اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ اور اس پر منعم حقیقی کا شکر بجا لانا ہر انسان خاص طور پر اہل ایمان پر واجب ہے۔ محبوب خدا رحمت اللعالمین خاتمہ النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وجہ تخلیق کائنات ہیں اس لئے آپ کا وجود مسعود تمام مخلوقات خاص طور پر امت محمدیہ کے لئے اللہ کریم کی سب سے بڑی عطا اور نعمت کبری کا درجہ رکھتا ہے۔ آپ ہی کی وہ ذات ہے جس کی عطا پر خالق نے بطور خاص ہم پر بر ملا احسان جتلایا ہے۔ چنانچہ حکم ربانی کی روشنی میں اس نعمت عظمی کا کثرت سے ذکر کرنا اور اس پر ہر وقت معبود حقیقی کا شکر بجا لانا تمام انسانوں خاص طور پر اہل ایمان پر فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان بلا تفریق رنگ و نسل ماہ ربیع الاول خاص طور پر 12 ر بیع الاول کو سیرت و میلاد اور درودوسلام کی مجالس منعقد کرتے، دروبام کو سجاتے، گھروں بازاروں کو قمقموں سے روشن کرتے، جلوس میلاد نکالتے اور ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنے اپنے انداز اور توفیقات کے مطابق خوشیاں مناتے ہیں۔

خالق کائنات کے اس عظیم انعام پر تحدیث نعمت اور شکر خداوندی کا کما حقہ اظہار ہماری بساط سے باہر ہے۔اس لئے ہر ملک قوم بستی کے مسلمان تاریخ و سیر ت النبی کی روشنی میں اپنی اپنی زبانوں میں اظہار مسرت و شادمانی کے لئے رائج مختلف الفاظ و تراکیب و اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے دینی و سماجی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر والہانہ استقبال کی سب سے زیریں مثال ہمیں ہجرت کے موقع پر اہل مدینہ کے مختلف قبائل کی طرف سے حدود شہر سے باہر نکل کر جلوس کی شکل میں آپ کو خوش آمدید کہنے کے واقعہ سے ملتی ہے۔یہی وہ خوش نصیب گھڑی تھی جب بنو نجار کی بچیوں نے اپنی مقامی ثقافتی روایات کے مطابق دف بجا بجا کر وجبت شکر علینا کے روح پرور نغموں سے محبوب خدا کا تاریخی استقبال کیا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات میلاد النبی کی ان رنگارنگ تقریبات میں مقامی ثقافتی رنگ نمایاں ہوتا پے۔ برعظیم ہند و پاک میں اردو اور علاقائی زبانوں میں لکھے گئے میلاد اکبر جیسے بیسیوں مولود نامے سیرت رسول کے آفاقی پیغام کو گھر گھر پہنچانے کے علاوہ زبان و بیان کی ترویج و ترقی کا بھی بہت بڑا ذریعہ رہے ہیں۔نعت کے سینکڑوں دیوان اور بارگاہ رسالت میں عشق و مستی میں ڈوب کر مختلف اصناف میں لکھے گئے لاکھوں اشعار اور نظری شہ پارے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی دینی و سماجی روایت کا فیضان ہیں۔ گھروں مساجد مدارس اور دفاتر میں درودوسلام قرات و نعت اور سیرت و میلاد مصطفی کی یہ مجالس رحمت عالم کی ذات اقدس کے مختلف پہلووں کو جاننے اور آپ کے عالمگیر پیغام محبت کو سمجھنے کے شاندار مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ان تقریبات میں ممتاز نعت خوانوں سیرت نگاروں اور علما کرام کی زبانی آپ کے حسن و جمال اور کمالات کے تذکرے سن کر اہل ایمان کے قلوب و اذہان میں آپ کی عظمت و رفعت اور تعلیمات کا نقش ثبت ہوجاتا ہے۔ گستاخانہ خاکوں اور ایونٹ رسول کی کسی بھی حرکت پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے قلوب و اذہان میں پیدا ہونے والا ردعمل اسی محبت و سرپرستی کا اظہار ہے۔ محبت رسول کا یہی جوہر تو ہے جسے علامہ اقبال نے مغز قرآن روح ایمان اور جان دیں قرار دیا ہے۔ عالم اسلام ہی نہیں بلکہ مغرب اور مشرق بعید کے مختلف ممالک میں آباد مسلمان تارکین وطن بھی یوم میلاد النبی کو نہایت تزک و احتشام اور پورے عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔ ہندو پاک کے عاشقان رسول کی طرح ترکی انڈونیشیا برونائی شام سوڈان مراکش لبیا اور چیچنیا و بوسنیا کے مسلمان بھی اپنی تاریخی و تہذیبی اقدار اور ثقافتی روایات کے مطابق ولادت مصطفی کی خوشی میں خیرات و صدقات، صوم و صلواہ، نفلی عبادات ، مریضوں کی عیادت ، بیواوں اور ضعیفوں سے اظہار ہمدردی، یتیموں اور ضرورت مندوں کی امداد، شب بیداری، ذکر و فکر، تسبیح و تہلیل اور درودوسلام کی مجالس برپا کرتے ہیں۔ صبح ولادت پورے عالم میں ایک جشن کا سماں ہوتا ہے۔ لاکھوں افراد با وضو نئے کپڑے پہن کر خصوصی اہتمام کے ساتھ جھوم جھوم کر مختلف ٹولیوں اور جلوس کی شکل میں حمد و نعت پڑھتے، عظمت مصطفی کے ترانے گاتے، رسول معظم سے اپنی والہانہ محبت و وارفتگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس روز بچے بوڑھے نوجوان اور مردوخواتین سب مقام مصطفی کے تحفظ اور نظام مصطفی کے نفاذ کے لئے جدوجہد کا عزم کرتے ہیں۔

علما و صوفیا کرام کی جانب سے ان تقریبات کو لہو و لعب اور غیر شرعی حرکات سے پاک رکھنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بعض غیر ذمہ دار اور پیشہ ور افراد ذرا سے لالچ کے لئے ان مقدس تقریبات کے تقدس کو پامال کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ثقافتی رنگ لئے میلاد کے جلوس اور دیگر سرگرمیوں میں چند ناپسندیدہ عناصر کی جانب سے غیر ضروری غلو اور بعض غیر شرعی حرکات کی وجہ سے علماء کرام کے ایک مخصوص طبقہ کو میلاد النبی کی تقریبات کو ہدف تنقید بنانے اور اس کے عدم جواز کی راہیں تلاش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن سب سے تعجب انگیز بات یہ ہے کہ پورا سال جو حضرات حشرات الارض کی طرح گلی کوچوں محلوں اور مساجد میں تبلیغ دین کی خاطر سرگرداں پھرتے ہیں وہ مبلغین اس ماہ مبارک میں سرگرم نظر نہیں آتے ۔یہ کتنا افسوس ناک امر ہے کہ ولادت مصطفی کے دن جب پورا عالم اسلام خداوند قدوس کی عظمت و کبریائی کے اعتراف اور خاتم المرسلین کی شکل میں احسان عظیم پر اظہار تشکر کے لئے سیرت رسول اور میلاد مصطفی کی محافل منعقد کررہا ہوتا ہے تو سماج کا ایک مذہبی گروہ منظر سے بالکل غائب رہتا ہے۔ بعض افراد حیلے بہانوں سے میلاد مصطفی کے عدم جواز پر خود ساختہ مفروضوں اور غیر منطقی دلائل کے ذریعے عوام میں فکری و ذہنی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم سماج میں لوگوں کو قطع بدعات کے نام پر ذکر مصطفی سے روکنے کا یہ خطرناک رویہ مصطفی کریم کی ذات سے جو مرکز کائنات اور دین کی اساس ہیں ، یک گونہ گریز کی غمازی کرتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ذات رسول ہی مسلمانوں کے دل و نگاہ کا مرکز اولین ہے۔ ان سے والہانہ محبت اور غیر مشروط وفاداری ہی سے مسلم سماج تشکیل پاتا، اس میں ربط و ضبط پیدا ہوتا اور عالم اسلام قوت و توانائی حاصل کرتا ہے۔

برطانوی سامراج کے برعظیم پر مکمل قبضہ کے بعد ہی امت کے مسلمہ عقائد و دینی اقدار کو ہدف تنقید بنانے کا مذموم دھندہ شروع ہوا ورنہ اس سے قبل میلاد مصطفی کی محافل حصول برکات اور فروغ سیرت کا موثر ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ محدث کبیر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ان کے والد شاہ عبدالرحیم اور نامور فرزند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سال میں دو تقریبات اہتمام کے ساتھ منعقد کرتے تھے۔ ایک محفل میلاد مصطفی اور دوسرے محرم الحرام میں مجلس ذکر حسین رضی اللہ عنہ ۔
عوام الناس کے عمومی طرز عمل کے تاریخی مطالعہ سے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلم سماج کا ذہن اجتماعی سخت گیر علما کی جانب سے تقریبات میلاد پر سخت نقد و جرح کو عملی سطح پر کم ہی قبول کرتا ہے۔ اس کی وجہ شائد نفسیاتی ہے کیونکہ محبوب خدا سے قلبی عقیدت و محبت کے والہانہ اظہار کے جذباتی دھارے شرعی حدود کی کسی حد تک پاسداری کرتے ہوئے فقہی رسومات کی تنگنائے کی بجائے مقامی و علاقائی ثقافت اور قبائلی روایات کے کھلے اور وسیع میدان میں بہنے میں قدرے زیادہ راحت و سہولت محسوس کرتے ہیں ۔ جشن میلاد کی تقریبات دینی و روحانی پہلو کے ساتھ معاشی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ اس ماہ مبارک میں تزئین و آرائش، صدقات و خیرات اور تقسیم تبرکات و تحائف سے اربوں روپے کے مصارف وابستہ ہیں۔ ان تقریبات کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر معاشی اور پیداواری سرگرمیاں جنم لیتی ہیں جن نتیجے میں زر کثیر اغنیا سے مال و زر اور اشیاء خوردو نوش کی شکل میں محتاجوں ضرورت مندوں اور سماج کے انتہائی پسماندہ طبقات تک منتقل ہوتا ہے جو خود قرآن حکیم کا مقصود ہے۔ لہذا علما کرام کو چاہئیے کہ میلاد مصطفی کے حوالے سے تبلیغ و تلقین کرتے ہوئے عوام کے ان جذباتی اور نفسیاتی پہلووں کو ضرور سامنے رکھیں۔ تمام مسالک کے علما کو چاہئیے کہ وہ اس ماہ مبارک کو پورے مذہبی ادب و احترام سے منانے اور تقریبات میلاد کو ناپسندیدہ حرکات اور خلاف شرع امور سے حتی المقدور پاک رکھنے کے لئے مشترکہ طور پر معیاری طریق کار اور شرائط و معیارات وضع کریں۔

وطن عزیز مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد و یک جہتی کے اظہار کے لئے میلاد مصطفی کو ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تمام مسالک کے علما کو چاہئیے کہ وہ اپنے طور پر اور اپنے اپنے دائرہ اثر میں سیرت رسول اور میلاد مصطفی کی تقریبات کو رواج دیں اور معیاری شرائط و طریق کار پر عمل درآمد کرکے وحدت امت کا تصور اجاگر کرتے ہوئے عوام الناس کے لئے نمونہ عمل فراہم کریں تاکہ میلاد مصطفی کی برکات و حسنات سے بلا امتیاز مذہب و مسلک پورا ملک مستفید ہوسکے۔

میں نثار تیری چہل پہل پر ماہ ربیع الاول

سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں