اہم خبریں

معاشی بدحالی سے چھٹکارا: ممکنہ اقدامات از محمد اسلم الوری

 


 معاشی بدحالی سے چھٹکارا:  ممکنہ اقدامات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد اسلم الوری 

 اگر معیشت کو پائیدار بنیادوں پر بہتر کرنا ہے تو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر ملک میں فوری طور پر معاشی و تعلیمی ایمر جنسی نافذ کرکے درج ذیل اقدامات کئے جائیں :

1۔ حفیظ شیخ نے بتایا ہے کہ صرف ایپٹما اور شوگر انڈسٹری کو قومی خزانے سے 2200 ارب کی سبسڈی دی جارہی ہے اس پر نظرثانی کریں

2۔ سیاسی بنیادوں پر معاف کرائے گئے تمام قرضے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائیں

3۔ ایک حد سے زائد زرعی آمدن پر زرعی ٹیکس عائد کریں۔

4۔ڈی ایچ اے ، بحریہ ٹاون اور اشرافیہ کی دیگر پرتعیش کالونیوں ، لگزری گاڑیوں پر
بھاری ٹیکس عائد کریں

5۔ نوکر شاہی اور بریگیڈیر سے اوپر کے تمام ریٹائرڈ اور حاضر ڈیوٹی افسران اور فیمیلی کے دوران ملا زمت بنائے یا حاصل کئے گئے اثاثوں کی تفصیلات بمعہ ذرائع آمدن مشتہر کئے جائیں۔

6۔ قومی اور تزویراتی اہمیت کے حامل مخصوص سائنسی و تکنیکی مضامین کے علاوہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے پر فوری پابندی عائد کی جائے اور متبادل کے طور پر بیرون ملک سے پاکستانخ نزاد یا غیرملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرکے قومی نجی و سرکاری جامعات کی تدریسی استعدسد اور تعلیمی معیار میں اضافہ کیا جائے
7۔زرعی و سائنسی تحقیق کے اداروں سے کرپشن اقربا پروری  برادری ازم اور غیر معیاری  فرسودہ تحقیقی سرگرمیوں کا خاتمہ کیا جائے

8۔زر مبادلہ کے حصول کے لئے اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے شعبہ کو  ہر ممکن وسائل اور سہولیات فراہم کی جائیں۔

9۔ کمپیوٹری سہولیات کے استعمال میں مہارت نہ رکھنے والے اساتذہ، ملازمین، نوکر شاہی کے افسران کو اپنی استعدا د میں اضافہ کے لئے  تین ماہ کا نوٹس دے کر  ملازمت سے جبری طور پر سبکدوش کیا جائے تاکہ ان کی جگہ کم تعداد میں نوجوان اور بہتر استعداد کے حامل افراد کو بھرتی کرکے اداروں کی مجموعی استعداد کار میں اضافہ کیا جاسکے۔

10۔ریٹائرڈ ملازمین کی صلاحیتوں کو رضاکارانہ بنیادوں پر تعلیمی و سماجی شعبہ میں بروئے کار لانے کے لئے قواںین اور طریق کار وضع کئے جائیں

11۔ تمام ٹی وی چینلز کو 50 فی صد ٹائم تعلیمی ، سماجی موضوعات اور مسائل کی تفہیم اوف ان کے پائدار حل کی تلاش کے لئے مختص کرنے کا پابند کی جائے۔

12۔ زرعی زمینوں پو رہائشی کالونیاں تعمیر کرنے پر فوری پابندی عائد کی جائے۔ زیر غور درخواستیں مسترد کرکے ڈی ایچ اے بحریہ ٹاون اور دیگر ملڈرز کو غیر آباد اراضی پر تاحکم  ثانی زرعی مقاصد کے لئے بروئے کارلانے کا پابند کیا جائے

13۔ دیہات میں ہر خاندان کو 5 من تک   اناج ذخیرہ کرنے کے لئے سرکاری طور پر جستی بھڑولوں اور گھر میں  آٹا پیسنے کی سولر سے چلنے والی چکی کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ ان کی استعداد میں اضافہ ہو ، بے روزگار خواتین اور افراد ذرا سی مشقت کرکے اپنے لئے  سستے داموں آٹا  حاصل کرسکیں اور اگر وہ چاہیں تو چکی کی مدد سے اناج پیس کر مارکیٹ میں دلیہ دالیں بیسن ، مکئی باجرہ اور خالص آٹا فروخت کرکے اپنی آمد ن میں اضافہ کرسکیں۔

14۔گھوڑی پال اسکیم کی طرز پر ایک باقاعدہ منصوبہ اور فول پروف نظام کے تحت ڈیری صنعت کے فروغ کے لئے  دیہی علاقوں میں علاج معالجہ اور دیگر افزائشی سہولیات سے آراستہ مخصوص مقامات پر گائے بھینس اور دیگر دودھ دینے والے جانور تقسیم کئے جائیں

15۔تمام تعلیمی اداروں میں انگریزی میڈیم کا خاتمہ کرکے قومی زبان میں بامقصد تعلیم ، ہنر وری اور مہارتوں کی تربیت کا اہتمام کیا جائے

16۔ تمام بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ڈپازٹس کا کم از کم 40 فی صد 5 فی صد شرح منافع پر قابل عمل اور منافع بخش ترقیاتی منصوبوں ، گھروں کی تعمیر ، گھریلو صنعتوں، اور کاروباری مقاصد کے لئے مختص کریں۔

17۔ ذرائع ابلاغ پر غیرملکی خوردنی مصنوعات اور خوردنی تیل کی کھپت بڑھانے والے پکوان کے تمام پروگراموں پر  پابندی لگا کر خوردنی تیل کے درآمدی بل پر قابو پایا جائے۔ متبادل پیداوار کے لئے زیتون، سورج مکھی، تل ، السی، بنولہ، کینولا اور دیگر تیلدار فصلوں کی کاشت کے لئے کسانوں کو معیاری بیج کھادیں بروقت پانی ، تکنیکی رہنمائی، امدادی قیمت، بلا سود قرضے جیسی سہولیات اور دیگر ترغیبات دی جائیں۔

18۔ بیرون ملک سے سبزیوں پھلوں دودھ گوشت کی درآمد بند کرکے اندرون ملک ان اشیاء کی پیداوار، محفوظ ذخیرہ کاری منڈی میں خرید و فروخت کے نظام کی اصلاح کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔

 19۔ فوڈ سیکورٹی یعنی غذائی تحفظ اور قابل برآمد زائد از ضرورت  فاضل پیداوار ہی اس وقت ہماری قومی سلامتی کی ضامن ہے۔ اس لئے ضلعی سطح پر قریبی زرعی کاج یا یونیورسٹی کے تعاون و اشتراک سے مقامی وسائل و ضروریات، افرادی قوت،  آب و ہوا، پانی کی دستیابی وغیرہ کی روشنی میں ہرسال زرعی و صنعتی پیداوار کی منصوبہ بندی کی جائے تاکہ ہر تحصیل و ضلع کو پیداواری اہداف کے مطابق غذائی خود کفالت  کے قابل کیا جائے۔ اس کے لئے سوچ بچار کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت زرعی و صنعتی زون قائم کئے جائیں ۔

20۔  ہر ضلع میں سو فی صد خواندگی، کپیوٹر لٹریسی، گھریلو صنعتوں کے فروغ کے لئے پیشہ ورانہ تربیت اور تعلیمی و تربیتی نصابات اور سرگرمیوں کو مقامی پیداواری منصوبوں اور افرادی قوت کی طلب اور کاروباری و سماجی ضروریات سے ہم آہنگ کیاجائے۔

21 ملک میں بنیادی حقوق اور شہری ذمہ داریوں کے بارے سماجی شعور کے فروغ کے لئے وارڈ محلہ، یونین کونسل کی سطح پر علما کرام ، اساتذہ ، ریٹائرڈ ملازمین اور نوجوانوں  پر مشتمل فعال و پرعزم مجالس تشکیل دی جائیں جو نجی س سرکاری اسکولوں   مساجد و مدارس یا دیگر دستیاب مکانی سہولیات کا موثر استعمال کرتے ہوئے عوام الناس کی ضہنی تربیت ، کردار سازی اور انہیں معاشرے کا ذمہ دار فرد بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

22۔ تعلیمی اداروں میں نیشنل کیڈٹ اسکیم اور عوام میں قومی رضاکار تنظیم کو دوبارہ بحال کیاجائے تاکہ زیادہ سےزیادہ لوگوں کو خود حفاظت اور ہنگامی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی تربیت دی جاسکے۔

23۔ پرتعیش طرز زندگی کی حوصلہ شکنی اور سادگی کو عام کرنے کے لئے اعلی سطح پر قانون سازیکے ساتھ ٹھوس انتظامی اقدامات کئے جائیں

24۔ ملک سے جہالت کے خاتمہ کے لئے دینی و سماجی رضاکاروں کی مدد سے  ہنگامی بنیادوں پر قرآن خواندگی کی تحریک برپا کی جائے جس میں خواتین بچوں اور بالغ افراد کو قرآن پاک ناظرہ کے ساتھ حروف شناسی، اعداد شناسی ، صحت و صفائی اور حفظان صحت، سماجی ذمہ داریوں ، ماحولیاتی مسائل ،  اعلی اوصاف و اخلاق  سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی جائیں۔

25۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت ریٹائرڈ و حاضر ڈیوٹی سرکاری ملازمین اور ایوان صنعت و تجارت کے تعاون سے ملک بھر میں سایہ دار اور پھلدار درخت لگانے اور ان کے تحفظ کے لئے ہر سال قومی سطح پر بھرپور شجر کاری مہم چلائی جائے۔

26۔ سرکاری ملازمت ، کسی بھی درجہ کے انتخابات میں حصہ لینے، میٹرک اور  کسی بھی تعلیمی درجہ کی سند و ڈگری کے حصول کے لئے کم ازکم 6 ماہ تک کسی معروف اور منظور شدہ سماجی ادارے یا تنظیم کے ساتھ  سماجی خدمات انجام دینے کو لازمی قرار دیا جائے۔ اس کےلئے رجسٹریشن ، تربیت اور سرٹیفیکیشن کا باقاعدہ طریق کار وضع کیا جائے۔

27۔ انگریزی بنیاد طبقاتی نظام فوری طور پر ختم کرکے پورے ملک میں قومی زبان میں یکساں معیاری نصاب و نظام تعلیم نافذ کیا جائے۔

28۔ پیداواری مقاصد کے علاوہ کاروں   گاڑیوں، موبائل، منشیات و مشروبات،  اشیائے تعیش و زیبائش سمیت ہر قسم کی مشینری و آلات اور مصنوعات کی در آمد پر پابندی لگا کر ان کی اندرون ملک تیاری کے لئے سہولیات و مراعات فراہم کی جائیں۔

29۔ سرکاری محکموں میں نائب قاصد ، ڈرائیور، سویپر، مالی، اسٹینو ٹائپسٹ، سپرنٹنڈنٹ اور غیرضروری افسران وغیرہ کی اسامیاں کم اور پھر ختم کرکے نجی شعبہ میں روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔

30۔ ایندھن بجلی اور دیگر مصارف کم کرنے کے لئے سرکاری و نجی دفاتر میں گھر سے اون لائن کام کرنے کا کلچر متعارف کرایا جائے

31۔ بجلی کی بچت کے لئے تمام بازار   سرکاری دفاتر اور تجارتی مراکز صبح 7 بجے کھولنے اور مغرب کی نماذ کے ساتھ ہی بند کرنے  کا نظام نافذ کیا جائے تاکہ عوام آفتاب کی روشنی میں اپنے تمام کام کاج ختم کرسکیں۔

32۔مایوسی کے شکار محب وطن شہری سستی  کاہلی، بے دلی اور قومی امور سے متعلق لاتعلقی کی مجرمانہ روش ترک کرکے اپنے اپنے دائرہ اثر میں خواہ وہ خود اپنی ذات خاندان برادری یا جماعت تک محدود کیوں نہ ہو ، اپنے علم و معلومات اور تجربات کی شمع لے کر نکلیں اور اپنے مستقبل کے لئے فکر مند نوجوانوں اور مسائل کے شکار خاندانوں کی رہ نمائی کریں۔ ہاتھ پرہاتھ رکھ کر تمام دن تبصرے بازی کی بجائے میدان عمل میں نکلیں اور اپنی دلچسپی اور مہارت کے شعبہ میں رضاکارانہ تعلیمی، تربیتی،  تدریسی، طبی، سماجی خدمات کے ذریعہ اپنا فرض ادا کریں۔

33۔ روز افزوں مہنگائی سے تنگ والدین دوسروں کی نقالی کی بجائے اپنی چادر دیکھ کر پاوں پھیلائیں، بچوں کو قریب ترین سرکاری اسکول میں داخل کرائیں، اساتذہ کے ساتھ قریبی رابطہ رکھیں، صحت اور حفظان صحگ کے اصولوں پر عمل کریں ، رہن سہن ، خوردو نوش اور عام زندگی میں سادگی ، محنت و مشقت اور صبروشکر کی عادت اپنائیں، گھر میں صفائی اور سچائی کا خیال رکھیں اور بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں اور اپنی آمدنی میں اضافہ کی تدابیر اپنائیں۔

34۔ دیہات اور شہر سے متصل نواحی علاقوں میں رہنے والے دیسی مرغیاں، گائے بھینس بکری پالکر یا بھل پھول اور موسمی سبزیاں اگا کر یا کوئی ہنر اپنا کر اپنی ماہانہ گھریلو آمدن میں معقول اضافہ کرسکتے ہیں۔

35۔ ہر شہر میں بدقسمتی سے اپنے ذاتی مفادات اور کرپشن کے تسلسل اور اس پر پردہ پوشی کے لئے ڈی سی او، ڈی پی او ، تحصیلدار، سیشن جج اور پریس کلب عہدیداروں کا مجرمانہ گٹھ جوڑ وجود میں آچکا ہے جس سے ترقیاتی فنڈز کی خردبرد ، ناجائز تجاوزات، چوری ڈاکہ، اسٹریٹ کرائمز ، مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات اور عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس گٹھ جوڑ کے خلاف شہری حقوق کی بازیابی کے لئے ہر شہر میں  سیاسی مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر نوجوانوں اور باشعور اور سماجی ودینی شعور کے حامل  فعال شہریوں کی طرف سے غیر سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دے کر مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا ورکرز شہری مسائل اور بددنوانی کو اجاگر کرکے اس قسم کی عوامی بیداری مہمات میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.