اہم خبریں

شهرخوباں ہنزہ نگر 🎥رشحات قلم سعید ملک







شهرخوباں ہنزہ نگر 

 🎥 رشحات قلم  سعید ملک

فیصل آباد سے عشائیه کے بعد موٹر وے کے بہترین روڈ پر7 گھنٹے کے سفر سے صبح 6 بجے مانسہره  ، خانیوال سے پیف پارٹنر  محمد افضل سکائی برڈ سکول ، راؤ محمد اکرم نیشنل انگلش سکول، چوهدری محمد خالد شاهین پبلک سکول ، راؤ شاهد محمود اطهر پبلک سکول ،اور فیصل آباد سے محمد احمد حافظ پبلک سکول اور سعید ملک اسلامک گرائمر سکول تاندلیانواله شامل تھے۔

مانسہره سے 4 گھنٹے بعددریائے سندھ کے کنارے  بشام آتا ہے ۔ ضلع شانگلہ میں واقع خیبر پختونخوا کا ایک خوبصورت قصبہ ہے بشام کی معاشرت ایسی ہے که خواتین کا بازاروں میں نظر آنا ناممکنات میں شامل ہے.............

بشام کے گرم ترین دن کے بعد افضل بھائی کی ته دار بریانی کی ضیافت سے سب  لطف اندوزہوئے. بشام سے تیره گھنٹے کے ایک طویل اکتا دینے والے سفر کے بعد چلاس سے ہوتےہوئے جگلوٹ میں قیام کیا................
جگلوٹ دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں کوه قراقرم ،  کوه هندوکش اور کوه همالیه کے سنگم پر واقع دلکش مقام۔ موسم گرما میں موسم انتہائی خوشگواراور سرسبز علاقہ۔ یہاں دریائے گلگت کا پانی دریائے سندھ کے بہاؤ سے ملتا ہے، جو ایک مسحور کن قدرتی منظر پیش کرتا ہے  ۔ جگلوٹ قراقرم ہائی وے اور گلگت سے اسکردو جانے والی سڑک کے سنگم پر واقع ہے . یہاں سے دونوں اہم سمتوں میں راستے جدا ہوتے ہیں . ماؤنٹین هوٹل کے باہر راؤ شاهد کےپالتوکتے کا دوسرا جنم نظر آیا  اور وه حیران کن حد تک شاهد راؤ سے مانوس نکلا۔ 


جگلوٹ سے نزدیک میں ٹراؤٹ کے تالاب اور پکنک پوائنٹ پر پکی هوئی خوبانیوں کے درخت۔ امیر قافله محترم خالد صاحب نے ٹراؤٹ فش سے احباب کی ضیافت کروائی.

 اگلا پڑاؤ هنزه نگر کا مقام گنیش ٹھہرا۔ نماز عصر کی ادائیگی اور کچھ ریسٹ کے بعد هنزه نگر کے مین مقام کریم آباد کو نکلے.  کریم آباد وادی ہنزہ کا صدر مقام.اس کے گرد راکا پوشی اور گولڈن پیک  جیسی بلند و بالا چوٹیاں  ہیں، جو نظاروں کو لاجواب بناتی ہیں  ۔

 رات کو کریم آباد  مین بازار  سویٹزر لینڈ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ڈھلوانی بازار میں هوٹلز سوینیرز شاپس اور مقامی ہینڈی کرافٹس کی دوکانوں کی مدھم مدھم  لایٹیں خوابناک ماحول کا تاثر لیے ہوئے تھیں۔ پشاور شنواری ریسٹورنٹ کی دنبه کڑاهی سے عشائیه ہوا۔ واپسی گنیش هوٹل وہاں بون فائر اور شب بسری.

هوٹل ایک تو دریا کنارے پر اور دوسرا وسیع صحن جس میں چیری کے درخت جو  سرخ سرخ پکی هوئی چیری سے لدے ہوئے تھے اور انهیں کھانے کی ممانعت بھی نہیں تھی دوستوں نے خون کمی کو دور کرنا لازم جانا اورپکی ہوئی چیری سے ہر ممکن انصاف کیا۔

زمانه قدیم میں شاہرائے ریشم جو چائنا سے شروع هو کر سنٹرل ایشیا تک جاتی تھی اب پاک چین فرینڈ شپ کے تحت قراقرم ہائی وے کےنام سے بہترین روڈ جو چین کے بارڈر خنجراب پاس سے شروع ہوتا هے۔۔عطا آباد لیک سے خنجراب پاس تقریبا صرف 125 کلومیٹرکا سفر هے جنوری 2010 میں ایک بڑی لینڈ سلائڈنگ سے  وجود میں آئی۔ تقریبا 21 کلومیٹر طویل اور 350 فٹ گہری هے۔ راستے میں پانچ ٹنل بنائی گئی جن کی کل لمبائی سات کلومیٹر ہے۔اب یہ مقام بڑےسیاحتی مرکز میں تبدیل ہوگیا ہے۔ زپ لائن اور بوٹنگ پر رش رہتا ہے۔  ریستوران سونیئر شاپس اور مقامی دستکاری کی دکانیں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔......




اس کے بعد حسینی برج پہنچے ۔ وہاں کی کمیونٹی  عورتوں کو ہنر مند بناتی ہے۔ اور برسر روزگار کرتی ہے۔ حسینی برج تک پہنچنے کا صرف پیدل تنگ ڈھلوانی راستہ جس کے درمیان میں چشمہ کا پانی نالی کی صورت بہہ رہا تھا۔اور دونوں طرف مقامی خواتین مقامی ہینڈی کرافٹ ، ڈرنک کارنر ، ڈرائی فروٹ ، شہد جام  اور  خوبانی , چیری کے مشروبات کی دکانیں چلا رہی ہیں.

 حسینی  برج آهنی تاروں سے بنا جھولے والا پل ہے۔ سیاحوں کو لائف جیکٹ پہنا کر گزارا جاتا ہے۔ برج 600 فٹ سے زائد طویل ڈھائی ہزار میٹر سے زائد بلندی پر واقع ہے ۔عام سیاح اسے "دنیا کا سب سے خطرناک پل" بھی کہتے ہیں، لکڑی کے تختوں میں خالی جگہیں اور ایک زیرِ آب بورت جھیل کے اوپر اڑتے ہوا کے جھونکوں کے ساتھ کشش بھی ہے اور سنسنی بھی ۔ ......



وہاں سےواپس پھر جگلوٹ سے ہوتے ہوئے گلگت کو عازم سفر ہوئے۔ گلگت شہر صوبہ گلگت و بلتستان کا  صوبائی صدر مقام بھی ہے۔ وہاں سے احباب نے خشک میوہ جات خریدے ۔ رات قیام کے بعد طویل سفرکر کے بشو کو چھوڑتے  ہوئے شنگریلا پہنچے ۔ شنگریلا پوائنٹ کو دیکھ کر سفر کی تمام کلفتیں  دور ہو گئیں ۔ شنگریلا ریسورٹ، سکردو، عام طور پہ "ہیوِن آن ارتھ" کے نام سے مشہور ہے.موجودہ ریسورٹ کی بنیاد 1983 میں پہلے ناردرن اسکاؤٹس کے کمانڈر  نے رکھی. پہاڑوں کے درمیان 40 فٹ گہری مصنوعی جھیل بنائی گئی ہے۔  پیگوڈا ریسٹورنٹ، کیفے، اسنیک بارز، اور مشہور DC‑3 طیارے پر بنایا گیا ریسٹورنٹ  سبھی انوکھے تجربات فراہم کرتے ہیں . /////



پاکستان میں شائد ہی کوئی مقام شنگریلا سے زیادہ خوبصورت ڈویلپ کیا گیا ہو۔ چائنز طرز پر ریسٹورنٹ ، وہ جھیل کنارے ہوں یا اپر منزل پر ، جھیل میں کشتی رانی ، پھولوں کے تختے، روشیں ، کیاریاں ، بیلیں اور جھیل کے ساتھ ٹریک و چہل قدمی کرتے خوبرو مردوزن ، بچوں کی چہلیں ، الغرض طلسم ہوشربا کا سا منظر پیش کررہے تھے۔ متحمل مزاج محمد اکرم راؤ فوٹو گرافری  میں پیش پیش ر ہے۔ کوئی منظر هو یا کوئی لمحه ان کے کیمرے کی آنکھ سے بچ نهیں سکا۔




شب بسری سکردو میں کی اورصبح دوست زبردست مباحثت کے بعد دیوسائی کی بجائے اپر کاچھورا جھیل کے لیے عازم سفر ہوئے۔  گاڑی نے بلندی کی طرف سفر کیا بعد ازاں پیدل ایک پگ ڈنڈی پر شہتوت توڑ توڑکرکھاتے کافی اترائی میں جھیل پر پہنچے۔ بوٹنگ کی گئی۔ فوٹو سیشن کے بعد کوشش کی گئی. که شرط بد کر اوپر پہنچا جائے۔انعام کا اعلان بھی ہوا.







سیاحت کا حاصل وادی سوق رہی۔ دریا کے بالکل کنارے پر واقع گلیکسی ویو ریزورٹ پر ٹھہرے۔ دریا کا پانی کناروں سے باهر تک پھیلا هوا تھا اس کے کےدرمیان کرسیاں میز ایستاده تھے ۔ ننگے پاؤں یخ بسته پانی سے گزر کر کچھ فاصلے پر کرسیوں تک جانا اور وہاں بیٹھ کر چائے پکوڑوں سے تواضع۔ ہلکی ہلکی بونداباندی مسلسل جاری رہی ۔ درختوں سے توڑ کر شیریں شهتوت  بے تحاشه  کھائے گئے۔ کیمپنگ کا پروگرام بنا۔ حضرت افضل بھائی نے پوری جندجان سے مرغی ذبح کی ۔ سب نے مل ان کا ہاتھ بٹایا ۔ چکن کڑاهی تیار کی گئی۔ راولپنڈی کے خوش مزاج بائکر غلام عباس اور خرم شہزاد کو ساتھ شامل ہونے کے دعوت دی گئی۔ رات کو کیمپ فائر ہوا۔ شعر وشاعری اور مقامی ڈرائیور اسحاق کے گیت  کے علاوه خوش گپیوں میں وقت بتایا گیا.



ابھی صرف تین گھنٹے کی  ہی نیند  ہوئی تھی حسب سابق محمد احمد نے کوئی رعایت  نه کرتے  ہوئے نماز کےلیے اٹھا دیا اور رخت سفرباندھنے کا حکم دیا۔ اسی اثنامیں انڈےابالے گئے.جیسے جگلوٹ پہاڑوں،دریاؤں اور راستوں کا سنگم  ہے.تیسری بار نزدیک سے گزرهوا۔ راستے میں دوباره لینڈ سلائڈنگ سے واسطه پڑا۔ راسته کھلنےکاوقت 2گھنٹےکابتایا جارہاتھا۔ سڑک کنارے چٹائی بچھائی ۔ چائے بسکٹ ابلےانڈوں سے ناشته کیا ۔اور بعد میں وہیں لڈو کی بازی جم گئی.



بابو سرٹاپ کےراستےمیں جگه جگه برف جمی ملی،بٹه کنڈی کے مغالطے میں ایک سٹاپ پہلے رک گئے.ایک اچھے ریستوران سے ذائقه دار دنبه کڑاهی سے بھر پور انصاف کیاگیا.صبح سویرے ناران پہنچے دوست جیپ کے ذریعے جھیلوں کی ملکه جھیل سیف الملوک چلے گئے ۔ جھیل جتنی زیاده خوبصورت ہے رسته اتنا ہی پتھریلا، کٹھن اور خطرناک ہے بتایا گیا۔ که وهاں 4000 هزارسے زائد جیپیں ہیں ۔اوران مقامی لوگوں کا روزگاراسی سے وابسته ہے۔  شایداسی لیے سڑک نهیں بنائی جاتی۔


پارس سے سےہوتے ہوئےمهانڈری , وہاں پل کی تعمیر کے باعث کچھوے کی چال سے گزرے اوراس وجه سے 4 گھنٹے لیٹ ہوئے۔ بالاکوٹ میں‎ مقامی دوست عمیرخالد دوست کے ہمراه شدت سے ہمارے انتظار میں تھا۔

عمیر خالد نےبے پناه خلوص سے انتہائی پرتکلف مہمانداری کی۔ اورعزت سے سےنوازا۔ دوست کے کزن کی وفات پر فاتحه خوانی کے بعدرخصت لی گئی۔ راولپنڈی اورفیصل آباد سے ہوتے ہوئے مجھے تاندلیانواله  میں چھوڑ کر خانیوال کو رخصت هوئے ۔ یوں یه دلفریب سفرحسیں یادوں کےساتھ  تمام هوا۔ شاید کبھی زندگی میں ان  پرشکوه اوردلفریب رستوں پر پھرمحوسفر هوسکیں۔


عمیر خالد کے کمنٹس شعری قالب میں۔

قافلے ریت ہوئے دشت جنوں میں کتنے 

پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے ۔۔

.





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.