوّل ۱۳۲۴ھ بمطابق اپریل ۱۹۰۶ء کو بارگاہِ رسالت میں حاضری دی۔ ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں قیام رہا۔ اسی دوران بڑے بڑے علماء آپ کی علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھکر آپ کی نورانی ہاتھوں پر مرید ہوئے اور آپ کو استاد وپیشوا مانا۔ اس سفر مبارک میں جو تین اہم کارنامے منظر عام پر آئے وہ یہ ہیں ۔ (۱) بحالت بیداری آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔ (۲) ۲۵؍ ذی الحجہ کو آپ رحمتہ اﷲ نے علماء نجد کی طرف سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے علم غیب کے متعلق پانچ سوالات کے جواب میں شدت بخار کے باوجود بغیر کسی کتب کو دیکھے صرف آٹھ گھنٹوں میں عربی زبان کے اندر ایک کتاب موسوم بہ الدولہ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ لکھی، جس پر علماے عرب نے نہ صرف داد سے نوازابلکہ شریف مکہ نے وہ کتاب سطر بہ سطر لفظ بہ لفظ سماعت کی۔ (۳) اور آپ کو علماء عرب نے ’’مجدّد ماء ۃ حاضرۃ‘‘ کے لقب سے نوازا ۔
علوم و فنون میں مہارت :ایک سو پانچ علوم پر آپ کو مہارت تھی۔ سید ریاست علی قادری صاحب نے اپنے مقالہ ’’امام احمد رضا کی جدید علوم و فنون پر دسترس‘‘ میں جدید تحقیق و مطالعہ ثابت کیا ہے کہ اعلیٰ حضرت کو ۱۰۵ علوم و فنون پر دسترس و مہارت تامہ و کامل حاصل تھی۔
علمی آثار :حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اﷲ علیہ ایک کثیر التصانیف بزرگ تھے ۔ آپ کی ایک ہزار سے بھی زائد تصانیف ہیں۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی زبان میں مختلف فنون پر آپ کی ۵۵۰ سے زائد کتب کے نام منظر پر آچکی ہیں۔ ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ : یوں تو آپ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک ہزاروں فتوٰے لکھے۔ لیکن سب کو نقل نہ کیا جاسکا۔ جو نقل کرلئے گئے تھے ان کا نام العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رکھا گیا۔ فتاوٰی رضویہ جدید کی ۳۳ جلدیں ہیں جن کے کل صفحات ۲۲۰۰۰ سے زیادہ، کل سوالات مع جوابات ۶۸۴۷ اور کل رسائل ۲۰۶ہیں۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجذن ہے۔ قرآن و حدیث، فقہ، منطق اور علم کلام سے مذین ہے۔
نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان: اس کتاب میں آپ نے سائنس دانوں کے اس نظریہ کو رد فرمایا جو زمیں کی گردش کے بارے میں ہے۔
جدا لممتار علی الدرالمختار: علامہ ابن عابدین شامی کی رد المختار شرح ’’در مختار‘‘ پر عربی حواشی ہیں۔
الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبہ: دوسری بار حج میں آپ نے ۸ گھنٹے میں لکھی۔
کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراھم (۱۹۰۶ء) : جوکاغذی کرنسی سے متعلق علماء حرمین کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہیں۔
کنز الایمان:اعلیٰ حضرت رحمتہ اﷲ علیہ کی تفسیری مہارت کا ایک شاہکار آپ کا ترجمہ قرآن ’’کنز الایمان ‘‘ بھی ہے۔ آپ نے عشق و محبت میں ڈوب کر قرآن مجید کا عمدہ اور مثالی ترجمہ کیا جس کے بارے میں محدث اعظم فرماتے ہیں: علم قرآن کا اندازہ صرف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثال سابق نہ عربی میں نہ فارسی میں نہ اردو زبان میں ہے، اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جاسکتا، جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں قرآن (کی روح) ہے۔ جامع الاحادیث ،ج ۸م از حنیف خان رضوی، مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز، لاہور، ص۱۰۱)
نعتیہ کلام : ۱۳۲۵ھ سے ۱۹۰۷ء۔ آپ نے اردو، فارسی، عربی تین زبانوں میں نعت گوئی و منقبت، قصیدہ نگاری کی۔ آپ کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے۔ پہلی دو جلدیں آپ کی حیات طیبہ میں اور تیسری بعد وفات شائع ہوئی۔ حدائق بخشش اردو نعتیہ شاعری کا ایک انمول تحفہ ہے
جس نے بعد میں آنی والی نسل کے نعت گو شعراء کو بہت ہی متأثر کیا۔آپ کے دیوان کایہ شعر جو آپ کے استاد نے خود آپ کے مقطع میں لکھے ہے۔ ع ملکِ سُخن کے شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیئے ہے (داغ دہلوی)
القابات و آداب :علمائے عرب و عجم، قلم کاروں و دانشوروں نے جن القابات و آداب سے آپ کو یاد فرمایا ہے ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔ عالم اہلسنت ، امام و پیشوا، استاد معظم، سیدنا مرشد، یکتائے زمانہ، ایسے وقت کا یگانہ ، صاحب تحقیق و تدقیق و تنفیح ، علم و فضل کے دائر کا مرکز، حجۃ اﷲ فی الارض ، فخر السلف، بقیۃ الخلف، شیخ الاسلام و المسلمین ، مجدد اعظم، شاہ ملک سخن، امام اہلسنت، عظیم العلم، موئید ملت طاہرہ، مجدد ملت حاضرہ محدث بریلوی، فقیہ العصر، سرتاج الفقہاء ۔ ’’اعلیٰحضرت ‘‘ کا لقب آپ کو سید وارث علی شاہ نے دیا تھا۔ (چہرہ والضحٰی از مولانا الہی بخش قادری ، مطبوعہ غلامانِ قطب مدینہ، لاہور ، ص ۱۰۵ / سوانح اعلیٰحضرت)
مجدد ماء ۃ حاضرہ : ۱۳۱۸ھ بمطابق ۱۹۰۰ء کو پٹنہ کے مقام پر عظیم الشان فقیدالمثال جلسئہ عام میں آپکو علماء بر صغیر ہند کی موجودگی میں ’’مجدد مائۃ حاضرہ‘‘ کا لقب دیا گیا جسکی تائید ہندوستان کے تمام علماء متفقہ طور پر کی۔ (سوانح اعلیٰحضرت)
تقویٰ و پرہیز گاری : مولانا حسنین رضا خان صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے ہم عمروں سے اور بعض بڑوں کے بیان سے معلوم ہواکہ وہ بدو (ابتدائے) شعور ہی سے نمازِ با جماعت کے سخت پابند رہے۔ گویا قبل بلوغ ہی وہ اصحاب ترتیب کے ذیل میں دخل ہوچکے تھے اور وقتِ وفات تک صاحب ترتیب ہی رہے اور ساتھ ہی محافظت روزہ اور نگاہ کی حفاظت فرمائے۔ (سیرت اعلیٰحضرت از مولانا حسنین رضا خان، مطبوعہ کراچی۔ ص۴۸)
وفات حسرت آیات : اعلیٰ حضرت رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی وفات سے ۴ ماہ ۲۲ دن قبل خود اپنے وصال کی خبر دے کر ایک آیت قرآنی سے سال وفات کا استخراج فرمایا تھا۔ وہ آیت مبارکہ یہ ہے ۔ وَیُطَافُ عَلَیْہِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ (پارہ ۲۹، سورۃ دہر، آیت ۱۵، سوانح امام احمد رضا، ص۳۸۴، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )، پھر یوں ہوا کہ 25 صفر المظفر 1330ھ بمطابق 1921ء کو بروز جمعۃ المبارک 2بجکے 38 منٹ پرجب مؤذن نے کہا ’’حی علی الفلاح‘‘ تو ادھر اعلیٰحضرت عظیم البرکت کی روح اقدس مسلسل کئی سال تک محنت کرنے کے بعد کامیابی کی طرف بڑھنے لگی اور اس آیت کریمہ کا مصداق بن گئی۔ یا ایتھاالنفس المطمئنہ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ۔
خلفاء و تلامذہ : اس بر صغیر میں آپکے تقریباً ۷۷خلفاء ہیں جبکہ تلامذہ کی تعدادبے شمار ہے۔ جس کا ذکر سوانح اعلیٰحضرت میں مفصل ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں