اہم خبریں

انجمن فقیران مصطفیٰ ﷺ فیصل آباد کی ۲۱۲ ویں ماہانہ طرحی حمدیہ و نعتیہ محفل مشاعرہ (رپورٹ: ریاض احمد قادری )

 


   انجمن فقیران مصطفیٰ ﷺ فیصل آباد کی ۲۱۲ ویں ماہانہ طرحی حمدیہ و نعتیہ محفل مشاعرہ
(رپورٹ: ریاض احمد قادری )
فیصل آباد کی اہم ترین نعتیہ ادبی تنظیم انجمن فقیران مصطفیٰ ﷺ فیصل آباد کی ۲۱۲ ویں ماہانہ طرحی حمدیہ و نعتیہ محفل مشاعرہ۳۱ جنوری ۲۰۲۱ کو اعوان نعت محل غلام محمد آباد فیصل آباد میں ممتاز محقق، نعت گو شاعر اور استاد پروفیسر محمد افضال احمد انورؔ کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ انہی کا طرح مصرع برائے حمد و نعت دیا گیا تھا
ع۔۔۔ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے  
شہرِ نعت کے بہت سے نامور نعت گو شعرائے کرام نے اس طرح مصرع اپنے حمدیہ و نعتیہ نذرانے پیش کئے۔
سید محمد رضوان تقی بخاریؔ نے تلاوت اور نعت عطا فرمائی۔  محمد سلمان منیر خاورؔ اور محمد زبیر نقشبندی نے بھی نعتیہ نذرانہ پیش کئے ۔ کلام پیش کرنے والے شعرائے کرام میں پروفیسر محمد امین عزمی ؔ، پروفیسر مسعود الرحمان مسعود،باسط ممتاز سید، محمد حسین آصل، محمد عمیر لبریزؔ، زاہد سرفراز زاہد،سید محمد رضوان تقی بخاری،، قاسم رشید ہادی، میاں منیر احمد منیر، منیر احمد خاورؔ، سید شاہد حسین شاہد، محمد سلیم شاہد، محمد جاوید اطہرؔ،محمد سرور قمر قادری، ڈاکٹر محمد اقبال ناز، ڈاکٹر ملک مقصود احمد عاجزؔ،پروفیسر محمد طاہر صدیقی، این ایس شانی،شوکت جلال چشتی، صاحبزادہ ناصر حسین راضیؔ،اللہ نواز منصور اعوانؔ، اشفاق احمد ہمزالی، سید قلب عباس بخاری، فقیر حسین چشتی،   محمد مودود عظیم چشتی ، محمد ارشد ستار ارشد اورغلام قادر صمیم صوفی  شامل تھے، پروفیسر محمد افضال احمد انورؔ نے اپنے صدارت خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ آج بہت عرصے کے بعد اس محفل میں حاضری کا شرف حاصل ہوا ہے لیکن اس بزم کی رونق، چہل پہل اور تروتازگی اسی طرح سرسبز و شاداب ہے جس طرح فقیر مصطفیٰ امیر نواز کے دور میں ہوتی تھی۔یہ سب فیضانِ نعت ہے ان کے وارثین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کے مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ  مسلسل ۲۱۲ مشاعروں کا انعقاد بغیر کسی وقفے کے مکمل ہوا اور ان شا ٗ اللہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔انہوں اتنا خوبصورت کلام لکھنے پر تمام شرکائے محفل کو مبارک باد بھی پیش کی۔ اور اپنا حمدیہ و نعتیہ کلام عطا فرمایا۔

۲۱۲ ویں ماہانہ طرحی مشاعرہ کا انتخاب پیشِ خدمت  ہے
۱۔ ریاض احمد قادری
نہیں ہے کھاتا وہ آپ کچھ بھی مگر سبھی کو کھلا رہا ہے
وہ پیتا ہرگز نہیں ہے خود کچھ مگرسبھی کو پلا رہا ہے
وہ کن کا مالک وہ سب کا خالق، وہ سب کا مولا وہ سب کا رازق
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘
۲۔ این ایس شانی سمندری
یہ میرا دل ہے یا تیرا دل ہے دھڑک دھڑک کے بتا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘

۳۔ اللہ نواز منصور اعوان

وہ نور کا سب ظہور ہی ہے وہ خود ہی جلوہ ٔ طور ہی ہے
یہ شب کا جانا یہ دن کا آنا وہی تو سب کچھ  دکھا رہا ہے
۴۔ ڈاکٹر محمد افضال احمد انورؔ
نہ دکھ رہا ہے نہ چھپ رہا ہے نہ ہاتھ ہی میں وہ آرہا ہے
سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے
وہ چاندتاروں حسیں نظاروں میں اپنے جلوے دکھا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘
۵۔ فقیر حسین چشتی
یہ ذرہ ذرہ وجودِ ہستی جو اس کا ہونا بتا رہا ہے
اسی کے ہیں جابجا پہ جلوے خرد سے جو ماوریٰ رہا ہے
۶۔منیر احمد خاورؔ
جہاں میں جلوے اسی کے ہرسو وہ ماوریٰ عقل سے ہے لیکن
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘

۷ محمد عمیر لبریزؔ
طلب کرے جو بھی سایہ کوئی وہ چھائوں ٹھنڈٖی  لٹا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘
۸۔محمد سلیم شاہدؔ
کسی نے دیکھا نہیں ہے اس کو وہ سب کو جلوے دکھا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘
۹۔ڈاکٹر باسط ممتاز سید
وہ اپنے جلوے ہر ایک جا پر زمانے بھر کو دکھا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘
۱۰۔شوکت جلال چشتی
عزیز تر ہے حضور، حق میں وہ شب گزیدہ جو سر جھکا کے
جو بات لب پر نہ آئی اس کے وہ چشمِ تر سے سنا رہا ہے
۱۱۔ پروفیسر مسعود الرحمان مسعود
یہ کاروبارِ حیات جس کے سبب   سے چلتا ہی جا رہا ہے
کرشمہ ہے یہ لفظِ کن کا جو روز جلوے دکھا رہا ہے
اسی سے قائم حیات میری بنی اسی سے  ہے ذات میری
اسی سے روشن ہے ذات میری جو فجر تک مجھ کو لارہا ہے
۱۲، ڈاکٹر ملک مقصود احمد عاجز ( نعت شریف )
وہ ایک امی شعور لے کر زمانے کو دکھارہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘
یہ کیسی خوشبوہے نور کیسا سماں پہ چھایا خمار کیسا
فضا کی مستی بتا رہی ہے مدینہ نزدیک آرہا ہے
انہی کے شیریں سخن کا فیضاں ملا ہے سارے سخن ورورں کو
انہی کی مدح و ثنا کے نغمے نگر نگر گنگنا رہا ہے
خدا کے سارے بھرے خزانے اسی  کےدستِ کرم میں سمٹے
جو ایک قطرے کی جستجو میں کرم کے دریا بہا رہا ہے
میں سب صحابہ کی عظمتوں کو رقم کروں تو کروں بھی کیسے
کسی کو بستر کسی کو پہلو میں میرا آقاﷺ سلا رہا ہے
ملا ہے اس کو نشانِ منزل  اسی کا فکر و شعور روشن
سخن کی جو وادیوں میں عاجزؔ چرااغِ مدحت جلا رہا ہے
۱۳۔ محمد ارشد ستار ارشد
وہ لم یزل ہے وہی ہے قادر نظام سارے چلا رہا ہے
سمجھ سے بالاہے ذات اس کی  مگر دلوں میں سما رہا ہے
وہی ہے مالک وہی ہے خالق، وہی ہے قادر وہی ہے رازق
ازل سے سارے جہاں میں ارشدؔ وہ نعمتیں ہی لٹا رہا ہے
۱۴۔ پروفیسر محمد امین عزمی انصاری
کہیں پہ آتش بجھا رہا ہے کہیں پہ کربل سجا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے
یہ وادیوں کے حسیں نظارے،امین ؔ جتنے ہیں رنگ سارے
وہ کل بھی کن سے بنا رہا تھا وہ اب بھی کن سے بنا رہا ہے
۱۵۔ محمد سرور قمر قادری
نماز روزہ یہ حج وغیرہ، ذکوٰۃ صدقہ یہ زہد و تقویٰ
اسی خداوندِ دوجہاں کا یہ سب کرم ہے یہ سب عطا ہے
۱۶۔محمد حسین آصل
خدا کا عاشق رہِ وفا میں وقارِ الفت بڑھا رہا ہے
مقام اپنا وہ دونوں عالم میں رفتہ رفتہ بنا رہا ہے

۱۷۔ محمد قاسم رشید ہادی
خدا کا ہی یہ کرم ہے ہم پر  یہ اس کا فیضانِ انتہا ہے
کہ اس نے اپنا حبیب پیارابطور تحفہ ہمیں دیا ہے
۱۸۔ڈاکٹر محمد اقبال ناز
فلک پہ رہ کر نظامِ  دنیا بخیرو خوبی چلا رہا ہے
ہوا کے ذریعے وہ بادلوں کو جدھر کو چاہے اڑا رہا ہے
۱۹۔ سید قلب عباس بخاری دانا آبادی
وہ جس کی مدح سرائی آدمؑ سے عیسیٰ ؑ تک انبیاٗ نے کی ہے
کرے  بخاریؔ نہ ناز اس پر کہ نعت اس کی سنا رہا ہے
۲۰۔محمد جاوید اطہر
نکلتے ہی لب سے لفظ کو وہ جو جامِ تسکیں پلا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوںمیں سما رہا ہے ‘‘
۲۱۔پروفیسر محمد طاہر صدیقی
وہی ہے جو کہ سمندروں کو سحاب صورت اڑا رہا ہے
وہی ہے اک حکم جس کا نافذ سدا رہے گا سدا رہا ہے
۲۲۔صاحبزادہ ناصر حسین راضی
رہینِ وہم و گماں کو عینَ یقیں کا چہرہ دکھا رہا ہے
وہی جو اوجِ فلک پہ ٹوٹے پروں سے پنچھی اڑا رہا ہے
۲۳۔ منیر احمد خاور
وہ اپنی صناعی کے کرشمے ہر ایک شے میں دکھا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے ‘‘
۲۴۔سید شاہد حسین شاہد
خداہی معبود ہے فقط نبیﷺ نے یہ سب بتا دیا ہے
اسی کا احساں ہے خلقتوں پر  وہی تو سب کو کھلا رہا ہے
 
۲۵ محمد سلیم شاہد
کسی نے دیکھا نہیں ہے اس کو وہ سب کو جلوے دکھا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے‘‘
بروزِ محشر حساب ہوگا سبھی کو دینا حساب ہوگا
وہاں پہ کیا ہوگا میرے شاہدؔ خدا یہی تو بتا رہا ہے
۲۶۔ اشفاق ہمزالی
وہی خدا ہے جو رحمتوں کے بھرے خزانے لٹا رہا ہے
جو دستِ قدرت سے ہر کسی کوکھلا رہا ہے پلا رہا ہے
۲۷۔محمد عمیر لبریز
گلوں سے لبریز باغ اس کا،ازل سے زرخیز باغ اس کا
طلب کرے جو بھی سایہ اس سے وہ چھائوں ٹھنڈی لٹا رہا ہے
۲۸۔سید محمد رضوان تقی بخاری
تقیؔ بنا ہے جو ان کا منگتا،کرم یہ میرے کریم کا ہے
کہ اس کا والد اور اس کا داد ازل سے انﷺ کا گدا رہا ہے
۲۹۔ زاہد سرفراز زاہد
یہ ہجر آقاﷺ تمہارا مجھ کو ہر ایک لمحہ ستا رہا ہے
مریضِ الفت تڑپ رہا ہے  یہ میرا دل ڈوبا جا رہا ہے
جو نورِ آقاﷺ ہے بے شبہ ہی حسین سے بھی حسین تر ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہاہے‘‘
۳۰ غلام قادر صمیم صوفی
کمال اس کا  ہے دستِ کامل جہان بھر کو چلا رہا ہے
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے‘‘
اے ربِ یومِ حساب میرا حساب سارا الٹ پلٹ ہے
کریم تو ہے اسی لئے تو فقیر سب کچھ بتا رہا ہے
۳۱۔ محمد مودود عظیم چشتی
ازل سے سارے جہاں کا بے شک وہی تو یکتا خدا رہا ہے
اسی کے بندے ہیں سب جہاں میں وہ سب کا مالک سدا رہا ہے
ہے ذرے ذرے میں نور اس کا ہر اک جگہ پر ظہور اس کا
’’ سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی  مگر دلوںمیں سما رہا ہے‘

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.