مجھے ایک بار ایران کے ایک گمنام قصبے میں جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ اصفہان اور شیراز کے درمیان تھا‘ میں اس کا نام بھول گیا ہوں‘ مجھے وہاں رات گزارنا پڑ گئی‘ میں یہ جان کر حیران رہ گیا پورے قصبے میں فریج نہیں تھا‘ میزبان نے بتایا ہم خوراک کو فریج میں رکھنا گناہ سمجھتے ہیں‘ میں حیران رہ گیا‘ وہ بولا‘ شاہ ایران کے دور میں حکومت عوام کو فریج خریدنے کی ترغیب دیتی تھی‘ قسطوں پر ٹی وی اور فریج مل جاتے تھے‘ پورے شہر نے فریج خرید لیے۔
ہمیں چند دن بعد احساس ہوا ہمارے دل تنگ ہو گئے ہیں‘ ہم نے فالتو کھانا فریجوں میں رکھنا شروع کر دیا ہے‘ لوگ اس سے پہلے اضافی کھانا ضرورت مندوں یا ہمسایوں میں بانٹ دیا کرتے تھے‘ ہم میں سے ہر شخص اپنی ڈش ہمسائے کے گھر بھجواتا تھا اور ہمسائے اپنا کھانا ہمیں دے دیتے تھے‘ فریج نے میزبانی اور محبت کا یہ سلسلہ روک دیا‘ ہمارے امام صاحب نے ایک دن پورے شہر کو اکٹھا کیا اور فریج کو حرام قرار دے دیا‘ حکومت نے بہت زور لگایا لیکن ہم لوگوں نے اپنے فریج بیچ دیے یا پھر اپنے دور دراز کے رشتے داروں کو دے دیے‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ہمارے قصبے میں فریج واپس نہیں آیا۔
میں نے پوچھا اس سے کیا فائدہ ہوا؟ وہ ہنس کر بولا ”بہت فائدہ ہوا‘ ہمارے پورے شہر میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا‘ لوگ پیٹ بھر کرکھانا کھاتے ہیں اور باقی کھانا کسی نہ کسی مسکین‘ حاجت مند یا بھوکے کو دے دیتے ہیں‘ ہم لوگ ہمسایوں میں بھی کھانا بانٹتے ہیں یوں پورے شہر میں کوئی بھوکا نہیں رہتا“
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں