سلسلہ 1
دیوان متنبی کو پڑھانے کا طریقہ
قیام الدین
جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے سنتا آرہا ہوں کہ بھائی نصاب تبدیل ہونا ہونا چاہئے اس میں یہ کمی ہے وہ خرابی ہے کوئی کہتا ہے کہ منطق و فلسفہ کو ہٹا دینا چاہئے تو کوئی کہتا ہے انگلش وغیرہ کو مدارس کے نصاب میں گھسیڑ دینا چاہئے
کچھ اعتراضات تو واقعی معقول لگے مگر نصاب پر کئے جانے والے اکثر اعتراضات کے پیچھے سطحیت اور بلاوجہ کی جدت پسندی کار فرما نظر آئی
خیر جب اس موضوع پر کتابیں پڑھیں، تقاریر وغیرہ سنیں اور خود سے تجربہ کرنا شروع کیا تو لگا کہ نصاب پر نظر ثانی تو بہرحال کی جانی چاہیے ہمارے پاس نصاب کی تشکیل کے لئے کوئی ایسا متفق علیہ اور مشترکہ عملہ نہیں ہے جو نصابِ موجودہ کی کمیوں پر غور و خوض کرے اور نصاب میں حذف و اضافے کی تجاویز پیش کرے بس انفرادی طور پر کچھ حضرات کوششیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو ان میں سے بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو موجودہ نصاب کو مکمل فرسودہ سمجھ کر دشنام طرازیوں اور تلخ کلامیوں کے بعد اپنا نیا نصاب تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں ظاہر سی بات ہے آپ ایلوے کے پھل میں تھوڑا سا شہد ڈال کے دوگے تو قبول کرنا تو دور اس کو دیوانے کی بڑ ہی سمجھے گا ہر کوئی اور ریجیکٹ ماردے گا
کچھ اجتماعی کوششیں بھی ہورہی ہیں مگر خاطر خواہ مفید نہیں ہوپارہی ہیں یا تو اس بنا پر کہ ان کمیٹیوں کی تشکیل برائے نام ہوتی ہے یا یہ کہ تبدیلی ہوتی بھی ہے تو ایسی معمولی تبدیلیاں جو لایعبأ بہ کے زمرے میں آتی ہیں یا پھر اس وجہ سے کہ ام المدارس کی حیثیت رکھنے والے اداروں کے بجائے چھوٹے چھوٹے اداروں کی جانب سے یہ کوششیں ہورہی ہے اور یہ بھی ایک بدیہی امر ہے کہ ماں کی کوششوں اور بچوں کی کاوشوں کے اثرات کی اثر پذیری میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے
اس سلسلے میں پڑوسی ملک کے مدارس کا نظام کافی حد تک لائق تحسین ہے اور قابل تقلید بھی
مگر ہمارا ایک بڑا تازیانہ یہ ہے کہ ہمارے بڑے کچھ زیادہ ہی قدامت پسند واقع ہوئے ہیں اور ہم چھوٹے کچھ زیادہ ہی جدت پسند نیز ہمیں اپنے بڑوں سے منوانے کے طریقے بھی نہیں آتے جس کی بناپر تحریکیں اٹھتی ہیں اور پھر چند ہی دنوں بعد سرد بستے میں چلی جاتی ہیں
خیر دیکھئے میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ تبدیلیِ نصاب پر غور کیا جانا چاہئے سوچنے کا عمل جاری رہنا چاہیے قطع نظر اس سے کہ کون آپ کی بات مانے گا کون نہیں مانے گا، کیوں کہ بوقت غور و خوض اگر آپ نے ان باتوں کا دھیان رکھنا شروع کردیا پھر تو آپ سوچ ہی نہیں پائیں گے مایوس ہوجائیں گے
مگر میں چاہتا ہوں کہ ہمارے اصحابِ فکر و نظر تبدیلیِ نصاب پر سوچنے سے زیادہ موجودہ نصاب کے طریقۂ تدریس میں جدت پیدا کرنے پر غور کریں اور میرا ماننا ہے کہ تبدیلیِ نصاب سے زیادہ فوائد طریقۂ تدریس کی تبدیلی کے ذریعے حاصل کئے جاسکتے اور ہمیں آم کھانے سے مطلب ہے پیڑ گننے سے نہیں یہ چیز زود اثر بھی ہے اور قابلِ ہضم بھی نیز جو کمیاں ہیں موجودہ نصاب کی ان کو پورے طور پر نہ سہی ایک بڑی حد تک طریقۂ تدریس کو تبدیل کرکے ختم ضرور کیا جاسکتا ہے
بہر حال میں نے موجودہ نصاب میں شامل دیوان متنبی پڑھائی تو تدریس کے معمول طریقے سے کچھ ہٹ کر سوچا اور ان سوچے ہوئے آئیڈیاز میں سے چند پر عملی تجربہ بھی کیا تو آئیڈیا اور عملی تجربے کا معجونِ مرکب آپ کے سامنے حاضر خدمت ہے
1 جس فن کی بھی کتاب پڑھائیں اس فن کے اوپر ایک تفصیلی مقالہ تیار کریں جس میں ہر صدی کے اعتبار سے اس فن کے ماہرین اور کتابوں کا بالاستیعاب یا اجمالاً تذکرہ کیا گیا ہو تاکہ طالب علم اگر ان اصل الاصول اور مشہور کتابوں کو نہ پڑھے پر کم از کم اس کے نظر میں تو رہے تاکہ اس کے اندر پڑھنے کی تحریض پیدا ہو اور جب کبھی وہ فن کا مطالعہ شروع کرے تو شروعات سے پڑھے تاکہ فن پر عبور حاصل ہو
2 متنبی کے بارے میں ابتدائی کلام کرتے وقت ذات سے زیادہ اس کے فنی حیثیت کو اجاگر کیا جائے جیسے اسیرادروی صاحب کا مقدمہ اس حوالے سے خاصا دلچسپ ہے بل کہ بہتر ہوگا ہمارے اساتذہ کے لیے کہ متنبی پر ریسرچ پیپر لکھنے والے کسی پی ایچ ڈی ہولڈر کا مقالہ لے کر اس کی تلخیص کرلیں
3 بچوں کے ذریعے عبارت خوانی کرائی جائے پھر اس کی تصحیح، حل لغات اور ترجمہ، ترجمہ میں اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ مطلبی ترجمہ کرتے وقت بسا اوقات ترتیبِ لفظی بدل جاتی ہے تو اس کی وضاحت ضروری ہےکہ کس لفظ کے ترجمہ کو کس لفظ کے ساتھ جوڑا جارہا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اساتذہ لفظی ترجمہ کے بجائے فقط مطلبی ترجمہ کرکے نکل لیتے ہیں بچوں کے فہم پر اعتماد کرکے، یہ درست نہیں ہے بہتر ہے کہ آپ پہلے لفظ بہ لفظ ترجمہ کریں اور پھر مطلبی ترجمہ کریں
4 عبارت خوانی کراتے وقت دھیان رکھیں کہ طالب علم اشعار کو اسی لَے اور زیروبم کے ساتھ پڑھے جس طرح عموماً اشعار کو پڑھاجاتا ہے تاکہ شعری ذوق پیدا ہو، بہتر ہوگا کہ کل پڑھائی جانے والی عبارت کو آپ آج ہی اسی طرز اور آہنگ کے ساتھ طلباء کے سامنے پڑھ کر سنادیں
4 لغات لکھواتے وقت پاور ورڈ یعنی وہ الفاظ جن میں عمومی الفاظ سے زائد معانی ہوتے ہیں ان پر فوکس کرکے ان کو استعمال کرنے کی عادت ڈلوائی جائے کہ وہ عمومی لفظ کے بجائے ان پاور ورڈ کو استعمال کیا کریں اور مختصر طور پر ان کو فروق بین الالفاظ سے بھی واقف کرایا جائے
5 کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے کئی سارے مترادفات اور قریب المعانی الفاظ کتاب میں مذکور ہیں ان کی ایک الگ لسٹ بنوائی جائے مگر کتاب سے الگ ہٹ کر مترادفات نہ بتائے جائیں ورنہ بدہضمی کا اندیشہ ہے
6 جو الفاظ کتاب میں مذکور ہیں ان کا استعمال جدید عربی اور اخباری عربی میں کس انداز سے کیا جاتا ہے اور اس لفظ سے مشتق کن مصطلحات کو روزمرہ کی زبان میں استعمال کیا جاتا ہے القاموس الجدید، القاموس العصری اور القاموس الأزہر وغیرہ کی مدد سے انہیں بتایا جائے
7 پوری متنبی زبانی یاد کرائی جائے اور پابندی کے ساتھ سنی بھی جائے البتہ امتحان میں اس حافظے کے متعلق سوالات نہ کئے جائیں
8 متنبی کے اشعار کو کچھ بنیادی مضامین اور کیٹیگریز میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مثلاً تعریف، وصل، فراق، اور سب سے اہم زندگی کی مصیبتیں اور حقائق وغیرہ وغیرہ اس طرح کی کیٹیگریز بنواکر پڑھاتے وقت اشعار کو کیٹیگریز میں شامل کرواتے رہیں پھر کیٹیگری وائز امتحان میں ان کے حافظے کا امتحان لیا جائے کیوں کہ اس طرح سے اشعار یاد کرنا نسبتاً آسان ہے
9 وقتاً فوقتاً طلباء کو موجودہ شعراء کا کلام بھی سنایا کریں ویڈیو اور آڈیو کے توسط سے
10 ان بچوں کی تشخیص کریں جن کے اندر اشعار سن کر غیر معمولی کیفیت پیدا ہوتی ہو یہ اصحابِ ذوق ہیں ان پر خصوصی توجہ دیں ان کے ذوق کی آبیاری کریں اور رہنمائی کریں، آپ بیلوں کی طرح سب کو ایک ہی لکڑی سے نہیں ہانک سکتے استاذ کے لیے نفسیات، مردم شناسی اور ذوق شناسی کا ماہر ہونا بہت ضروری ہے
11 سب سے اہم بات یہ کہ آپ اس لذت اور ایکسائٹمنٹ کے ساتھ کتاب کو پڑھائیں جو ایک عاشق کو اپنے محبوب سے وصل کے وقت ہوتی ہے
پہلی بات تو یہ کہ فن کے ماہر کو ہی فن کی کتاب متعلق کی جانی چاہیے لیکن فرض کیجئے آپ اس فن کے ماہر نہیں اور مجبوری کی بناپر یا کسی اور وجہ سے وہ کتاب آپ کے حوالے کردی گئی تو پلان بی پر عمل کریں
پلان بی یہی ہے کہ پڑھاتے وقت آپ اپنے آپ پر ایک شاعر کی کیفیت طاری کریں اور اسی لذت کے ساتھ پڑھائیں گرچہ آپ کو اس فن سے ذاتی شغف نہ ہو اور وہ لذت حاصل نہ ہو پھر بھی ایکٹنگ کریں
یہ ایک نفسیاتی چیز ہے کہ نقالی کرنے سے بھی انسان کا دماغ اس طاری شدہ کیفیت کو کچھ دنوں بعد اپنا بنالیتا ہے اور بے ذوق کے اندر بھی ذوق پیدا ہوجاتا ہے حتیٰ کہ ذرا سی ریاضت و ممارست کے بعد دماغ اس طاری کردہ کیفیت کو بھی اپنی فطرت ثانیہ میں تبدیل کرسکتا ہے بس آپ کو دماغ کو قائل کرنے کا اور فریب دینے کا طریقہ آنا چاہیے
اسی لیے میں تمام اساتذہ خصوصاً اپنی علماء برادری سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ تدریس سے قبل یا تدریس کے ساتھ دماغ کے طریقۂ کار اور نفسیات کا مطالعہ ضرور فرمائیں
یہ رجال سازی کا پہلا زینہ ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں