اہم خبریں

وقت کا مجدد وقت کے اکبر کی خیرات نہیں کھاتا ۔ انتخاب : ڈاکٹرمحمد تیمور خان

 


 نوٹ : اس موضوع پر مختلف نکتہ نظر ہوسکتے ہیں۔ ضبط تحریر میں لائیں۔ مصطفائی نیوز انہیں ای میگزین میں شائع کرے گا۔

 

 اسلام کی دعوت جس اعلی فکری اور عملی منہج کے ساتھ  قرون اولی میں دی جاتی رہی ، وہاں تعلیم و تعلم کی درسگاہوں میں صدقات و خیرات کی جمع آوری کا کوئی تصور نہ تھا یہاں تک کہ خود اہل علم صدقات کھانے سے دلوں کے مردہ ہونے اور اسکی مثیل روایات کو بلا جھجھک بیان کرتے ، تیسری صدی ہجری کے بعد با ضابطہ طور پر  روحانی خانقاہوں کی تعمیر پر ایک طبقہ متوجہ ہوا تو اس نے نہایت احتیاط کا دامن کبھی نہ چھوڑا ، صدقات تو کجا  مشکوک سے بھی کلیة دامن بچائے رکھا۔   اسلامی ریاست اگرچہ اموی و عباسی ادوار میں خالص خلافت کے اصولوں پر کاربند نہ رہی لیکن دینی درسگاہیں کسی حد تک عوامی چندہ اور صدقات کی جمع آوری کے دلخراش و زہر آلود عمل سے پاک تھیں ، وقت گذرتا گیا ، سقوط بغداد ، فاطمیوں ، سلجوقیوں ، صلیبی جنگوں کے اثرات ، عثمانیوں اور  منگولوں کے ادوار میں عرب و عجم میں فروغ علم کی تحریکیں سیاسی مصلحتوں کا شکار تو ہوئیں لیکن علم و حکمت کا سامان اپنے وسائل و اسباب میں روح کی تازگی کا سامان مہیا کرتا رہا۔

صنعتی انقلاب سے قبل  زرعی ادوار میں اگرچہ بادشاہت اور دینی درسگاہوں کا آپسی اتحاد دیکھنے میں آیا لیکن اسکے ساتھ ساتھ غیور اور متقی صفت اہل علم اپنے اصولوں پر کاربند رہنے کی مثالیں قائم کرتے رہے ۔۔
ملا جیون اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی کو فقہ پڑھایا کرتے ، جب سبق وجوب غسل تک پہنچا تو بادشاہ تلوار لیکر دروازے سے جھانکتا رہا کہ کہیں ملا جیون شریعت سے کچھ چھپاتے تو نہیں اور ملا نے بھی چاقو آستین میں چھپا رکھا تھا کہ اگر شاہ وقت بیچ میں حائل ہوا تو اس سے اسکا ۔۔۔۔۔۔
جہاں تک تعلق ہے برصغیر کی روحانی درسگاہوں کا تو شاہان وقت نے جاگیریں وقف کیں تا کہ بوقت ضرورت عقیدتمندوں سے فایدہ اٹھایا جا سکے ،
علمی درسگاہوں کے نام جاگیر وقف اس لیے نہ کیں کہ اہل علم کے ہاں شاہان وقت کے ساتھ مصلحت و حمایت نہ دیکھی                                              انیسویں صدی کی ابتداء میں جب جمعیت کی کشتی ہچکولے کھانے لگی ، عرب و ہند میں اسلامی ریاستی سرپرستی اپنی آخری سانس لینے لگی تو دینی اداروں کے پاس عوامی خدمت کے سوا دوسرا کوئی رستہ باقی نہ بچا ،
انگریز کی پالیسی سے علمی ادارے صدقات و خیرات ، زکوٰۃ و عطیات جبکہ روحانی ادارے اوقاف کی آمدنی سے چلنے لگے ۔۔۔۔۔۔
اسکے باوجود اہل علم نے دینی علوم کے فروغ میں کوشش جاری رکھی لیکن چونکہ تمام تر انحصار چندہ مانگنے پر تھا لہذا حلال و حرام کی آمیزش سے بالآخر افراط و تفریط ، علمی اختلاف سے مخالفت ، تعصب ، مکالمہ و مباحثہ سے مجادلہ و قتال تک نوبت پہنچ گئی۔۔۔
پچھلے ڈیڑھ سو سال سے یہی بلا درسگاہوں کو نگل رہی ہے ، مزاجی استدلال اور ذوق و ترجیح منزل دین پر غالب آگیا ہے                                                                              صدقات ، خیرات ، عطیات ، زکوٰۃ ہی پر اہل مدرسہ کا مدار ہے ، علمی کتب خانے و اشاعت کے مراکز اب کمرشل انڈسٹریز ہیں ، حلال و حرام کی آمیزش سے بڑی بڑی عمارتیں تو بن چکیں ، دستاریں سج گئیں لیکن روح دین کہیں گم ہو گئی ، غایت تبلیغ کو نسیان کے اژدھے نے نگل لیا ، جگہ جگہ تعاون کے بینر لگے ہیں ، ہر دوکان پر گلے رکھے ہیں اور ان کو بھرنے سے جنت کے ٹکٹس دیے جا رہے ہیں ، صدقات کھا کھا کر عالم بننے والے امت کی رہبری کے دعویدار ہیں ، شہر کے بڑے سود خور مدارس کے بڑے معاون ہیں ،قومی چوروں ، لٹیروں اور ڈاکوؤں کی خیرات سے عالم فاضل بنے سامراجی قوتوں کا سامنا کریں گے ، اگر کھڑے ہو بھی گئے تو تحریک و تنظیم بے برکت ہی رہے گی ۔
وقت کا مجدد وقت کے اکبر کی خیرات نہیں کھاتا ، براہیمی ، موسوی ، عیسوی و محمدی فکر و طبیعت نمرود و فرعون و بوجہل کی دولت و ثروت پر تھوکتی تک نہیں ۔۔۔
آج  کون عالم کسی کرپٹ سرمایہ دار کو للکار سکتا ہے جبکہ اسکی درسگاہ  اور خود اسکا گھرانہ  سرمایہ دار ہی کے کرپشن و لوٹ مار کے روپے سے چلتا ہے ۔
روحانی درسگاہوں سے امید  رکھنا فضول، وہ تو خود مہذب گداگری کے مرکز بن چکے۔۔۔۔
مزار و قبر کی کمائی سے جاگیر و سرمایہ کی بہتات ، شہروں کے شہر خرید لیے ، بھوک ایسی ہے کہ مٹنے کا نام نہیں لیتی ۔۔۔۔۔   
نوبت بایں جا رشید کہ اب تو حرام واضح ہونے کے باوجود وصول کرلیا جاتا ہے پھر کسی دلیل و حیلہ سے اسے حلال کر لیا جاتا ہے ،
درسگاہوں کے مہتمم مولانا روم اور اقبالیات کا درس دیں گے لیکن مکالمہ مابین رومی و اقبال فراموش کر دیں گے  ۔۔۔۔۔

اہل مدرسہ اپنے اداروں کو نان حرام و مشتبہ سے پاک کریں تو ہر درسگاہ کی زمین فضاء بدر بن جائے ، پھر دین اور دینداروں کی طاقت دیکھیں ۔۔۔
ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ماتین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج بھی ہو گر ابراہیم کا ایماں پیدا ۔۔۔
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.