اہم خبریں

یونیورسٹیاں ، مدارس ۔ کیا فکری گمراہی 💢 بشکریہ المدرس

 

 

💢 مطالعہ کے لحاظ سے یونیورسٹی اور مدارس کے طلباء کے بارہ طبقات
فکری گمراہی سے بچنے کے لیے مطالعہ کی اک بہترین ترتیب
قیام الدین

کتابیں آپ کی مربی ہوا کرتی ہیں، وہ آپ کی فکری تربیت کررہی ہوتی ہیں آپ کے مستقبل کے رخ اور رجحان کو متعین کررہی ہوتی ہیں، کتابیں تنہائی کی رفیق اور سب سے مخلص دوست ہوا کرتی ہیں، کتابیں ناقد بھی ہوتی ہیں مصلح بھی ہوتی ہیں، کتابیں اگر آپ کے اندر تعمیری سوچ پیدا کرتی ہیں تو تخریبی سوچ بھی پیدا کرسکتی ہیں اس لیے کتابوں کے مطالعے کے بارے میں انسان کو بہت ہی زیادہ محتاط ہونا چاہیے، تو آئیے ذرا مطالعے کی پر پیچ وادیوں کی سیر کرلیں

ہمارے یہاں مدرسے اور یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس و طلباء کو مطالعے کے لحاظ سے مندرجہ ذیل طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
(میں نے طلباء کی تخصیص کردی ہے ورنہ تو اساتذہ اور پروفیسرز کو بھی ان طبقات کے تحت شامل کیا جاسکتا ہے لیکن فی الحال میرا مطمحِ نظر طلباء ہیں)

1 جنہیں مطالعے کا کوئی شوق نہیں ہوتا،
اب عموماً ہمارے مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں ایسے ہی طلباء کی کھیپ تیار ہورہی ہے اربابِ حل وعقد کے سامنے اس وقت یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس کے اسباب پر غور کرکے ان کے موانعات کو دور کریں اور شوقِ مطالعہ کو مہمیز دینے کی ترکیبوں پر غور کریں (بندہ کے ذہن میں بھی کچھ معروضات ہیں جنہیں پیش کرنے کی کوشش کرے گا ان شاءاللہ)
2 جنہیں مطالعے کا شوق تو ہوتا ہے پر صرف درسیات اور اس کے متعلقات کا
3 جنہیں درسیات اور خارجی مطالعے دونوں کا شوق ہوتا ہے پر وہ خارجی مطالعے کے لئے کتابیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اپنی غربت کی بنا پر یا کسی اور عارض کی وجہ سے
4 استطاعت تو رکھتے ہیں پر آس پاس یا کتب خانوں میں ذوق کے مطابق کتابیں ہی نہیں ہوتیں جن کو دیکھ کر پڑھنے کا مزید داعیہ پیدا ہو نتیجۃً ان کا ذوقِ مطالعہ ختم ہوجاتا ہے
5 کتابیں بھی دستیاب ہیں مطالعہ بھی کرتے ہیں پر ان کو مطالعے کا صحیح طریقہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس نوعیت کی کتاب کو کس اسپیڈ سے پڑھنا ہے کس کتاب کو اجمالاً پڑھنا ہے کس کو تفصیلاً، کس کتاب کا خلاصہ کیسے لکھنا ہے وغیرہ وغیرہ
6 مطالعہ کا صحیح طریقہ بھی معلوم ہے پر مطالعہ بامقصد نہیں ہوتا بس تفریحِ طبع کی خاطر مطالعہ کررہے ہوتے ہیں
7 بامقصد مطالعہ کرتے ہیں مگر صرف غیر اسلامیات کا
8 اسلامیات کا مطالعہ کرتے ہیں مگر وہ ترجیحات کا تعین نہیں کرپاتے کہ اسلامیات کے کس فن کو یا کس کتاب کو پہلے پڑھنا ہے کس کو بعد میں عدمِ پختگی یا عدمِ رہنمائی کی بناپر
9 بامقصد مطالعۂ اسلامیات کرتے ہیں مگر اس سلسلے میں وہ مسلم اور غیر مسلم مصنفین کی تفریق نہیں کرتے جو بھی کتاب جس کی بھی مل گئی اٹھا کے پڑھ لیا
10 جو اسلامیات کے باب میں محض اپنے مسلک کے مصنفین کا مطالعہ کرتے ہیں
11 جو اسلامیات کے باب میں اپنے مسلک کی کتابوں تک محدود نہیں رہتے بلکہ مطلقاً مسلم مصنفین کا مطالعہ کرتے ہیں مگر مختلف فیہ اور متفق علیہ مصنفین کے درمیان تفریق نہیں کرتے (نیز مختلف فیہ مسائل کے سلسلے میں بھی محض ایک جانب کے دلائل ہی جن کے پیشِ نظر ہوتے ہیں)
12 وہ لوگ جو مطالعے کے شوقین ہوتے ہیں
اور خارجی اور درسی دونوں قسم کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں
ان کے پاس کتابیں بھی مہیا ہوتی ہیں
مطالعے کا صحیح طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے
بامقصد مطالعہ کرتے ہیں
مطالعے کا خلاصہ بھی لکھتے ہیں
اور کسی بڑے استاذ یا سینئر کی رہنمائی میں ترجیحات کی تعیین بھی کرلیتے ہیں
جو اسلامیات اور غیر اسلامیات دونوں میں دلچسپی رکھتے ہیں
البتہ اسلامیات کے سلسلے میں اولاً اپنے مسلک کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں بعد ازاں پختگی فکر کے بعد مسلک کی قید سے آزاد ہوکر متفق علیہ علماء کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں
پھر مختلف فیہ مصنفین کے اختلاف کی نوعیت اور ان کی گمراہیوں کو پہلے سمجھتے ہیں غیر جانبدار ناقدین کی مدد سے پھر اس کے بعد ان کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے ہیں
اور اخیر میں اسلامیات کے سلسلے میں غیرمسلموں کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں جس کی غرض اسلامیات کو سمجھنا نہیں بلکہ اگر فکری گمرہی سے خالی ہے تو ان کے طرزِ تحریر سے استفادہ کرنا بصورت دیگر ان کی گمراہیوں کو سمجھنا اور اس موڑ کو تلاش کرنا ہوتا ہے جہاں سے ان کی فکریں بھٹکی ہیں تاکہ ہم ان کا ازالہ کرکے آنے والوں کے لیے سیدھی راہ ہموار کر سکیں فھذا ھو الطریق الصحیح للمطالعۃ عندی واللہ أعلم بالصواب
میں سمجھتا ہوں مطالعے کی یہ ترتیب سب سے بہتر ہے جس میں ایک جانب تو گمراہی کا اندیشہ بڑی حد تک کم ہوجاتا ہے تو دوسری جانب مطالعہ کا فائدہ فزوں تر ہوجاتا ہے اور فکریں بھی وسیع تر ہوجاتی ہیں محدود و مقید نہیں رہتیں آدمی روشن خیال بھی بن جاتا ہے مگر اس حد تک نہیں کہ وہ اس کو گمرہی اور ارتداد کے دہانے پر لا کھڑا کردے
ان حدود و قیود اور ترتیب کا لحاظ نہ رکھنے کی بناپر مدارس و جامعات میں ہماری فکریں کج روی کا شکار ہورہی ہیں اور ہمیں اس چیز کو بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ فکری کج روی عملی کج روی سے ہزار ہا درجہ گمراہ کن اور خطرناک ہے اور کج روی میں افراط یعنی بے جا تعصب اور تفریط یعنی بے جا روشن خیالی دونوں شامل ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.