اہم خبریں

دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔ 💦 تحریر : محمد یوسف جمال

 


💦 دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قزوین نامی کسی شہر میں ایک پہلوان رہتا تھا۔ اس شہر میں رواج تھا کہ وہ لوگ اپنے بدن کے مختلف حصوں پر تصویریں گودواتے تھے ( خیال رہے کہ شرعا یہ جائز نہیں )۔
ایک  دن وہ پہلوان بھی تصویر گودنے والے کاریگر کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میرا طالع برج اسد ہے اس لیے میرے بازو پر دھاڑتے ہوئے ایک خوفناک شیر کی تصویر بنا دو۔ تاکہ میرے دشمنوں پر میری ہیبت بیٹھ جائے۔
کاریگر نے تصویر بنانے کے اوزار سنبھالے اور بازو میں ایک مقام پر سوئی داخل کی تو پہلوان درد کے مارے چلا اٹھا۔۔۔
اف۔۔۔! کیا کر رہے ہو۔۔۔؟ بہت تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔۔
شیر بنا رہا ہوں جناب، آپ ہی تو فرمایا ہے۔
کاریگر نے بڑے ادب سے جواب دیا۔
ارے میرا مطلب کون سا عضو بنا رہے ہو؟
پہلوان نے تکلیف سے بلبلاتے ہوئے کہا۔
دُم بنا نے لگا ہوں جناب! کاریگر نے کہا۔
پہلوان بولا: اس دُم نے تو دَم کر دیا ہے میرے ناک میں، دُم رہنے دو۔۔۔ آخر بغیر دُم کا بھی تو کوئی شیر ہوتا ہی ہوگا۔
کاریگر نے دوبارہ سوئی بازو میں داخل کی تو پہلوان نے ایک زوردار چیخ ماری اور کہنے لگا:
اب کیا بناتا ہے بدبخت، کیا مجھے مارنے کا ارادہ ہے؟
کاریگر نے کہا: کان بنا رہا ہوں۔
پہلوان بولا: رہنے دو۔۔۔ رہنے دو۔۔۔ میں نے ایک مرتبہ بغیر کان کا شیر بھی دیکھا تھا۔ تم کان مت بناؤ۔
کاریگر نے ایک بار پھر بازو میں سوئی گھونپی تو پہلوان پھر چلایا۔۔۔
اب کیا بنانے لگے ہو؟
پیٹ بنا رہا ہوں۔ کاریگر نے جواب دیا۔
ارے رہنے دے کیا شیر نے میرے جسم پر بیٹھ کر گوشت کھانا ہے؟ پیٹ مت بنا بس باقی کا شیر بنا دے۔
کاریگر نے اپنے اوزار اٹھائے اور بولا :
ایسا شیر میں نہیں بنا سکتا۔ بھلا کہیں ایسا شیر بھی ہوتا ہے جس میں نہ دُم ہو، نہ کان اور نہ ہی پیٹ؟
اگر جسم پر تصویر بنوانی ہے تو درد برداشت کرنا ہوگا۔
( از مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللہ تعالیٰ )
دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص کو مفتی بننے کا شوق چرایا۔۔۔
لہذا اس نے درسِ نظامی پڑھنے کے لیے ایک استاذ کی خدمات حاصل کر لیں۔
استاذ صاحب اپنی نشست پر جلوہ گر ہوئے اور فارسی قاعدہ نکالا۔  وہ شخص جھٹ سے بولا: جناب انگریزی کا دور ہے انگریزی کا۔۔۔۔ اب فارسی کو بھلا کون پوچھتا ہے؟ یہ ہم نہیں پڑھیں گے۔
معلم نے خاموشی سے قاعدہ بند کر کے صرف کی کتاب نکال لی۔
ابھی آدھی گردان پڑھی تھی کہ موصوف کے سر میں درد ہونے لگا۔۔۔
کہنے لگا: استاذ صاحب! یہ مضمون پڑھنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ اب تو جدید دور ہے، گردانوں کی ایک سے ایک موبائل اپلیکیشن آ گئی ہے، کلک کریں ایک سیکنڈ میں گردان آپ کے سامنے۔
یہ دیکھیں۔۔۔
اس نے موبائل اپلکیشن کھول کر معلم کو دکھائی تو وہ بھی کچھ متاثر ہو گئے۔۔۔
میرا خیال ہے صرف کو تو رہنے ہی دیں۔ بھلا اس ڈیجیٹل دنیا میں گردانوں کے رٹے کیوں ماریں؟ موبائل کھولو اور صیغہ دیکھ لو۔۔۔۔
اس نے معلم کو متاثر دیکھ کر فاتحانہ انداز میں کہا تو معلم نے صرف کی کتاب بند کر کے عربی کی ابتدائی کتاب نکال لی۔۔۔۔
ابھی چند الفاظ ہی پڑھے تھے کہ جھنجھلا کر کہنے لگا:
مولانا بڑی معذرت کے ساتھ ایک بات عرض کروں؟
جی بیٹا کہیے، کیا کہنا ہے؟
کیا ہمارے مدارس جدید دنیا سے بہت پیچھے نہیں رہ گئے؟
بیٹا، وہ کیسے؟
درس کے دوران اس غیر متعلقہ موضوع کے چھیڑنے پر معلم نے حیرت سے کہا۔
دیکھیں نا جو الفاظ اور جملے اس کتاب میں لکھے ہیں یہ سب انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ ایک لفظ لکھیں اور لغات کی لائن لگ جاتی ہے۔۔۔
 اس نے موبائل کی اسکرین دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
یہ دیکھیں۔۔۔۔ یہ دیکھیں۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ یہ بھی دیکھیں۔۔۔۔
اور بتائیں کس لفظ کا ترجمہ پوچھنا ہے؟  ایک سے ایک اپلیکیشن دستیاب ہے۔۔۔
میرا خیال ہے یہ بچوں والی چیزیں چھوڑیں۔۔۔ یہ سب میں گوگل سے دیکھ لوں گا آپ مجھے اگلے درجوں کی کتابیں پڑھائیں۔۔۔
معلم نے خاموشی سے کتاب بند کی اور الماری سے دوسری کتابیں نکال لائے۔۔۔
چلیے بیٹا پڑھیے۔۔۔
الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفرد۔۔۔۔۔
معلم بولتے رہے اور وہ منہ پھاڑے ان کی تقریر سنتا رہا۔۔۔
بالآخر اس کے صبر کا پیانہ لبریز ہو گیا۔۔۔۔
استاذ صاحب۔۔۔ استاذ صاحب۔۔۔۔ ایک منٹ ایک بات بتائیے کہ چند الفاظ پر اس قدر طویل بحث کا آخر فائدہ کیا ہے؟ میرے تو سر میں درد ہونے لگا۔۔۔ میں نے مفتی بننا ہے۔۔۔ لوگوں کو دین کے مسائل بتانے ہیں۔۔۔ کیا یہ کتاب اور اس کی یہ بحث دین کے کسی مسئلے میں کام آئے گی؟
بلکہ میرا تو خیال ہے کہ یہ کتاب درس نظامی میں ہونی ہی نہیں چاہیے۔
آپ نے فیس بک پر " پروفیسر انٹرنیٹوی صاحب " کا مضمون پڑھا؟
نہیں بیٹا میں انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتا۔۔۔۔
معلم کے اس جملے پر وہ زیر لب مسکرا کر بولا۔۔۔۔
" پروفیسر انٹرنیٹوی صاحب " بہت بڑے  اسکالر ہیں۔۔۔ اسکالر۔۔۔
انہوں نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ یہ کتاب نحو کے بنیادی مسائل کو یاد کرنے کے لیے لکھی گئی تھی۔۔۔ اور مدارس میں اسے جس فلسفیانہ انداز میں پڑھایا جاتا ہے وہ سراسر غلط ہے۔۔۔۔
نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ مجھے ایسی کتابیں نہ پڑھائیں۔۔۔ صرف وہ کتابیں پڑھائیں جس سے میں جلد از جلد مفتی بن جاؤں۔۔۔۔
معلم نے کافیہ بند کی اور منطق کی کتاب کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ وہ شخص کہنے لگا۔۔۔۔۔
چھوڑیں استاذ صاحب رہنے دیں۔۔۔ اس دور میں منطق کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ اور براہ کرم اس فرسودہ فلسفے کو بھی رہنے دیں۔۔۔۔ ویسے بھی یہ دونوں مضمون بہت مشکل ہیں۔۔۔ اچھوں اچھوں کے پلے نہیں پڑتے۔ میں نے فیس بک پر کئی مضمون پڑھے ہیں ان کے بارے میں۔۔۔ مجھے مفتی بننا ہے منطقی یا فلسفی نہیں۔۔۔۔
اس نے وہ دونوں کتابیں خود ہی اٹھا کر ایک جانب رکھ دیں۔۔۔۔
معلم نے سوچا کہ اس کو مفتی بننے کی جلدی ہے لہذا اسے اصول فقہ پڑھانا مناسب ہوگا۔۔۔۔
انہوں نے اصول فقہ کی کتاب کھولی تو کہنے لگا، استاذ صاحب! ایک بات پوچھوں؟
جی بیٹا ضرور پوچھیے۔۔۔
اس دور میں تو اکثر مفتی ناقل ہی ہیں نا۔۔۔
جی بیٹا، ایسا ہی ہے۔۔۔۔
تو پھر مدارس میں یہ اصول فقہ پڑھانے کا مقصد؟ یہ پڑھ کر میں مجتہد تو بن نہیں سکتا، مفتی ناقل ہی رہوں گا نا۔۔۔۔ جب مستقبل میں اس مضمون کا کوئی استعمال ہی نہیں تو میرا خیال ہے کہ وقت ضائع نہ کریں۔۔۔ بس مسئلے پڑھا دیں۔۔۔۔
معلم نے فقہ کی کتاب کھول کر پڑھانا شروع کیا۔۔۔۔
پڑھائی کے دوران وہ بار بار موبائل پر چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔۔۔۔
آخر درس کے دوران ہی بول اٹھا۔۔۔۔ یہ دیکھیے استاذ صاحب ایک زبردست اپلکیشن۔۔۔۔
ایک لفظ لکھیں اور مسائل کی پوری فہرست آپ کے سامنے۔۔۔۔
واؤ! امیزنگ۔۔۔ انگریز کا بھی کیا دماغ ہے۔۔۔۔ ایسی آفت چیز بنائی ہے کہ۔۔۔۔
استاد صاحب کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے:
میاں! ہمیں اجازت دیجیے ہم نے ایسا مفتی کہیں نہیں دیکھا جسے نے نہ نحو پڑھی ہو نہ صرف، منطق جانتا ہو نہ فلسفہ۔۔۔ اور مسائل کے لیے کتابوں کے بجائے مشینوں پر بھروسہ کرتا ہو۔۔۔
آپ موبائل سے کھیلیے۔۔۔ مفتی بننا ہے تو اس کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔۔۔
اگر کچھ سیکھنے اور بننے کا ارادہ ہے تو پھر نازک مزاجی چھوڑنی ہوگی۔۔۔
اپنے اساتذہ اور  بزرگوں پر اعتماد کرنا ہوگا۔۔۔ انہوں نے یہ کتب بلا وجہ درس نظامی میں شامل نہیں کیں۔۔۔
ضروری نہیں کہ ایک ایک بات کا فائدہ پہلے سے بتایا جائے۔۔۔
بیٹا یاد رکھیں۔۔۔
جو زمین ہل چلنے کی تکلیف برداشت نہ کر سکے وہ کبھی اناج پیدا نہیں کر سکتی۔
جب آپ کا سنجیدگی سے محنت کرنے کا ارادہ ہو تو بتا دیجیے گا۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔۔۔۔
( از ابن جمال الدین پاکستانی حفظہ اللہ تعالی )
یوسف جمال
11 محرم الحرم 1442ھ

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.