تعلیمی اداروں کی بندش۔۔۔ غلط فیصلوں کی پاداش
* پنجاب میں موسم خوش گوار, اچھی خاصی دھوپ اور تعطیلاتِ موسم سرما۔۔۔۔۔*
"جس بندے نے بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو اور گرمی سردی صرف کھڑکی سے دیکھی ہو وہ کبھی بھی غریب کی نمائندگی نہیں کر سکتا"
"ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں کی رعایا کے درمیان ہماری مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہیے جو رنگ اور خون کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق, راۓ, اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو" لارڈ میکالے
"28 دسمبر 1859ء کو لارڈ میکالے یہ دنیا فانی چھوڑ گئے, ہم سات دہاہیوں سے زیادہ عرصہ سے الگ مملکت حاصل کرکے بھی اپنا نظامِ تعلیم وضع نہ کر سکے اور آج تک لارڈ میکالے کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں ہم اتنا بھی نہ ہو سکا کہ ہم موسمی تغییرات سامنے رکھتے ہوۓ تعلیمی اداروں کی بندش کے فیصلے کریں"
اس وقت حکومت پنجاب اور وزیرتعلیم موصوف کی تمام تر کوشش اداروں کی نجکاری کی طرف ہے جس میں وہ کامیاب بھی جا رہے ہیں, وہ ایسی تمام تر کوششیں کر رہے ہیں جس سے پبلک سیکٹر میں تعداد کم ہو اور رزلٹ خراب ہوں جسے بنیاد بناکر اداروں کی نجکاری کی جاۓ, نومبر میں سموگ, دسمبر میں کرسمس اور جنوری کی چلملاتی دھوپ میں سردیوں کی چھٹیاں اسی سلسلے کی کڑی ہے ورنہ سبھی کو معلوم ہے کہ میٹرک کے امتحانات سر پہ ہیں۔
یہ ہمار المیہ ہے کہ ہماری تقدیر کے فیصلے کرنے والے ہمارے مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بیسوں کھانے سامنے رکھ کر بھوکے افراد کے متعلق پالیسی مرتب کرتے ہیں, منرل واٹر سامنے رکھنے والوں کو کھارے اور گدلے پانی پینے والوں کی مشکلات کا اندازہ کیوں کر ہو, ایرکنڈیشن گاڑیوں میں گھومنے والے اور ایرکنڈیشن کمروں میں سونے والے ہی لوڈشینڈنگ ختم کرنے کی پالیسی وضع کر رہے ہوتے ہیں, جب افسران بالا کو گھر بیٹھے بھاری تنخواہیں مل جاتی ہیں تو پھر کیوں سکول کھلے رکھنے کی حمایت کی جاۓ, وزیر تعلیم موصوف اگر یہ اعلان فرما دیں کہ سکولوں کی بندش کے دوران آپ کو بھی تنخواہیں نہیں ملیں گی پھر دیکھتے کہ چھتیس سی ای اوز میں سے کتنے افسران چھٹیوں کی حمایت کرتے ہیں اور پبلک سیکٹر سے جڑے اساتذہ کس طرح خاموش رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ماننا ہے کہ علاجِ دندان اخراجِ دندان, پیٹ بھرے حکمران غربت مٹانے کی کبھی بات نہیں کر سکتے۔
یہ جانتے ہوۓ بھی کہ ہمارا نظامِ تعلیم نہ صرف ناقص ہے بلکہ اکیسوی صدی کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہے, ذرا ایک نظر ہم اپنی یونیورسٹیوں کا جائزہ لیں تو یہ جان کر انتہائی مایوسی ہوتی ہے کہ دو سو یونیورسٹیوں کی فہرست میں بھی پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو گرمی کی تاب نہ لاتے ہوۓ کام نہیں کرتے,سردی میں ہم ٹھٹھر کر رہ جاتے ہیں جبکہ سہانے موسم میں ویسے بھی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔ سمجھ سے بالا تر ہیں وہ لوگ مائنس درجہ حرارت میں بھی جن کی زندگی معمول پہ رہتی ہے, اس وقت ملک ایک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے, سیاسی کشمکش عروج پہ ہے, اداروں کے درمیان تصادم پیدا کیا جارہا ہے ہم جانتے ہیں کہ تعلیمی پسماندگی معاشی بحران کو جنم لے رہی ہے ایسے میں اصطلاحات کے بجاۓ تعلیمی عمل کی بندش انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ اور تساہل پسندی کا ثبوت ہے۔
اس وقت تمام تر کوششوں کے باوجود پبلک سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے, ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بیشتر پرائمری سکول صرف دو کمروں پہ مشتمل ہیں, چھ کلاسز کے لیے صرف دو اساتذہ مامور ہیں, جن سے ڈاکیہ, کلرک اور چپڑاسی کی خدمات لی جاتی ہیں, باقی وقت میں وہ تدریس جیسا بے معنی عمل کرتے ہیں۔ گزشتہ چھ سالوں میں نئے اساتذہ بھرتی نہیں کیے گئے جبکہ ہزاروں اساتذہ کی ریٹائرمنٹ اور سینکڑوں اساتذہ کی پروموشن سے بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ اس وقت نجی ادارے اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن شرح خواندگی میں اضافے کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اس کے باوجود آڑھائی کروڑ سے زائد طلباوطالبات تعلیمی عمل سے محروم ہیں, ہٹ دھرمی اور ناقص پالیسوں کی وجہ سے پہلے پیف اداروں کو دیوار سے لگایا گیا جبکہ اب نجی اور پبلک اداروں کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہیں۔
یہ وہ نازک وقت ہے جب ہمارے فیصلے تاریخ رقم کریں گے, ہماری کوششیں آنے والی نسلوں کے مستقبل سنواریں گی۔ہمیں معلوم ہے کہ فیصلہ ہو چکا ہے, ہمارے ہاں اکثر فیصلے بند کمروں میں ہوتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری آواز اس نقار خانے میں نہیں سنی جاتی لیکن تاریخ بتاۓ گی کہ ہم نے ماضی کی غلطیاں بار بار دہرائی ہیں اور ان غلط فیصلوں کی پاداش میں ہم نے بھاری نقصان اٹھایا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حالات واقعات کو مدنظر رکھتے ہوۓ اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کی جاۓ۔
روح اقبال سے معذرت کے ساتھ
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے بزرجمہرو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
تحریر۔ ملک اشرف حسین اعوان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں