اہم خبریں

’’ہم نے بنیادِ دوستی رکھی ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ 52 ویں یوم تشکیل ِ انجمن کے موقع پر جناب نیئرصدیقی کا مؤقف



’’ہم نے بنیادِ دوستی رکھی ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
لوگ اسے بے سروسامان طالبعلموں کی ایک تنظیم سمجھتے ہیں ، مگر میں جانتا ہوں کہ یہ نظریاتی، معاشرتی ، مذہبی اور اخلاقی تربیت کا ایساوسیع گہوارہ ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ اس سے وابستہ لوگ توکل کے جس درجے پر ہوتے ہیں ، وہ اس عمر کے نوجوانوں میں خال ہی ملتا ہے۔ ادب، احترام اورعاجزی اس قدرکہ جوانی میں فقیری عطاء ہو جائے ۔ جدوجہد ایسی کہ اسلحے، اثرو رسوخ اور سیاسی دباؤ کےتناؤ زدہ ماحول میں بھی آن دی ریکارڈپاکستان کی سب سے بڑی طلباء تنظیم کے طور پر اپنا آپ منوایا۔جمہوری اقدار اس قدر پختہ کہ نصف صدی سے زائد عرصہ میں ایک بار بھی انتخابات ملتوی نہ ہوئے،نظام انتخاب اس قدر شفاف کہ دو نمبری کا شائبہ بھی نہ ہو سکے۔ جس کو بھی عہدے کیلئےامیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا، وہ منتیں کرتادکھائی دیا کہ دوسرا مجھ سے بہتر ہے۔تربیت کا نظام ایسا کہ نیا شامل ہونے والا ہمدرد، بنیادی دینی کتب،جنرل نالج کے کتابچوں کے مطالعہ اور تنظیمی نصاب کا امتحان دیئے بغیر کارکن ، امین اور رکن نہیں بن سکتا۔ ہر درجے کیلئے نصابی تعلیم کے درجات بھی متعین ہیں، کارکن کیلئے میٹرک ، امین کیلئے انٹرمیڈیٹ اور رکن کیلئے گریجویشن مکمل ہونا ضروری ہے۔ اور جیسے ہی تعلیم مکمل ہوئی، یا عمر 32 سال سے زائد ہو گئی، تنظیم اسے عزت کے ساتھ ریٹائرڈ کر کے رفیق کے سدا بہار درجے پر فائز کر دیتی ہے۔ حب الوطنی کا ریکارڈ اتنا شاندار کہ آج تک کسی کوشک کرنے کی جرات بھی نہ ہو سکی۔مروجہ شخصیت پرستی کے مقابلے میں لگی لپٹی رکھے بغیر صرف ایک سیدھا سادا اصول کہ ’’نبی ﷺ کا جو غلام ہے ، ہمارا وہ امام ہے ‘‘۔اور اپنے آقا و مولا ﷺ سے محبت ایسی کہ گلی گلی نگر نگر گونجنے والے نعرے ’’سیدی مرشدی، یا نبی ﷺ یا نبیﷺ ‘‘، ’’ غلامی ء رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے ‘‘اسی تنظیم کے دیئے ہوئے ہیں ۔ وابستگی ایسی کہ تحریک نظام مصطفیٰﷺ کی پہلی شہادت سے لے کر تحریک ناموس رسالت تک ہمیشہ ہراول دستے کے طور پر سامنے رہی۔جب تعلیمی اداروں میں بارود کی بو نے ڈیرہ جمایا تو اسی نے تعلیمی امن کی تحریک چلائی۔طلبہ کی بصیرت جاگی ہے اب امن کی خوشبو پھیلے گی کے نغمہ دلنواز کے ساز پر تمام طلباء تنظیموں کو ایک میز پر بٹھایا۔گاؤں گوٹھوں کے کمی کمین اور ہاریوں کے بچوں کو حصول علم سے روکنےکیلئےپارلیمانی وڈیروں نے من مرضی کی تعلیمی پالیسیاں لانا چاہیں تو یہی تنظیم تھی جو فروغ علم کا پرچم لے کرسدِ راہ بن گئی۔ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی میں ضمیر کے قیدی سید شبیر شاہ کی پاکستان میں آواز بھی یہی تنظیم بنی اور محدود وسائل کے باوجود میرپور آزادکشمیر میں آزادیء کشمیر طلباء کنونشن کے نام سے ایسا اجتماع منعقد کیا کہ عالمی میڈیا بھی حیران رہ گیا۔ کارکنان کی تربیت اس انداز میں کی کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اس کی افرادی قوت سے خالی نہیں۔ تحریرپر ملکہ، تقریرمیں اثر، مثالی نظم و ضبط، قومی و بین الاقوامی سطح پر معاملہ فہمی کی صلاحیت ، کرداراور نظریات کی پختگی کی عملی مثال اگر دیکھنا چاہیں تو اس کے پانچ درجوں میں سے کسی درجے کے حامل شخص کو دیکھ لیں، آپ کو معاشرے سے ممتاز ہی دکھائی دے گا۔ قحط الرجال کے اس دور میں اس تنظیم نے پاکستان کو محمد حاجی حنیف طیب، ڈاکٹر نور الحق قادری، حافظ محمد تقی شہید، محمد طاہر ہندلی، قاضی عتیق الرحمٰن ، سید صفدر شاہ گیلانی جیسے کئی اجلے سیاستدان بھی دیئے اور ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری، صاحبزادہ رضا ثاقب مصطفائی، ڈاکٹر عبدالشکور ساجدانصاری،جسٹس نذیر احمد غازی، رضاء الدین صدیقی جیسے صائب الرائے دانشور بھی اس قوم کی نذر کئے۔ سید لخت حسنین، عطاء المصطفیٰ نوری ،عبدالرزاق ساجد، محمد اشفاق گجر، محمدمناف الانہ، شیخ طاہر انجم اور عتیق احمد کیانی جیسے خدمت خلق کی گھٹی لے کر جنم لینے والے سماجی ورکرز بھی پیش کئے اور میاں عبدالرشید بھٹی، صفدر مسعود گورایہ جیسے جوش و جذبے اور ولولے سے بھری شخصیات بھی دے دیں۔ ادب وصحافت میں محمد نواز کھرل،محمد اسلم الوری، محسن گورایہ، افضل بٹ، بدر چشتی ،امجد بھٹی، قاسم رضا،تجمل گرمانی، قیصر شاہ سمیت سینکڑوں ایسے نام ہیں جو آج بھی اس تنظیم سے تعلق کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔نعت گو شعراء کے بڑے نام عبدالغنی تائب، ڈاکٹر ظفر اقبال نوری، مقصودعلی شاہ، سید الطاف بخاری، اردو زبان کی ترویج کیلئے ہمہ وقت سرگرم محمد اسلم الوری، پاکستان کے کروڑوں نوجوانوں کی فکری تربیت کرنے والا اور انہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کا آئیڈیل دینے والا شہیر سیالوی بھی اسی تنظیم کا ہی فیضان ہیں۔
علم دین کے فروغ میں جامعہ محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے فاضلین دنیا بھر میں اپنی ہمہ جہت قابلیت کا لوہا منوا رہے ہیں، اور ان میں اکثریت اسی تنظیم سے تنظیمی تربیت اور وابستگی رکھتی ہے۔
روحانی خانقاہوں، تبلیغ دین کے اداروں کے ذمہ داران اور مساجد کے ائمہ کرام کی بڑی تعداد بھی آپ کو اس تنظیم کا دم بھرتی نظر آئے گی۔
بہت سے احباب سمجھ گئے ہوں گے کہ اس تنظیم سے میری مراد، پاکستان میں سیاسی پشت پناہی کے بغیر چلنے والی واحد طلباء تنظیم ’’انجمن طلباء اسلام ‘‘ہے ۔جسے عرف عام میں اے ٹی آئی(ATI)ہے۔جس کا آج 52واں یوم تشکیل منایا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسی مادرِ فکری ہے جس سے وابستہ افراداس وقت پاکستانی معاشرے میں آپ کو خیر ہی خیر پھیلاتے دکھائی دیں گے۔اے ٹی آئی کا بطور مدرآرگنائزیشن تذکرہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس نے کتنے ہی مثبت فکر کے حامل اداروں کو جنم دیا ہے۔
اس وقت شعبہ سیاست میں نظام مصطفیٰ پارٹی اور پاکستان فلاح پارٹی ایسی جماعتیں ہیں جو خالصتاً انجمن طلباء اسلام کے رفقاء نے قائم کیں۔(جمیعت علماء پاکستان ، تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی، ق لیگ اور تحریک لبیک میں بھی اے ٹی آئی کے سابقین بڑی تعداد میں موجود ہیں)
قومی و صوبائی اسمبلیوں میں تلاوت کلام پاک کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ کی ادائیگی کا قانون بھی اے ٹی آئی کے سابقین کی کوششوں سے منظور ہوا۔
المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ، مسلم ہینڈز، شیڈ فاؤنڈیشن ایسے بڑے ادارے ہیں جو خدمت خلق(Charity)کے شعبہ میں اپنے آپ کو منوا رہے ہیں۔
سماجی انقلاب کی علمبردار مصطفائی تحریک اس وقت ملک کی واحد سماجی تحریک ہے جو خدمت دین کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سماجی خدمت کا شعور پیداکرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے مصطفائی تحریک نے جشن آزادی کے دنوں میں شادابیء پاکستان مہم کے تحت لاکھوں درخت لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔جو ہر سال پہلے سے بڑھ کر مقبول ہو رہا ہے۔
پاکستان بھر کی بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنز میں کلیدی عہدوں پر اے ٹی آئی کے سابقین منتخب ہوتے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار میں ناموس رسالت کمیٹی قائم کرنے اور قائم رکھنے میں بھی ایسے ہی رفقاء پیش پیش ہیں۔
پاکستان میں اساتذہ کی ترجمان انجمن اساتذہ پاکستان ، اے ٹی آئی کے رفقاء پر مشتمل ہے۔
جنوبی پنجاب میں کسانوں کی ترجمانی کرنے والا پاکستان کسان اتحاد بھی رفقاء انجمن کی خدمتگارسوچ کا نتیجہ ہے۔
آپ کو عام لباس کے اوپر سفید شرٹ پہنے اگر کوئی مصطفائی رضاکار نظر آتا ہے تو وہ بھی انجمن طلباء اسلام کا ہی کارکن یا رفیق ہے۔
غرضیکہ وطن عزیز میں زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں نبی کریم ﷺ کے نام نامی سے نسبت رکھنے والی اس مقدس تنظیم کا فیض نہ پہنچا ہو۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے 1990ء سے 1999ء تک اے ٹی آئی کے چاروں درجات میں اپنا نام لکھوایا اور یونٹ سے لے کر مرکز تک ہر سطح پر اپنی خدمات پیش کیں۔ اورآج اس کے رفیق کا تمغہ اپنے سینے پر سجائے پھرتا ہوں۔
آج52ویں یوم تشکیل ِ انجمن کے موقع پر میں اے ٹی آئی میں شامل کرنے والے اپنے کلاس فیلو مختار احمد چشتی (حافظ آباد)کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تمام ہمدردان، کارکنان، امینان ، ارکان اور رفقاء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
کتنی قومیں وجود میں آئیں ، دہر میں خشک و تر کے رشتے سے
ہم نے بنیاد دوستی رکھی، یادِ خیر البشر ﷺ کے رشتے سے

(نوٹ: کالم نگار 1990 سے 1999 تک (اس وقت کی) تحصیل حافظ آباد ، ضلع گوجرانوالہ، صوبہ پنجاب کی مختلف ذمہ داریوں سے لے کر مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے،آج کل شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور اسلام آباد میں مقیم ہیں ۔۔ ادارہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.