ایک گمشدہ وادی ، وادیِ آلائی 💢 سجاد اختر
ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی میں واقع (وادی الائی) وادیِ الائی مانسہرہ سے تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ دریائے سندھ کے تھاہ کوٹ پل سے ایک کچا اور دشوار گزار راستہ الائی جاتا ہے جس پر عام حالات میں جیپ کے ذریعے تقریباً دو سے اڑھائی گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ راستہ صرف بنہ گاوں تک جاتا ہے جو الائی کا ہیڈکوارٹر ہے۔ *بنہ کے علاوہ کئی مربع میل پر پھیلی ہوئی وادی کے بیشتر مقامات تک جانے کے لئے کوئی قابلِ ذکر راستہ موجود نہیں ہے۔ اس علاقے میں بڑے گاؤں بہت کم ہیں اور زیادہ تر آبادی دور دراز کے پہاڑوں میں پھیلی ہوئی ہے جہاں تک پہنچنے کے لئے عام حالات میں کئی دنوں کا پیدل سفر درکار ہوتا ہے۔
یہاں پہاڑوں کی ٹوٹ پھوٹ اور لینڈ سلائڈنگ کے باعث اکثر راستے بند رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان علاقوں تک پہنچنا عملاً بہت مشکل ہوتا ہے۔ عام حالات میں بھی یہ سفر مقامی لوگوں کے بغیر کرنا ممکن نہیں
وادیِ الائی کی مشہور چراہ گاہ چھور جو بہت وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہےاور باقی دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔ چھور کا علاقہ بہت اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے عام حالات میں گھوڑوں اور خچروں پر بنہ سے ایک دن کی مسافت پر چھور کے علاقے میں داخل ہوا جا سکتا ہے
چھور کی چراہ گاہ مشرق میں دریائے کنہار اور مغرب میں دریائے سندھ کے درمیان واقع ہے جبکہ شمال میں ضلع کوہستان ہے۔ چاروں طرف سے دشوار گزار چوٹیوں کے باعث بیرونی دنیا سے کٹی ہوئی یہ چراہ گاہ موسمِ گرما میں آباد ہوتی ہے اور یہاں چرواہے کشمیر، افغانستان، شمالی علاقہ جات اور شمالی پنجاب سے جا بستے ہیں اور یوں سینکڑوں عارضی آبادیاں قائم ہو جاتی ہیں۔ اکتوبر کے مہینے میں یہ لوگ نیچے کی طرف ہجرت کرتے ہیں کیونکہ اس کے بعد شدید سردی کے باعث یہاں رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔راستہ ہموار نہ ہونے کے وجہ سے وادی الائی میں سیاح بہت کم آتے ہیں اگر حکومت پاکستان اس علاقے میں راستے بنا دے تو یہ علاقہ سوئٹزرلینڈ کم نہیں ہے
یہاں ایک سیاحتی پوائنٹ گلائی مینڈوز بھی ہے جو شمشیر ویلی میں واقع ہے اس ویلی کی سیر میں آپ کو ایک نئے سیاحتی کالم کے ساتھ پھر کبھی کرواؤں گا ہمیشہ کی طرح دوبارہ ایک نئے سیاحتی کالم کے ساتھ آپکی خدمت میں حاضر ہوں گے تب تک اپنے میزنان سجاد اختر کو اجازت دیجئے
معلوماتی پوسٹ
جواب دیںحذف کریں