کیا 12/مئی کی صبح کو ٹریا ستارہ کےطلوع ھوتے ھی دنیا سے کورونا وائرس کا خاتمہ ھوجائے گا؟ ؟؟
حدیث ثریا سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
از: نبیرہ اعلیحضرت، خطیب اعظم حضرت علامہ توصیف رضا خاں قادری
بریلوی ۔۔۔مرکز اھلسنت خانقاہ رضویہ درگاہ اعلیحضرت بریلی شریف۔۔۔۔۔
====================
اس وقت دنیا کے بھت سے ملکوں اور خطوں میں 12/ مئی اور ثریا ستارہ کے
حوالے سے ایک عجب قسم کی اٹکل بازی اور ایک لایعنی بحث شروع ہو گئی
ھے۔۔۔افسوس کی بات تو یہ ھے کہ اس قسم کی غیر قطعی باتوں کو احادیث کریمہ
کا حوالہ دے کر بڑے باوثوق انداز میں دین و مذھب کی قطعی بات اور ایک
لازمی عقیدہ بنا کر پھیلانا جارھا ھے کہ حدیث شریف میں ھے کہ جب 12/ مئی
کو ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو اس وقت پورے روئے زمین سے کورونا وائرس کا
خاتمہ ھوجائے گا ۔۔۔۔
حیرت انگیز طور پر یہ دعوی اسلام کے لازمی و قطعی عقیدے کے طور پر دنیا
والوں کے سامنے پیش کیا جارھا ھے۔۔۔اس وقت یہ دعوی سوشل میڈیا پر بلکہ
پاکستان کے کچھ ٹی وی چینلوں پر اتنی گرم جوشی کے ساتھ نشر کیا جارھا ھے کہ
اس کی بازگشت گلی محلوں پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں میں بھی ھورھی ھے
۔۔۔حد تو یہ ھے کہ اب یہ بحث غیر مسلموں بھی چل پڑی ھے کہ مسلمانوں کی حدیث
اور مسلمانوں کے پیغمبرصلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق 12/ مئی کو دنیا سے
کورونا وائرس کا یقینی طور پر خاتمہ ھوجائے گا ۔۔۔۔۔اس وقت ھر عام خاص کی
زبان پر یہ چرچا عام ھے۔
آپ اندازہ لگائیں کہ اس بات کی تشہیر اسلامی رنگ دے کر اتنے بڑے پیمانے
پر کئے جانے کے کتنے خطرناک نتائج سامنے آئینگے ذرا ان کی چند جھلکیاں
دیکھیں:
1۔۔۔۔۔۔۔
اگر بارہ مئی کو یہ کورونا وائرس دنیا سے نہ ختم ھوا (جس کے ختم ھونے کے
ظاہری آثار نا کہ برابر ھیں ویسے ھمارا رب قادر مطلق ھے وہ سب کچھ کرسکتا
ھے۔) تو پوری دنیا کا اسلام دشمن میڈیا اور اسلام مخالف لوگ عالمی سطح پر
یہ پروپیگنڈہ کرینگے کہ معاذاللہ مسلمانوں کی حدیثیں جھوٹی اور ناقابل یقین
اور ناقابل قبول ھیں۔۔۔۔ان کا کوئی بھروسہ نھیں۔۔۔۔۔
2۔۔۔۔۔۔یہ لوگ اسلام ۔۔۔پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑائینگے ۔۔۔۔۔
3۔۔۔۔۔۔بھولے
بھالے۔۔بے پڑھے لکھے اور کمزور عقیدہ مسلمانوں کو پیغمبر
اسلام۔۔شریعت۔۔علمائے اسلام سے بدظن و برگشتہ کرکے انھیں کفرو ارتداد کی
بھٹی میں جھونکنے کی مہم چلائینگے ۔۔
۔4۔۔۔۔جو
سیدھے سادھے مسلمان اس تشہیر سے متاثر ھو کر اپنے ذھن میں یہ عقیدہ جما
لینگے کہ ھمارے علما جب حدیث کا حوالہ دے کر بڑے باوثوق انداز میں یہ دعوی
کر رھے ھیں تو ضرور کورونا وائرس کا خاتمہ ۱۲ مئی کو ھوگا۔۔۔۔پھر اگر
خدانخواستہ ایسا نہ ہو سکا تو ان کو کتنی اذیت پہونچے گی۔۔ان کی عقیدت کو
کس قدر ٹھیس پہونچے گی۔۔ اور اسلام پر سے ان کا اعتقاد کس قدر متزلزل
ھوگا۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اس طرح کے بے شمار نقصانات کا سامنا مسلمانوں کو کرنا پڑے
گا۔۔۔۔اس لئے ھمارے علما خاص کر کم پڑھے لکھے خطبا اور مسجدوں کے آئمہ کو
اس بات کا خیال رکھنا ضروری ھے کہ وقتی و عارضی واہ واھی و دادو دھش لوٹنے
کے چکر میں ان باتوں کو کہ جو دین کالازمی حصہ نھیں انھیں دین و مذھب کا
لازمی حصہ اور اسلام کا عقیدہ قطعیہ نہ بناکر پیش کریں کہ اس سے دنیا بھر
میں جگ ھنسائی ھوتی ھے۔۔۔۔
یہ بات بھی ذھن نشیں رکھیں کہ دین کے کچھ مسائل کا تعلق قطعیات و
یقینیات سے ھے کچھ کا ظنیات سے اور کچھ کا ظنیات محتملہ سے۔۔۔۔حدیث ثریا
کا تعلق زیادہ سے زیادہ ظنیات محتملہ سے قرار دیا جاسکتا ہے جس کا مفاد یہ
ھوگا کہ اس کے کسی ایک مفھوم و معانی پر قطعیت کے ساتھ اعتقاد نہ رکھینگے
بلکہ یوں عقیدہ رکھینگے کہ اللہ و رسول کی جو بھی مراد ھے وہ حق ھے اور یہ
ھو کر رھے گا مگر کب اور کیسے؟؟ اس کا علم اللہ اور اس کے بتائے سے اس کے
رسول کو ھے۔۔۔۔اللہ چاھے تو اسی سال کی بارہ مئی کو طلوع ھونے والے اسی
ثریا ستارہ سے اسی خاص کورونا وائرس کو ختم کردے یا چاھے تو کسی اور سال
طلوع ھونے والے کسی اور ثریا ستارہ کے طلوع سے یہی بیماری یا کوئی اور
بیماری ختم کردے۔۔۔یا چاھے تو کسی اور طریقے سے جب چاھے اور جیسے چاھے اس
کورونا وائرس کا خاتمہ فرمادے
ایک اھم وضاحت::
جب سے بارہ مئی کے
تعلق
سے یہ اٹکل پچو اور بے بنیاد دعوے منظر عام پر آئے ھیں پوری میں پھیلے
ھمارے ارادت مندوں۔۔۔اھل عقیدت اور مریدین منتسبین کے فون آنا شروع ھو
گئے۔۔۔ھر ایک اس معاملہ کی حقیقت معلوم کرنے لگا ۔۔۔آخر فقیر نے اس غلط
فہمی کے ازالہ کے لئے یہ مختصر و عام فھم تحریر تیار کی تاکہ لوگ غلط فہمی
کا شکار نہ بنیں۔۔۔۔۔۔۔
بنیادی و ضروری عقیدہ :::::
اس طرح کے معاملات میں میرے جد امجد امام اھلسنت مجدد دین و ملت سیدی
سرکار اعلیحضرت رضی اللہ عنہ نے اپنے مختلف فتاوی و تصنیفات میں بھت سے
رھنما اصول رقم فرمائے ھیں جنھیں ھم یھاں اپنے الفاظ میں خلاصہ کے طور پر
ذکر کر رہے ھیں:
بحیثیت مومن ھمارا بنیادی عقیدہ اور پختہ یقین و اعتقاد اس پر ھوناچاھئے کہ خیر و شر سب کا مالک اللہ ھے۔
۔۔اس کی مشیت کے بنا ایک ذرہ بھی ادھر سے ادھر نھیں ھوسکتا۔۔۔۔
شفا و صحت مرض و بیماری سب اسی کے قبضہ و اختیار میں ھیں۔۔۔۔
کوئی
دوا و تدبیر اسی وقت فائدہ دیتی ھے کہ جب اللہ چاھے کہ اسے اس دوا و تدبیر
سے شفا ھو۔۔۔ھمارا آئے دن کا مشاہدہ ھے کہ کسی مرض کی دوا کسی کو فائدہ
دیتی ھے اور کسی کو فائدہ نھیں کرتی۔۔۔۔
کسی
وبا کا خاتمہ بالذات نہ ثریا سے ھوسکتا ھے اور نہ کسی اور چیز سے۔۔۔۔یہ سب
محض نشانیاں و اسباب ھیں۔۔۔البتہ اللہ جب چاھے تب منٹوں سیکنڈوں کے
کروڑویں حصہ میں اس وبا کا خاتمہ ھوجائے گا۔۔۔۔
ھم
اسباب کو بروئے کار لائیں۔۔۔احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور پھر اللہ پر
توکل رکھے اور اس کی رحمت سے شفا اور وبا کے خاتمہ کی امید رکھیں۔۔۔۔۔
قرآن
و حدیث میں جن چیزوں کو کسی چیز کے آنے یا کسی چیز کے خاتمے کی نشانیاں
بتایا گیا ھے عموما ان کی سن اور سال کو مخفی رکھا گیا ھے ۔۔تاریخ بتا دی
گئی دن بتا دیا گیا مگر سال نھیں بتایا گیا۔۔۔۔۔اسی طرح جس پر بنا رکھی گئی
اس کے عموما تمام افراد مراد نھیں ھوتے بلکہ الف لاف عھد کا اس پر داخل
ھوتا ھے اور اس کلی و جنس کا کوئی خاص فرد مراد ھوتا ھے۔۔۔۔جیسے قیامت کا
دن۔۔تاریخ مبینہ سب کچھ بتایا مگر سن و سال مخفی رکھا۔۔
(ما خوذ از فتاوی رضویہ شریف)
۔۔یا
جیسے ثریا والی حدیث میں ھے کہ جب ثریا ستارہ طلوع ھوگا تو بیماریوں کا
خاتمہ ھوگا۔۔۔۔تو یہ ثریا ایک کلی و جنس ھے اب یہ تو اللہ یا اس کی عطا سے
اس کے رسول ھی کو معلوم ھے کہ کس بارہ مئی والا ثریا ستارہ مراد ھے ۔۔۔۔اس
سال کا یا آئندہ کا یا اور آئندہ کا۔۔۔۔۔
اسی
طرح بیماری سے مراد یہی کورونا ھے یا کوئی اور بیماری۔۔۔۔یہ بھی مخفی و
غیر معین ھے تو اسے کورونا کے ساتھ خاص کرنا مفھوم حدیث میں اپنی طرف سے
زیادتی کرنا ھوا۔۔۔۔۔۔
پھر
یہ حدیث انسانی بیماریوں کے لئے ھیں یا پھلوں میں جوکیڑیں پڑجاتے ھیں ان
کے لئے۔۔۔۔۔غالب آراء یہ ھیں کہ پھلوں والی بیماریوں کے لئے ھین۔۔۔نیز یہ
ساری دنیا کیلئے لئے بھی نھیں بلکہ صرف حجاز مقدس کے پھلوں میں پیدا ھونے
والی ایک خاص بیماری کے خاتمہ کی نشانی یہ طلوع ثریا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔
احادیث ٹریا کا علمی جائزہ::
ثریا ستارہ سے متعلق جو احادیث وارد ہیں ان میں سے بعض مطلق ہیں،
یعنی اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کوئی بھی بیماری ہو،ثریا ستارہ کے طلوع
ہونے سے ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی اور بعض احادیث مقید ہیں یعنی اس
بات کو بیان کرتی ہیں کہ ثریا ستارہ طلوع ہونے سے صرف پھلوں کی بیماری ختم
ہوجائے گی ۔۔۔۔پہلے مطلق احادیث ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
۱۔۔۔۔۔۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں ھے۔
عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ
رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ)) (الآثار للإمام أبی یوسف،
باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: جب نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو ہر ملک سے بیماری ختم ہوجائے گی۔
اسی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ’مسند احمد‘ کے الفاظ یہ ہیں:
((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ، رُفِعَتِ الْعَاهَةُ)) (مسند أحمد، ج۱۴ص۱۹۲، رقم: ۸۴۹۵، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ: جب صبح نجم یعنی ثریا ستارہ نکلے گا تو وبا دور ہوجائے گی۔
نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت میں ’التمہید‘ کے الفاظ یہ ہیں:
((مَا
طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قَطُّ وَبِقَوْمٍ عَاهَةٌ إِلَّا رُفِعَتْ
عَنْهُمْ أَوْ خَفَتْ)) (التمہید لما فی الموطا من المعانی و الأسانید
للإمام ابن عبد البر، ج۲ص۱۹۲، ط: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية -
المغرب)
ترجمہ: جب کبھی نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہو اور کسی قوم میں وبا ہو؛ تو وہ وبا ختم ہوجائے گی۔
۲۔۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں ھے:
عَنْ
أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: ((مَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ إِلا رُفْعِتْ كُلُّ آَفَةٍ
وَعَاهَةٍ فِي الأَرْضِ أَوْ مِنَ الأَرْضِ)) (تاریخ جرجان، لحمزۃ بن یوسف
الجرجانی، ص۲۹۲، ط:عالم الکتب، بیروت)
ترجمہ: جب بھی نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو اس وقت زمین کی ہر آفت کو ختم کردے گا۔
مطلق احادیث کا خلاصہ:
مذکوہ بالا ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیماری یا وبا
خواہ وہ پھل سے متعلق ہو یا اس کا تعلق انسان سے ہو، اگر وبا پائی جاتی ہے؛
تو ثریا ستارہ طلوع ہونے سے ختم یا کم ہوجائے گی، یعنی روئے زمین کی ھر
قسم کی بیماریاں طلوع ثریا سے ختم ھو جاتی ھیں۔۔۔۔۔۔
مقید و خاص احادیث::
مذکورہ
احادیث کےخلاف بعض احادیث مقید ہیں، یعنی وہ اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ
ثریا طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی ہے، وہ ایک خاص بیماری و وبا ہے کہ جس
کا تعلق پھلوں سے ہے۔۔ثریا سے متعلق مقید احادیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما کی روایت کردہ ھیں۔:
۱۔۔۔۔عَنْ
عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سُرَاقَةَ قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ
وَمَعَنَا ابْنُ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: ((رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ
الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا))
قَالَ:
وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، فَقَالَ: ((نَهَى
رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ
حَتَّى تَذْهَبَ الْعَاهَةُ)) قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَا
تَذْهَبُ الْعَاهَةُ، مَا الْعَاهَةُ؟ قَالَ: ((طُلُوعُ الثُّرَيَّا))
(مسند أحمد، ج۹ص۵۶، رقم: ۵۰۱۲، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وبا کے ختن ھو جانے سے پہلے پھل
بیچنے سے منع فرمایا، راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اے ابو عبد الرحمن!
وبا کا جانا کیا ہے، وبا کیا ہے؟ ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ثریا ستارہ کا طلوع ہونا۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن رضی اللہ عنہا کی روایت:
عَنْ
أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى
تَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ)) (موطا امام مالک، باب النھی عن بیع الثمار حتی
یبدو صلاحھا، ج۲ص۶۱۸، رقم: ۱۲، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ پھل کو وبا سے نجات حاصل ہوجائے۔
۳۔۔۔۔حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کی روایت:
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ كَانَ ((لَا يَبِيعُ ثِمَارَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا)) (ایضا، ص۶۱۹، رقم:۱۳)
ترجمہ:
زید بن ثابت رضی اللہ عنہما پھل نہیں بیچتے تھے یہاں تک کہ ثریا ستارہ
طلوع ہوجائے۔اسی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’صحیح‘ میں تعلیقا
ذکر کیا ہے: 4۔۔۔عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ الأَنْصَارِيِّ، مِنْ
بَنِي حَارِثَةَ: أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ، فَإِذَا جَدَّ
النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ، قَالَ المُبْتَاعُ: إِنَّهُ أَصَابَ
الثَّمَرَ الدُّمَانُ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ، أَصَابَهُ قُشَامٌ، عَاهَاتٌ
يَحْتَجُّونَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ: ((فَإِمَّا
لاَ، فَلاَ تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُ الثَّمَرِ))
كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ وَأَخْبَرَنِي
خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ: ((لَمْ
يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا،
فَيَتَبَيَّنَ الأَصْفَرُ مِنَ الأَحْمَرِ)) (صحیح البخاری، باب بیع الثمار
قبل أن یبدو صلاحھا، ج۳ص۷۶، رقم:۲۱۹۳، ط: دار طوق النجاۃ)
اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث امام طبرانی کی ’المعجم الصغیر‘ میں اسی مقید معنی کے ساتھ موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں:
الجامع
الصغیر میں ہے: ((إِذَا طَلعت الثُريِّا أمِنَ الزَّرْعُ مِنَ العاهَةِ))
طص عن أبي هريرة - رضي الله عنه . (الجامع الصغيرللإمام السیوطی،
رقم:۱۵۵۸۷)
ترجمہ: جب ثریا ستارہ طلوع ہوجائے تو کھیتی وبا سے محفوظ ہوجاتی ہے۔
خلاصہ کلام::
ان
مقید روایات اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ثریا طلوع ہونے سے جو وبا و
بیماری دور ہوتی ہے، اس کا تعلق پھلوں کی بیماری سے ہے، بہر حال یہ دو طرح
کی احادیث ہیں،
اکابر
علما و ائمہ کی آراء::ان احادیث میں مذکور وبا سے پھلوں کی وبا مراد ہے یا
انسانی وبا وغیرہ ہر طرح کی بیماری ان کے مفہوم میں شامل ہے، اس کی تعیین
کے لیے احادیث اور اقوال علما کا جائزہ لیتےھیں۔
یہ
بات مسلمات میں سے ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے؛ اس لیے
یہاں مطلق احادیث جو مختلف معانی کا احتمال رکھتی ہیں ان کو پھلوں سے مقید
احادیث جو اپنے معنی میں متعین ہیں ان پر محمول کر دیا جائے یعنی پھلوں کی
وبا سے متعین احادیث اس کی بات کی وضاحت کر رہی ہیں کہ محتمل احادیث کی
مراد یہی ہے کہ یہاں وبا سے پھلوں کی وبا مراد ہے جو انسانی وبا کو شامل
نہیں۔کیونکہ مطلق و مقید نصوص جب متعارض و متصادم ھوں تو عموما مطلق کو
مقید پر محمول کیا جاتاھے جیسا کہ اس معاملہ میں بھی اکابر علما ۔۔شارحین
حدیث نے یھی کیا۔۔چنانچہ احادیث کی شروحات کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوجاتا
ہے کہ اس معاملہ میں اکثر علما بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ ثریا سے جو وبا
ختم ہوتی ہے، اس سے مراد پھلوں کی وبا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
امام
ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فَعَقَلْنَا بِذَلِكَ أَنَّهُ
الثُّرَيَّا، وَعَقَلْنَا بِهِ أَيْضًا أَنَّ الْمَقْصُودَ بِرَفْعِ
الْعَاهَةِ عَنْهُ هُوَ ثِمَارُ النَّخْلِ‘‘۔ (شرح مشکل الآثار للإمام
الطحاوی، ج۶ص۵۳، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
حضرت امام طحاوی علیہ الرحمہ کی ان عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیماری سے مراد پھلوں کی بیماری ھے۔۔۔۔
امام
قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معنى ذلك والله أعلم على ما تقدم أن طلوع
الثريا مع الفجر إنما يكون في النصف الآخر من شهر مايه وهو شهر إيار وفي
ذلك يبدو صلاح الثمار بالحجاز ويظهر الإزهاء فيها وتنجو من العاهة في
الأغلب ففي ذلك الوقت يجوز بيعها فيه دون ما قبله وتختلف العبارات فيما
يبدو به ما يمنع من البيع ويميز ما يباع فتارة يميز ويفسدها بالإزهاء وتارة
بأن تنجو الثمرة من العاهة وتارة تطلع الثريا غير أن تحديد ذلك بالإزهاء
وبأن تنجو من العاهة يتعقبه الجواز على كل حال، وأما طلوع الثريا فليس بحد
يتميز به وقت جواز البيع من وقت منعه.
وقد
روى القعنبي عن مالك في المبسوط أنه قال ليس العمل على هذا ومعنى ذلك عندي
أنه لا يباح بيع الثمرة بنفس طلوع الثريا حتى يبدو صلاحها وإنما معنى ذلك
في الحديث أنه كان لا يبيع إلا بعد طلوعها وليس فيه أنه لم يكن بيع ذلك بعد
طلوع الثريا إلا الإزهاء والله أعلم‘‘۔ (المنتقی شرح الموطا للامام
القرطبی، النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۴ص۲۲۲، ط:مطبعۃ السعادۃ،
مصر)
امام قرطبی نے بھی اپنے مذکورہ بالا بیان میں پھلوں کی بیماری ھی کو ترجیح دی ھے۔۔۔
امام
ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وطلوعها صباحا يقع في أول فصل
الصيف وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار فالمعتبر في
الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له وقد بينه في الحديث بقوله ويتبين
الأصفر من الأحمر وروى أحمد من طريق عثمان بن عبد الله بن سراقة سألت بن
عمر عن بيع الثمار فقال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار
حتى تذهب العاهة قلت ومتى ذلك قال حتى تطلع الثريا ووقع في رواية بن أبي
الزناد عن أبيه عن خارجة عن أبيه قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة
ونحن نتبايع الثمار قبل أن يبدو صلاحها فسمع خصومة فقال ما هذا فذكر
الحديث فأفاد مع ذكر السبب وقت صدور النهي المذكور‘‘۔ (فتح الباری للإمام
ابن حجر العسقلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحہ، ج۴ص۳۹۵، ط:دار
المعرفۃ، بیروت)
علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی پھلوں کی وبا ھی کو راجح قرار دیا ۔۔۔
امام
بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وطلوعها صباحا يقع في أول فصل
الصيف، وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، والمعتبر
في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له، وقد بينه في الحديث بقوله: ويتبين
الأصفر من الأحمر‘‘۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للإمام بدر الدین
العینی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۲ص۴، ط:دار إحیاء التراث
العربی، بیروت)
علامہ عینی نے بھی یھی معنی مراد لیا ھے۔۔۔۔
ارشاد
الساری میں ہے: ’’قال أبو الزناد: (وأخبرني) بالإفراد (خارجة بن زيد بن
ثابت) أحد الفقهاء السبعة والواو للعطف على سابقه (أن) أباه (زيد بن ثابت
لم يكن يبيع ثمار أرضه حتى تطلع الثريا) النجم المعروف وهي تطلع مع الفجر
أوّل فصل الصيف عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار،
والمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له، وقد بيّنه بقوله: (فيتبين
الأصفر من الأحمر) وفي حديث أبي هريرة عند أبي داود مرفوعًا: إذا طلع
النجم صباحًا رفعت العاهة عن كل بلد. وقوله: كالمشورة يشير بها قال الداودي
الشارح تأويل بعض نقلة الحديث وعلى تقدير أن يكون من قول زيد بن ثابت فلعل
ذلك كان في أوّل الأمر، ثم ورد الجزم بالنهي كما بينه حديث ابن عمر وغيره.
وقال ابن المنير: أورد حديث زيد معلمًا وفيه إيماء إلى أن النهي لم يكن
عزيمة وإنما كان مشورة، وذلك حي الجواز إلا أنه أعقبه بأن زيدًا راوي
الحديث كان لا يبيعها حتى يبدوَ صلاحها.
وأحاديث
النهي بعد هذا مبتوتة فكأنه قطع على الكوفيين احتجاجهم بحديث زيد بأن فعله
يعارض روايته ولا يرد عليهم ذلك أن فعل أحد الجائزين لا يدل على منع
الآخر، وحاصله أن زيدًا امتنع من بيع ثماره قبل بدوّ صلاحها ولم يفسر
امتناعه هل كان لأنه حرام أو كان لأنه غير مصلحة في حقه انتهى‘‘۔
(ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری للإمام القسطلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۴ص۸۸، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، مصر)
امام قسطلانی نے بھی یھی مفھوم مراد لیا ھے۔۔۔۔۔
امام علی القاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں:
(وبه
عن عطاء، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا طلع النجم
اللام للعهد (رفعت العاهة) أي الآفة عن كل بلد من زرعها وثمارها۔۔۔۔۔۔۔۔قال
الخرقي: إنما أراد بهذا الحديث أرض الحجاز لأن في أبان يقع الحصاد بها
وتدرك الثمار فيها وقال القبتي: أحسبه أراد عاهة الثمار خاصة. (شرح مسند
أبی حنیفۃ للإمام علی القاری، ص۱۴۱، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ امام علی قاری نے بھی یھی فرمایا۔۔۔۔۔۔
امام
زرقانی لکھتے ہیں: ’’وَطُلُوعُهَا صَبَاحًا يَقَعُ فِي أَوَّلِ فَصْلِ
الصَّيْفِ، وَذَلِكَ عِنْدَ اشْتِدَادِ الْحَرِّ وَابْتِدَاءِ نُضْجِ
الثِّمَارِ، وَهُوَ الْمُعْتَبَرُ فِي الْحَقِيقَةِ، وَطُلُوعُ النَّجْمِ
عَلَامَةٌ لَهُ، وَقَدْ بَيَّنَهُ بِقَوْلِهِ فِي رِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ
مِنْ طَرِيقِ اللَّيْثِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ خَارِجَةَ عَنْ
أَبِيهِ، فَزَادَ عَلَى مَا هُنَا فَيَتَبَيَّنُ الْأَصْفَرُ مِنَ
الْأَحْمَرِ‘‘۔ (شرح الزرقانی علی المؤطا، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد
و صلاحھا، ج۳ص۳۹۵، ط:مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاھرۃ)
امام زرقانی کی بھی یھی رائے ھے۔۔۔۔۔۔
مذکورہ
بالا شروحات کے علاوہ بھی اکثر شروحات میں اس مفہوم کی حدیث کو ’باب بیع
الثمر قبل بدو صلاحہ یا باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد و صلاحھا‘ کے تحت
محدثین رکھا ہے، جس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سب لوگ اس بات کے قائل
ہیں کی احادیث میں ثریا کے طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی وہ پھلوں والی وبا
ہے نہ کہ ھر قسم کی بیماریاں ۔۔۔۔البتہ بعض علما اس بات کے قائل ہیں کہ
ثریا سے جو وبا ختم ہوجاتی ہے وہ انسانی اور پھلوں والی، دونوں وبا کو شامل
ہے جیسا کہ ، امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’(أَبُو
نعيم فِي الطِّبّ) النَّبَوِيّ (عَن عَائِشَة مَا طلع النَّجْم) يَعْنِي
الثريا فانه اسْمهَا بالغلبة لعدم خفائها لكثرتها (صباحا قطّ) أَي عِنْد
الصُّبْح (وبقوم) فِي رِوَايَة وبالناس (عاهة) فِي أنفسهم من نَحْو مرض
ووباء أَو فِي مَالهم من نَحْو ثَمَر وَزرع (الا رفعت عَنْهُم)
بِالْكُلِّيَّةِ (أَو خفت) أَي أخذت فِي النَّقْص والانحطاط وَمُدَّة
مغيبها نَيف وَخَمْسُونَ لَيْلَة (حم عَن أبي هُرَيْرَة) باسناد حسن‘‘۔
(التیسیر شرح الجامع الصغیر، للإمام المناوی، ج۲ص۳۵۲، ط: مکتبۃ الإمام
الشافعی، الریاض)
مگر
امام مناوی ہی کی کتاب ’فیض القدیر‘ میں یہ بھی ہے: ’’قيل: أراد بهذا
الخبر أرض الحجاز لأن الحصاد يقع بها في أيار وتدرك الثمار وتأمن من العاهة
فالمراد عاهة الثمار خاصة‘‘۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج۵ص۴۵۴، ط:
المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر)
یعنی امام مناوی فیض القدیر میں صراحت کرتے ھیں کہ مراد پھلوں کی بیماری ھے۔۔۔۔
امام سمعانی نے بھی عام معنی مراد لیا ھے ان کے علاوہ
دیگر
ایک دو مفسرین کرام نے بھی یہی عام معنی لیا ہے، مگر اکثر محدثین کرام نے
خاص معنی مراد لیا اور وہ یہی کہ ثریا کی وجہ سے جو وبا دور ہوگی وہ پھلوں
کی وبا ہے۔
===================
پوری روئے زمین کی وبائیں ختم ھونگی یا صرف حجاز مقدس کی؟؟؟
ایک اختلاف یہ بھی ھے کہ
ثریا
کی وجہ سے وبا تمام ملکوں سے ختم ھوگی یا پھر بعض ملک سے ختم ہوگی اس
سلسلے میں زیادہ تر ائمہ کا رجحان ھے کہ احادیث میں مراد حجازی خطے ھیں۔۔۔
عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ
رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ)) (الآثار للإمام أبی یوسف،
باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ثریا ستارہ
طلوع ہونے سے ہر ملک کی وبا دور ہوجائے گی، مگر بعض محدثین کرام نے یہ
صراحت کی ہے کہ اس سے مراد حجاز کی وبا کا دور ہونا ہے۔
امام
ابن بطال رحمہ اللہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے
ہیں: ’’يعنى: الحجاز، والله أعلم‘‘۔ (شرح صحیح البخاری، باب بیع الثمار قبل
أن یبدو صلاحھا، ج۶ص۳۱۶، ط:مکتبۃ الرشد، الریاض)
امام
ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَقَوْلُهُ لِلْبَلَدِ يَجُوزُ
أَنَّهُ يُرِيدُ الْبِلَادَ الَّتِي فِيهَا النَّخْلُ وَيَجُوزُ أَنْ
يُرِيدَ الْحِجَازَ خَاصَّةً‘‘۔ (الاستذکار، باب النھی عن بیع الثمار حتی
یبدو صلاحھا، ج۶ص۳۰۶، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام
ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’يعني: الحجاز‘‘۔ (التوضیح لشرح الجامع
الصحیح للإمام ابن الملقن، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۴ص۴۸۸،
ط: دار النوادر، دمشق)
خلاصہ کلام ::::
آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ زیادہ تر روایات اور اکثر ائمہ و محدثین کےکلام
کا خلاصہ یہ ھے کہ ثریا ستارہ طلوع ھونے سے حجاز مقدس میں پیدا ھونے والے
پھلوں کی وبا اور بیماری عموما ختم ھوتی ھے لیکن یہ لازمی و دائمی طور پر
نھیں بلکہ اکٹری و اغلب طور پر ۔۔۔لھاذا ایسی صورت میں ان احادیث کریمہ کو
یقینی و دائمی اور حتمی طور پر کورونا وائرس کے ساتھ خاص کرکے اسی سال کی
مئی کی 12/ تاریخ کے ساتھ متعین کرکے یہ دعوی کرنا کہ بارہ مئی کو کورونا
وائرس کا دنیا سے خاتمہ ھوجائے گا یہ محض غیر دانشمندی ۔۔۔۔روح احادیث سے
ناواقفیت۔۔۔۔اسلام و مسلمانوں کی ھوا خیزی کرانے کی غیر شعوری کوشش ھے۔۔۔۔۔
اپیل::
ھماری اپنے علما ۔۔خطبا ۔۔ائمہ اور مسلمان بھائیوں سے اپیل ھے کہ ایسے
نازک وقت میں کوئی ایسا تحریری و تقریری بیان ھرگز نہ دیں کہ جس سے میڈیا
اور عالمی سطح پر اسلام۔۔۔شریعت اور مسلمانوں کی رسوائی و جگ ھنسائی ھو
۔۔۔بلکہ اس وقت نیک اعمال کرکے اپنے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے وسیلہ اور
بزرگان دین کے صدقے سے اپنے رب کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعائیں مانگیں کہ رب
تعالی اپنے حبیب پاک کے صدقے کورونا وائرس کا دنیا سے خاتمہ فرمائے۔۔اپنے
آقا ومولی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں اس بیماری وبا کے
خاتمہ کے لئے استغاثہ پیش کریں ۔۔آپ کی ذات پاک کو وسیلہ بناکر دعائیں
کریں۔۔۔کیونکہ ھمارے آقا دافع بلاء بھی ھیں اور دافع وباء بھی۔۔۔دافع قحط
بھی ھیں اور دافع مرض و الم بھی۔۔۔اللہ کی عطا سے آپ درد ھی کو دوا بنا
دینے کے جوہر سے مزین ھیں۔۔۔میرے جد امجد امام اھلسنت مجدد دین و ملت امام
احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ھیں:
شافی و نافی ھو تم وافی و کافی ھوتم۔
درد کو کردو دوا تم پہ کروڑ وں درود۔۔۔۔
ایک اور شعر میں یوں فرماتے ھیں۔۔۔۔۔
کروڑوں بلائیں لاکھوں دشمن
کون بچائے بچائے بچاتے یہ ھیں۔
اللہ تعالی اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقے و وسیلہ سے اس کورونا وائرس کی وبا کا دنیا سے خاتمہ فرمائے ۔۔۔
آمین بجاہ سید المرسلین علیہ افضل الصلوہ و التسلیم ۔۔۔
فقیر قادری محمد توصیف رضا خان بریلوی خادم مرکز اھلسنت دربار ے
اعلیحضرت خانقاہ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ رحمانیہ بریلی شریف۔۔۔
٢/رمضان المبارک 1441 ھ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں