💫 نہ رہا نہ رہا نہ رہا
سہی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات
تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی
تحریر:
سید راشد گردیزی
ارمانوں کا نگینہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔آرزوؤں کا سفینہ ڈوب گیا ۔۔۔۔۔۔ حکومت کو نتھ ڈالنے والا نہ رہا۔۔۔۔۔۔ موت کا مقابلہ کون کرے؟ ۔۔۔ یاد آ رہا ہے وہ دن جب میں انجمن طلباء اسلام پنجاب کا ناظم تھا۔ خوشاب وادئ سون میں پیر سید ضمیر حیدر شاہ جی نے کھوڑہ میں جلسہ رکھا۔مجھے اپنے دوست ملک آفتاب اعوان کی معرفت دعوت ملی تھی۔یہ 2005 کی بات ہے۔میں اسٹیج پر بیٹھا ،ذھن میں منتشر خیالات کو جمع کر رہا تھا کہ اچانک ہوائی فائرنگ سے وادئ سون کے کھیتوں میں سجا پنڈال گونج اٹھا۔۔۔۔۔ اس سے قبل انجمن طلباء اسلام کا سیالکوٹ اور بھاولپور میں لیڈران کا استقبال کرنا، اسی انداز میں ہوتا دیکھ چکا تھا۔۔۔۔ آج مذہبی جلسے میں ہوائی فائرنگ سے مہمان خصوصی کا استقبال دیکھ کر حیرانی ہوئی۔۔۔۔اعلان ہوا کہ جامعہ نظامیہ لاہور کے شیخ الحدیث علامہ خادم رضوی مہان خصوصی تشریف لا چکے ہیں۔۔۔ گاڑی سے اترے ،ہاروں سے لدے ،کلیجی رنگ کا عمامہ باندھے،دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے جلسہ گاہ میں تشریف لائے ۔۔۔ مجھے تقریر کا موقع ملا اور پھر رضوی صاحب کا خطاب شروع ہوا۔خطاب کیا تھا۔۔۔۔علامہ اقبال اور امام احمد رضا کے اشعار اوپر تلے پڑھتےجاتے۔۔۔نہ کوئی سر نہ رسمی انداز ۔۔۔واہ،واہ،واہ ۔۔۔ سچ پوچھیں تو بہت متاثر ہوا۔۔۔۔ کہیں جگہ ان کی تعریف بھی کی۔۔۔ یہ ان سے پہلی ملاقات تھی۔۔۔۔۔۔ بعد میں ان کی باتیں اور ذکر غائب غلہ ہو گیا۔۔۔۔ دس سال گزر گئے کوئی خبر نہ سنی نہ کہیں ملاقات ہوئی۔۔۔ پھر تحریک لبیک بنی تو قومی سطح پر ایک توانا آواز بن کر سامنے آۓ۔ فرق یہ تھا کہ ویل چیئر پر تھے ۔کسی روڈ ایکسیڈنٹ میں معذور ہو گئے ،ناموس رسالت اور ختم نبوت کا علم لہرایا تو پاکستان فلاح پارٹی جو تحریک لبیک سے پہلے سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ ہوچکی تھی ، نے ان کا خیر مقدم کیا۔۔۔۔ساتھ دیا۔۔۔۔ان کے دھرنوں میں شرکت کی ،۔۔۔۔۔۔ان کےکارکنان کی رہائی کے لیے قانونی معاونت دی۔۔۔ رابطہ قائم رہا۔۔۔۔ممتاز قادری شہید کے چہلم کے بعد پاکستان فلاح پارٹی کے وفد نے لاہور میں ان کی مسجد رحمتہ اللعالمین میں یاد گار ملاقات کی جس میں علامہ خادم حسین رضوی ،پیر افضل قادری ،ڈاکٹر اشرف جلالی ،قاضی عتیق الرحمن،امانت علی زیب،راقم سید راشد گردیزی،بدر ظہور چشتی،زبیر انور بیگ ، قاری رفیق قادری اور معروف تاجر رفیق پردیسی شامل تھے ۔۔۔۔ دستر خوان پر کھانا چنا گیا تو سب شریک ہوئے۔سواۓ رضوی صاحب کے جو ایک کونے میں اپنی ویل چیئر پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور بحثیت میزبان دستر خوان پر نظر دوڑاتے رہتے ۔۔کسی چیز کی کمی ہوتی تو اپنے شاگردوں کو روایتی انداز میں بلاتے :
اؤۓمنڈےاو ؛جلدی کرو۔۔۔۔
علامہ رفیق قادری جو محفل کو کشت زعفران بنانے کا فن جانتے ہیں ۔انھیں محفل میں ہمارے وفد کے ساتھ تحریک لبیک کے بعض اکابرین کی طرف سے "لیے دیے" رہنے کے انداز نے نہ بھایا۔۔ اورکھانا کھانے کے دوران ہی آٹھ کرخادم رضوی صاحب کے پاس چلے گئے؛کچھ ایسی سرگوشی کی کہ رضوی صاحب کھل کھلا اٹھے،سب کو متوجہ کیا اور قادری صاحب کی بات کو خود بڑے اہتمام سے دورایا ۔۔۔قادری کو شاباش دی۔۔۔ بات کیا تھی : اس کا تذکرہ پھر سہی ۔۔۔۔۔بڑے فخر سے تعارف کروایا کے یہ انجمن طلباء اسلام کے جوان ہیں جنھوں نے چہلم اور دھرنا میں شریک ہزار سے زائد عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رہا کرایا۔ خوب داد دی۔۔۔۔۔ غازی عامر چیمہ کے عرس پر پھر ملے تو قاضی صاحب کو تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کو کہا۔۔۔۔ 2018 میں تحریک لبیک کو عروج ملا ۔ ہم پر بھی پریشر تھا کہ اس
موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اور تحریک کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہیے۔۔۔۔۔۔ہم نے اپنے نشان پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ بات بن نہ سکی ،دوری ہوئی،وجہ جدگانہ انداز سیاست ۔۔۔۔۔۔ آج ان کی وفات پر دل دکھی ہے۔زندگی کی بے ثباتی آئینہ ہو گئ ۔۔۔کھلے دل سےان کی خدمات کو سلام پیش کرتے ہیں۔زندگی کو مسلسل جدو جہد کے ساتھ پر شکوہ بنا گئے۔۔۔تحریک لبیک کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ان کے بیٹے سعد رضوی اور دیگر لواحقین کے ساتھ دلی تعزیت کرتے ہیں۔میڈیا کی جانب سے ابھی جو رویہ روا رکھا جا رہا ہے اس کی مذمت کرتے ہیں۔اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں