جناب وزیراعظم پاکستان
مسندِ اقتدار پر بیٹھے آپ کیا جانیں ، تین ماہ لاک ڈاؤن کی اذیت کیا ہے، لیکن اگر فرصت ملے تو قوم کی بیٹی کی اس فریاد 🙏 اور داستانِ کرب کو پڑھ لیں،
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
ہم دو بہنیں ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں. دونوں بہنوں کی ماہانہ تنخواہ ملاکر 30 ھزار تھی. جس سے دس ہزار گھر کا کرایہ دیتے تھے ، دو ہزار دادی اماں کی دوائی کے لیے رکھتے تھے، تین چھوٹے بہن بھائیوں کی اسکول فیس، جیب خرچی کے تین ہزار رکھتے تھے، باقی کے 15000 سے پورا مہینہ گذارا کرتے تھے، سبزی اور بجلی بل کے لیے گھر پر پانچ ھزار کی ٹیوشن پڑھایا کرتی تھیں.
میرے والد کی بھی کوئی ریگولر جاب نہیں ہے، کبھی مزدوری لگ جاتی تھی کبھی نہیں تھی، لیکن پچھلے تین ماہ سے گھر پر بیٹھے ہیں.
آپ کے دور اندیشانہ فیصلے، کورونا کو پھیلنے سے تو نہیں روک سکے لیکن ہماری چھوٹی سے خوشیوں کو یقیناً برباد کر گئے ہیں.
کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ریاستِ مدینہ میں ایسا وقت بھی آئے گا، رعایا بھوک سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوگی، بیٹیوں کی عزت کی بولیاں لگیں گی اور #راعی اپنی زوجہ کے ساتھ نتھیا گلی کی سیر کر رہا ہوگا.
ہم سندہ کے لوگ تو ویسے ہی حکومتِ یزیدیہ میں رہ رہے ہیں، جہاں غریب کو روٹی کپڑا مکان کا نعرہ تو دیا جاتا ہے لیکن اصل میں ان سے جینا چھینا جاتا ہے.
آپ کے وعدوں اور اماں کے مرشد طارق جمیل کے شاہانہ قصیدوں سے سوچا شاید عمر بن عبدالعزیز کا دور لوٹ کے آیا ہے،،،،
لیکن جو ہم پر قیامت گذر رہی ہے اس کے بعد سمجھتی ہوں اس سے تو برطانیہ کی غلامی بہتر تھی.
تین ماہ سے تنخواہ بند، ٹیوشن بند، بابا کی مزدوری بند،
بس گھر کے اثاثے بیچ کر گھر کا کرایہ دے رہے ہیں اثاثے بھی کیا اماں کو جہیز میں ملنے والا آدھا تولہ سونا 😥
غربت دیکھ کر دادی اماں نے دوائی لینے سے انکار کر دیا اور یوں پندرہ روز کے اندر ایک فیملی میمبر کا آٹا اور دو ہزار کی دوائی کے پیسے بچ گئے.
رمضان المبارک میں پانی ہی سب سے بڑی نعمت تھی، اماں چھوٹے بہن بھائیوں کو باہر جانیں نہیں دیتیں تھیں کہ کہیں پڑوسیوں گھروں کے سامنے فروٹ کے چھلکے دیکھ کر مایوس نہ ہوں.
چھوٹے بہن بھائیوں کے عید کپڑوں نے کافی پریشان رکھا، اماں کو بھیجا کہ پڑوس سے اگر سلائی کے کپڑے مل جائیں تو سلائی کرکے چھوٹوں کو عید سوٹ دلوائیں، لیکن وہاں سے بھی مایوسی ہوئی.
مایوس ہوکر اسکول مالک سے رابطہ کیا، انہوں نے تین ماہ کا فیس ریکارڈ دکھایا تو ریکوری صفر تھی، میں چپ چاپ اٹھنے لگی تھی تو انہوں نے پانچ ہزار روپے دیتے کہا بیٹا حالات یہ ہیں کہ قرضہ کے اوپر قرضہ لیکر کرایہ دے رہے ہیں. پاکستان کے لاکھوں پرائیویٹ اسکولز کا یہی حال ہے، سترہ لاکھ اساتذہ نہیں سترہ لاکھ خاندان فاقہ کشی میں مبتلا ہیں.
اے ریاستِ مدینہ کے داعی،،،
اب تو عزت کے علاوہ کچھ بیچنے کو بچا ہی نہیں ہے. 😥
مالکِ مکان کو جب گھر کے باہر للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی ہوں تو دل کرتا ہے زمین جگہ دے دے اور زمین کے اندر دھنس جاؤں، لیکن سوچتی ہوں کہ یہاں تو خواتین کے لاش بھی محفوظ نہیں ہیں.
اے ظلّ الہی !!!!
اگر دل رکھتے ہو تو قوم کی بیٹی کی اس فریاد پر خدارا ذرا غور کرنا.
ملک میں سترہ لاکھ پرائیویٹ اسکول ٹیچرز بے روزگار ہوئے ہیں، شاید ہر گھر کی یہی کہانی ہو، ہم ایسے پیشے سے وابستہ ہیں کہ نہ تو ہاتھ پھیلا سکتے ہیں اور نہ ہی امداد کے لئے لائن میں کھڑے ہوسکتے ہیں، ہماری سفید پوشی کا بھرم رکھنا....
چیف جسٹس بار کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فی وکیل کو 12000 روپے دلواتے ہیں لیکن قوم کے ان معماروں کا کسی نے نہیں سوچا😥
نہ تو ہمارے ایم پی ایز، ایم این اوز کو کبھی خیال آیا اور نہ تو کسی وزیر کبیر نے کبھی بیان دیا. کیونکہ ہم الیکشن میں کام آنے والے مہرے نہیں ہیں اور نہ ہی کالی وردی والوں کی طرح ججز کے حق میں نعرے لگانے والے ہیں.
میں قوم کی بیٹی آپ کی خدمت میں ان سترہ لاکھ خاندانوں کی فریاد رکھتی ہوں، تمام پرائیویٹ اسکول ملازمین کو لاک ڈاؤن کے دوراں قرض حسنہ کے طور پر ماہانہ الاؤنس دیا جائے، تا کہ کوئی بیٹی بھیڑیوں کے نذر ہونے سے بچ جائے.
اے داعی ریاست مدینہ،،،
اگر یہ نہیں کر سکتے ہو تو ایک کام کریں، ہمیں چھ فوٹ زمین کا ٹکڑا دیا جائے جہاں سکون سے سو سکیں، اور مرنے کے بعد کسی کی درندگی کا شکار نہ ہو سکیں.
🙏🙏🙏
آپ کی.............
(باشعور قومیں تو ہمیں معمارِ قوم کہتی ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں یہ آپ پر چھوڑتی ہوں)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں