اہم خبریں

پہلوانوں سے زیادہ یہ انسانوں کا شہر ...... بشکریہ : امجد فاروق چشتی

 

.

گمشدہ اہلیان گوجرانوالہ       ( تاریخ کے جھروکے سے )
مگر شائد وہ شہر اور تھا اور کہیں کھو سا گیا ہے۔ کھیتوں اور ڈیروں کے بیچ مالٹوں کے باغ ہوا کرتے تھے۔ گوندلانوالہ کے راستے پہ نور باوا نام کی آبادی تھی، جس کی ایک جانب کرشن نگر کا محلہ اور دوسری طرف اسلام آباد کی بستی۔ کشن کے ناگری اور اسلام کی آبادی، دونوں اپنی اپنی مذہبی آزادی پہ بہت خوش تھے۔ ​
تھوڑے فاصلے پہ محبوب عالم ہائی سکول تھا اور صوفی جماعت صاحب، استاد کے طور پہ اپنی ہی ایک شہرت رکھتے تھے۔ مختلف ناموں کی مختلف گلیاں انسانوں کو اپنی آغوش میں لئے چپ چاپ پالتی جاتی تھیں۔ کپوراں والی گلی، گلی شیخ غلام حسین اور گلی شیخ جھڈو۔​
شیخ جھڈو چمڑے کے بہت بڑے تاجر تھے مگر اپنے ملازمین سے نالاں تھے۔ اس مسئلے کا حل انہوں نے یوں نکالا کہ ہندوستان بھر سے ضرورت مند مگر قابل بچے اس گلی میں اکٹھے کئے اور انہیں تعلیم دلوائی۔ یہاں سے نکلنے والے لوگوں نے شہر کو ایک نئی شناخت دی۔ الطاف گوہر سے لے کر جسٹس شیخ دین محمد تک تمام لوگ انہی گلیوں سے ہو گزرے ہیں۔​
میونسپل کمیٹی کے سات ممبر ہوا کرتے تھے، چار مسلم اور تین ہندو۔ ان چار میں سے ایک شیخ عطا بھی تھے جو بابو عطا کے نام سے جانے جاتے تھے اور کئی دہائیوں تک شہر کی سیاست کے اہم کردار رہے۔ گوجرانوالہ بار کے چالیس ممبر تھے، ان میں سے تیس سکھ راجندر سنگھ اور خوشحال سنگھ وغیرہ تھے جبکہ باقی مسلمان تھے۔​
اس سب کے باوصف، گوجرانوالہ ایک پرامن قصبہ تھا، جہاں لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ 1930 تک شیخو پورہ بھی انتظامی طور پہ گوجرانوالہ کا حصہ تھا۔​
شہر میں اردو بازار بھی تھا، خالصہ کالج بھی اور تقسیم سے ذرا پہلے ہندو کالج بھی کھل گیا۔ ہندوؤں اور سکھوں کی آبادی کے سبب یہاں گرودوارے بھی تھے اور مندر بھی۔ ان میں سے ایک جین مندر ہے جو بیری والا چوک میں ہے۔ مندر کی چوکھٹ پہ لکڑی کا انتہائی منفرد کام ہوا ہے اور اس کے نمونے اب نیشنل کالج آف آرٹس بھجوائے جاتے ہیں۔​
اس کے علاوہ دیوی والا تالاب کا بھی ایک مندر تھا۔ مندر تو اب بھی موجود ہے مگر آس پاس کی زمین پہ کسی صاحب اقتدار نے کشمیر محل نام کا سینما بنا ڈالا ہے، کشمیر کے نام سے لوگوں کے جذبہء حب الوطنی کو تقویت ملتی ہے اور سینما سے ایمان تازہ ہوتا رہتا ہے۔​

.



گورودواروں میں ایک گرودوارہ دمدمہ صاحب تھا جو ریل کی پٹڑی سے تھوڑے ہی فاصلے پہ قائم ہے اور ایک گورودوارہ بیری صاحب تھا۔ جرنیلی سڑک کے عین اوپر، نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کا دفتر بھی ہوا کرتا تھا۔ بختے والا محلہ اور گرجاکھ کا شمار شہر سے باہر کی آبادیوں میں ہوتا تھا۔​
پاکستان بننے کے بعد شہر کو معمول پہ آنے میں کچھ سال لگے مگر جس طرح زلزلے میں گرنے والے لوگ کبھی بھی مکمل طور پہ ٹھیک نہیں ہو پاتے اس طرح یہ شہر بھی پہلے جیسا نہ بن سکا۔ بجلی آ ئی تو پنکھا سازی کی صنعت کو عروج ملا۔ پہلے پہل امراء کے گھر میں سو روپے والا ممتاز فین آیا پھر آہستہ آہستہ جہیز کی فہرست میں شامل ہو کر انتہائی عمومی شے بن کر رہ گیا۔​
 

شہر، سارے کا سارا قدموں پہ ناپا جا سکتا تھا۔ سول لائینز، ضیاء پہلوان کا اکھاڑہ، جرنیلی سڑک، آپس ہی آپس میں گم ہوتی اور ایک دوسرے کا پتہ بتاتی گلیاں۔ رفتہ رفتہ نئے آباد ہونے والوں نے نئی بستیاں بسائیں اور شہر پہ نیا رنگ چڑھنے لگا۔​
گوجرانوالہ کا ذکر باؤ ٹرین کے بغیر ادھورا ہے۔ سیالکوٹ سے لاہور جا نے والی یہ ٹرین صبح صبح بابو اکٹھے کرتی، گوجرانوالہ سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچتی اور شام کو واپس آ جاتی۔ ٹرین میں زیادہ تر لاہور اور گوجرانوالہ کے طلباء اور سرکاری ملازم سفر کرتے تھے جو ملازمت کی غرض سے لاہور جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مغلپورہ فیکٹری کے محنت کشوں کی بڑی تعداد بھی ان اضلاع سے آیا کرتی۔ اس ٹرین کو پٹڑی سے اٹھا کر ٹی وی پہ لانے کا سہرا منو بھائی کے سر ہے۔​
 .

.

شہر میں سینکڑوں کہانیاں اور ہزاروں حوالے ہیں۔ امرتا پریتم کے علاوہ یہ شہر عبدالحمید عدم ، میرا جی اور ن م راشد جیسے سخنوروں کی جائے پیدائش بھی ہے۔ غالب کا پنجابی میں ترجمہ کرنے والے اثیر عابد بھی اس پنجابی شاعری کی روائت نبھا رہے ہیں جس کی بنیاد قادر یار نے رکھی اور جس کی پرورش ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے کی۔​
فن اور فنکار کے حوالے سے ہندوستان کی پہلی ملکہء ترنم ثریا کا بچپن بھی انہیں گلیوں میں گزرا، حالات البتہ انہیں ممبئی کی میرین لایئنز کے بڑے قبرستان تک لے گئے۔ موسیقار روشن بھی یہیں پیدا ہوئے۔ اب جن گلیوں میں ہریتھک روشن کے بڑے بڑے پوسٹر، حجام کی دوکانوں میں نظر آتے ہیں ، کسی زمانے میں اس کے دادا انہی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے۔​
سورمے پیدا کرنے کی روائت بھی ابھی تک گئی نہیں۔ ہری سنگھ، مہان سنگھ سے لے کر ونگ کمانڈر مٹی مسعود تک شہر کی دھرتی اس معاملے بھی مردم خیز ہے۔ اس میں کمال پور کے کرنل احسن ملک بھی شامل ہیں جن کی شجاعت کے لئے مانک شاء نے خصوصی چٹھی بھیجی۔​
مقتدر حلقوں میں اکرم ذکی اور ایوب خان کے دست راست الطاف گوہر بھی گوجرانوالہ کے رہائشی تھے۔ ریڈ کلف ایوارڈ کے مسلمان ممبر جسٹس شیخ دین محمد کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے ہی تھا۔ ان کی وہ میز جس پہ پاکستان کے مستقبل کے زیادہ تر نقشے کھینچے گئے اب بھی خاندان والوں کی تحویل میں ہے۔​
بارڈر کے اس پار، شملہ معاہدے کی روح رواں اور اندرا گاندھی کے قریبی مشیر پرمیشور نارائن ہاکسر بھی گوجرانوالہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ مذہب کے حوالے سے بھی شہر کا دامن خالی نہیں، وید انت کے مشہور عالم سوامی رام تیرتھ اور آیت اللہ عظمیٰ بشیرحسین نجفی کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے ہے۔ دلدار پرویز بھٹی کی ہمہ جہت شخصیت، سہیل احمد کی برجستگی، ببو برال کی ادائیگی، یونس بٹ کی جملہ نگاری اور منور ظریف کی ظرافت بھی گوجرانوالہ کی عطا ہے۔​
اس راستے میں کوئی کہکشاں تو نہیں ہے مگر ستاروں جیسا ایک مصطفیٰ زیدی ضرور تھا۔ نوجوان ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ آیا ۔ محبت کی  کہانی المیہ ہے یا طربیہ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

.


.
شہر سے چلنے لگے تو ڈونالڈ جیون مل مل گئے۔ دھل راجپوتوں کا یہ خاندان 1872 میں ہندوؤں سے عیسائی ہو گیا۔ ڈونالڈ صاحب کے پردادا کے مذہب تبدیل کرنے کا وا قعہ اب بھی گوجرانوالہ کے سب سے قدیم چرچ میں محفوظ ہے۔ یہ عمر کے اس حصے میں ہیں جب آدمی معاشرے کے خوف کو پس پشت ڈال کر سچ بولتا ہے۔ مسافر نے پوچھا کہ کبھی عقیدے کی بنیاد پہ کسی نے تنگ کیا تو کہنے لگے کہ ساری زندگی اسی شہر میں گزری ہے بختے والا محلہ سے گل روڈ تک کا سفر طے کیا مگر کبھی کسی نے تنگ نہیں کیا ۔ شہر کے لوگوں نے ہمیشہ اپنوں سے بڑھ کر پیار کیا ہے۔ مجھے لگا کہ پہلوانوں سے زیادہ یہ انسانوں کا شہر ہے.

۔                                        .                                    .                              .


 

2 تبصرے:

  1. Allama Pir Abu Tahir MUHAMMAD Abdul Aziz Chishti Nizami Sialvi G b isi shear me 100sy. Zaid umar pai Kamal hasti huwe.

    جواب دیںحذف کریں
  2. انشاءاللہ جلد گوجرانوالہ کے علماۓ کرام کے حوالے سے علیحدہ تبصرہ تحریر دیکھنے اور پڑھنے کو ملے گی

    جواب دیںحذف کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.