اہم خبریں

محدث اعظم پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمدرحمتہ اللہ تعالی علیہ انتخاب :پروفیسر محمد جعفر قمر سیالوی

 


 

 محدث اعظم پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمدرحمتہ اللہ تعالی علیہ
====================
تحریر:
شیخ الحدیث ابوالحسنین محمد فضل رسول رضوی
_________
تقسیم ہند سے قبل دیال گڑھ ضلع گورداسپور میں سیہول جٹ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک درویش صفت مرد چوہدری میراں بخش  رحمہ اللہ تعالی کا خاندان آباد تھا پیشہ کے اعتبار سے  چوہدری میراں بخش ایک کاشتکار تھے ، جائیداد بھی اچھی خاصی تھی، علاقہ بھر میں انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شرافت، دیانت، خلوص و محبت اور غریب پروری و مہمان نوازی کا سارے علاقے میں شہرا تھا۔ علمائے کرام، مشائخ عظام بالخصوص شہنشاہِ ولایت حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی محبت خاندان کے ہر فرد کے دل میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ تمام محاسن و کمالات اس گھرانے کی شرافت و کرامت پر واضح دلیل تھے مگر اہلِ نظر اور دیدہ ور اپنی نگاہِ فراست سے اس خاندان کے مستقبل کو سامنے دیکھ رہے تھے کہ ان میں ایک ایسا فرزند پیدا ہو گا جو عشقِ رسالت کی تحریک بن کر ابھرے گا۔ جس کے ذوق و عرفان کی داستان نگر نگر پہنچ جائے گی جس کے پیامِ محبت کی خوشبو سے نفرت و عداوت کی وادیوں میں عشق و محبت کے گلستاں لہلا اٹھیں گے۔ بڑے بڑے علماء مشائخ جس کے لئے دلوں کو فرشِ راہ بنانے کے لیے بے تاب نظر آئیں گے دنیا کے اربابِ سیاست اس کی بارگاہ میں حاضری کو اپنے لیے باعثِ افتخار گردانیں گے مگر وہ اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی گدائی پر دنیا و جہان کے اعزاز و اکرام کو نثار کر دے گا۔
یہ فرزند وہ تھے جن کو آج امامِ اہلسنت نائبِ اعلیٰ حضرت محدث اعظم پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد رحمتہ اللہ تعالی علیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی زندگی کا مقصد عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فروغ، ناموسِ رسالت کا تحفظ، محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و اقوال کی ترویج و اشاعت اور لوگوں کو بد عقیدگی و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر راہِ مستقیم پر گامزن کرنا تھا۔
آپ نے صرف زبانی طور پر لوگوں کو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نہیں دی بلکہ خود عملی طور پر محبت کے عمیق سمندر میں ڈوب کر راہِ محبت کے مسافروں کے لیے نشانِ راہ متعین کیا۔ بقولِ ملک العلماء علامہ عطامحمد بندیالوی"ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیخ الحدیث(محدث اعظم پاکستان) کے اجزاء بدنی کی ترکیب ہی عشقِ رسول سے کی گئی ہو۔
آپ عشقِ رسول میں اس درجہ مستغرق تھے کہ درسِ حدیث کے دوران جب محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال مبارکہ کا بیان ہوتا تو آپ بے اختیار ان احوالِ مقدسہ کا مظہر بن جایا کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے کا ذکر ہوتا تو اپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے سیدِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ انور میں درد کا ذکر ہوتا تو دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا کہ سرِ اقدس میں شدتِ درد کی وہ تکلیف آپ خود بھی محسوس فرما رہے ہیں۔ محبوب کے نورانی تبسم کا ذکر آ جاتا تو فرطِ محبت میں آپ کے ہونٹوں پر بھی تبسم بکھر جاتا۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی والہانہ جذبے کا اظہار صرف درسِ حدیث تک ہی محدود نہ تھا بلکہ منطق و فلسفہ کے خشک اور ادق فنون کی تدریس کے دوران بھی آپ یادِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے غافل نہ ہوتے اور دقیق منطقی مباحث سے بھی عظمتِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے گوہرِ آبدار نکال کر طلباء کے لیے تازگی ایمان کا سامان مہیا کرتے۔
اللہ تعالیٰ نےآپ کو علم و فضل کے اس مقامِ رفیع پر فائز کیا کہ بڑے بڑے اکابر نے آپ کو امام المحدثین تسلیم کیا ۔ حافظِ ملت عبدالعزیز محدثِ مبارکپوری  رحمہ اللہ تعالی نے آپ کو علم و فضل کا آفتاب، بخاری زماں اور مجمع البحرین قرار دیا۔ مجاہدِ ملت علامہ حبیب الرحمن رحمہ اللہ تعالی نے آپ کو جوہر الجواہر کہا، مفتی رفاقت حسین کانپوری رحمہ اللہ تعالی نے آپ کو اہل سنت و جماعت  میں سے بے بدل قرار دیا، علامہ خلیل احمد کاظمی محدث امروہی رحمہ اللہ تعالی نے آپ کو تاجدارِ مسندِ تدریس قرار دیا، غزالی زماں علامہ سید احمد شاہ کاظمی رحمہ اللہ تعالی نے آپ کو محدث اعظم پاکستان کا لقب دیا ۔
آپ لاہور میں ایک کالج کے اندر ایف اے کے اسٹوڈنٹ  تھے جب آپ نے شہزداہ اعلی حضرت حجۃ الاسلام حامد رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ تعالی کی زیارت کی اور دل کی دنیا میں انقلاب پیدا ہو گیا اور پھر خود کو علمِ دین کے لیے وقف کر دیا، بریلی شریف میں شہزادگانِ اعلی حضرت سے اکتسابِ علوم کے بعد آپ اجمیر مقدس میں صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں علوم و فنون کی اعلی کتب کی تعلیم کے لیے حاضر ہوئے تو حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے فرمایا۔ "پھر تو بحرالعلوم کے پاس گئے اور خود بھی بحرالعلوم ہو گئے"،
امام رازی ہوں یا امام غزالی امام بخاری ہوں یا امام مسلم رحمہم اللہ تعالی ان سب کے علمی کمالات کثرتِ مطالعہ کی بنیاد پر استوار نظر آتے ہیں۔حضرت محدث اعظم پاکستان رحمہ اللہ تعالی نے بھی زمانہ طالبعلمی سے لے کر عمر عزیز کے آخری حصے تک مطالعہ کو اپنااوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ زمانہ طالبعلمی میں کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے آپ کو اتنی عبارات ازبر تھیں کہ آپ کو عدل العلم (علم کی گھٹڑی) کے نام سے موسوم کیا جاتا۔
ایک رات میں آپ اتنی ضخیم کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کر لیتے کہ دوسرے لوگ ہفتوں میں بھی اتنا مطالعہ نہ کر پاتے۔ ابتدائی کلاس میں منیۃ المصلی پڑھنے کے دوران آپ مطالعہ کو اپنے لیے لازم اور ضروری قرار دیتے، اس دوران آپ   ذہن میں آنے والے متعدد علمی نکات کو اپنی زیرِ مطالعہ کتاب کے متعلقہ صفحہ پر حاشیہ کی صورت میں عربی میں تحریر فرما دیتے۔ آپ کی ذاتی لائبریری میں آپ کے قلم سے لکھے ہوئے بہت سے  قیمتی حواشی محفوظ ہیں۔
سراج الاولیا سیدنا شاہ سراج الحق چشتی گورداسپوری رحمہ اللہ تعالی سے آپ کو نسبتِ ارادت بھی تھی اور اجازت و خلافت بھی حاصل تھی حضور حجۃ الاسلام شاہ حامد  رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ تعالی نے بھی آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا۔ آپ نے اپنے مشائخ کے اس فیضِ روحانی کی اشاعت میں بڑا کام کیا لاکھوں لوگوں نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کر کے فیض حاصل کیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال فرمایا تھا، آپ نے مختلف تحریکوں میں حصہ لے کر قوم کی بروقت راہنمائی فرمائی، 1935 ء میں انگریز حکومت کی سرپرستی میں لاہور کی مسجد شہید گنج کو ظلماً شہید کر دیا گیا، اس وقت برصغیر کے طول و عرض میں مسلمانوں نے بھر پور احتجاج کیا، حضور حجۃ الاسلام شاہ حامد  رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ تعالی اس تحریک کے قائدین میں شامل تھے، حضور مفتی اعظم ہند نے اس مسئلہ میں مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے ایک مفصل فتویٰ ترتیب دیا اس کی تصدیق کرنے والوںمیں محدثِ اعظم پاکستان کا نام بھی نمایاں حیثیت میں شامل ہے۔
قیام پاکستان کے مطالبہ کے لیے بنارس میں عظیم الشان سنی کانفرنس کا انعقاد ہوا صدر الافاضل مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ تعالی نے حضرت محدثِ اعظم پاکستان کو کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت نامہ ارسال کیا اور لکھا "کہ آپ کی شرکت اس کانفرنس کی روح ہے"۔ آپ نے تحریکِ پاکستان میں علماء مشائخ کے ساتھ مل کر بھر پور جدوجہد فرمائی۔ اس دوران آپ انتہا پسندوں کا نشانہ بھی بنے انہی دنوں آپ کی شہادت کی جھوٹی خبر بھی پورے ملک میں پھیل گئی مگر اللہ تعالی نے آپ کی حفاظت فرمائی، قیامِ پاکستان کے موقع پر دیال گڑھ میں آپ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کے خطبہ میں مسلمانوں کو قیامِ پاکستان کی مبارک باد دی اور اللہ تعالی کے اس عظیم انعام پر شکر ادا کیا، قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری اور فلاح و بہبود کے لیے  بھی آپ کی خدمات قابل قدر ہیں ۔
تحریک ختمِ نبوت میں آپ نے اپنے منفرد انداز میں شرعی اصولوں کی روشنی میں تحفظ ختمِ نبوت کے لیے علمی و عملی میدان میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشین شمس المشائخ قاضی ابوالفیض محمد فضل رسول حیدر رضوی نے بھی  تحریکِ ختم نبوت میں مثالی کردار ادا کیا، جانشین محدثِ اعظم پاکستان نے قریباً ساٹھ سال تک آپ کی نیابت میں عالمِ اسلام کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا اور ملک و بیرون ملک اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سرگرم رہے۔
باسٹھواں عرس مبارک  اس سال 21 اور 22 فروری کو آستانہ عالیہ محدثِ اعظم پاکستان جھنگبازار فیصل آباد

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.