اہم خبریں

سفر نامہ بلوچستان تا بھونگ از پروفیسر رضا حسین سیال

 
بھونگ مسجد صادق آباد



 بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ اور اس کے پیارے حبیب کا بے حد احسان اور کرم نوازی ہے کہ جب سے بندہ نا چیز کو مرکزی صدر انجمن اساتذہ پاکستان کی ذمہ داری سونپی گئی ہے میں نے بساط بھر کوشش کی ہے کہ اس ذمہ داری کو اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے خوش اسلوبی اور احسن انداز میں نبھایا جائے۔نومبر 2020 جامعہ کراچی میں منعقدہ مرکزی کنونشن میں میرے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری ڈالی گئی میں نے اپنے مخلص احباب کی ٹیم کے ساتھ مل کر پوری لگن اور جانفشانی سے یہ فریضہ سر انجام دینے کی کوشش کی اور موجودہ سیشن جس کا مرکزی کنونشن دسمبر2021 کو فیصل آباد میں منعقد ہوا ایک مرتبہ پھر مجھے مرکزی صدر کی ذمہ داری سونپ دی گئی حالانکہ میں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ یہ ذمہ داری کسی دوسرے دوست کو سونپی جائے بہرحال موجودہ سیشن بھی مرکزی۔صوبائی۔ڈویژنل اور ضلعی دوستوں کے بھرپور تعاون سے بڑے احسن اور بھر پور انداز میں اپنے اہداف کی تکمیل کی جانب گامزن ہے۔۔مئی میں آزاد کشمیر اور خیبر پختون خواہ کا ایک ہفتے کا وزٹ ہوا تنظیمی دوستوں نے اپنی محبتیں نچھاور کی جن کا میں ممنون احسان ہوں۔اب میں اپنے حال ہی میں آٹھ روزہ دورہ 4 جون تا 11 جون 2022 کی طرف آتا ہوں ۔چار جون کی شام اس تنظیمی دورہ کے ہمسفر ضلعی نائب صدر کالجز پروفیسر محمد شریف۔تحصیل ڈپٹی سیکرٹری سکولز محمد رفیع اللہ سیال اور نوید حسن میرے غریب خانے تشریف لائے رات کا کھانا اکٹھے کھایا اور پلان کے مطابق نماز فجر کے بعد چائے اور بسکٹ کا ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور اپنی منزل کی جانب نکل پڑے۔ایک روز قبل میں نے جناب جمال احمد مرزا سے اس بات کا اظہار کیا تھا اور ان کو بتایا تھا کہ بھکر سے جاتے ہوئے خیبر پختون خواہ میں پہلا سٹاپ  درابن ، زیارت دربار عالیہ دوست محمد قندھاری موسی زئی شریف ہو گا آپ سلسلہ نقشبند کے عظیم روحانی بزرگ ہیں۔


جب زیارت کے لئے دربار شریف پہنچے تو انجمن اساتذہ پاکستان کے دو مخلص احباب ممتاز صاحب  اور عبدالستار سیال نے ناشتے کی پیشکش کی اور جمال احمد مرزا کے حکم کے مطابق آپ نے ہمارے ہاں ناشتہ لازمی کرنا ہے۔ موسی زئی شریف سے کچھ فاصلے پر  چودھوان  کا تاریخی اور قدیم قصبہ ہے جس کی ایک خاص تہذیب و ثقافت ہے اور پہنچ کر ۔دامان۔کی اصلی جھلک نظر آئی لوگ سادہ اور پرخلوص لیکن جدید دور کی مادی ترقی سے کوسوں دور پھر بھی احساس ہوا کہ اس قصبے کی پختہ سڑکیں اور گلیاں اور نالیاں ہونی چائیں تاکہ ان باسیوں کے مسائل کم ہوں یہاں کا بھی بنیادی مسلہ صاف پانی کا ہے۔ناشتہ میں پہلے چائے بسکٹ اور بعد میں  ثوبت جو اس علاقے کی مرغوب ڈش ہے پیش کی گئی بڑا مزا آیا انتہائی ٹیسٹی اور مزیدار کھانا تھا سب احباب نے سیر ہو کر کھایا اور ساڑھے نو بجے کے قریب وہاں سے اپنی اگلی منزل ژوب کی طرف رواں دواں ہو گئے۔۔۔

درابن سے آگے جائیں تو ۔درہ زندہ۔کی آبادی ہے اور پھر پہاڑی علاقہ شروع ہو جاتا ہے کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ گو کہ مری۔مانسہرہ اور کشمیر کے پہاڑوں کی طرح سرسبزوشاداب نہ سہی لیکن ان پہاڑوں کا بھی اپنا حسن اور خوبصورتی ہے۔مختلف اقسام اور اشکال کے پہاڑوں میں جاذبیت اور کشش کے بے بہا عناصر موجود ہیں جو اس کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔تاہم ان علاقوں میں غربت کے آثار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔اس پر خطر پہاڑی سفر کو پرامن بنانے میں ایف۔سی کے نوجوانوں کی خدمات اور قربانیاں قابل تحسین ہیں۔ دن ڈیڑھ بجے کے قریب ہم ژوب پہنچ گئے۔ انجمن اساتذہ پاکستان کے احباب شاہ جہاں،شاہ بہرام،حبیب اللہ خان،ضیااللہ خان، محمد اعظم ، اسلم خان اور انجمن کے دیگر ساتھیوں نے ویلکم کیا ۔ تنظیمی مشاورت ہوئی۔ انجمن اساتذہ پاکستان کا لٹریچر اور سالانہ کیلنڈر 2022 تقسیم کیا گیا۔ تنظیمی حوالے سے انجمن اساتذہ پاکستان کا ژوب میں کوئی منظم نیٹ ورک تو نہیں ہے لیکن انجمن اساتذہ پاکستان سے محبت کرنے والے ہمدردی رکھنے والے احباب کی معقول تعداد موجود ہے جنہوں نے بہرحال انجمن اساتذہ پاکستان کو منظم اور فعال کرنے کا وعدہ فرمایا۔ بعد ازاں شاہ جہاں اور شاہ بہرام کے مرحوم بھائی کے لئے دعائے مغفرت کی گئی ۔ 5جون کی رات ژوب ہی میں بسر کی بلوچستان کے میزبانوں کی ثقافتی اور پرخلوص مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے اور اگلے دن ساڑھے چھے بجے کے قریب کوئٹہ کے لئے روانہ ہو گئے میزبان حبیب اللہ خان کے اخلاص اور محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ رات کو ہم نے صبح چھ بجے ناشتے کا کہا کہ ہم نے ساڑھے چھ بجے جانا ہے تو حبیب اللہ خان چھ سے بھی پانچ منٹ پہلے ناشتہ لے آئے کہنے کو تو ناشتہ تھا لیکن دراصل مکمل اور لذیذ کھانا تھا۔ژوب سے کوئٹہ تین سو چالیس کلومیٹر کا سفر ہے ۔روڈ انتہائی آرام دہ اور عمدہ پورے سفر کے دوران نہ کہیں ٹوٹا پھوٹا روڈ اور نہ ہی کہیں جمپ نام کی چیز اور نہ ہی پنجاب کی طرح ہر بیس کلومیٹر کے بعد جب کھڈوں اور جمپوں کے بعد جب آپ کا حشر ہو چکا ہوتا ہے تو آگے  ٹول پلازہ آپ کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ میں نے کم وبیش بارہ تیرہ سو کلومیٹر کا سفر بلوچستان میں کیا مجھے کہیں بھی ٹول پلازے والی بدعت نظر نہیں آئی اور روڈ بھی موٹرووے کی طرح اگر اس طرح کے روڈ پنجاب میں ہوں تو مسافر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہی منزل پر پہنچے گا۔ ٹیکس کی مد میں آپ سے سب کچھ ہتھیا لیا جاتا ہے۔ مختصرا راستے میں سیاحوں کے انداز میں منزل کی جانب بڑھتے رہے کچلاک سے کچھ پہلے روڈ کی دونوں جانب  چیری کی جھونپڑیاں تھیں ۔ بہت ہی لذیذ اور منفرد ذائقہ کی حامل وہاں  چیری بھی کھائی اور تصویریں بھی بنوائیں۔۔


 

ژوب میں صوبائی جنرل سیکرٹری عبدالحمید خان موسی  خیل نےتشریف لانی تھی لیکن محکمانہ مجبوری کی وجہ سے نہ آ سکے جس کی کمی شدت سے محسوس ہوئی ویسے بھی ژوب اور موسی خیل کا فاصلہ چار پانچ گھنٹے کا ہے کیونکہ بلوچستان ایک وسیع و عریض رقبے پر مشتمل صوبہ ہے اور پہاڑی علاقہ ہے اس لئے سفر کرنا پنجاب کی طرح آسان اور برق رفتار نہیں ہوتا۔ بہرحال چھ جون دوپہر دو بجے کے قریب کوئٹہ میں وارد ہوئے پہلی ٹھیکی بولان میڈیکل کالج کے بالکل پہلو میں سردار رضوان کا گھر ہے سردار صاحب صاحبزادہ محمد منصور سلطان القادری منتظم اعلی جامعہ انوار باہو اور بھکر کی علمی۔سیاسی اور روحانی شخصیت ہیں۔اور اپنے والد صاحبزادہ محمد نور سلطان کی حقیقی اور عملی تصویر ہیں۔ سردار صاحب صاحبزادہ منصور سلطان کے ارادت مند عقیدت مند اور مرید خاص ہیں۔ظہرانے کا پروگرام سردار صاحب کے ہاں تھا اور وہ اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں ہمارا انتظار فرما رہے تھے۔وقت کی قلت کے پیش نظر میں نے مرکزی نائب صدر بلوچستان جن کا تعلق مستونگ سے ہے جناب رھیس غوث بلوچ کو گزارش کی تھی کہ وہ بھی کوئٹہ تشریف لے آئیں بلوچ صاحب کا اصرار تو مستونگ حاضری دینے کا تھا لیکن میری خواہش کے پیش نظر وہ بھی اپنے وفد کے ساتھ کوئٹہ تشریف لے آئے۔مستونگ کے وفد میں قاضی عبدالظاہرمینگل۔محمد گلستان بلوچ۔منیر احمد مینگل محمد شہزاد بھٹو۔عبداالرحمان خان۔محمد فرحان اور انجمن کے دیگر احباب شامل تھے۔انجمن کے دوستوں سے تفصیلی میٹنگ ہوئی اور انجمن اساتذہ پاکستان کو پورے بلوچستان میں منظم اور فعال کرنے کے لئے احباب نے بہت سی آرائ پیش کیں۔اور بلوچستان کے دوستوں نے وعدہ کیا کہ امسال مرکزی کنونشن جہاں بھی ہو گا بلوچستان کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں کی بھر پور شرکت ہوگی۔۔تنظیمی مشاورت کے بعد شب بسری کا پروگرام کوئٹہ کینٹ میں طے پایا تھا۔اس لئے سردار رضوان اور غوث بلوچ سے اجازت لے کر کینٹ چلے گئے۔ چیکنگ کے مراحل طے کرنے کے بعد مطلوبہ مقام پر پہنچ گئے۔بلاشبہ ہم جو رات کو گہری نیند سوتے ہیں یہ پاک آرمی کے نوجوانوں کی شب بیداری کا نتیجہ ہے ہمیں فخر ہے پاک فوج تنظیم کے اعتبار سے دنیا کے بہترین اداروں سرفہرست ہے۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔

 

مرکزی نائب صدر بلوچستان۔رھیس غوث بلوچ۔صوبائی نائب صدر بلوچستان منصور احمد سیلاچی۔مرکزی ڈپٹی سیکرٹری کالجز پروفیسر شبیر چنا اور انجمن کے دیگر احباب کے ساتھ  کوئٹہ میں مشاورتی اجلاس

سبی۔۔صوبائی صدر پروفیسر محسن انور۔صوبائی الیکشن کمیشنر پروفیسر حافظ احسان الحق۔مرکزی ڈپٹی سیکرٹری تاج محمد خجک اور دیگر احباب سے مشاورتی میٹنگ۔۔

رحیم یار خان۔۔چیرمین مجلس شوری شاہد مسعود۔مرکزی سیکرٹری فنانس شیخ عبدالرزاق عادل ڈویژنل جنرل سیکرٹری رانا خالد محمود اور انجمن کے دیگر احباب کے ساتھ

کوٹ مٹھن۔۔دربار خواجہ غلام فرید پر انجمن اساتذہ پاکستان  کے دیگر احباب کے ساتھ

سات جون کو دس بجے انجمن اساتذہ کا اہم اجلاس گورنمنٹ ہائی سکول پولیس لائن کوئٹہ میں ہوا۔صوبائی نائب صدر بلوچستان منصور احمد سیلاچی۔مرکزی ڈپٹی سیکرٹری پروفیسر شبیر چنا۔ثنااللہ خان کاکڑ۔عباس شریف۔ظہور احمد اور انجمن اساتذہ پاکستان کے دیگر احباب نے ویلکم کیا۔تلاوت اور نعت کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ادارے کے پرنسپل نے سکول کے تمام سٹاف کو بھی سٹاف روم میں انجمن اساتذہ کے اجلاس میں کال کر لیا۔انجمن اساتذہ پاکستان کا تعارف اغراض و مقاصد بیان کئے گئے بعد میں سوال و جواب کی بھر پور نشست ہوئی۔تنظیمی اور تربیتی حوالے سے بھر پور سیشن تھا۔پاکستان کے تعلیمی نظام اور خاص طور پر حکومت کی پرائیویٹ سیکٹر کو نوازنے اور پبلک سیکٹر کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر سیر حاصل بحث ہوئی ۔بلوچستان کے احباب بھی حکومتی پالیسیوں سے شاکی نظر آئے۔بیورکریسی اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کےلئے پرائیویٹ سیکٹر کی سر پرستی کر رہی ہے۔۔آج کا دوسرا پروگرام پروفیسر ڈاکٹر سائیں سلطان الطاف علی کے ہاں حاضری کا تھا۔سلطان صاحب دور حاضر میں فارسی ادب پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں اور کلام حضرت سلطان باہو  اور سوانح حضرت سلطان باہو پر حوالے کا درجہ رکھتے ہیں۔دوپہر ایک بجے قریب وہاں حاضر ہوئے تو آپ باکمال شفقت انتظار فرما رہے تھے۔آپ کے فرزندارجمند سائیں سلطان مشتاق بھی موجود تھے آپ انتہائی نفیس طبعیت کے مالک ہیں اور مہمان نوازی سخاوت کا پیکر ہیں ۔اپنے والد محترم کے علمی اور تحقیقی کام کو کتابی شکل میں منصئہ شہود پر لانا سائیں سلطان کی ذمہ داری ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سلطان الطاف علی کو انجمن کا لٹریچر اور کیلنڈر پیش کیا اور آپ نے اپنی کتابوں کے نسخوں اور کلام حضرت سلطان باہو سے مجھے اور میرے ساتھیوں کو نوازا۔ میرے استفسار پر کہ بلوچستان کے وسیع و عریض پہاڑی علاقوں میں حضرت سلطان باہو کی اولاد اور آپ کے مریدین کا ایک وسیع سلسلہ موجود ہے کیا آپ خود تشریف لائے تھے۔تو سلطان الطاف علی نے فرمایا کہ  تاریخ سے آپ کا کوئی بلوچستان کا سفر نہیں ملتا لیکن آپ کے خلفائ اور بعد ازاں آپ کی اولاد سے کافی تعداد لوگ بلوچستان تشریف لائے۔بلاشبہ سائیں سلطان الطاف علی علم و معرفت کا بحربیکراں ہیں۔اللہ انہیں عمر خضر عطا فرمائے آپ اس قحط الرجال کے دور میں کسی نعمت سے کم نہیں۔آپ سے وابستہ خادمین بھی انتہاہی ملنسار اور عجزوانکساری کا پیکر تھے ۔جو کہ میرے لئے غیر متوقع اور خوشگوار حیرت کا سبب تھا کیونکہ میں نے اکثر پیران عظام سے وابستہ خادمین کو اکھڑ مزاج اور تنگ نظر ہی پایا ہے۔جو میرے خیال خانقاہی نظام کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔انجمن اساتذہ پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری سکولز جناب تاج محمد خجک بھی تشریف لے آئے ان سے ملاقات کے اگلے دن کا پروگرام ترتیب دیا اور ہم تمام احباب صاحبزادہ نجیب اللہ ایڈیشنل سیکرٹری پاور اینڈ انرجی کے ہاں عشائیہ کا پروگرام تھا وہاں آگئے ۔صاحبزادہ نجیب اللہ خان ۔رفیع اللہ کے دوست ہیں بہت ہی خوش مزاج اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ہمارے ہاں تو پنجاب میں تحصیل لیول آفیسر بھی اپنے آپ کو زمینی مخلوق نہیں سمجھتا اور ان کے ناز نخرے دیدنی ہوتے ہیں۔لیکن میں نے جہاں تک دیکھا بلوچستان کے بیورکریٹ اتنے خودساختہ پردوں میں نہیں رہتے جتنا پنجاب میں رواج ہے ۔پچھلے سال کوئٹہ میں ڈاکٹر خادم سیال سے ملاقات ہوئی تھی جو کہ ڈی۔جی۔لائیو سٹاک ہیں وہ بھی انتہائ کھلے ڈھلے انسان ہیں اور بلوچستان کی محرومیوں پر بڑے دبنگ انداز میں تبصرہ کرتے ہیں۔کوئٹہ میں پروفیسر محمد طاہر سومرو سے ملنے کا اشتیاق تھا لیکن وقت کی گتھی نہ سلجھ سکی اور شرف ملاقات سے محروم رہے تاہم سوشل میڈیا کے ذریعے سومرو صاحب کی محبتیں پہنچتی رہیں جن کا ممنون احسان ہوں۔۔۔۔
8 جون بروز بدھ کوئٹہ سے سبی کا پروگرام طے ہو چکا تھا صوبائی صدر انجمن اساتذہ پاکستان بلوچستان جناب پروفیسر محسن انور نے سبی میں موسم کی شدت اور حدت کے حوالے سے آگاہ کر دیا تھا عجیب حسین اتفاق ہے کہ کوئٹہ بھی کوئی سر سبزوشاداب علاقہ نہیں ہے بلکہ شہر میں درخت اور پودے خال خال ہی نظر آتے ہیں اور بظاہر چاروں اطراف کی نسبت کوئٹہ نشیب میں واقع ہے لیکن اس کے باوجود کوئٹہ شہر کا موسم اپنے ارد گرد کے علاقوں سے ٹھنڈا ہے ہم نے تو ایک ہی فارمولا یاد کیا ہوا تھا کہ جو جگہ جتنی بلند ہو گی اتنی ہی ٹھنڈی ہو گی۔قصہ مختصر ہم 9 بجے کے قریب کوئٹہ سے سبی کی طرف چل پڑے۔مرکزی ڈپٹی سیکرٹری سکول تاج محمد خجک ہماری راہنمائی اور رہبری کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔سبی کوئٹہ سے 140 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لیکن زیادہ تر سفر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے اس لیئے وقت توقع سے زیادہ لگ جاتا ہے۔
 
سبی فورٹ

ایک جگہ پر تو راستہ ٹریفک کی وجہ سے بند تھا کوئی بڑی گاڑی سڑک کے تنگ موڑ میں خراب ہو گئی تھی اس لئے دونوں اطراف میں گاڑیوں کی لمبی لائن لگی ہو ئی تھی پہلے تو خجک صاحب نے ڈرا دیا کہ یہاں تو اگر ایسا واقعہ پیش آجائے تو دو دو دن تک راستہ نہیں کھلتا لیکن بعد ہماری ڈھارس بندھائی کہ پیچھے مڑ کر تقریبا ایک فرلانگ کے فاصلے پر نیچے کچا راستہ جو سیلابی دریا کا پاٹ تھا اور اب خشک تھا ہلکے ہلکے پتھر اور بجری پر آہستہ آہستہ چلنے لگے باقی ویگنوں اور چھوٹی کاروں والے مسافر بھی اسی راستہ سے استفادہ کر رہے تھے کم و بیش دو کلو میٹر کے بعد پھر پختہ سڑک پر آ گئے اور جونہی سڑک پر چڑھے '۔۔پیر پنجہ۔۔کی زیارت آ گئی وہاں جو معلوماتی بورڈ لگے ہوئے تھے ان کے مطابق اس جگہ پر حضرت علی علیہ سلام کے پاوں کے نشان ہیں۔پاوں کے نشان واضح نظر آرہے تھے نشانات کو اوپر سے شیشہ لگا کر محفوظ کر دیا گیا تھا اور ایک چھوٹا ساکمرا بنا ہوا تھا وہ کمرا بھی مقفل تھا اس لئے دور ہی سے زیارت ممکن تھی خجک صاحب کی معلومات اور وہاں پر بورڈ لگے ہوئے تھے ان کے مطابق حضرت علی خود ایک آدمی کو بشارت دی کہ یہ میرے پاوں کے نقش ہیں تب سے اب تک اسی بزرگ کی اولاد کے افراد اس کی حفاظت پر مامور ہیں اور زائرین اور مسافروں کو چشمے کا ٹھنڈا پانی پلانا ان کی ڈیوٹی ہے ہم نے بھی زیارت کے بعد ٹھنڈا پانی پیا اور اپنی منزل کی جانب چل پڑے کچھ سفر طے کیا تھا کہ خجک صاحب نے بتایا کہ مین روڈ سے ہٹ کر پانچ جھ کلو میٹر کے فاصلے پر۔پیر غائب۔کی زیارت ہے وہاں اولیا اللہ کے مزارات بھی ہیں اور وہ وادی بھی بڑی خوبصورت اور سرسبزوشاداب ہے۔ہماری بدنصیبی کہ جب اس جگہ پہنچے تو وہاں بہت بڑا بورڈ آویزاں تھا کہ منگل اور بدھ مردوں کا داخلہ منع ہے ہم نے ڈیوٹی پر مامور نوجوانوں کی منت سماجت کی کہ ہم لوگ پنجاب سے آئے ہیں مہربانی کریں۔لیکن کوشش بسیار کے باوجود انکار کو اقرار میں نہ بدل سکے بہرحال زیارت کی حسرت دل میں لئے آگے بڑھ گئے ۔اور سبی سے پندرہ سولہ کلومیٹر پہلے ڈھاڈر ضلع کچھی کا شہر ہے وہاں صوبائی ڈپٹی سیکرٹری علامہ علی نواز کی عیادت کے لئے حاضری دی انجمن کے اور احباب بھی موجود تھے انجمن اساتذہ پاکستان کا لٹریچر اور سالانہ کیلنڈر بھی پیش کیا۔تنظیمی مشاورت ہوئی۔میرے لئے یہ بات انتہائی باعث حیرت تھی کہ ڈھاڈر اور گردونواح میں ۔سرائیکی۔بولی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ ڈھاڈر کے باسیوں کے گھروں میں بھی مادری زبان کے طور پر سرائیکی ہی بولی جاتی ہے۔علامہ صاحب کا اصرار تھا کہ دوپہر کا کھانا ان کے پاس تناول فرمایا جائے لیکن پیر منصور سلطان القادری کے ارادتمند حاجی غلام عباس کو پہلے اپنی آمد کی اطلاع کر چکے تھے اس لئے وہ کھانے کا اہتمام کرچکے تھے اس لئے علامہ صاحب سے معذرت کرکے سبی کی طرف گامزن ہو گئے۔سب سے پہلے سانحہ کراچی 2006 کے شہید مرکزی سیکرٹری جنرل انجمن طلبا اسلام محمد پیرل شہید کے مزار پر حاضری دی ۔

 
اور ساتھ ہی ایک اور بزرگ کا مزار ہے صوبائی صدر پروفیسر محسن انور بتا رہے تھے کہ آپ تبع تابعین میں سے ہیں۔اور آپ کے مزار کے سامنے ہی ایک گہرا کنواں ہے میں نے بڑی کو شش کی میری نظر پانی تک پہنچ جائے مجھے دھندلا سا عکس نظر آیا کلیر پانی نظر نہیں آتا تھا۔۔صوبائی صدر بتا رہے تھے کہ آپ کے زمانے بھی پانی اتنا ہی گہرا تھا اور مقامی آبادی کے لوگ چرخی پر رسی لپیٹ کر ڈول کے زریعے پانی حاصل کرتے تھے لیکن یہ بزرگ جب جاہتے اپنا لوٹا یا ڈول جب کنویں ڈالتے تو پانی کناروں تک آ جاتا۔۔سبئ قدیم طرز کا شہر ہے اور سبی کی اپنی خاص تہذیب اور ثقافت ہے۔وکٹوریہ میموریل ہال۔انگریز سرکار کی خوبصورت یادگار ہےاور انگیزی طرز تعمیر کی عکاس ہے۔سبی کے مقامی باشندوں نے بھی لانوں میں بیٹھ کر تاش اور لڈو کی ٹولیاں لگائئ ہوئی تھیں۔اور اس جگہ کی رونق کو دوبالا کیا ہوا تھا یعنی زبان حال سے ہم آج بھی انگریزوں کو پیغام دے رہے تھے کہ ہم اب بھی اسی طرح سست الوجود اور نکمی قوم ہیں۔چہ جائیکہ آزادی کا پٹہ ہمارے گلے میں لٹکا دیا گیا ہے۔۔انجمن اساتذہ کی تنظیمی نشست کا اہتمام صوبائی صدر پروفیسر محسن انور صاحب نے رات کے کھانے پر کیا ہوا تھا۔بہت سے پر خلوص اور جواں عزم احباب سے تنظیمی مشاورت ہوئئ۔انجمن اساتذہ پاکستان کی فعالیت کے حوالے سے موثر تجاویز زیر غور آئیں۔صوبائی صدرپروفیسر محسن انور۔صوبائی الیکشن کمیشنر پروفیسر حافظ احسان الحق۔حافظ اسدالحق۔مرکزی ڈپٹی سیکرٹری تاج محمد خجک۔محمد اختر خجک۔عبدالطیف نقشبندی۔صوبائی سیکرٹری اطلاعات پروفیسر محمد جنید۔پروفیسر محمد شریف۔محمد رفیع اللہ۔نوید حسن مرکزی صدر پروفیسر رضا حسین سیال اور انجمن کے دیگر احباب نے شرکت فرمائی۔۔۔
9 جون بروز جمعرات صبح جلدی سبی سے اگلی منزل کی جانب نکلنے کا پروگرام بنایا تاکہ سبی کی گرمی کی شدت سے پہلے سبی کو الوداع کہہ دیں ۔پچھلے روز جب تین بجے کے قریب سبی کے بازار اور مارکیٹیں دیکھنے نکلے تو اکثر دکانیں بند تھیں۔پتا چلا کہ دوپہر کو اکثر دکانیں بند ہو جاتی ہیں اور پھر عصر کے بعد دوبارہ دکانیں کھلتی ہیں۔میرے خیال میں سبی کے باسیوں نے نفسیاتی طور پر بھی تسلیم کر لیا ہے کہ گرمی ناقابل برداشت ہے حالانکہ ہمارے بھکر میں بھی کم و بیش اسی طرح کئ گرمی ہوتی ہے لیکن لوگوں کا معمول کا کاروبار جاری رہتا ہے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔شاید یہاں کے لوگ زیادہ جفاکش اور سخت جان ہیں۔قصہ مختصر ہم صبح ساڑھے چھ کے قریب سبی سے روانہ ہوئے۔مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جناب تاج محمد خجک کی محبتوں کا شکریہ ادا کیا جو گزشتہ دو روز سے باکمال شفقت ہمارے ساتھ تھا۔ہم نے بلوچستان سے سندھ میں داخل ہو کر صادق آباد۔پنجاب۔پہنچنا تھا۔جعفرآباد نصیر آباد سے ہوئے ڈیرہ مراد جمالی پہنچے جہاں صوبائی سیکرٹری فنانس بلوچستان جناب عبدالکریم ڈومکی انجمن کے دوسرے احباب کے ساتھ انتظار میں تھے تعارفی نشست کے بعد انجمن اساتذہ کا لٹریچر اور سالانہ کیلنڈر پیش کیا۔ڈومکی صاحب نے پرتکف ناشتے کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا۔وہاں سے اجازت لےکر آگے چل پڑے جیکب آباد سے سندھ کی سرحد میں داخل ہو گئے۔بلوچستان کے برعکس سندھ میں جگہ جگہ ٹول پلازے اور پولیس چوکیاں بھی نظر آنے لگیں بلکہ ایک جگہ تو ہماری گاڑی کے کاغذات بھی بڑی باریک بینی سے چیک کئے گئے جو کہ سندھ اور پنجاب پولیس کا طرہ امتیاز ہے۔میرے خیال میں خیبر پختون اور بلوچستان پولیس کا رویہ زیادہ بہتر اور انسان دوست ہے جس کی تعریف کی جانی چائیے۔سندھ کے تنظیمی دوستوں کو چونکہ باقاعدہ شیڈول چونکہ نہیں بتایا تھا اس لئے تنظیمی نشست تو نہ ہوئی لیکن پروفیسر سرفراز صاحب گورنمنٹ کالج نوڈیرو اور لیاقت راجپوت میرپور خاص سے موبائیل کے ذریعے رابطہ ہوا البتہ طارق کھوسو جو انجمن طلبا اسلام کے مرکزی راہنما رہے ہیں اور اب انجمن اساتذہ پاکستان کا حصہ ہیں ان سے سرراہ ملاقات ضرور ہوئی۔گدوبیراج پہنچ کر کچھ دیر کے لئے رکے تصاویر بنائیں۔ایف۔سی کے نوجوانوں نے ٹھنڈا پانی پلایا۔کچھ دیر سستانےکے بعد آگے چل پڑے کچھ ہی دیر کے بعد پنجاب میں داخل ہو گئے پنجاب میں قدم رکھتے ہی دوستوں نے فرمائش کر دی کہ بھونگ شریف کی مسجد ضرور دیکھنی ہے گو کہ میں یہ مسجد پہلے ایک دو بار دیکھ چکا تھا لیکن پھر بھی دوستوں کی خواہش کا احترام بھی لازم تھا سو ہم بھونگ شریف شہرہ آفاق مسجد کی زیارت کے لئے پہنچ گئے۔
 

 
میرے خیال میں نجی طور پر اس قدر خطیر رقم خرچ کر کے اس طرح کی عالی شان اور دیدہ زیب مسجد کی مثال شاید ہی برصغیر میں ملے۔رئیس خاندان کی عقیدت اور دریا دلی کا واضح ثبوت ہے۔اللہ اپنے حبیب کے صدقے اجر عظیم عطا فرمائے۔وہاں سے فارغ ہو کر صادق آباد کو روانہ ہو گئے۔صادق آباد سے چھ سات کلومیٹر رحیم یار خان کی جانب بستی گلاب شاہ واقع ہے جو کہ میرے پیارے مرحوم دوست ماسٹر عبدالجبار اعوان کا گھر ہے اور بلامبالغہ میرا دوسرا گھر ہے جبار صاحب کے بچے شدت سے ہمارا انتظار کر رہے تھے عصر کے قریب ہم وہاں پہنچ گئے ۔انجمن اساتذہ پاکستان کے احباب بھی وہاں تشریف لے آئے ان سے تنظیمی مشاورت ہوئئ۔انجمن کا لٹریچر اور کیلنڈر پیش کیا گیا۔۔۔
10 جون بروز جمعہ بعد نماز فجر اپنے مرحوم دوست ماسٹر عبدالجبار اعوان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضری دی۔آپ انجمن اساتذہ پاکستان کے انتہائی مخلص ساتھی تھے اور درویش صفت انسان تھے۔مجھے بتایا کرتے تھے کہ مجھے داتا حضور کے عرس پر مسلسل 37 سال ہو گئے ہیں ۔ساتھ ہی گلاب شاہ بخاری کا دربار ہے آپ بخاری سید ہیں زائرین ہر وقت حاضری کے لئے کافی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔۔آج کا تنظیمی پروگرام رحیم یار میں طے تھا۔چئیرمین شوری شاہد مسعود صاحب رابطے میں تھے دن دس بجے کے قریب عباسیہ ہائی سکول پہنچ گئے۔شاہد مسعود۔رانا خالد محمود ڈویژنل سیکرٹری۔ضیاالرحمان فاروقی ۔عبدالرزاق گجر۔غلام حسین اور انجمن کے دیگر احباب وہاں موجود تھے۔لیکن سردار احمد اویسی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی جب آخری ملاقات ہوئی تو اویسی صاحب متذکرہ ادارے کے ہیڈماسٹر تھے۔رحیم یار خان میں تو آپ کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اس کا پورا ہونا نا ممکن ہے مرکزی سطح پر بھی انجمن اساتذہ پاکستان اپنے ایک مخلص اور نڈر ساتھی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئی ہے ۔موصوف بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے انجمن اساتذہ پاکستان کی خدمت کے ساتھ ساتھ مذہبی اور دینی خدمت کا فریضہ خود بھی سر انجام دے رہے تھے اور اپنے بچوں کو بھی دینی خدمت پر لگایا ہوا تھا مجھے یاد ہے کہ چھ سات ماہ پہلے جب ملاقات پوئی تو بہت خوش تھے کہ میں نے اپنی عالمہ بیٹی کو مدرسہ بنا دیا ہے جو علاقے کی بچیوں کو دینی علوم سے بہرہ ور فرما رہی ہے۔بہرحال موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں۔انجمن اساتذہ پاکستان کے احباب سے تننظیمی امور کے حوالے سے بھرپور تنظیمی مشاورت ہوئی۔چیئرمین شوری شاہد مسعود صاحب سے سمرکیمپ کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔سکول میں اجلاس کے اختتام پر مرکزی سیکرٹری فنانس شیخ عبدالرزاق عادل کے گھر تیمار داری کے لئے حاضر ہوئے آپ نے حال ہی میں اپریشن کرایا تھا۔اللہ شیخ صاحب کو صحت کاملہ اور عاجلہ عطا فرمائے آپ انجمن اساتذہ پاکستان کا اثاثہ ہیں انتہائ مخلص ورکر ہیں آپ کی خدمات انجمن اساتذہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائئں گی۔بیمار پرسی کے بعد شیخ صاحب سے اجازت لی ۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد صادق آباد شہر چلے گئے جہاں نجی مصروفیات کے ساتھ ساتھ انجمن کے دوستوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔صادق آباد ریاستی کلچر کی نمائندہ تہذیب کا عکاس ہے۔صادق آباد کی جہاں دیہی آباد زیادہ تر غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے وہاں صادق آباد کی مارکیٹیں اور بازار خوش حالی اور امارت کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔۔
11 جون اس تنظیمی سفر کا اختتامی روز تھا۔ہفتہ کی صبح نماز فجر کے بعد ہلکے پھلکے ناشتے کے ساتھ صادق آباد سے کو ٹ مٹھن خواجہ غلام فرید کی دھرتی کے لئے نکل پڑے اس دھرتی سے محبت فطری امر ہے جہاں خواجہ فرید نے واحدانیت اور عشق رسول کا درس دیا ہو وہ دھرتی کتنی عظمت اور شان والی ہو گی۔کوٹ مٹھن کے نام میں بھی ایک جذب ومستی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
 

میں نے گذشتہ شب بلال نازکی صاحب جو انجمن اساتذہ پاکستان راجن پور کے ضلعی جنرل سیکرٹری ہیں دربار کے خادمین میں شامل ہیں۔بزم فرید۔کے بھی سرگرم کارکن اور عہدے دار ہیں ان کو اپنی حاضری کی اطلاع کر دی تھی ہم جب دربار شریف پہنچے تو نازکی صاحب بھی باکمال مہربانی انتظار فرما رہے تھے انجمن اساتذہ کے دیگر احباب بھی موجود تھے۔نازکی صاحب نے دربار شریف کی چادروں کا مجھے اور میرے دوستوں کو تحفہ پیش کیا ۔دربار شریف کی زیارت کے ساتھ ساتھ اہل مزار کا تفصیلی تعارف بھی کرایا گیا ۔خواجہ غلام کے اجداد اور اولاد کا نازکی صاحب نے مکمل تعارف اور مختصر سوانح بھی بیان فرمائی۔یہ بھی معلوم ہوا کہ خواجہ غلام فرید کا اصل نام خورشید عالم تھا۔آپ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی محبت میں غلام فرید کہلاتے تھے اور اسی نام سے تا قیامت عشاق کی سرزمین میں امر ہو گئے۔ہاں ایک بات سے دل ضرور پریشان ہوا کہ خواہ خواجہ غلام فرید ہوں۔حضرت سلطان باہو ہوں۔پیر مہر علی شاہ ہوں یا کوئی اور اللہ کا ولی کامل جنہوں نے اپنی ریاضت اور انسان دوستی کی وجہ سے خالق اور مخلوق کے ہاں بلند مقام و مرتبہ پایا۔آج ان کی اولادیں دنیاوی مال و منفعت کے حصول کے لئے باہم دست و گریباں ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ روحانی اور راہ سلوک کی منازل کے حصول کے لئے باہم مسابقت اور مقابلہ ہوتا۔کاش۔اکثر جگہوں پر یہ نظر نہیں آتا۔بہرحال ہم تو عاجز اور گناہ گار بندے ہیں ہمارا تو چاہے ان کی اولادیں ہوں یا انکی نسبت والے ہوں ۔سر تسلیم خم ہے۔۔ہاں تو نازکی صاحب نے باردیگر پر خلوص ناشتہ پیش کیا انجمن اساتذہ پاکستان کے تنظیمی امور زیرباعث لائے گئے۔تنظیم سازی کے حوالے سے نازکی صاحب اور ان کے دوستوں نے موثر سرگرمیوں کا اعادہ کیا۔اگلی منزل شیڈول کے مطابق ڈیرہ غازی خان حافظ احمد محمود سابق مرکزی صدر سے ملاقات کا تھا کہ ڈی جی۔خان میں کچھ وقت سستانے کے بعد آگے نکل جائیں گے ۔شومی قسمت کہ ہم ابھی کوٹ مٹھن ہی تھے کہ حافظ کی کال آگئ کہ وہ کسی قریبی رشتہ دار کی فوتیدگی کے سلسلے میں خانیوال جا رہے ہیں اور وہ انجمن کے دوسرے دوستوں کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں لیکن ہم نے معذرت کی کہ ہم آگے چلے جائیں گے ڈی۔جی۔خان نہیں رکیں گے۔قصہ کوتاہ تقریبا ایک بجے کے قریب کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ دوپہر کے کھانے کے لئے ایک ہوٹل پر رکے ۔گرمی بھی زیادہ تھی اور تھکے ہوئے بھی تھے ہوٹل بہرحال بڑا صاف ستھرا کمرے ائیرکنڈہشن اور عملہ تہذیب یافتہ تھا لیکن پریشانی والی بات یہ تھی کہ پندرہ بیس افراد پر ہوٹل کا مشتمل عملہ اور گاہک اکلوتے ہم ۔اس لئے محمد رفیع اللہ جو کہ ہمارے اس سفر کے خازن تھے انہیں پہلے ہی خبردار کر دیا کہ بھائی بھاو تاو پہلے کرلینا ایسا نہ ہو کہ بعد میں خرابی بنے اور سفیدپوشی کا بھرم جاتا رہے۔رفیع اللہ بھی سمجھدار آدمی ہے اس نے چارٹ کو اچھی طرح الٹ کر دیکھا اور وہ آرڈر دیا جو پیٹ کے ساتھ ساتھ جیب پر بھی بھاری نہ ہو ہمیں اس وقت اس آٹھ روزہ سفر میں میزبانوں کی محبت اخلاص اور دریا دلی اور اپنی کنجوسی پر بھی ترس آیا کہ اس تمام سفر میں پہلی مرتبہ ہم اپنی جیب خاص سے کھانا کھا رہے تھے۔ہم کون اور ہماری اوقات ہی کیا یہ تو فقط انجمن اساتذہ پاکستان کی نسبت کا صدقہ ہے کہ ملک کے جس کونے میں بھی چلے جائیں ۔نجمن سے محبت کرنے والے مخلص احباب موجود ہوتے ہیں ۔بلکہ اگر گستاخی نہ سمجھیں تو میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلیں جائئں کیونکہ پروفیسر محمداعوان صاحب آجکل امریکہ میں ہوتے ہیں اور انجمن اساتڈہ پاکستان کی سر گرمیوں سے نہ صرف باخبر ہوتے ہیں بلکہ ہم جیسے ناپختہ کاروں کی باکمال شفقت رہبری اور راہنمائی بھی فرماتے ہیں۔اللہ انہیں اپنے پیارے حبیب کے صدقے مزید عزتیں اور سر فرازیاں عطا فرمائے۔۔بالاخر عصر کے قریب انجمن اساتذہ پاکستان کا یہ قافلہ اپنی منزل بھکر پہنچ گیا۔۔میں اپنے ہم سفردوستوں پروفیسر محمد شریف ضلعی نائب صدر کالجز۔محمد رفیع اللہ سیال اور نوید حسن کا انتہائی شکرگزار ہوں جن کی سنگت میں یہ حسین سفر اختتام پذیر ہوا۔۔اور خاص طور پر انجمن اساتذہ پاکستان سے وابستہ تمام احباب اور عہدہ داران جن کاتعلق۔خیبرپختون خواہ۔بلوچستان۔سندھ اور پنجاب سے ہے جنہوں نے ہر جگہ پر ہماری عزت افزائی فرمائ اور تنظیمی اجلاسوں اور میٹنگوں کا انتظام وانصرام کیا۔۔سب کرم فرماوں کا بہت بہت شکریہ۔۔خدا حافظ۔۔میرا ارادہ ہے کہ میں انجمن اساتذہ کے قائدین کی تنظیمی خدمات کے حوالے سے فردا فردا کچھ اپنے خیالات کا اظہار کروں۔تاکہ ان کی انجمن اساتذہ پاکستان کے لئے جو لامحدود خدمات ہیں ان میں سے چند انجمن اساتذہ پاکستان کے رسالے۔۔نوائے اساتذہ۔۔میں چھپ کر محفوظ ہو جائیں۔۔یار زندہ صحبت باقی۔۔والسلام۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.