اہم خبریں

پائی کوائن کی مائننگ اور بیلچہ سپلائرز

 


 پائی کوائن کی مائننگ اور بیلچہ سپلائرز

ایجاد کی جو والدہ محترمہ ہیں، یعنی ضرورت، ان کے دو بچے اور بھی ہیں، ضرورت نہ ہوتی تو خواہش اور لالچ بھی پیدا نہ ہوتے، یہ دونوں بچے بڑے ہیں اور ایجاد کو پالنے پوسنے کی ذمہ داری بھی انہی کی ہے، والدہ صاحبہ صرف پیدا فرماتی ہیں، پلتے یہ ایک دوسرے کی مدد سے ہیں۔

خواہش کوئی بری چیز نہیں، یہ نظام ہستی کو چلاتی ہے، لیکن جب یہ اصول سے عاری ہو جائے تو لالچ کیساتھ مل کے انسانی عقل کو گھائل کر دیتی ہے اور نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔

پائی۔کوائن آجکل ٹاپ ٹرینڈنگ میں ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، ضرورت کے بڑے بچے حسب دستور اسے پالنے میں لگے ہوئے ہیں مگر اس میں اپنا پیسہ اور وقت لگانے سے پہلے یہ بات آپ کو خود سوچنی چاہئے کہ چیز وارے میں ہے یا نہیں۔

جہاندیدہ لوگ جن پر گھریلو ذمہ داریاں عائد ہوں وہ ایسی سرگرمیوں میں اپنا کیرئیر تلاش نہیں کرتے جن کی کوئی اساس نہ ہو مگر جزباتی نوجوان ان کاموں میں نہ صرف باآسانی پھنس جاتے ہیں بلکہ اپنی ڈیڈیکیشن کی وجہ سے اپنے انتخاب کی وکالت بھی بہت زور و شور سے کرنے لگتے ہیں۔

اور ان کی وکالت سے مزید بھاری تعداد میں ایسے لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں جو اس معاملے کی تجزیاتی اہلیت سے عاری ہوتے ہیں۔

کسی بزنس کی اسیسمنٹ کا ایک سادہ اور سدھارن ساہدن یہ ہے کہ آپ کم از کم اس میں پانچ چیزوں کی پائیداری ضرور چیک کریں۔

1۔ پرافٹ پروویژن
یہ پہلی چیز ہے جس سے لوگ کسی کام کی طرف راغب ہوتے ہیں کہ اس میں نفع بہت ہے، مگر اس کا حقیقی تجزیہ اس طرح سے ہوگا کہ کیا اس کی قیمت خرید اور قیمت فروخت کے درمیان اتنا مارجن واقعی موجود ہے جس میں سے انتظامی اخراجات اور متوقع نفعے کی رقم حاصل ہو جائے گی۔

2۔ لیجٹیمیسی
یعنی بزنس یا پراڈکٹ قانونی طور پر جائز ہے، نیوٹرل ہے، یا ناجائز ہے۔

3۔ سپلائرز گارینٹی
اس چیز کا سپلائر تجربہ کار، ذمہ دار اور مستحکم ہے یا نہیں۔

4۔ گریویٹی
اس چیز کی ڈیمانڈ ہے اور مارکیٹ میں اتنی گنجائش بھی ہے کہ مدمقابل کی موجودگی میں آپ بھی باآسانی کام کر سکیں۔

5۔ ذاتی قابلیت
کیا اس کام کے نظام کو آپ صحیح طرح سے سمجھ گئے ہیں اور اسے انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں، ان ٹرمز آف انویسٹمنٹ اینڈ ہینڈلنگ ایبلٹی۔

یہ عناصر خمسہ اگر پوری طرح گرفت میں ہیں تو کامیابی کے چانسز بہت نمایاں ہیں، اگر متفرق تناسب کیساتھ بھی موجود ہیں تو بھی اچھا سروائیول ہوجائے گا لیکن ان میں سے ایک بھی چیز غائب ہے تو جلد یا بدیر وہ صرف نقصان کی طرف ہی لیڈ کرے گی۔

اگر ذاتی قابلیت نہیں ہے تو پھر پہلے ہی موڑ پر قصہ ختم ہے لیکن ہم یہ مان کے چلتے ہیں کہ ہمارے پاس پہلا اور پانچواں عنصر یعنی پرافٹ۔ایبلٹی اور قابلیت موجود ہے۔

اگر باقی سب پورے ہیں لیکن نمبر دو میں کمی ہے، یعنی پراڈکٹ غیر قانونی ہے تو کام چل جائے گا مگر کسی دن سب کچھ ایسے ہی ہاتھ سے چلا جائے گا جیسے آیا تھا۔

اگر نمبر تین میں کجی ہے تو آپ کسٹمر کئیر اور گارینٹیز نہیں دے سکتے، اور اگر نمبر چار میں کمی ہے تو آپ تواتر کیساتھ مارکیٹ میں کھڑے نہیں رہ سکتے۔

اب اس فارمولے کے آئینے میں ورچوئل کرنسیز کو دیکھیں تو ان پر بظاہر کوئی قانونی ممانعت نہیں لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ انڈر ورلڈ کی کرنسیز ہیں، ان کے سپلائرز کا کوئی اتا پتا نہیں جس کی وجہ سے گارینٹر بھی کوئی نہیں، پرافٹ مارجن بھی شمار نہیں کیا جا سکتا، صرف سپیکیولیشن ہے جو مستقبل بعید سے وابستہ ہے یعنی اندازہ ہے کہ چند سال میں اس کی قیمت بہت بڑھ جائے گی۔

کسی خوش پوش بندے کو ہم نے دیکھا ہو تو اسے ویل۔آف کہہ سکتے ہیں مگر جسے دیکھا ہی نہ ہو اسے کیسے خوش پوش کہا جا سکتا ہے، ورچویل کرنسی بھی اس واحد غائب کی طرح سے ہے جس کے بارے میں آپ صرف سن سکتے ہیں اور بس اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔

اب جو چیز ڈسکس کرنے والی بچتی ہے وہ گریویٹی ہے، جس کی وجہ سے یہ ٹاپ ٹرینڈنگ میں ہے، یعنی لوگ کہہ رہے کہ اس میں یہ ہے اور وہ ہے لہذا ہم پیچھے کیوں رہیں۔

جب ہر طرف پھڑلو پھڑلو ہو رہی ہو تو لوگ دھڑا دھڑ اسی طرف جاتے ہیں جس طرف سب جا رہے ہوں، پھر دھڑا دھڑ فیصلے لے کے روتے بھی دھڑا دھڑ ہیں، یہ صرف ہماری قوم کا مسئلہ نہیں، پوری دنیا کا یہی حال ہے اور ایسے ہاٹ ٹرینڈ کے پیچھے صرف بیلچہ فروخت کنندگان کا ہاتھ ہوتا ہے۔

امریکن گولڈ رش امریکہ کی تاریخ کا بہت بڑا سکینڈل ہے، 1840 کے قریب کیلیفورنیا کے ایک دشتی علاقے میں سونا نکلنے کی خبر چلی تو ہزاروں ضرورتمند گدھوں گھوڑوں اور خچروں پر ایک دشوار گزار سفر طے کرکے مائننگ کیلئے آنے لگے، یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلا، اس کانکنی سے کسی کو کچھ ملتا تھا کسی کو نہیں، جسے کچھ ملا وہ بھی کوئی ڈلی کی شکل میں نہیں تھا بلکہ منوں مٹی چھان کے سونے کے زرات چننے پڑتے تھے۔

اس واقعے میں کوئی بھی کانکن ایسا نہیں تھا جو وہاں سے لائف ٹائم کا راشن کما کے لوٹا ہو، جس نے جو کمایا وہ بس وہیں کھا پی لیا، یوں ہزاروں لوگ قسمت آزمائی کرکے خالی ہاتھ ہی واپس گئے البتہ وہ لوگ لکھ پتی بن گئے جو وہاں خیمے، راشن اور بیلچے فروخت کرتے تھے۔

ان کا کام بس اتنا تھا کہ ہر آنے والے کو مالدار بن کے جانے والوں کی دلفریب کہانیاں سناتے رہیں اور انہیں بیلچے فروخت کرکے کام پہ لگاتے رہیں، اور تین وقت کی روٹیاں پکا کے انہیں بیچتے رہیں۔

اس جگہ پر ایک بہت بڑی بستی بن گئی تھی جسے ریسنڈبرگ کہتے ہیں، آجکل یہ بستی گھوسٹ ٹاؤن کہلاتی ہے جس میں جھونپڑیوں، دکانوں، خیموں اور اس طرح کی ہر جگہ پر انسانی ڈھانچے رکھے ہوئے ہیں، یہ ان لوگوں کی یاد دلاتے ہیں جو سونے کی آس میں اس گرینڈ رش میں خجل خوار ہوئے، بعض کہتے ہیں وہاں ان کے بھوت پریت بھی رہتے ہیں۔

اب یہ جگہ ایک تفریح گاہ کی حیثیت رکھتی ہے، ہزاروں سیاح اس علاقے کو دیکھنے آتے ہیں، اور کمائی آج بھی وہی لوگ کر رہے ہیں جو ان سیاحوں کو ماضی کی کہانیاں سناتے ہیں اور قیام و طعام کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

مطلب وہی بات جو اوپر کہی تھی کہ سمجھدار لوگوں کا چوائس ہمیشہ ٹھوس بزنس ہوتا ہے اور وہی حقیقی کمائی دیتا ہے۔

پائی کوائن سمیت کسی بھی کرپٹو کوائن کی یہی حیثیت ہے مگر میں ہمیشہ حقیقت پسندی کے قریب رہنے کی کوشش کرتا ہوں، میرا ذاتی خیال ہے کہ جب ایسی تنگدستی ہو جیسی ہمارے ہاں موجود ہے، اس میں اگر کسی تنکے کیساتھ ملائی لگی ہو اور وہ کسی قدر ہمارے کام آسکتی ہو تو اس سے کام لے لینا چاہئے۔

یاد رکھیں انسان کی اصل ضرورت ایک پائیدار جاب یا حقیقی کاروبار ہے لیکن اگر آپ فارغ بیٹھنے پر مجبور ہیں، کوئی ٹھوس کام نہیں مل رہا تو بیکار رہنے سے بہتر ہے کچھ کرلیں، اس کیلئے آپ اپنے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کریں، پہلے حصے کا وقت آپ پائیدار جاب، ٹھوس کام یا کوئی مناسب ہنر سیکھنے میں صرف کریں اور دوسرے حصے کے وقت میں جتنی چاہیں مائننگ کرلیں اور اگر فالتو پیسے ہیں تو بیشک خریداری بھی کرلیں، دونوں طرح اس میں کوئی حرج نہیں۔

مکرر عرض ہے کہ آپ کے پاس فالتو پیسہ اور فالتو وقت دستیاب ہے تو ........... لیکن خدا کیلئے اپنے گھر کے برتن اور ماں کا زیور بیچ کے اس میں مت لگا دینا، اور اسے حقیقی جاب یا حقیقی بزنس کا متبادل بھی مت سمجھ لینا، یہ کوئی عاقلانہ فیصلہ نہ ہوگا۔

یہ بات بالکل کلئیر ہے کہ اسٹاک ایکسچینج، فاریکس ٹریڈنگ اور کرپٹو کوائن ٹریڈنگ میں آمدنی ہوتی ہے مگر یہ صرف ان لوگوں کو ہوتی ہے جو یہ چیزیں آپ کو بیچنا چاہتے ہیں، یا یہ کام سکھانے کی فیس لیتے ہیں یا پھر اپنا ریفرل پکڑا کے کام پہ لگاتے ہیں۔

یہ لوگ بیلچے بیچ کے کمائی کرتے ہیں، ان کا کام حسین سپنے دکھائے بغیر اور پرکشش کہانیاں سنائے بغیر بالکل نہیں چلتا اور ان کا فیورٹ ٹارگیٹ صرف غرباء اور جزباتی نوجوان ہوتے ہیں کیونکہ ان دونوں طبقوں کو quick rich پروگرام بہت سہانے لگتے ہیں۔

اس کام میں بس اتنی ہی صداقت ہے جتنی آپ کو سمجھا دی ہے باقی سب فسانہ ہے، آگے آپ کی مرضی ہے، چاہیں تو بیلچے خریدیں یا فروخت کریں۔
۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.