اہم خبریں

🌹 خوبصورت شگفتہ شخصیتیں اور میٹھے میٹھے چشمے🌹از سید ریاض حسین شاہ صاحب



🌹خوبصورت شگفتہ شخصیتیں اور میٹھے میٹھے چشمے🌹                 علمی ،دینی اور روحانی مرکز ادارہ تعلیماتِ اسلامیہ پاکستان کے بانی  شخصیت محدث ،مفسر ،محقق، مؤرخ ، مفکر اور نامور خطیب حضرت سید ریا ض حسین شاہ  نے 5جولائی 2021کو ’’صدائے محراب ‘‘پروگرام میں علمائ، فُضلا، اُدبا اور دانشوروں کے جمِ غفیر سے فی البدیہہ، بالمشافہ خطاب کیا۔ جسے  ایک ٹی وی چینل  نے براہِ راست ٹیلی کاسٹ بھی کیا ۔ شاہ صاحب کے خطاب کا موضوع تھا ’’خوبصورت شگفتہ شخصیتیں اور میٹھے میٹھے چشمے‘‘ یہ خطاب اپنی نوعیت کا منفرد خطاب تھا۔ راقم جو بطورِ سامع اس محفل میں شریک تھا اسے تحریری شکل دی ، مفاد عامہ کی خاطر  نوائے وقت کے قارئین کی نذر ہیں۔ احمد اللہ جل وعلا واصلی و اسلم علیٰ خیر خلق اللہ وبعد ۔


آپ نے کبھی غور کیا کہ سورج سے لوگ اتنے زیادہ مرعوب کیوں ہیں ؟ اس کی روشنیوں کا بڑا چرچا دنیامیں کیوں کیا جاتا ہے ؟ حضور کریم ؐ کو بھی کائنات کاسراج منیر کہا گیا۔ اس کا جواب سنسکرت کے ایک سیانے عالم نے بڑے اچھے انداز میں دیاکہ اصل میں سورج اپنی روشنی دینے میں بخیل نہیں ہے اس لئے سورج کا بڑا چرچا ہے ۔ کالی داس نے تو اس بارے میں او ر بھی بہت ساری باتیں کیں ۔میں اس عنوان کو اگے بڑھاتے ہوئے کہوں گا کہ لوگ چاند کو شاعری میں کیوں اتارتے ہیں؟ اور جب اپنا کوئی محبوب یاد کرنا ہو تو تعریف چاند کی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تجھے دیوانوں کی طرح ڈھونڈتا ہے۔ اس کا جواب ایک انگریز سکالر باہُوتی نے دیا کہ چاند اپنی میٹھی چاندنی دینے میں سخی ہے بخیل نہیں ہے  اور لوگ جب حُسن کو رنگوں میں اتارتے ہیں تو مور کی رقص کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اور دھنک کی رنگوں کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ کہتے ہیں کہ دھنک اس لیے میٹھی ہے کہ اس کا رشتہ ایک طرف تو زمین سے ہوتا ہے اور دوسری طرف آسمان سے ہوتا ہے۔ ان رشتوں نے اس کی رنگوں میں جاذبیت پیدا کر دی ہے ۔ اور مور اپنے پروں کی رنگت لے کر کسی اور کی طرف دیکھتا ہی نہیں۔ وہ اپنی ہی ذات میں ڈوب کر رقص کناں ہوتا ہے۔ اس کو بھی اہل سخن نے شعروں اور مجازمیں اتار دیا ہے۔ 


 آپ کی شخصیت بھی سورج بن سکتی ہے ، آپ کی شخصیت دھنک کے رنگ بن سکتی ہے ، آپ کی شخصیت میٹھے چشمے کی صورت اختیار کر سکتی ہے آپ کی شخصیت گرتے آبشار کا انداز اختیار کر سکتی ہے ۔ اور یہ نور کی ندیوں کا خروش ہو سکتی ہے ۔ اور سمندر کی موج بھی بن سکتی ہے ۔ میں کوئی اور حوالہ نہیں دوں گا رسالت مآب ؐنے فرمایا خیر الناس من ینفع الناس ۔ لوگوں میں بہترین وہ ہے ، سب سے اچھا وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ جس ذات کے اندر منفعتیں اپنی ذات ہی کیلئے نہ ہوں وہ خیرات بھی کرتا ہو وہ نثار بھی کرتا ہو وہ کسی کا فدائی بھی ہو اور فدائی بھی بخل کے ساتھ نہ ہو کہ اچھے الفاظ بھی نہ کہے۔ بندہ جس کافدائی ہوتا ہے اس کے نام کے گیت بھی ہوتے ہیں اس کے نام کے زمزمے بھی ہوتے ہیں اس کے نام کی شاعری بھی ہوتی ہے۔ ادب کے آنگن میں رقص بھی کرتا ہے۔ سرکار عالم ؐ کی بات ہمارے لئے مینارِ نور ہے ۔ فرمایا سب سے اچھا شخص و ہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔  یہ صوفیائے کرام جو ہوتے ہیں نا ان کا اقبال اللہ تعالی بلند کرے ان کی تعلیم شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ کسی کو دکھ نہ پہنچائو کسی کو تکلیف نہ دو ، لوگوں کو فائدہ پہنچائو ۔ ان کو نفع پہنچائو ایک انسان اگر چاہے تو وہ اپنی ذات کو دوسروں کیلئے میٹھا چشمہ بنا لے۔ اور موجزن چشمہ بنالے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اسے اپنی ذات کو خوبصورت بنانے کیلئے کیا کیا کرنا چاہیے؟ اور کیا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ میں آپ کو لے کر تھوڑی دیر بعد مدینہ شریف جائوں گا۔ میں حضور پاک ؐکی باتیں آپ کو سنائوں گا لیکن اس سے پہلے میں ایک مغربی مفکر کے چند جملے آپ کی نذر کرتا ہوں وہ کہتا ہے کہ "Sweet people"کون ہوتے ہیں ؟ میٹھے میٹھے لوگ کون ہوتے ہیں؟ پیارے پیارے لوگ کون ہوتے ہیں جناب دعویٰ سے انسان میٹھا نہیں ہو سکتا ۔ کہانیاں ہیں کچھ اُن کہانیوں میں تلاش حُسن کرنی پڑتی ہے اور سفر کو محتاط بنانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے بغیر تعصب کے مذاہب کا مطالعہ کیا۔ میں نے ادیان کا مطالعہ کیا۔ مکاتب کو کھنگالاکہ میں تلاش کروں کہ وہ لوگ جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے ہوتے ہیں وہ attractکرتے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اترتے ہیں اور لوگوں پر چھا جاتے ہیں۔ ان کی عادتیں کیا ہوتی ہیں ؟ پہلا جملہ انگریز کا "They expect less"یعنی وہ دوسرے سے امیدیں کم رکھتے ہیں اور توقعات کم رکھتے ہیں۔    (جاری  ہے)


 انسان کی بربادی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ میں تیرے گھر آئوں تو مجھے کیا دو گے؟ اور تم میرے گھر آئے گا تو کیا لے کر آئے گا؟ جس وقت جب انسان کی شخصیت حِرص اور آس کی تاریکی اور darknessمیں ڈوب جاتی ہے تو اس وقت وہ انسان فنا ہو جاتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ایسے لوگ تلاش کرو جو میٹھے ہوتے ہیں ۔ کہ They expect lessیعنی وہ بے نیاز ہوں ان کی طبیعت میں بے نیازی ہو ۔میں کیا کروں ، میں کسی کو جلانے کے لئے نہیں مجھے محبت پیدا ہوتی ہے جب مجھے آپ کہتے ہیں کہ آپ کدھر جا رہے ہیں واپس آئیے ہمارے پاس۔ لیکن میں کیاکروں ۔ میں کس حضوری میں ہوں مجھے اجازت ملے گی تو میں آپ کے پاس آئوں گا۔ اجازت ہی نہ ملے تو میں آپ کے پاس کیسے آسکتا ہوں۔ They expect lessبے نیازی کی تصویر ہوں وہ چھوٹے چھوٹے اغراض کے کشکول لے کر دہلیزوں پر بے سوادوں کی طرح ذلیل نہ ہوں ۔اگر ایسی عزت والے ہوں تو مجھے قسم ہے انصاف کی کہ میں تم سب کو انصاف دینے کیلئے تیار ہوں۔ کیا کوئی کاظم ؒ کی طرح کسی نے دیکھا ہے ؟داتا ہجویری کی طرح کسی نے دیکھا ہے ؟ غریب نواز کی طرح کسی نے دیکھا ہے ؟ غوث پاک جیسا کسی نے دیکھا ہے؟ علی شاہ ہمدان جیسا کسی نے دیکھا ہے؟ کوئی ان کی تجوری خرید نہ سکا کوئی مال ان کے لئے باعثِ کشش نہیں بن سکا۔ وہ بے نیازی کے بادشاہ کیسے بنے؟ اس لئے بنے کہ وہ سیدنا علیؓ کی دہلیز کی خاک تھے ۔ انہوں نے اپنے آپ کومٹی بنا دیا تھا۔وہ تصوف کو جانتے تھے وہ خیر کا سبق دیا کرتے تھے وہ جانتے تھے کہ یہ دولت کہاں سے ملتی ہے۔ قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے کہ بندہ مرید غوث پاک کا ہو اور تعریفیں کسی اور کی کرے۔ مرید تو غریب نواز کو ہو اور تعریفیں کسی اور کی کرے ۔ مرید علی ہجویری کا ہو اور قصیدے کسی اور کے پڑھے۔جو بندہ صحیح ہوتا ہے نا تو وہ they expect lessوہ خود کو سخی بناتے ہیں اور دینے والے بن جاتے ہیں۔ وہ نوازتے ہیں ان کے ہاتھ سے دو جہاں کی نعمتیں ملتی ہیں لیکن وہ خود کسی سے امید نہیں رکھتے۔ ان کی نظر ہر دم اللہ پر ہوتی ہے ۔ وہ اللہ کا نام وردِ زباں کرتے رہتے ہیں۔ 


 دوسری چیز جو انگریز مفکر نے بتائی اس نے کہا they smileیعنی مشکل سے مشکل وقت بھی وہ اپنے چہرے سے مسکراہٹ کو دور نہیںکرتے۔ وہ غموں کو پی جاتے ہیں۔ وہ مصیبتوں کو پی جاتے ہیں میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ حضرت علی ؓ تو وہ ہیں جس کی مسکراہٹ کی گواہی سیدنا عمرؓ نے دی۔ سیدنا صدیق اکبر ؓ نے دی۔ حالات میں جتنا تنائو ہو جتنا پریشر ہو وہ گھبراتے نہیں وہ اپنے دوستوں کو مسکراہٹوں سے مالا مال کر دیتے ہیں ۔حضور کریمؐ نے فرمایا ۔ الابتسام علے وجہ المسلم صدقہ، یعنی مسکرانا اور بات اچھی کرنا بھی صدقہ ہے ۔ ایسا صدقہ کرنے والے لوگ بہت عظیم ہوتے ہیں۔ They are resilientوہ لچکدار ہوتے ہیں ان کی شخصیت آسان ہوتی ہے مشکل نہیں ہوتی ۔ صعوبت ان کے اند رنہیں ہوتی ۔ ان میں تنگی نہیں ہوتی ۔ جناب آپ اپنی شخصیت کو میٹھا چشمہ بنائیں۔ اپنی شخصیت کو آسان بنائیں۔ آپ کا اپنا بیٹا ساری زندگی آپ کے ساتھ بیٹھ ہی نہ سکے۔ آپ کی بیٹی آپ کے لفظوں سے حیاء کی خیرات لے ہی نہ سکے۔ آپ کی بیوی کے ہاتھ میں پلیٹ آپ کے رعب سے ہمیشہ تھرتھراتی رہے۔ آپ اپنی بھائی کو عزت نہ دے سکیں اپنے دوستوں کو کبھی نواز ہی نہ سکیں۔ تو آپ کامیاب انسان نہیں ہیں۔ کامیاب انسان وہ ہوتا ہے جو سادہ ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کم علم ہو لیکن وہ بولڈ ہوتے ہیں۔ وہ مہمان نوازی میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کا دشمن بھی ہو وہ ان کو نوازنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ عالی وقار دوستو they are authenticیعنی بندہ وہ عظیم ہوتا ہے جو مستند ہو۔  facebookکی تصاویر وں سے متاثر نہ ہوا کریں کہ پیچھے باپ کون ہے اور ماں کون ہے۔ کوئی علم کا حوالہ ہے کہ نہیں ، خاندان کا حوالہ ہے کہ نہیں ، صحبت کا کوئی حوالہ ہے کہ نہیں؟بیسٹ کمپنی کا کوئی حوالہ ہے کہ نہیں؟ ہمیشہ authenticلوگوں کی باتیں کیا کرو۔ کہا جاتا ہے کہ وہ شخص جاہل ہوتا ہے جو عالِم کی بات سمجھے بغیر بحث کرتا ہے ۔ وہ عالِم اس سے بھی زیادہ جاہل ہوتا ہے جو اس کو اہمیت دیتا ہے۔ جناب ذرا سوچیئے آسمان کبھی بھی زمین پر نہیں اترا ۔ آسمان نے رب العزت سے عرض کی اے اللہ میں تونیچے نہیں جا سکتا اپنی محبوب ؐ کو اوپر لے آئیے تا کہ میں ان کے قدموں کے بوسے لے سکوں۔ یاد رکھئے جو لوگ آسمان کی طرح بلند ہوتے ہیں وہ تنکوں کو اور ڈھیر کے کیڑوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ لچکدار ہوں اور authenticatedہوں۔ 


 آگے چل کر مفکر کہتا ہے کہ they lift othersجو مستند شخصیات ہوتی ہیں وہ دوسروں کو اٹھاتی ہیں۔ مجھے لکھنا نہیں آتا تھا زبان میری اردو نہیں تھی۔ علم و ادب کی ایک بہت بڑی شخصیت علامہ الشاہ عارف اللہ شاہ قادری میرٹھ کے تھے۔ پنڈی میں آکر آباد ہوئے جب عین ،غین سے لڑی شہرت پائی میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا فرمانے لگے بڑے میاں لکھیں ۔ تو میں نے ایک مضمون لکھ کر ان کودیا ان کا پرچہ اس زمانے کا بہت معروف میگزین تھا۔ میگزین جب چھپا تو میرا مضمون بھی چھپ چکا تھا۔ لیکن مضمون وہ نہ تھا جو میں نے لکھا تھا آپ نے خود لکھ کر میرے نام کے ساتھ شائع کر دیا تھا۔ جب میں نے پوچھا تو فرمانے لگے بچہ آئندہ مضمون آدھا آپ کا ہوگا اور آدھا میرا ہو گا اور فرمانے لگے کہ ایک وقت آئے گا کہ سارا مضمون آپ کا ہو گا۔ آپ کے قلم میں طاقت آجائے گی آپ کی قلم میں سکت آجائے گی آپ الفاظ کو خوبصورتی کے ساتھ جمع کرنے لگو گے۔ اور پھر ایک تاریخی جملہ فرمایا جو بڑے لوگ چھوٹوں کو نہیں اٹھاتے وہ بڑے نہیں ہوتے۔ بڑے وہ ہوتے ہیں جو چھوٹوں کو کندھوں پر اٹھانے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ اگر اس کی مثال دیکھنی ہو تو حضرت علیؓ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے تو نہیں تھے۔ چھوٹے تھے لیکن جب بت شکنی کی بات آئی تو حکم فرمایا کہ علیؓ! میرے کندے پر پیر رکھ کر اُٹھ اور بتوں کو توڑنے لگ جائو۔ علی ؓ نے عرض کی حضورؐ آپ تو بڑے ہیں آپ کا سر مبارک تو عرش سے لگتا ہے ۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں پوچھ کر بتاتا ہوں پھر فرمایا علی ؓ اوپر دیکھو کیا نظر آرہا ہے؟ سیدنا علی ؓ نے فرمایا حضورؐ میں اتنا اونچا ہو گیا ہوں اگر چاہوں تو عرش کاپایہ پکڑ لوں ، عرش کا پایہ تھام لوں۔


 they lfit othersجو بڑے لوگ ہوتے ہیں ، خوبصورت لوگ ہوتے ہیں وہ دوسروں کو اٹھاتے ہیں ، محلے میں دیکھتے ہیں کہ کتنے ان پڑھ ہیں ان کو پڑھاتے ہیں دیکھتے ہیں کہ کوئی یتیم ہے ، مسکین ہے ، ان کے کھانے پہننے کا انتظام کرتے ہیں ان کی ذات داتا ہوتی ہے ۔ ان کی ذات غریب نواز ہوتی ہے ۔ ویسے کوئی غریب نواز نہیں بنتا۔90لاکھ کی جھولی پہلے بھرنی پڑتی ہے تو وہ لا الہ الاللہ کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ انسان دوستی اسطرح کہ وہ دوسروں کو نوازتے ہیں دوسروں کو اٹھاتے ہیں ۔ ہمارے اکابر یہ خُو رکھتے تھے۔ جس وقت سے ہم نے اموال کی گٹھڑیوں پر مضبوط گرہیں لگا دیں ہیں اس وقت سے ہمارا دین کم پھیلا ہے ۔ شخصیتیں زیادہ پھیلی ہیں۔وہ لوگ جو نظریاتی ہوتے ہیں وہ خود چھوٹے بن جاتے ہیں دوسروں کو بڑا کر دیتے ہیں۔ دوسروں کو سپورٹ کرتے ہیں دوسروں کے لئے وہ جلتے ہیں۔ حضرت بابو جی ؒ گولڑہ والے سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ ریل گاڑی کا بہت ذکر کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اس لئے کہ خود وہ جلتی ہے دوسرے کو منزل پر پہنچاتی ہے ۔ اس کے انجن میں آگ جلتی ہے۔ 


 مفکر نے پھر کہاthey are humbleان کے اندر عاجزی ہوتی ہے یہ صرف درخواست لکھنے کیلئے الفاظ نہیں ہوتے۔ most humble and respectfully i beg to say۔ یہ انسان کے اندر کی حقیقت اجاگر کرنے کیلئے ہیں۔ آئیے میں اب آپ کو حدیث سنائوں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ نے ہدایت اور علم دے کر مبعوث فرمایا۔ اس کے مثال بارانِ رحمت کی ہے جس وقت بارش برستی ہے زمین تین قسم کی ہے بعض زمین ایسی ہے اس میں صالح مٹی ہوتی ہے جب رطوبت اس میں جاتی ہے تو وہ دانہ یاقلم نشو نما پاتے ہیں۔ پھر ایک دانہ کے 700دانے بن جاتے ہیں۔ جو کہ وہ زمین اُگاتی ہے اور پانی کے ساتھ مختلف درخت پودے جن سے جانور بھی کھاتے ہیں اور انسان بھی کھاتے ہیں۔ 


 دوسری زمین کی وہ قسم ہے جو کھٹادار ہوتی ہے سنگلاخ ہوتی ہے۔ وہ پانی کو جمع تو کر لیتی ہے لیکن کچھ اُگا نہیں سکتی۔ جس چشمے سے اسے پانی ملتا ہے وہ بے فائدہ ہوتا ہے ۔ رسول پاکؐ نے فرمایاتیسری زمین وہ ہے جو چٹیل ہوتی ہے وہ تو پانی نہ جمع کرتی ہے نہ دوسروں تک پہنچاتی ہے ۔ نہ وہ زمین خود کوئی فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔ اور آپؐ نے فرمایا مجھے ماننے والے لوگ بھی تین طرح کے ہیں۔ پہلے وہ لوگ ہیں جو میرے علم اور ہدایت کو محفوظ کرتے ہیں اور اس کو تقسیم کرتے ہیں، اور اچھے اچھے لوگ پیدا کرتے ہیںگویا شخصیات بھی تین طرح کی ہیں۔ بعض شخصیات ایسی گئی گزری ہیں جو کبھی کسی کو دھکا دیا کبھی اس کو بُرا بھلا کہا ، کبھی اس کو گالی دی ، کبھی اس کا کانٹا چبا، اور اس کو سوئی چبانا، اس سے کوئی چیز چھین لینا اس کو کوئی تکلیف دینا یہ ان کا وطیرہ ہوتا ہے ۔ اور بعض اتنے شفیق لوگ ہوتے ہیں کہ کیا کہنے! امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نے امام ابو حنیفہ ؒ کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے اتنی محبت دی کہ مجھے میرے ماں باپ بھول گئے ۔ان کے اندر لوگوں کی پیاس بجھانے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ اور وہ شخصیات دوسروں کے لئے کارآمد اور فائدہ مند ہوتی ہیں۔  


 حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ کسی انسان کا بڑا ہونا دیکھنا ہو تو یہ آدمی واقعتاً کتنا بڑا ہے ۔ تو دیکھو کہ اس کی عقل کی گرفت امور پر کتنی ہے ؟ کیا وہ سمجھدار آدمی ہے ؟ کیا وہ عقل مند آدمی ہے؟وہ ڈیل کیسے کرتا ہے؟ اللہ اکبر ، مجھے ایک اور حدیث یاد آئی فرمایا کہ جنت کے اندر جو مختلف پھل کھانے کو دئیے جائیں گے میرے حضور ؐ نے فرمایا کہ ہر آدمی اپنی عقل کے مطابق ان کی لذت محسوس کرے گا۔ کیلے ہوں گے ، سیب ہوں گے ،انار ہوں گے ہر ایک جتنی بقدرِ عقل ان کی لذت محسوس کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سمجھدار ہونا عقلمند ہونا ضروری ہے ۔ میں بعض اوقات کتابیں پڑھتا ہوں تو یقین جانیے کہ مغربی معاشرے کے لوگ جب بات کرتے ہیں گفتگو کرتے ہیں تو سمجھانے میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔ میں نے ایک واقعہ پڑھا کہ مزدور ایک گیراج میں کام کر رہے تھے دیکھادیوار کے اندر ایک گہرا سوراخ ہے جو بہت تنگ تھا اس میں ہاتھ ڈالا نہیں جا سکتا تھا اور نہ کوئی چیز اند رپہنچائی جا سکتی تھی پرندے کا ایک بچہ تھا جو اس سوراخ میں چلا گیا۔ دوسری طرف سوراخ بند تھا لوگ سوچنے لگے کہ پرندے کے بچے کو کس طرح باہر نکالا جائے؟ اگر دیوار کو توڑتے ہیں تو بچہ مر جائے گا۔ اگر پانی اس میں ڈالتے ہیں تو پرندے کا بچہ ڈوب جائے گا اور مر جائے گا۔ چنانچہ ایک دس سال کا بچہ آیا ویسے دس سال کے بچوں کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے ۔ بسااوقات اسلام کی تاریخ دس سال کے بچوں سے شروع ہوتی ہے اور پروان چڑھتی ہے اس بچے نے کہا چاچو پرندے کے بچے کو نکالنے کا طریقہ میں جانتا ہوں۔ بڑے میاں نے کہا نکالیں کیسے نکالیں گے۔ اس نے کہا مجھے ریت کی بالٹی دیجئے اس نے اس سوراخ میں چٹکی چٹکی ریت ڈالنی شروع کی جب تک ریت سوراخ میں جاتی رہی پرندے کا بچہ اوپر آتا گیا یہاں تک کہ پرندے کا بچہ سوراخ کے دھانے تک آگیا جب سوراخ ریت سے بھر گیا تو پرندے کا بچہ باہر نکال آیا اس موقع پر وہاں موجود ایک سیانے آدمی نے کہا کہ بعض کام زور سے نہیں بلکہ عقل سے انجام پاتے ہیں۔


 ایک اور واقعہ یاد آیا کہ امریکہ میں جب پہلے موٹر کار بنی اور سڑکوں پر آئی وہ ٹانگے اور گدھا گاڑی کی شکل میں تھی اس میں ہارس پاور کا انجن تھا جس سے گاڑی چلتی تھی دیہات کا ایک زمیندار شہر میں آیا دیکھا کہ اس کے ٹانگے کی مانند گاڑی ہے جو بہت تیز چلتی ہے پوچھا یہ کیا ماجرہ ہے واقف کاروں نے بتایا کہ اس کے اندر ہارس پاور انجن لگا ہوا ہے وہ اس کو اس قدر تیز چلاتا ہے اس نے جا کر وہ انجن خرید لیا اور گھر لے جا کر اپنے ٹانگے سے باندھ دیا۔ اور ٹانگے کو چلایا تواس کی رفتارمیں کوئی فرق نہ آیا وہ اسے اس دکان پر واپس لے گیا اور کہا کہ مجھے غلط چیز آپ نے دی ہے۔ میں نے اسے اپنے ٹانگے سے باندھا میرے ٹانگے کی رفتا رمیں ذرّہ بھر فرق نہیں آیا۔ آخر ایسا کیوں؟ تو اسے کہا گیا کہ یہ ہارس پاور انجن خاص سسٹم کے ساتھ کام کرتا ہے صرف ٹانگے یا گدھا گاڑی کے ساتھ باندھنے سے کام نہیں کرے گا۔ اگر اس سسٹم کے ساتھ اسے فٹ کیا جائے تو پھر گاڑیاں تیز چلنے لگتی ہیں ورنہ نہیں۔اسی طرح لائوڈ سپیکر کا کام ہے آوازوں کو بڑھانا۔ اگر لائوڈ سپیکر کا ہارن اوندھا کر کے اس کے اوپر پھونکنے لگ جائیں تو آوازوں کو نہیں بڑھائے گا۔ اس سے آواز اونچی نہیں ہو گی ۔ اس کو پراپر طریقے سے نصب کرنا پڑتا ہے ۔ بالکل اسی طرح بندے کی شخصیت اس وقت نکھرتی ہے جب اس کی عقل درست ہو۔ اور عقل اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوتی ہے جب تک ادب و اداب کے ساتھ محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیوانہ نہ بن جائے ۔ 


 حضرتِ لقمان حکیم کے پاس ان کے بیٹے آئے اور پوچھنے لگے کہ بابا جان ہمیں بتائیں کہ عقل مندی اور سمجھداری کی نشانیاں کیا ہیں؟ حکیم لقمان نے فرمایا کہ وہ نشانیاں یہ ہیں۔۱۔نخوت اور غرور اس شخص کے اندر نہ ہو اگر آپ دیکھیں کہ کسی انسان کے اندر غرور ہے اور کبر ہے تو یاد رکھیں غرور اور کبر عقل کا دشمن ہے۔ غرور والا شخص کبھی بھی درست فیصلہ نہیں کر سکتا۔ غرور اور تکبر انسان کی صلاحیتوں کو چاٹ جاتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ عاجزی اور انکساری کا تعویز بنا کر پی لے۔ تا کہ اس کے اندر سے کبر اور غرور نکل جائے ۔ اور عاجزی کا یہ عالَم ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جسے کہیں کہ یہ ابو تراب ہے ۔ ابو تراب کی عظمت کو دیکھیں ان کی فضیلتوں کو دیکھیں اور انداز ہ لگائیں او ر ان کی حکمت کا اور شجاعت کا اندازہ لگائیں اور ان کی عادلانہ گرفت کا اندازہ لگائیں ان کی انکساری دیکھیں۔ لقمان حکیم نے کہا کہ دوسری علامت عقلمندی کی یہ ہے کہ وہ دنیا کے ساز و سامان سے اتنا اختیار کرے کہ جو اس کی ضرورتوں کو پورا کرے اور بس۔ اور جو ضرورت سے زائد مال ہو اسے اللہ کی مخلوق پر خرچ کرے۔  میں آپ کو بتائوں کہ جنہوں نے سر پر تیلیوں کی ٹوپی پہن کر اور پائوں میں گھاس کی چپل پہن کر زندگی گزاری اور لوگوں کو نوازا اور جس وقت وصال کا وقت آیا تو دروازے کو کنڈی لگوائی اور کہا کہ اب مداخلت نہ کرنا میرا آخری وقت آگیا ہے۔ اور کہامیں نے اپنی ذات کے لئے کچھ بھی اکٹھا نہیں کیا ۔یہ شخص کون تھا آپ جانتے ہیں یہ حضرت غریب نواز تھا۔ اُن سے پوچھا گیا کہ اس قدر خرچ اور جمع کرنے میں احتیاط؟ یہ سب کچھ کیا ہے ؟تو فرمایا میں سیدنا علی ؓ کی اولاد میں سے ہوں۔


 حضرت لقمان نے عقلمند آدمی کی نشانی بتاتے ہوئے پھر فرمایا کہ جب اس کے سامنے کوئی آدمی اپنی ضرورت رکھے تو وہ ضرورت مند کے سامنے تُند مزاجی اور بد مزاجی نہ دکھائے۔ اور پھر فرمایا اگرکوئی نیکی کرے تو اس تھوڑی نیکی کو زیادہ کر کے بیان کرے۔ اور زیادہ بتائے۔ اور پھر فرمایا کسی کو اپنے سے زیادہ مرتبے کا دیکھے تو خوش ہو جائے اور کہے 


شکر ہے کہ اس امت میں بڑے عقلمند لوگ اور علماء موجود ہیں۔ جو دوسروں کا بھلا کرتے ہیں۔ دوسروں کے لئے نافع ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ میٹھے چشمے کی مانند ہوتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.