اہم خبریں

مسلک ِ شبٌیرم آرزوست ( شاعر مشرق اقبال ؒ )

 


مولانا جلال الدین رومیؒ کی زمین میں تیسری غزل حکیم الامت شاعر مشرق مرشد علامہ اقبالؒ کی حاضر خدمت ہے 


تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست

با من میا کہ مسلکِ شبّیرم آرزوست

مجھے تیر و نیزہ و خنجر و شمشیر کی آرزو ہے، (اے دنیا پرست و آسائش پسند) میرے ساتھ مت آ کہ مجھے مسلکِ شبیر (ع) کی آرزو ہے۔


از بہرِ آشیانہ خس اندوزیَم نگر

باز ایں نگر کہ شعلۂ در گیرم آرزوست

ایک آشیانہ بنانے کیلیے میرا تنکا تنکا جمع کرنا دیکھ، اور پھر یہ بھی دیکھ مجھے اس آشیانے کو جلا ڈالنے کی آرزو ہے۔


گفتند لب ببند و ز اسرارِ ما مگو

گفتم کہ خیر نعرۂ تکبیرم آرزوست

اُس نے کہا کہ اپنے لب بند رکھ اور ہمارے اسرار کسی سے مت کہا، میں نے کہا کہ خیر (یعنی آپ کی بات مان لیتا ہوں) لیکن مجھے نعرۂ تکبیر (اللہ اکبر) بلند کرنے کی آرزو ہے یعنی اسی ایک نعرے (اللہ کی کبریائی ببان کرنے) سے سب چھوٹے بڑے راز خود بخود ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔


گفتند ہر چہ در دِلَت آید ز ما بخواہ

گفتم کہ بے حجابیِ تقدیرم آرزوست

اُس نے کہا کہ جو کچھ بھی تیرے دل میں ہے ہم سے مانگ، میں نے کہا کہ میری آرزو یہ ہے کہ میری تقدیر مجھ پر بے حجاب یعنی آشکار ہو جائے۔


از روزگارِ خویش ندانم جز ایں قدَر

خوابم ز یاد رفتہ و تعبیرم آرزوست

اپنی زندگی کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا لیکن صرف اتنا کہ ایک خواب تھا جو بُھول گیا اور اب اس بُھولے ہوئے خواب کی تعبیر کی آرزو ہے۔


کو آں نگاہِ ناز کہ اوّل دِلَم رَبُود

عُمرَت دراز باد، ہماں تیرم آرزوست

وہ نگاہِ ناز کدھر گئی کہ جس نے اوّل اوّل ہمارے دل کو لوٹا تھا، تیری عمر دراز ہو مجھے اُسی تیر کی آرزو ہے (اسلام کے گم گشتہ عروج و قرنِ اول کی خواہش کر رہے ہیں اور بلند اقبالی کی دعا بھی دے رہے ہیں)۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.