بنیانُ المَرصوص ۔ بھارت کی عبرتناک شکست اور پاکستان کا ابھرتا ہوا مقام
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
پاکستان نے ہفتے کی صبح طلوعِ فجر کے وقت ایک منظم، مربوط اور دانشمندانہ فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جس کی منظوری ملک کی اعلیٰ ترین سول و عسکری قیادت نے متفقہ طور پر دی۔ یہ آپریشن کسی معمولی ردعمل کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے دنوں اور ہفتوں پر محیط غیر معمولی منصوبہ بندی، قومی قیادت کا اعتماد، اور افواجِ پاکستان کے ایمان سے لبریز دل و دماغ شامل تھے۔ اجلاس کے اختتام پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جو دعا کی، وہ اس کارروائی کے روحانی پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ذرائع کے مطابق، جمعے کی شب وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والی ایک اہم مشاورت میں بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے خلاف ایک موثر ردعمل کی منظوری دی گئی۔ یہ قدم صرف فوجی ردعمل نہ تھا، بلکہ بھارت کے تکبر، اسلحے پر غرور اور مذاکرات سے انکار جیسے رویے کے خلاف ایک واضح پیغام تھا۔فجر کے وقت جب قوم سجدہ ریز تھی، افواجِ پاکستان نے بیک وقت مختلف محاذوں پر ایک ہمہ جہت آپریشن کا آغاز کیا۔ اس فیصلے کی بنیاد اسلامی تعلیمات اور فوجی ڈسپلن پر تھی۔ پہلا میزائل "نعرۂ تکبیر" کے ساتھ داغا گیا، جس نے صرف دشمن کے دفاعی نظام کو نہیں، بلکہ اس کے غرور کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان نے اپنی تکنیکی مہارت، جدید دفاعی صلاحیتوں، اور مؤثر حکمت عملی کے امتزاج سے وہ سب کچھ کر دکھایا جسے بھارت ناممکن سمجھتا تھا۔بھارت کے جدید رافیل طیارے، ایس 400 میزائل سسٹم اور اربوں ڈالر کے دفاعی سودے، چند گھنٹوں میں غیر مؤثر ہو گئے۔ پاکستان کے میزائل سسٹمز، ڈرونز، فضائیہ اور جیمنگ ٹیکنالوجی نے بھارتی دفاع کو مفلوج کر دیا۔ فوجی تنصیبات، کمانڈ سینٹرز اور ریڈار سسٹمز خاموش ہو گئے۔ بھارتی ردعمل غیرمنظم نہیں تو کم از کم ششدر ضرور تھا۔لیکن اصل حیرت انگیز دھچکا بھارت کو اُس وقت لگا جب اسے پاکستان کے غیر معمولی سائبر حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ ماہرین اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سائبر آپریشن قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی سرکاری اور دفاعی ویب سائٹس ہیک ہو گئیں، ڈیجیٹل کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام غیر فعال ہو گیا، اور ملک کا 70 فیصد حصہ بجلی سے محروم ہو گیا۔ یہ کارروائی اس وقت ہوئی جب دنیا پاکستان کو آئی ٹی کے شعبے میں بھارت سے پیچھے تصور کرتی تھی۔تجزیہ نگار اس صورت حال کو صرف ایک حکمت عملی نہیں، بلکہ ایک غیر مرئی قوت کی مدد بھی قرار دے رہے ہیں۔ آپریشن کے ہر پہلو میں ایمان، نیت کی پاکیزگی اور مقصد کی صداقت جھلکتی ہے۔ آپریشن کا نام، اس کی ٹائمنگ، اور اس میں شامل ہر سپاہی کا جذبہ سب کچھ اسلامی اصولوں اور روحانی قوت کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔اس فیصلہ کن کارروائی کے بعد بھارت، جو نہ جنگ بندی پر آمادہ تھا اور نہ مذاکرات پر، اب نہ صرف پسپا ہوا بلکہ مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہو گیا۔ برسوں کا غرور چند گھنٹوں میں تحلیل ہو گیا، اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ازسرنو ترتیب پا گیا۔یہ صرف ایک فوجی کامیابی نہیں تھی یہ اس عزم، نظم و ضبط اور ایمانی قوت کی فتح تھی جو افواجِ پاکستان کی پہچان ہے۔ یہ آپریشن محض ایک جنگی مہم نہیں، بلکہ ایک نظریاتی اور دفاعی پیغام تھا جس نے دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان صرف ہتھیاروں سے نہیں، ایمان، تقویٰ اور جذبۂ جہاد سے بھی لیس ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ""بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔"(سورۃ الصف، آیت 4)یہ آیت کریمہ دراصل آپریشن "بنیان المصوص" کے پس منظر اور عنوان کی بنیاد ہے، جس میں پاکستانی افواج نے دشمن کو بھرپور جواب دے کر ثابت کیا کہ وہ صرف ایک عسکری قوت ہی نہیں بلکہ ایک جذبہ ایمانی کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بھی ہیں۔ 2025 کی مئی میں شروع ہونے والی یہ جنگ بھارت کے اس غرور کا نتیجہ تھی جو وہ خود کو خطے کا تھانیدار سمجھ کر پالتا رہا۔ دنیا کی پانچویں بڑی فوج، جدید رافیل طیارے، جدید ترین ٹیکنالوجی اور میڈیا کا مکمل کنٹرول یہ سب بھارت کے پاس تھا۔ لیکن جنگ کے بعد جو نتائج سامنے آئے وہ دنیا کے لیے حیرت، بھارت کے لیے شرمندگی اور پاکستان کے لیے فخر کا باعث بنے۔بھارت نے حملے کا آغاز کیا مگر اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ کس قوم سے ٹکرانے جا رہا ہے۔ پاکستانی فضائیہ نے نہ صرف بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے بلکہ ایک ایئر بیس کو مکمل طور پر ناکارہ کر دیا۔ راجھستان، پٹھان کوٹ اور جے پور کی فضائی حدود کو چند دنوں کے لیے بند کرنا پڑا۔ بھارت کے پروپگنڈا مشین نے جھوٹ پھیلانے کی کوشش کی لیکن سیٹلائٹ تصاویر، غیر ملکی دفاعی تجزیہ نگاروں، اور خود بھارتی عوام نے سچ سامنے لانے پر مجبور کر دیا۔آپریشن "بنیان المصوص": حکمت، تدبر اور قوت کا شاہکاراس آپریشن کا نام بذاتِ خود قرآن سے ماخوذ تھا، جو نہ صرف ایک عسکری حکمت عملی کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ ایک روحانی پیغام بھی دیتا ہے۔ اس میں پاک فضائیہ، بحریہ اور بری فوج نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ دشمن پر کاری ضرب لگائی۔تھنڈر طیارے، جنہیں بھارت مذاق سمجھتا تھا، انہوں نے رافیل کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ پاکستانی بحریہ نے بھارتی نیوی کو بندرگاہوں تک محدود کر دیا اور بری فوج نے LOC پر دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔ دنیا نے دیکھا کہ یہ ایک متحد قوم ہے جس کی افواج اور عوام ایک صف میں کھڑے ہیں۔رافیل طیارہ، جسے بھارت نے دنیا بھر میں ایک شو کیس کے طور پر پیش کیا، پاکستانی JF-17 تھنڈر بلاک 3 کے سامنے بے بس دکھائی دیا۔ چین کی جدید ایویونکس، پاکستانی پائلٹس کی مہارت اور جدید وار ہیڈز نے رافیل کی “اسٹیلتھ ٹیکنالوجی” کو مکمل طور پر غیر مؤثر بنا دیا۔یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا کو محسوس ہوا کہ اب دفاعی ٹیکنالوجی کا مرکز مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ پاکستانی ہتھیار، میزائل سسٹم اور ڈرون ٹیکنالوجی اب دنیا کی نظروں میں ہے۔جذبہ ایمان اور اتحاد کی مثالی جنگ کے دوران سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھا۔ ہر شہر، ہر گاؤں، ہر محلے میں "ہماری فوج، ہماری شان" کے نعرے گونجتے رہے۔ عوام نے اپنے گھروں پر قومی پرچم لہرائے، دعائیں کیں، اور خون دینے کے لیے لائنوں میں کھڑے ہو گئے۔ میڈیا نے پاکستان کوریج دی اور بھارتی پروپگنڈے کا بھرپور جواب دیا۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مداخلت کی، تو یہ واضح ہو چکا تھا کہ بھارت کے لیے میدان خالی نہیں ہے۔ سی این این، بی بی سی، الجزیرہ، رائٹرز، اور کئی بین الاقوامی اداروں نے رپورٹ کیا کہ پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کیا، نہ صرف دفاع کیا بلکہ کسی قسم کی جارحیت سے پرہیز کیا۔بھارت کا میڈیا جھوٹ بولتا رہا، لیکن عالمی صحافت نے سچ دنیا کے سامنے رکھ دیا۔جب بھارت میدان جنگ میں ناکام ہوا تو اس کے اثرات مقبوضہ کشمیر میں بھی دیکھنے کو ملے۔ کشمیری عوام نے جشن منایا، پاکستانی جھنڈے لہرائے اور ایک بار پھر اقوامِ متحدہ سے رجوع کیا گیا۔ اس جنگ نے عالمی اداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ کشمیر کا مسئلہ اب مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان پہلے ہی بھارت کی دھونس سے تنگ تھے۔ اب پاکستان کی کامیابی نے انہیں حوصلہ دیا کہ وہ بھی اپنی خودمختاری کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ چین پہلے ہی بھارت کا سیاسی و عسکری مخالف ہے، اب پاکستان کے ساتھ نئی صف بندی بن چکی ہے۔دفاعی و بین الاقوامی مبصرین نے کہا کہ ہے پاکستان اب صرف ایٹمی طاقت نہیں، ایک دفاعی ماڈل بن چکا ہے۔بھارت کے پاس صرف اسلحہ ہے، جنگی مہارت نہیں۔پاکستان کی سفارتی فتح، دفاعی مہارت، اور عوامی اتحاد نے نئی تاریخ رقم کی۔اختتامیہ:یہ جنگ صرف بندوقوں اور میزائلوں کی نہیں تھی، یہ ایک نظریاتی جنگ تھی۔ پاکستان نے یہ ثابت کر دیا کہ قومیں جذبہ، ایمان، اتحاد اور قربانی سے بنتی ہیں، نہ کہ جھوٹے پروپ وپوگینڈے اور میڈیا کے شور سے۔جدید فضائی جنگ اور بھارتی فضائیہ کی شکست اسی آپریشن کے تناظر میں ایک اور غیر معمولی واقعہ اُس وقت پیش آیا جب صبح چار بجے ایک سفارتی محاذ پر ہلچل مچ گئی۔ راولپنڈی سے چینی سفیر کو ہنگامی کال کی گئی، جس کے چند ہی گھنٹوں بعد ایک طویل عرصے سے تیار شدہ منصوبہ متحرک ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ صرف ایک فضائی جھڑپ نہ تھی، بلکہ بھارت کی فضائی برتری کے تاثر کو مکمل طور پر خاک میں ملا دینے والا واقعہ تھا۔بھارتی فضائیہ نے مغربی محاذ پر تقریباً 180 طیارے جمع کیے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ بالاکوٹ کی طرز پر حملہ کر کے پاکستان کو دباؤ میں لایا جائے، مگر انہیں اندازہ نہ تھا کہ اب فضائیں وہ نہیں رہیں۔اس بار، پاکستانی حدود کے اندر جو دفاع تھا، وہ صرف پاکستانی پائلٹ نہ تھے بلکہ ایک مکمل چینی فضائی جنگی نظام بھی تھا:J-10C لڑاکا طیارےPL-15 میزائل جن کی رفتار Mach 5 اور رینج 300 کلومیٹر سے زائدایری آئی ریڈارز جو طیاروں کو ایک متحد سسٹم میں جوڑ دیتے ہیںپاکستانی AWACS اور چینی سیٹلائٹ کی مدد سے ہدف بندیبھارت نے جب دیکھا کہ یہ کوئی عام فضائی معرکہ نہیں بلکہ ایک "الیکٹرانک گھات" ہے، تو ان کے جہاز 300 کلومیٹر پیچھے ہٹ گئے۔بھارت کی امیدیں رافیل طیاروں سے وابستہ تھیں، مگر جب ایک رافیل طیارہ — جس کی قیمت 250 ملین ڈالر تھی — فضا میں ہی PL-15 میزائل کا شکار بنا، تو پوری دنیا ہکا بکا رہ گئی۔ Spectra الیکٹرانک وارفیئر سسٹم بھی ناکام ہوا، اور دشمن کو نہ میزائل کا پتا چلا، نہ حملے کا۔یہ محض تکنیکی شکست نہ تھی، بلکہ ایک جغرافیائی پیغام بھی تھا کہ بھارت کی فضائی برتری اب صرف کاغذوں تک محدود ہے۔بھارتی ڈاکٹرائن کی مکمل ناکامی بھارت نے مہنگے پلیٹ فارم خریدے، مگر پاکستان نے ایک مکمل کلنگ چین تشکیل دی۔ ان کے مقابلے میں لڑنے والے صرف پائلٹ نہیں، بلکہ مکمل خودکار نظام تھے جنہیں دشمن دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔پاکستان نے C4ISR (Command, Control, Communication, Computers, Intelligence, Surveillance, Reconnaissance) کی بنیاد پر ایک نئی فضائی حکمتِ عملی اپنائی جس نے دشمن کو دفاع کے قابل بھی نہ چھوڑا۔یہ وہ موقع تھا جب دنیا نے پہلی بار تسلیم کیا کہ:"یہ 2019 نہیں، یہ بالاکوٹ نہیں۔ اب پاکستان کی فضائیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔حالیہ دنوں میں خطے میں جو کشیدگی پیدا ہوئی، اس نے ایک بار پھر اس بات کو ثابت کیا کہ پاکستان صرف ایک ایٹمی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک باشعور، باوقار اور حکیم قوم بھی ہے، جو جنگ کے میدان میں جواب دینا بھی جانتی ہے اور سفارت کاری کے محاذ پر صبر، حکمت اور فہم سے کام لینا بھی۔ آئیے ان پہلوؤں پر غور کریں جنہوں نے پاکستان کو اس تنازعے میں سرخرو کیا اور پوری دنیا کو باور کروایا کہ ہم محض بندوق کے زور پر نہیں، دلیل، تحمل اور توازن کے ساتھ امن کے داعی ہیں۔آئی ایم ایف اور بین الاقوامی حمایت: پاکستان کی سفارتی فتحاس مرتبہ جب پاکستان کو آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس میں حمایت درکار تھی، بھارت جیسے ملک نے مخالفت کے بجائے غیر حاضری کو ترجیح دی۔ ایک ایسا بھارت، جو ہر عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے، اچانک پیچھے ہٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان نے عالمی سفارت کاری میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ بھارت کو یہ ادراک ہو چکا تھا کہ اگر وہ مخالفت کرے گا، تو پاکستان کو فائدہ ہوگا اور خود اسے کوئی سیاسی یا معاشی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے بھارت نے اس مرتبہ خاموشی کو ترجیح دی۔اس موقع پر یہ تاثر بھی مضبوط ہوا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئی سمت متعین ہو رہی ہے، جہاں امریکی صدر نے یہ واضح کیا کہ امریکہ دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کو دوست سمجھتا ہے اور
دونوں کے درمیان امن کی حمایت کرتا ہے۔ اس بیان سے امریکہ نے نہ صرف ایک متوازن کردار ادا کیا بلکہ جنوبی ایشیا میں امن کے فروغ کے لیے مثبت رویہ اختیار کیا، جس کا براہ راست اثر بھارت پر پڑا اور وہ جارحانہ پالیسی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔جنرل عاصم منیر کی حکمت عملی: تحمل، تدبر اور بروقت ردِعملیہ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف پہلی بڑی آزمائش تھی، اور انہوں نے میدان جنگ میں نہیں بلکہ سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور عسکری ہر سطح پر اپنی قیادت کا لوہا منوایا۔ انہوں نے نہایت دانشمندی سے صورتحال کو سنبھالا نہ جذباتی فیصلہ کیا، نہ فوری ردِعمل دیا بلکہ وقت کا انتظار کیا، اور جب وقت آیا، تب قوم کو یقین دلایا کہ پاکستان کمزور نہیں بلکہ باوقار ہے۔پاکستانی افواج اور فضائیہ نے جس پیشہ ورانہ انداز میں بھارتی جارحیت کا جواب دیا، وہ نہ صرف ایک عسکری کامیابی تھی بلکہ ایک مضبوط پیغام بھی تھا: پاکستان دفاعی طاقت رکھتا ہے لیکن امن کی کوشش میں پیش پیش ہے۔ بھارتی طیاروں کے ساتھ ڈوگ فائٹ میں پاکستان کی فضائیہ نے دنیا کو حیران کر دیا اور اس کارروائی کو مستقبل میں عسکری حکمتِ عملی کے ایک کلاسیکی ماڈل کے طور پر پڑھا جائے گا۔مودی کی چالاکی یا بے بسی؟جہاں پاکستان نے ہر محاذ پر وقار اور تحمل کا مظاہرہ کیا، وہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسی کو اندرونِ بھارت تنقید کا سامنا رہا۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق مودی نے دانائی سے کام لیتے ہوئے مکمل جنگ سے اجتناب کیا، جبکہ دیگر حلقے اسے مودی کی سفارتی شکست اور عسکری ناکامی قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مودی کے پاس کوئی اور راستہ ہی نہ تھا ۔ پاکستان کی فضائی اور زمینی دفاعی قوت نے بھارت کی جارحیت کو ایسا جواب دیا کہ مودی حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ایئر ڈیفنس سسٹم کی تباہی، بھارتی پائلٹ کی گرفتاری، اور پاکستانی فضائیہ کا بھرپور جواب یہ سب کچھ مودی کے لیے شدید سیاسی دباؤ اور ہزیمت کا باعث بنے۔ ایسے میں اگر ٹرمپ نے سیزفائر کی بات کی تو وہ درحقیقت بھارت کے لیے ایک فیس سیونگ مہیا کرنے کی کوشش تھی، تاکہ مودی کی حکومت کو اندرونی سیاسی بحران سے نکالا جا سکے۔
اسلامی تعلیمات اور پیغامِ رسول ﷺاس پورے معاملے میں سب سے اہم پیغام ہمیں اپنی دینی تعلیمات سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر ہم تاریخ اسلام کی طرف نگاہ کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو فتح حاصل ہوئی ۔ فتح مکہ یا صلح حدیبیہ جیسے مواقع پر تو ان کا رویہ انتہائی نرم، صلح جو اور حکیمانہ رہا۔ دشمنوں کو معاف کیا، ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھا، اور امن کو ترجیح دی۔آج جب پاکستان ایک باوقار اور فیصلہ کن فتح حاصل کر چکا ہے، تو اس وقت ہمیں بھی یہی رویہ اپنانا چاہیے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نہ صرف جنگ جیت سکتے ہیں، بلکہ امن کو ترجیح دے کر دنیا کے سامنے ایک باشعور قوم کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ ہمیں نفرت، انتقام، اور تکبر کی راہوں سے ہٹ کر مفاہمت، برداشت اور عدل کی راہ کو اپنانا ہے۔مودی کے لیے پیغام: حقیقت کا اعتراف اور امن کی طرف واپسی : مودی حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان دشمنی پر مبنی سیاست کو ترک کرے۔ بھارت اگر واقعی ایک بڑا ملک بننا چاہتا ہے تو اسے بڑے پن کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔ پاکستان کے خلاف نفرت انگیز پالیسی اور جھوٹے فالس فلیگ آپریشنز بھارت کو عالمی تنہائی میں دھکیل دیں گے۔اس وقت پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ پاکستان نے ثابت قدمی کے ساتھ نہ صرف اپنے دفاع کا حق استعمال کیا بلکہ امن کے فروغ کی کوشش بھی کی۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی داخلی سیاست کو دوسرے ممالک کو بدنام کرنے کے بجائے اپنے عوام کی فلاح کی طرف لے جائے ۔جہاں 40 فیصد آبادی کے پاس بیت الخلا کی سہولت تک میسر نہیں، وہاں جنگ کی بجائے ترقی کی سوچ پیدا کی جائے۔وقار، تدبر اور امن یہی ہے پاکستان کا پیغام اس پوری صورتحال نے پاکستان کو عالمی سطح پر ایک نیا مقام عطا کیا ہے۔ ہماری افواج نے دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا، ہماری حکومت نے دانشمندی سے سفارت کاری کی، اور ہماری قوم نے یکجہتی کے ساتھ ہر چیلنج کا مقابلہ کیا۔ اب وقت ہے کہ ہم اس فتح کو صرف جذباتی نعرے بازی تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اسے مستقبل کی راہنمائی کے طور پر استعمال کریں۔ہمارا پیغام سادہ ہے:ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر جنگ مسلط کی گئی تو جواب دینا جانتے ہیں۔ہم امن چاہتے ہیں، مگر وقار کے ساتھ۔ہم دشمن کو شکست بھی دے سکتے ہیں، اور اسے معاف بھی کر سکتے ہیں اگر وہ شر سے باز آ جائے۔پاک بھارت جنگ کے خاتمہ پر اب یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ اس جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا، مجموعی طور پر جنگ کے اختتام اور سیز فائر کا سب نے خیر مقدم کیا ہےجہاں تک ہار جیت کا سوال ہے تو جیت پاکستان کی امن کی سوچ کی ہوئی ہے جیو اور جینے دو کی پالیسی کو کامیابی ملی ہے انڈیا بالخصوص مودی کی جنگ کی سوچ کو شکست ہوئی ہے، مہم جوئی،انتہا پسندی اور جنونیت کی ہار ہوئی ہے،جنگ میں دفاعی ، سفارتی، نفسیاتی اور میڈیا کے محاذ پرپاکستان کو سبقت اور فتح حاصل ہوئی ہےبھارت کو ہر محاذ پر شکست ہوئی ہےجنگ کے نتیجے میں پا کستانی قوم کا مورال بلند ہوا ہے شہریوں نے سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں مٹھائیاں بانٹیں آتشبازی کی پاکستان کے پرچم لہرائےسوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں،پاک فوج اور فضائیہ کے جوانوں کو ہار پہنائےآرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ہیرو بن کرابھرے ہیں، وزیر اعظم پاکستان ایک مدبر سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں ،مودی زخم چاٹ رہے ہیں ،ٹرمپ نے انڈیا کو فیس سیونگ دلوائی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں