اہم خبریں

سجادگی اور جانشینی ! 🌈 بشکریہ جناب امجد فاروق چشتی صاحب

 


🌈  سجادگی اور جانشینی !

برصغیر کی تاریخ میں روحانی سلاسل کی ترویج اور خانقاہی نظام کی تنفیذ میں جو عنصر سب سے زیادہ مضبوط اور موثر حیثیت کا حامل رہا وہ سجادگی اور جانشینی کا ہے!
 جس کے لیے بالخصوص اوائل دور میں باقاعدہ ریاضت ومجاہدہ  تزکیہ وطہارت اور علم وعمل کے خصوصی معیار کے علاوہ ذاتی استعداد ومیلان کا بھی بڑا دخل تھا_ ویسے یہ امر خانقاہی نظام ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہر طبقہ اور شعبہ ہائے حیات میں اس نوعیت کے رواج اور دستور رائج ہیں _ہماری معاشرتی اور سماجی روایت اور عام کلچر میں بھی، بالعموم ہر بڑا بیٹا اپنے باپ کے جانشین کے طور پر نامزد ہوجاتا ہے جس کی بعض اوقات پگڑی یا دستار بندی کے ذریعہ باقاعدہ رسم بھی ادا کی جاتی ہے جس کو عام طور پر’’عُرفی یارواجی جانشینی ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے __
 اور کسی خانقاہ کے اجتماعی نظام کو آگے بڑھانے کے لیے کسی رفیع المرتبت شیخ کے کمالاتِ روحانیہ افکارِ علمیہ اور صفات عالیہ کو اپنا تے ہوئے اس کے حقیقی فیوضات کا امین بن کر اس کا صحیح جانشین بننا اور بات ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ صاحب سجادہ   اپنے شیخ اور بالخصوص صاحبِ مزار کی تعلیمات کا مکمل امین اور علمبردار ہو_! ایسا جانشین ہی سجادگی اور جانشینی کے صحیح معنی اور مفہوم کا خوبصورت اور جامع مظہر ہوسکتا ہے __ !

عصرِ رواں میں خانقاہوں کے فیوض و برکات کے معدوم ہونے کی ایک اہم وجہ موروثی اور بے جان سجادگیاں بھی ہیں! تاہم اگر کسی مقام پر حقیقی اولاد اپنے شیخ بلکہ والد کے علوم ومعارف کی صحیح وارث بھی ہو، تو ایسا ہونا ’’سونے پہ سہاگہ‘‘ کے مترادف ہے _ برصغیر کی تاریخِ تصوف اس امر کی گواہ ہے کہ صوفیاء اور مشائخ طریقت کا سلسلہ ان کی اولاد کی بجائے ان کے خلفاء سے چلتا رہا !
ان  ہستیوں نے دور دراز سے آئے  مختلف قبائل اور نسب کے لوگوں کو اپنی جانشینی عطا کی انہوں نے اپنے فیصلے خالصتاً میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر کئے اور اس نظام کو جسے انہوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا! اس پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا_! انہوں نے جہاں دیکھا کہ ان کا خلیفہ ان کی اولاد سے زیادہ مستحق اور اہلیت رکھتا ہے تو انہوں نے سسٹم کی بقا کے لیے اپنا خلیفہ اور جانشین اُن افراد کو مقرر فرمایا.  جن میں وہ تمام خوبیاں اور صفات موجود تھیں  جو ایک نائب  خلیفہ اور جانشین میں ہونی چاہیے__!
 
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے لے کر خواجہ فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی تک تمام مشائخ آپس میں دینی اور روحانی رشتے کے علاوہ کوئی خونی قرابت نہ رکھتے تھے ان نفوسِ قُدسیہ کا سلسلۂ طریقت خلفاء ہی سے چلا  اولاد سے نہیں_ اگرچہ متاخرین مشائخ طریقت میں یہ خوبصورت مثال بھی موجود ہے جہاں ایک بیٹا اپنے باپ کا خلیفہ اور جانشین بھی ہوا  اور وہ مولانا فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی ہیں جو بارہویں صدی ہجری میں اپنے والدِ گرامی شیخ نظام الدین اورنگ آبادی کے خلیفہ اور جانشین بنے _!
سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خلیفہ اور جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ بنے   حالانکہ حضرت خواجہ کے تین صاحبزادے تھے  جن میں شیخ فخر الدین جو سب سے زیادہ معروف ہوئے  اجمیر کے نواح میں باقاعدہ کھیتی باڑی کر کے گزر اوقات کرتے تھے__!

 سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی نےجانشینی اور سجادگی کے لیے جس اہلیت  کو بنیاد بنایا اس سے خواجہ قطب سرفراز ہوئے _ خواجہ قطب الدینؒ کے خلیفہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒہیں جن کی کثرتِ عبادات ومجاہدات سے متاثر ہو کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو فرمایا تھا کہ ’’بابا قطب !اس نوجوان کو کب تک مجاہدوں اور ریاضتوں کی بھٹی میں پگھلاتے رہو گے اس کو اصل حقیقت کی پہچان کراؤ تاکہ وصال کے صاف و شفاف آب حیات سے فیض یاب ہو سکے _!
 اور پھر آپ نے یہ اعلان بھی فرما دیا کہ فرید الدین ہمارا وہ چراغ ہے جو ہمارے سلسلے کی روشنی کو زمین و آسمان تک پہنچا دے گا_! یقینا یہ ارشاد بابا فرید کے لیے سندِ اعزاز تھا جس کی صداقت ہر دور میں تسلیم کی جاتی رہی _ بیعت کا یہ بندھن اس قدر مستحکم ہوا کہ حضرت خواجہ قطب کے وصال کے وقت آپ کے یہ مریدِ صادق اور خلیفہ ہانسی میں تھے_ آپؒ سے سوال ہوا کہ آپؒ کے بعد آپؒ کی جانشینی کا شرف کسے میسر ہوگا فرمایا!
میرا خرقہ دستار مصلی چوبی جوتے اور میرا عصا فرید الدین تک پہنچا دینا  وہی میرا جانشین اور خلیفہ ہوگا!
حضرت بابا فریدؒ کا فیض کئی روشن صورتوں میں آشکارا ہوا لیکن جن کی ذات میں یہ فیوض نقطۂ کمال کو پہنچے وہ آپ کے خلیفہ اور جانشین حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء تھے جنہیں آپؒ نے ۶۵۱ھ میں خلافت سے سرفراز فرماتے ہوئے ’’نظام الدین‘‘ کا لقب عطا کیا آپؒ اگرچہ اپنے شیخ حضرت بابا فریدؒ کی وفات کے وقت موجود نہ تھے، مگر بابا جیؒ نے اپنا جامہ مصلیٰ عصا اور دیگر تبرکات اُن کو دیئے جانے کی وصیت فرمائی  یہ گویا بابا صاحب کی جانشینی اور خواجہ صاحب کے خصوصی مقام کی طرف اشارہ تھا_!
 حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ ایک عرصہ ریاضت واطاعت کی زندگی گزار چکے تو بیمار رہنے لگے، احباب کو بلایا ہدایات سے نوازا اور برصغیر کے مختلف علاقوں کی طرف روانہ کیا _ وصال کے روز نماز عصر کے بعد حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کو بلایا خرقہ  عصا مصلیٰ تسبیح  لکڑی کا پیالہ اور جو کچھ حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر ؒ سے ان کو ملا تھا سب شیخ نصیر الدین محمود کو عطا فرما دیا اور کہا ’’تم کو شہر دہلی میں رہنا چاہیے اور لوگوں کے ظلم وجور برداشت کرنے چاہیں _ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی اپنے تبحر علمی کے سبب ’’ابوحنیفہ ثانی‘‘ کے لقب سے معروف ہوئے!  بوقت وصال فرمایا!
جب مجھے قبر میں رکھا جائے تو حضرت پیر و مرشد کا عطا کردہ خرقہ اور عصا میرے سینہ پر رکھ دینا، لکڑی کا پیالہ اینٹ کے بجائے میرے سر کے نیچے رکھ دینا تسبیح میرے ہاتھ میں ڈال دینا اور جوتے قبر میں میرے قریب رکھ دینا_ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا!  حضرت چراغ دہلوی نے بظاہر کسی کو جانشین نامزد نہ کیا _! لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا! ان لوگوں کو کہہ دو اپنے ہی ایمان کی فکر کریں  دوسروں کا بوجھ سر پر لینے سے کیا حاصل اشاعت اسلام ، تبلیغِ دین اور تصوف و روحانیت کا اولین عہد_ جو تاریخ ہند میں ایک زریں دور سے تعبیر کیا جاتا ہے حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی کے وصال کے ساتھ اختتام کو پہنچا خانقاہ اپنے مرکزی نظام کی بجائے انفرادی سسٹم میں ڈھل گئی  تآنکہ خواجہ کلیم اللہ جہاں آبادی  جن سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بزرگوں نے بھی استفادہ کیا ! اس کو دوبارہ عروج بخشا_ آپ سے یہ سلسلہ شیخ نظام الدین اورنگ آبادی سے ہوتا ہوا ان کے بیٹے خواجہ فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی تک پہنچا_ حضرت خواجہ فخر الدین سے ولی اللہی خاندان بھی ازحد عقیدت رکھتا تھا _ یہاں تک حضرت شاہ ولی اللہ کے وصال کے بعد ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز کی دستاربندی حضرت فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی نے فرمائی _ حضرت فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی کے بعد آپ کے سلسلے کی شہرت اور وسعت آپ کے خلیفہ خاص حضرت خواجہ نور محمد مہاروی کے ذریعہ عمل میں آئی اور اس طرح اس فیضان نے خطۂ پنجاب کو سیراب کیا_ خواجہ نور محمد مہاروی سے خواجہ شاہ سلمان تونسوی اور وہاں سے خواجہ شمس الدین سیالوی اور پھرفیض کا یہ سلسلہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی تک پہنچا_ برصغیر کی اس ایک ہزار سالہ تاریخِ تصوّف میں سجادگی اور جانشینی کی تقرری اس قدر میرٹ اہلیت اور شفافیت کی علمبردار ہے کہ اس پر آج تک کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکا اور یہی وجہ ہے کہ ان خلفاء اور جانشینوں نے اپنے شیخ اور مرشد کے مشن کو جس انداز میں آگے بڑھایا وہ ہماری تاریخ کا زرّیں اور روشن باب ہے __!!!!!!!!

2 تبصرے:

  1. بہت شکریہ محترم امید ہے آپ آئندہ بھی حوصلہ افزائی فرماتے رہیں گے۔جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.