اہم خبریں

سر کی آنکھوں سے سیال شریف جانے والے ہر ہر راستے،ہر ہر سڑک،ہر ہر پگڈنڈی پر دیکھی گئی کیفیت۔ 💓 پروفیسر محمد جعفر قمر سیالوی

 


 الحمد للہ و کفی والصلوة و السلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ قَالَ: فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ۔

(مراۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد،6۔حدیث نمبر 5005)
💓 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریلِ امین کو اپنی بارگاہ میں بلا کر ارشاد فرماتا ہے۔اے جبریل میں فلاں بندے سے پیار کرتا ہوں تو بھی اس سے پیار کیا کر۔پس حضرت جبریل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر جبریل آسمانی مخلوق میں اعلان کرتے ہیں اے خلق خدا۔۔!
اللہ کریم فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔پھر اس زمین کے باسی سے تمام آسمانی مخلوق محبت کرتی ہے اور زمین میں بھی اس کے لیے مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔
ایسے ہی اللہ کے ایک محبوب بندے کی نماز جنازہ میں رشک قدسیاں،قریہ صالح،سیال شریف میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔
مذکورہ حدیث پاک کی عملی تشریح و توضیح سر کی آنکھوں سے سیال شریف جانے والے ہر ہر راستے،ہر ہر سڑک،ہر ہر پگڈنڈی پر دیکھی۔
مخلوق خدا گاڑیوں پہ،موٹر سائیکلوں پہ،رکشوں پہ،اور پیدل یوں کھچی چلی جا رہی تھی جیسے ان سب کے دلوں کی ڈوریاں اللہ کے کسی بندے کے ہاتھ میں دے دی گئی ہیں۔
اور لوگ پروانہ وار،جوق در جوق، ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ہر بندہ بہت جلدی سے پہنچنا چاہ رھا ھے اور دل میں یوں محسوس کر رہا ہےکہ اگر ایک گھڑی کی تاخیر ہو گئی تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔لوگ سینکڑوں ہزاروں میں نہیں لاکھوں کی تعداد میں تھے۔موضع دھریمہ سے ہی سڑک پر ہجوم شروع ہو گیا تھا لیکن جیسے جیسے سفر کٹ رہا تھا رہا تھا رش بڑھ رہا تھا۔
ساہیوال سے آگے تو گاڑی بھی 10 کی سپیڈ پر چل رہی تھی۔ تھوڑا آگے گئے تو لوگوں نے گاڑیاں چھوڑ دیں اور پیدل سفر کرنا ضروری سمجھا۔گرمی کی شدت اپنا بھرپور احساس دلا رہی تھی۔لیکن آج مرشد گرامی کی محبت اس پر کہیں غالب تھی۔ لوگوں کے چہروں پر تو پسینہ بہہ رہا تھا لیکن دل کے نہاں خانہ میں بیٹھا عشق کا مفتی کچھ اور ہی کہہ رہا تھا۔ سبھی لوگ گاڑیاں سڑک کے کنارے چھوڑ کر بہت وارفتگی سے بھاگے جا رہے تھے۔ میں نے بڑے بڑے ناز و نعم کے پلے ہوئے لوگوں کو انتہائی بے تابی کے ساتھ راستوں اور سڑکوں پر دوڑتے ہوئے دیکھا ہے۔سبھی کے دل میں فقط ایک آرزو تھی کہ اللہ کے اس پیارے بندے کی نماز جنازہ میں شرکت کر کے اپنی بخشش کا سامان کر لیا جائے۔
اسی صالح مقصد کی خاطر  ہزاروں مشائخ عظام اور علماء کرام  اپنے اپنے خلفاء،دارالعلوم کے اساتذہ اور طلبہ کے بہت بڑے بڑے قافلوں کے ساتھ جنازہ میں شرکت فرمائی۔
ہر شہر میں روزانہ کتنی اموات ہوتی ہیں اور کتنے لوگ جنازوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ فوت شدہ کے رشتہ داروں کو فقط منہ دکھانے کے لیے آتے ہیں۔
 لیکن جس جنازے کا میں تذکرہ کر رہا ہوں یہاں بھی لوگ منہ دکھانے کے لیے آئے تھے لیکن وہ کسی بندے کو نہیں بلکہ اپنے رب کو اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منہ دکھانے کے لئے آئے تھے تاکہ میدان حشر میں اپنے رب کو منہ دکھانے کے قابل ہوجائیں۔
یہ وارفتگی اور اللہ کے بندوں کے ساتھ دلبستگی کے مناظر دیکھ کر یہ آرزو مچل رہی تھی کہ کاش تمام آستانوں کی زینت مشائخ اکٹھے ہو جائیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی شناختیں چھوڑ کر اخلاص و للہیت اور محبت رسول کی شناخت پر خود بھی جمع ہوں اور اپنے تمام مریدوں کو بھی جمع کریں اور پھر نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا لائحہ عمل طے کریں۔
تو الحاد اور بے دینی کی قوتیں دم توڑ جائیں اور وطن عزیز میں نفاذ اسلام کی منزل قریب تر ہو جائے۔
یہ مخلوق خدا اپنے کاروبار بند کرکے،دکانیں چھوڑ کر،زمینداری ترک کر کے،دنیاوی مصروفیات کو سبوتاژ کرکے کیوں بھاگ رہی تھی بس یہ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ
اللہ کریم اپنے بندے سے محبت کیسے کرتا ہے اور پھر زمین کے چپے چپے پر قبولیت کی حسین داستانیں کیسے رقم فرماتا ہے
 جس ہستی کے جنازے کا ذکر کر رہا ہوں وہ ہیں
مخدوم المشائخ،نائب حضرت شیخ الاسلام و المسلمین، حضرت خواجہ محمد حمید الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ
آپ 1936ء میں دنیا اسلام کی ایک بہت بڑی روحانی اور علمی شخصیت حضرت شیخ الاسلام خواجہ محمد قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدس گھرانے میں پیدا ہوئے۔
آپ نے دارالعلوم ضیاء شمس الاسلام سیال شریف کے مردم ساز ادارہ میں تعلیم حاصل کی۔
اللہ کریم نے آپ کو حفظ قرآن کے عظیم خزانہ سے بھی نواز رکھا تھا آپ علوم جدیدہ و قدیمہ کا حسین سنگم تھے۔

حصول تعلیم کے بعد تقریبا دو دہائیاں تدریسی زندگی گزاری۔
پاکستان میں نفاذ اسلام کی راہ ہموار کرنے کے لیے سیاست سے بھی وابستہ رہے۔
آپ کے والد گرامی کا شمار پاکستان کے بانیان میں ہوتا ہے اس لئے وطن عزیز سے محبت آپ کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے تھی۔
اپنے والد گرامی کی طرح نفاذ نظام مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے لیکن شومئے قسمت کہ اس وطن عزیز پر ایسی جونکیں مسلط ہو گئیں جنہوں نے اس کا خون پینا شروع کیا تو اس کو اس منزل پر پہنچا دیا کہ اب اس کی معیشت دیوالیے کے قریب قریب پہنچ چکی ہے۔
اور یہ ملک سودی نظام کی اتنی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے اور آئی ایم ایف کے اتنے بھاری قرضوں تلے دب چکا ہے کہ اب اگر کوئی نظام مصطفٰی کی بات کرے تو ملکی معیشت کا سوال بہت بڑا اژدھا بن کر پھنکارنا شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مرض کا علاج کسی مولوی کے پاس کسی پیر کے پاس ہے ہی نہیں۔۔۔۔اس لیے علماء و مشائخ کی بجائے انگریزوں کے ان نقالوں اور ذہنی غلاموں سے ہی کام چلاؤ۔
حالانکہ عالم یا پیر جس نظام کی بات کرتا ہے وہ ان کا اپنا خانہ زاد اور طبع زاد نہیں بلکہ سارے جہانوں کو پیدا کرنے والے اور سب کی ضرورتوں کو جاننے والے اور ان کو پورا کرنے والے رب العالمین کا عطا کردہ ہے۔
1988ء سے لیکر 1991 تک آپ سینٹ کے ممبر بھی رہے۔
اپنے والد گرامی کے وصال کے بعد حضرت خواجہ شمس العارفین رحمتہ اللہ علیہ کا سجادہ سنبھالا اور خوب سنبھالا۔
 آپ اعلی انتظامی صلاحیتوں سے مالامال تھے۔طبیعت میں جلال غالب تھا جو مریدوں کی تربیت میں آپ کا معاون تھا۔ جلال کے ساتھ ساتھ حس ظرافت بھی رکھتے تھے لیکن مذاق میں بھی آپ کی شخصیت کا وقار اور رعب متاثر نہیں ہوتا تھا۔
 تواضع پسند تھے۔
فیصل آباد میں شیخ الاسلام کانفرنس میں آپ کے لئے بہت سارے القاب استعمال کیے گئے جب آپ خطاب فرمانے لگے تو ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ جب اتنے بڑے بڑے القاب استعمال کرتے ہو تو مجھے ندامت ہوتی ہے حقیقت یہ ہے کہ میں تو علماءکرام کی جوتیاں سیدھی کرنے کے بھی لائق نہیں ہوں۔
ہاں یہ بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ کسی کو عہدے پہ ناز ہے اور کسی کو منصب پہ،کسی کو اپنی جائیداد پہ ناز ہے اور کسی کو اپنے بنگلہ پہ لیکن سن لو مجھے دنیا کی دولت اور مال پہ ناز نہیں بلکہ غلامی پیر سیال پہ ناز ہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

آپ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ 35 سال سے کوئی ایک بھی محفل ایسی نہیں جو حضرت شیخ الاسلام کے نام سے منسوب ہو اور میں نے اس میں حاضری نہ دی ہو۔
ایک مرتبہ لندن سے پیر بھائیوں نے صرف دعوت نامہ بھیجا تو میں اپنی سعادت اور ڈیوٹی سمجھتے ہوئے وہاں حاضر ہو گیا
رسول الله صلی الله عليه وآلہ وسلم کے ساتھ آپکا دیوانگی کی حد تک تعلقِ عشقی تھا ارشاد فرماتے۔۔۔کہ یارسول اللہ کا نعرہ،صرف نعرہ نہیں بلکہ یہ حیات بخش سلوگن ہے اور یہ کئی فتنوں کا جواب ہے۔
1)یا حرف ندا سے اسکو پکارا جاتا ہے جو زندہ ہو۔
2)جو سنتا ہو۔
3)جو سمجھتا ہو۔
گویا یا رسول الله کہہ کر ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا نبی زندہ بھی ہے،سنتا بھی ہے اور سمجھتا بھی اور رحمۃ اللعالمین کی شان کے تحت تصرف بھی کر سکتا ہے۔
سعودی عرب میں جب اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کے ترجمہ کنزالایمان پر پابندی لگی تو آپ نے حضور ضیاءالامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی مشاورت سے سعودی حکام کو خط لکھا اور کنزالایمان سے پابندی اٹھانے کا بھرپور مطالبہ کیا۔
تحریک نظام شریعت اور تحریک ختم نبوت میں
قائدانہ کردار ادا فرمایا. آپ نے سینکڑوں مجالس اور کانفرنسز میں بھی تربیتی خطابات فرمائے ان میں سے کچھ نیٹ پر موجود ہیں آپ نے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کو بہت توسیع بخشی۔
بدلتے ہوئے ملکی حالات پہ گہری نظر رکھی اور پھر جو فیصلہ درست سمجھا وہ جرأت مندی کے ساتھ اپنے ارادتمندوں تک بھر پور طریقے سے پہنچا دیا۔
دارالعلوم ضیاءشمس الاسلام سیال شریف اور اس خانقاہ معلی سے وابستہ تمام اداروں کی سر پرستی فرماتے رہے۔
اور اب پیرانہ سالی میں جملہ روحانی و علمی امانتیں اپنے لخت جگر،نور نظر،حضرت خواجہ ضیاءالحق سیالوی مدظلہ العالی کے سپرد فرماکے 17 ستمبر بروز جمعرات بعد از نماز عشاء،وصال الہی سے شاد کام ہو گئے۔
اور دنیا کو پیغام دے گئے۔۔۔۔
ہر گز نہ نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
18 ستمبر بروز جمعہ المبارک بعد از نماز جمعہ آپکی نمازِجنازہ آپکے دادا مرشد، حضرت خواجۂ خواجگاں،قبلہ عالم،خواجہ نور محمد مہاروی رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان مبارک کے چشم و چراغ،مخدوم المشائخ،حضرت صاحبزادہ پیر محمد ہاشم مہاروی صاحب فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف نے پڑھائی اور خواجگان تونسہ شریف،خواجگان سیال شریف اور دیگر درگاہوں کے سجادہ نشین حضرات اور عقیدتمندوں کی موجودگی میں آپکو برستی آنکھوں کیساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
اللہ کریم آپکے درجات بلند فرمائے اور آپکے فیوضات باطنیہ کو جاری و ساری رکھے اور حضور پیر سیال کے سارے خاندان کو بالخصوص آپکے سجادہ نشین حضور خواجہ حافظ محمد ضیاء الحق سیالوی صاحب اللہ تعالی صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے اور انکو اسلاف کی حسین روایات کا خوبصورت وارث بنائے۔۔۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم
طالب دعا پروفیسر محمد جعفر قمر سیالوی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.