اہم خبریں

10 محرم الحرام یومِ شہادت امام عالی مقام نواسہ رسولﷺ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام


 سلام بحضور سیّد الشہداء امام حسین​

از: ابو الاثر حفیظ جالندھری
 لباس ہے پھٹا ہوا ، غبار میں اٹا ہوا
تمام  جسمِ نازنیں  چھدا ہوا  کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حسین ہے  نبی کا نورِ عین ہے​
یہ جسکی ایک ضرب سے ،کمالِ فنِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغ  دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اٹھی صدائے الاماں زبان شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حسین ہے  نبی کا نورِ عین ہے​
عبا بھی تار تار ہے تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی ، فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محو کارزار ہے
یہ بالیقیں حسین ہے  نبی کا  نورِ عین ہے​
دلاوری میں فرد ہے  بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جسکے دبدے سے دشمنوں کا رنگ زرد ہے
حبیبِ مصطفی ہے  یہ مجاہدِ خدا ہے  یہ
کہ جسطرف اٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حسین ہے  نبی کا  نورِ عین ہے​
اُدھر سپاہِ شام ہے  ہزار انتظام  ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں اِدھر فقط امام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان  ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے​
از: ابو الاثر حفیظ جالندھری
 
 یومِ عاشورہ کے دن کا اہم پیغام!
________
از قلم!!!!!!!!
اشفاق احمد مدنی کھیڑا

کہ
           واقع کربلا ہمیں حق وباطل کا فرق، حق و انصاف صبر و استقلال ،بھائی چارے ، امن و استقامت اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے،
                       باطل کے سامنے سینہ سپر اور حق پر سب کچھ نچھاورکرنا ہی فلسفہ حسینیت ہے ۔
          اس دن حق و باطل کے درمیان  وہ جنگ لڑی گئی جو قیامت تک مسلمانوں کو ظلم اور بربریت کیخلاف جہاد کرنے کا درس دیتی رہے گی۔
         یوم عاشورہ کے موقع پر ہمیں اپنی زندگیوں کو حقیقی معنوں  حضرت سیدنا امام حسین (علیہ السلام ،رضی اللہُ تعالٰی عنہُ) کے طرزِ زندگی پر عمل پیرا ہو کر انسان دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
          واقعہ کربلا کی روشنی میں  ہم اپنے معاشرے میں ظلم و زیادتی اور نا انصافی کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔ مظلوم اور حق کا ساتھ دیا جائے۔
          واقعہ کربلا دین کی سر بلندی کےلیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا درس دیتا ہے۔۔     
                حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی میدان کربلا میں دی گئی لازوال قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اور انکی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر محبت اہلبیت کا ثبوت دیں۔

  حسین زندہ ہے تا قیامت حسینیت نوں زوال کوئنی۔
            حسین ربّ دی قسم تیڈی اس دنیا تے مثال کوئنی۔

  حسین ربّ دا انعام ہووی
          حسین ساڈا سلام ہووی۔

سلام از راہ!
اشفاق احمد مدنی کھیڑا مظفرگڑھ
 
 10 محرم الحرام یومِ شہادت امام عالی مقام نواسہ رسولﷺ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام  
 ترتیب! محمد افتخار غزالی
 ہر سال محرم الحرام کی آمد پر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد تازہ ہوتی ہے، ہر مسلمان شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات میں رطب اللسان نظر آتا ہے، مختلف پروگراموں اور جلسوں کے ذریعہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی تفصیلات پر روشنی ڈالی جاتی ہے، نواسۂ رسول جگر گوشۂ نبی کی شہادت ، اسلامی تاریخ کا ایک ایسا عظیم واقعہ ہے کہ صدیوں اس کی یاد تازہ رہے گی اور انسانیت کے لئے مشعل راہ کا کام دے گی، امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو رسم کی شکل دینے کی عادی ہوچکی ہے، شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بھی سالانہ رسم کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ماہِ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ اس واقعہ کا رسمی طورپر مذاکرہ کرکے یہ اطمینان کرلیاجاتا ہے کہ ہم نے نواسۂ رسول سے وابستگی کا حق ادا کردیا، اسلامی تاریخ کا ہر واقعہ اپنے اندر عبرت عظمت کا بے پناہ سامان رکھتا ہے اور عملی زندگی میں اس سے بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کسی بھی حادثہ اور واقعہ سے عملی رہنمائی حاصل کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے، جبکہ زندہ قومیں ہمیشہ ماضی سے روشنی حاصل کرتی ہوئی مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔
حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور کربلا کی سرزمین پر پیش آئے واقعات کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیاجائے تو اس سے بے شمار نکات اخذ کئے جاسکتے ہیں، جن کے ذریعہ عملی زندگی میں بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
 حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا سب سے بنیادی پیغام یہ ہے کہ آدمی کو حق اور دینِ حق سے اس درجہ وابستگی ہوکہ وہ حق کے لئے جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے اور اگر جان کی قربانی دے کر حق کی حفاظت کی جاسکتی ہو تو اس میں کسی طرح کا پس و پیش نہ کرے۔ یزید کی بیعت کے وقت جو صورتحال تھی اس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اسلامی نظام حکومت اپنی ڈگر سے ہٹ رہا ہے۔ نبی کریم اور خلفائے راشدین کے دور میں خلافت کا نظام رائج تھا اور اسلام جس نظام حکومت کی بنیاد رکھتا ہے وہ یہی نظام خلافت ہے۔ یزید کی آمد کے ساتھ اسلامی نظام حکومت خلافت کی ڈگر سے ہٹ کر ملوکیت میں تبدیل ہوگیا اور یہ اسلامی نظام زندگی میں ایسی اساسی تبدیلی تھی کہ جس کے اثرات صدیوں تک باقی رہے
یزید کا اقتدار پر آنا خطرناک تبدیلی کا پیش خیمہ تھا۔ اسلامی نظام زندگی بالکل الٹ کر رکھ دیا جارہا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان کی قربانی نہ دی ہوتی تو اسلامی خلافت کے تصور کا کتابوں میں محفوظ رہنا بھی مشکل ہوتا۔ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ اس وقت ملوکیت کی مخالفت کرنا اور اس کے آگے ڈٹے رہنا وقت کا تقاضہ ہے، اس لئے انہوں نے اپنی جان کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا۔ بیعت یزید کے وقت کیا صورتحال تھی اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اقدام جہاد کیوں کیا۔ اس کا اندازہ آپ کے ان حالات میں دئیے گئے ایک خطبہ سے ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا:'' اے لوگو!
رسول نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرمات الٰہی کو حلال کرنے والے ، سنت رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور اس کو قولاً و عملاً غیرت نہ آئی تو خدا کو حق ہے کہ اس کو دوزخ میں ڈال دے۔ لوگو! خبردار ہوجاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی ہے۔ رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الٰہی کو توڑا جارہا ہے۔ خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کررہا ہے اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال ۔ مالِ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ اس لئے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے۔'' ( ابن الاثیر بحوالہ سیرالصحابہ) اس خطبہ کے ایک ایک لفظ سے غیرتِ اسلامی جھلکتی ہے اور حفاظتِ حق کا وہ جذبہ ظاہر ہوتا ہے جس کے تحت حضرت حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان کی بھی پرواہ نہ کی۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات کے لئے جان کی قربانی دی۔ انہوں نے اپنے عمل سے بتادیا کہ حق کے لئے سرکٹایاجاسکتا ہے لیکن باطل کے آگے سرنگوں ہونا مومن کی شان نہیں۔ مومن کا سر حق کے لئے کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتا۔ 
ترتیب! محمد افتخار غزالی
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.