اہم خبریں

بجٹ رے بجٹ تیری کونسی کل سیدھی از صاحبزادہ محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


 بجٹ تیری کونسی کل سیدھی۔ بجٹ اعداود شمار کا گورکھ دہندہ  


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

ہر سال بجٹ آتا ہے  اور عوم الناس کی چیخیں نکلواتا ہے اور ا یسے زخم دے جاتا ہے جن کا کوئی مرہم کہیں سے بھی نہیں مل پاتا۔عوام کو جب مہنگائی کی چکی میں  بُری طرح پیسا جائے گا تو پھر معاشرئے میں بے چینی ہی پھیلے گی۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تلک عوام کا معیار زندگی پستی کی طرف ہی گامزن ہے اور حکمران اشرافیہ جس میں سیاستدان، ریٹائرڈ و حاضر سروس سول وملٹری افسران، وڈیرے،زمیندار سب شامل ہیں اِن کی حالت دن بدن بہتر ہوتی گئی ہے اِن کی  جائیدادوں کا شمار ممکن ہی نہیں، دبئی، امریکہ، برطانیہ و دیگر ممالک اِن کی جائیدادوں اور بنک بیلنسوں سے فیضیاب ہوہے ہیں۔ اور بے چاری عوام کو آٹا گھی چینی بجلی کے بلوں کے چکر میں ایسا ڈالا  ہو اہے کہ یہ سب کچھ منحوس چکر بنا ہوا ہے۔ 

 اِن حالات میں خود کشیاں، چوری ڈاکے سٹریٹ کرائمز میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے۔ موجودہ بجٹ، عوام کے لہو نچوڑنے کی ایک اور سازش ہے۔بجلی کے بلوں کی وجہ سے گھر گھر لڑائیاں ہورہی ہیں۔ سماجی ڈھانچہ زمین بوس ہوچکا ہے۔ معاشرئے کا بنیادی یونٹ گھر شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اشرافیہ نے تو خود کے لیے گیٹید سوسائٹیاں، بنالی ہیں جہاں وہ چوری ڈاکے سے محفوظ ہیں اور عوام الناس کو ڈاکووں کے حوالے کیا  ہوا ہے۔ ہماری پولیس بھی بوقت ضرورت خیر و برکت کے لیے ڈکیٹوں کا نہ صرف ساتھ دیتی ہے بلکہ خود بھی ڈکیتیوں میں حصہ لیتی ہے۔ 

بجٹ 2024-2025 کے گوشوارے کا جائزہ لیا جائے تو  یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے تیار کردہ بجٹ اشرافیہ کے نہ صرف حقوق کا تحفظ کر رہا ہے بلکہ ملکی وسائل کی بربادی میں اپنا پورئے کا پورا  حصہ بھی ڈال رہا ہے۔

بجٹ کا  گوشوارہ کہنے کو تو وصولیوں اور آمدنی کا میزانیہ ہے لیکن  یہ سب کچھ فقط خوشنمائی کی شکل لیے ہندسوں کا گورکھ دھندا ہے۔اِس بجٹ کو بنانے کے لیے بیوروکریسی نے آئی ایم ایف سے ملکر پاکستانی  عوام  کی چمڑی  ادھیر کر رکھ دی ہے۔ 

حکومت پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے لئے بجٹ پیش کیا۔ بجٹ کی اہم تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:کل بجٹ کا حجم تقریباً 14,460 ارب روپے ہے۔ محصولات: 10,463 ارب روپے،غیر ٹیکس محصولات: 1,150 ارب روپے اخراجات،وفاقی اخراجات: 12,163 ارب روپے،دفاعی بجٹ: 1,804 ارب روپے،قرضوں کی ادائیگی: 7,303 ارب روپے،ترقیاتیبجٹ: 950 ارب روپے،اہم اقدامات،تعلیم کے لئے 295 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صحت کے شعبے کے لئے 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔: زرعی شعبے کے لئے 115 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انکم ٹیکس: انکم ٹیکس کی مختلف سلیبز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

سیلز ٹیکس کی شرح میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔سبسڈیز،بجلی کی سبسڈی: 1,000 ارب روپے،کھاد کی سبسڈی: 60 ارب روپے،بجٹ کی ترجیحات،مہنگائی پر قابو پانا: حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے مختلف اقدامات کا اعلان کیا ہے۔،معاشی استحکام: معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے مختلف پالیسیوں کا نفاذ۔سول حکومت کے اخراجات: 600 ارب روپے،دیگر اخراجات: 2,456 ارب روپے،ترقیاتی بجٹ: 950 ارب روپے،پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام (PSDP): 725 ارب روپے،دیگر ترقیاتی منصوبے: 225 ارب روپے،تعلیم: 295 ارب روپے،صحت: 200 ارب روپے،زرعی ترقی: 115 ارب روپے،سبسڈیز (Subsidies)بجلی کی سبسڈی: 1,000 ارب روپے،کھاد کی سبسڈی: 60 ارب روپے،دیگر سبسڈیز: 140 ارب روپے، انکم ٹیکس کی مختلف سلیبز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ ٹیکس کا بوجھ کم آمدنی والے طبقات پر کم ہو۔سیلز ٹیکس: سیلز ٹیکس کی شرح میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔کاروباری ٹیکس: کاروباری طبقے کو سہولت فراہم کرنے کے لئے مختلف ٹیکس رعایتیں دی گئی ہیں۔

 وفاقی وزیر خزانہ  نے مہنگائی پر قابو پانا: حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے مختلف اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن میں قیمتوں کی نگرانی اور سبسڈیز شامل ہیں۔معاشی استحکام: معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے مختلف پالیسیوں کا نفاذ، جیسے کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور مالی خسارے کو کم کرنا۔روزگار کے مواقع: روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے مختلف منصوبوں کا آغاز، جیسے کہ انفراسٹرکچر کی ترقی اور صنعتی منصوبے۔2024 -25 کے بجٹ کا مقصد ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ بجٹ میں مختلف شعبوں کے لئے فنڈز مختص کیے گئے ہیں تاکہ ملک کی مجموعی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس بجٹ کے ذریعے حکومت مہنگائی پر قابو پانے، معاشی استحکام کو یقینی بنانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پاکستانی عوام کے درمیان  طبقاتی تقسیم اس وقت عروج پر ہے۔ حقیقی معنوں میں  اب اِس معاشرئے میں اتنے  طبقات جنم لے چکے ہیں کہ  ملک و ملت کی سلامتی کے لیے  یہ سب کچھ خطرہ ہے۔

تعلیم نظام  تباہ برباد کرکے جو بیج اِس قوم کی جڑوں میں بو دیا گیا ہے اِس کا شاخسانہ یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے بچوں کے ساتھ جو معاشرئے میں سلوک ہوتا ہے  اور اِس کے مقابلے میں انگریزی میڈیم  او لیول تعلیمی اداروں کے بچوں کے لیے معاشرئے میں اور طرح کی ہی قدرو منزلت ہے۔ بے روزگاری معاشرئے کے لیے کینسر کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں  لیے دربدر کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں۔  حکومتی شعبہ کہ کچھ نہ پوچھیں نجی شعبہ میں بھی ڈاون سائزنگ جاری ہے۔ اتنی مہنگی بجلی سے کیسے کارکانے چل سکتے ہیں۔  عالمی منڈی کا مقابلہ کرنے کے لیے کاسٹ آف پروڈکشن کم ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں انرجی مہنگی ہونے کی وجہ سے ملک قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہوتا چلا جارہا ہے۔

پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں اِس وقت آسیب کا سایا ہے اِس آسیب زدہ معیشت کو نام نہاد جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ نے خوب نقصان پہنچا یا ہے۔ اِس وقت حالت یہ ہے کہ وطن عزیز کی معیشت کا دھڑن تختہ ہوا ہو اہے۔پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہے۔ حکومت پوری دُنیا میں کشکول لے کر گھوم رہی ہے اورپٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔ افراطِ زر میں اضافہ، بیرونی قرضوں کا بوجھ، معاشی نمو میں خطرناک حد تک کمی، یہ ہے 

پاکستانی عوام کے اندر جس انداز میں امید کے روشن چراغ جلائے گئے تھے اور جس طرح فوری معاشی حالت کی تبدلی کا نعرہ بلند کیا گیا تھا۔ ا پاکستان کے مروجہ نظام عدل میں پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا مشکل ہے۔ حل اِس کا ایک ہی ہے کہ سعودی ماڈل پر عمل کیا جائے جس طرح سعودی شہزادے نے ملکی دولت کو امیر زادوں سے نکلوایا۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ورنہ نیب کی کارکردگی نشستن برخاستن سے زیادہ نہیں ہے۔ 

 پاک چین اقتصادی راہداری اور دیگر منصوبے پاکستان کی معیشت میں بہتری کی وجہ بنیں گے، اے ڈی بی ادائیگیوں کے توازن اور بیرونی قرضوں پر مدد فراہم کرتا رہے گا۔ بہتر طرز حکمرانی پر توجہ دینا ہوگی۔ مالی اور جاری کھاتوں کے خسارے کے باعث مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا، زرمبادلہ ذخائر میں کمی اور قرضوں کے بڑھنے پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ اس کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔ انتظام میں بہتری، برآمدات میں اضافہ اور اداروں کو مستحکم کرنا ہوگا۔سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے کاروباری اور ریگولیٹری ماحول بہتر کرنا ہوگا۔ پاکستان کی شرح نمو کے امکانات سی پیک اور دیگر ترقیاتی اقدامات کے زیراثر رہیں گے۔ پاکستان بہتر گورننس‘ ایکسپورٹ بڑھانے‘ اداروں کو استحکام دینا جاری رکھے۔

  تیل درآمد کرنے والے متعدد ممالک کیلئے قرض کی بڑھتی ہوئی شرح بڑے پیمانے پر اقتصادی استحکام کیلئے چیلنج بن چکی ہے اور بھاری قرض کے سبب صحت‘ تعلیم‘ انفراسٹرکچر اور سماجی پروگراموں میں اہم سرمایہ کاری کیلئے مالیاتی خلا محدود ہو گیا ہے آئی ایم ایف نے کہا کہ بجٹ پر پڑنے والا یہ دباؤ اصلاحات کیساتھ ساتھ درمیانی شرح نمو میں تیزی سے اضافے کے متقاضی ہیں۔ مطلب ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے کاروباری ماحول اور انتظامی امور کو بہتر بنایا جائے اور مزدوروں کیلئے مارکیٹ میں لچک اور مارکیٹ میں مسابقت کو مضبوط کیا

جا سکے۔  آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کی شرح نمو سے پُر اُمید نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے معاشی مسائل کے حل کے لیے کسی طرح کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ دوسرا حکومتی وزراء نے ملک میں افراتفری والا ماحول قایم کر رکھا ہے۔ حکومت سنجیدگی کے ساتھ معاشی حالات کو درست سمت لے جانے کے لیے حقیقی ماہرین کو ٹاسک سونپے۔

معروف عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آمدنی سود کی ادائیگی پرخرچ ہوگی۔

ڈان نیوز کے مطابق موڈیز نے بتایا کہ پاکستان کا حالیہ بجٹ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) قرض پروگرام کے لیے مذاکرات میں مددگار ہوگا، 3.6 فیصد شرح نمو ہدف رکھ کر آئی ایم ایف کوخوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

موڈیز کا کہنا تھا کہ مالی استحکام کے لیے ٹیکسوں میں اضافے اور شرح نمو پر انحصار کیا، مہنگائی کی وجہ سے سماجی تناؤ دوبارہ پیدا ہوسکتا ہے۔

عالمی ریٹنگ ایجنسی کے مطابق مضبوط الیکٹورل مینڈیٹ نہ ہونے سے اصلاحات پر عمل مشکل ہو سکتا ہے۔موڈیز نے ملکی آمدنی میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریونیو میں 40 فیصد اضافہ ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ اللہ پاک پاکستان پر رحم فرمائے۔ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا.



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.