اہم خبریں

اب جاگ بھی اُٹھیں۔۔ تحریر: صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی ::

 



اب جاگ بھی اُٹھیں۔۔ 

خواب کہ معاشرہ ایک دن طبقات سے پاک ہو جائے گا۔ یہ خواب کہ ایک دن معاشی مساوات قائم ہو جائے گی۔ یہ کہ ایک دن کوئی مصیبت باقی نہیں رہے گی، یہ خواب کہ ایک دن زمین جنت بن جائے گی۔ یہ خواب کہ اُمت مسلمہ اکٹھی ہو جائے گی۔ یہ کہ پاکستان میں رہنے والے تمام حب الوطنی سے سرشار اپنی قومی زمہ داریاں ادا کرنا شروع کر دیں گے۔ یہ سب خواب ہیں ۔ یہ محض تسلیاں ہیں۔ تشفیاں ہیں۔ یہ سب زخم پر مرہم کی طرح ہیں۔ لیکن یہ مرہم جھوٹ ہیں۔ 

گزشتہ پانچ ھزار سال سے انسان اسی طرح خواب دیکھ رہا ہے، یہ کہ معاشرہ بدل جائے گا۔ یہ کہ جلد یا بدیر چیزیں درست ہو جائیں گی۔ رات جلد ختم ہو جائے گی۔ لیکن رات ختم نہیں ہوتی اور نیند بھی ختم نہیں ہوتی۔ سماج بدلتا رہتا ہے لیکن حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔ صرف شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔ پہلے وڈیرہ زمیندار تھا اب وڈیرہ صنعتکار ہے۔۔ایک غلامی دوسری غلامی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک ظلم دوسرے ظلم کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ ایک قسم کے حکمران کی جگہ دوسری قسم کا حکمران آ جاتا ہے۔ لیکن ظلم جاری رہتا ہے۔ استحصال جاری رہتا ہے۔ مصائب جاری رہتے ہیں۔ 

کیا آپ کی کبھی کسی معاشرہ سے ملاقات ہوئی ہے؟ کیا آپ کبھی کسی قوم سے ملاقات ہوئی ہے؟ آپ جب بھی ملتے ہیں تو وہ کوئی ٹھوس فرد، کوئی جیتا جاگتا اور سانس لیتا فرد ہوتا ہے۔ معاشرہ ایک مردہ لفظ ہے۔ ایک تجرید یا جسے آپ abstract کہہ سکتے ہیں۔ یہ بس استعمال کے لیے ہے، یہ ایک علامت ہے۔ محض علامت کو تبدیل کردینے سے آپ کچھ بھی تبدیل نہیں کریں گے۔ آپ کو اصل شے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ معاشرہ یا سماج جس شے سے بنتا ہے وہ فرد ہے۔ جب تک آدمی نہیں بدلتا کچھ نہیں بدلتا ۔ آپ یا تو دکھاوا کر سکتے ہیں ، صرف اُمید اور تصور کر سکتے ہیں اور آپ اپنے مصائب میں جییے جا سکتے ہیں۔ آپ خواب دیکھ سکتے ہیں اور یہ خواب بہت آرام دہ اور سکون بخش ہوتے ہیں۔ 

اگر فرد مختلف ہو تو آپ کو مختلف قسم کا معاشرہ ملے گا اور دنیا خودبخود بدل جائے گی۔ آپ بیرون کو تبدیل کرکے اندرون کو نہیں بدل سکتے کیونکہ بیرون محض دکھاوا ہے۔ لیکن مرکز کو اور اندرون کو بدل کر آپ بیرون کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ 

علامات کو تبدیل کرکے آپ بیماری کو نہیں بدل سکتے۔ آپ کو انسان کے اندر بہت گہرائی میں جانا ہو گا۔ یہ تشدد کہاں سے آتا ہے؟ یہ استحصال کہاں سے آتا ہے؟ یہ ساری انا کہاں سے آتی ہے؟ یہ ساری انا کہاں سے آتی ہے؟ یہ سب چیزیں کہاں سے آتی ہیں؟ یہ سب لاشعور سے آتی ہیں۔ انسان سوتے میں جیتا ہے۔ انسان میکانیکی زندگی گزارتا ہے۔ اس میکانیت کو توڑنا ہو گا۔ انسان کو دوبارہ بنانا ہو گا۔ 

دین اسلام انسان کو دوبارہ سے بنانے کے لیے آیا۔ جب تک انسان اپنی ہی ذات میں اسلام کا انقلاب برپا نہیں کرتا ریاست مدینہ ایک خواب ہے جو آپ کو سلائے رکھنے کے لیے دکھایا جاتا ہے۔ 

معذرت کہ آپ کی نیند ڈسٹرب کی پھر سے سو جائیے۔ اور دلکش خواب جاری رکھیے۔ 

دُعاگُو

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.