👂کیا واقعی انسان 309 سال تک سو سکتا ہے؟
اصحاب کہف(قرآن) کے واقعہ کی سائینسی چھان بین:
ہائیبرنیشن (Hibernation) ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے دنیا کے تقریباً دو ہزار مختلف جاندار موسم کی سختیوں ، خوراک کئ کمی اور موت کے خوف سے بچنے کے لئیے لمبی تان کر سوجاتے ہیں۔ ان کے خلیوں میں موجود جین اس طرح کے خوف و خطرات سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور ان پر ایک بہت لمبی نیند تان دیتے ہیں جسے Hibernation کہتے ہیں۔ اس عمل کے دوران دل کی دھڑکن %95 تک آہستہ ہوجاتی ہے، سانس سیکنڈوں کی بجائے منٹوں میں چلی جاتی ہے۔ جسم کا درجہ حرارت کم ہوکر ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور جاندار اپنے جسم کی غذائی توانائی پورا کرنے کا بڑا حصہ جسم میں موجود چربی اور مسلز سے حاصل کرتا ہے۔ خوراک یا چربی سے توانائی حاصل کرنے کے اس عمل کو میٹابولزم کہتے ہیں۔ اس طرح کل ملا کر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہائبرنیشن کے دوران کسی زندہ چیز کا میٹابولزم انتہائی سست ہوجاتا ہے۔ ہائیبرنیشن کرنے والے جانوروں میں کئی چوہے، چمگادڑ، گلہری، لنگوروں کی کئی نسلیں، کچھ پرندے ، سانپ، کیڑے اور کئی ریچھ شامل ہیں۔
ہائئبرنیشن والے جانور جی بھر کے کھاتے ہیں تاکہ موٹے ہوکر اندر چربی بنا لیں جو ہائیبرنیشن میں توانائی دے گی۔ ہائیبرنیشن سے کچھ مہینوں بعد باہر آنے پر جانداروں کو زور کی بھوک لگتی ہے اور وہ پہلا کام شکار تلاش کرنا کرتے ہیں۔
عام طور پر ہائبرنیشن سردیوں سے بچنے کے لئیے ہوتی ہے اور اس موسم میں شکار بھی کم ہوجاتا ہے اسلئیے۔ آج تک سب سے لمبی ہائیبرنیشن ایک چمگادڑ کی ہے جو 344 دن یعنی تقریباً ایک سال تک بنا کھائے پئیے سوئی رہی۔
سائینس یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ Telomeres جو کہ ڈی این اے کے ٹکڑے ہیں اور سیل کے کروموسوم کے کناروں پر ہوتے ہیں وہ سیل کی ہر تقسیم کے وقت کم ہوتے جاتے ہیں اور ان کی تعداد کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کرکے کسی جاندار کی باقی ماندہ زندگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے لیکن ہائیبرنیشن کے دوران ان کو انتہائی سست رفتار سے کم ہوتے دیکھا گیا ہے۔ اس ساری بات کو آسان لفظوں میں کہیں تو ہائیبرنیشن کے دوران جانور کی عمر بڑھنا تقریباً رک جاتی ہے ۔
ہالی وو ڈ کی ایک فلم جس کا نام
The Pessenger ہے۔ فلم کی سٹوری کا مختصر Theme یہ ہے کہ 5000 لوگوں اور 258 سپیس شپ کے مزدوروں پر مشتمل ایک گروہ ایک نئے سیارے Homestead 2 پر جارہا ہے۔ سیارہ چونکہ زمین سے 120 نوری سال پر واقع ہے۔ اس لئیے انسان کا اپنی نارمل زندگی میں جس میں وہ بمشکل ستر سے اسی سال طبعی عمر پاتا ہے، جانا مشکل ہے۔ اس کے لئیے سائینسدان ایسے طابوت تیار کرتے ہیں جس میں ہر شخص کو ہائیبرنیٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ اس کی عمر انتہا درجے کی آہستہ ہوجائے اور یہ 120 سال کا عرصہ گزر جائے اور وہ نئے سیارے پر ایک نئی زندگی کے ساتھ اتریں۔ لیکن ان میں سے ایک شخص کسی خرابی کی وجہ سے جاگ جاتا ہے اور اسے پتہ چلتا ہے ابھی نئے سیارے پر پہنچنے کے لئیے 80 سال مزید پڑے ہوئے ہیں
تو یہاں سے فلم اس کے دوبارہ ہائیبرنیٹ ہونے کی جدوجہد پر شروع ہوتی ہے۔
اب ذرا قرآن کی سورت کہف کے ان چند جملوں پر غور کریں:
تو ہم نے غار میں “ کئی سالوں تک ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈالے رکھا” 11
اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ وہ “ انکی غار کے داہنی طرف سمٹ جائےاور جب غروب ہو تو بائیں طرف کترا جائےاور وہ اس کے میدان میں تھے. یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ”17
“اور تم ان کا خیال کرو کہ جاگ رہےہیں حالانکہ وہ سورہے ہیں اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے تھے اور ان کا کتا چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر تم ان کو جھانک کر دیکھتے تو پیٹھ پھیر کے بھاگ جاتے اور دہشت میں آجاتے"18
"اور اس طرح ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں . ایک کہنے والے نے کہا تم یہاں کتنی مدت رہے انہوں نے کہا ایک دن یا اس سے بھی کم. انہوں نے کہا جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار ہی اس کو خوب جانتا ہے۔ تو اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر بھیجو وہ دیکھے نفیس( توانائی سے بھرپور) کھانا کونسا ہے تو اس میں سے کھانا لے آئے۔اور آہستہ آہستہ آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے۔" 19
۰سائینس یہ کہتی ہے کہ ہائیبرنیشن کے دوران کئی جانداروں کے جسم کے کئی حصے (آرگنز) کام کرنا بند کردیتے ہیں۔
چاہےباہر کا درجہ حرارت جیسا بھی ہو دنیا کی زیادہ تر غاروں کا درجہ حرارت سارا سال مستقل رہتا ہے۔ اصحاب کہف کا پہلا قدم غار تھا اسکے بعد سوجانا، قرآن کا یہ کہنا کہ ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈال دیا دراصل ہمارے اندرونی کان کے حصے کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے جو ایک غیر معمولی آواز پر چونک کر دماغ کو سگنل بھیجتا ہے اور دماغ ہمیں جگا دیتا ہے لیکن اصحاب کے معاملے میں وہ حصہ مکمل رک چکا (Suspended) تھا۔
۰ اگر سورج کی روشنی غار میں پڑتی تو غار کا درجہ حرارت بڑھتا جو اصحاب کو جگا سکتا تھا دوسرا سورج کی تیز شعاعیں جلد پر پڑھنے سے جسم میں Free Radical مالیکیولز بڑھتے ہیں جو انسان کی عمر بڑھانا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن قرآن کا یہ کہنا کہ طلوع و غروب کے وقت سورج غار کے سامنے نہ ہوا، کہانی کو بڑے دلچسپ مرحلے میں لے کر جارہا ہے۔( یعنی غار سارا عرصہ ٹھنڈی رہی)
۰ سائینس مانتی ہے کہ سویا ہوا شخص اگر زیادہ دیر تک کروٹ نہ بدلے تو خون کا بہائو رکنے اور پریشر کی وجہ سے جسم پر بڑے بڑے زخموں کی بیماری کا شکار ہوسکتا ہے جسے Pressure Ulcer کہتے ہیں لیکن قرآن کہتا کہ اصحاب کی کروٹ باقاعدہ بدلائی جاتی رہی (چنانچہ وہ اس بیماری سے محفوظ رہے)۔
۰ سائینس کہتی ہے کہ اگر آنکھیں زیادہ دیر تک بند رہیں تو آنکھوں کے Nerve Optic کو نقصان پہنچا کر اندھا کر سکتی ہیں اگر زیادہ دیر تک مستقل کھلی رہیں تو Cornea کو نقصان پہنچائیں گی۔یعنی زیادہ دیر تک آنکھیں کھلی رکھنے یا بند کرنے سے نقصان ہے۔ کوما کے اکثر مریض اگر لوٹ آئیں تو آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔اب ظاہری سی بات ہے کہ اتنا لمبا عرصہ سونے کے لئیے آنکھوں کا باقاعدہ وقفے وقفے سے جھپکتے رہنا ضروری ہے تاکہ نظر ضائع ہونے سے بچ جائے۔ قرآن کہتا ہے تو تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ وہ جاگ رہے ہیں ( مطلب آنکھیں جھپک رہی ہیں) حالانکہ وہ سورہے ہیں اور مارے دہشت کے پیٹھ پھیر کے بھاگ جائو۔ ظاہر ہے آپ کسی کو ایسے سوئے دیکھیں گے جو آواز بھی نہ سن رہا ہو اور آنکھیں جھپکا رہا ہو آپ بھی بھاگیں گے۔
۰ سائینس کہتی ہے ہائیبرنیشن میں ایک جاندار اپنے جسم کی انرجی کا بڑا حصہ استعمال کرلیتا ہے اور باہر آتے ساتھ ہی وہ شکار شروع کر دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے جیسے ہی وہ اٹھے ایک نے کہا بازار سے بہترین کھانا لے کر آئو۔
ان سب نکات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب کہف Human Hibernation کی وہ ٹیکنالوجی حاصل کرچکے تھے جو فلم Messenger میں دکھائی گئی ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہوا کیا انہوں نے کوئی پھل یاجڑی بوٹی کھائی یا کسی ایسے جانور سے کوئی چیز ان کے جسم میں منتقل ہوئی جو غار میں ہائیبرنیٹ کر رہا تھا اللہ بہتر جانتا ہے لیکن قرآن کی اس سورت کے ان چند جملوں کو پرکھنے کے لئیے میں ناسا اور ان دوسرے اداروں کو دعوت دیتا ہوں جو ہائیبرنیشن کو (خلا میں جانے کے لئیے اور کئی مریضوں کو علاج کے لئیے) استعمال کرنے پر تحقیق کر رہے ہیں کہ آئیں غور کریں اور دیکھیں ایسی کیا وجہ ہے کہ اصحاب کہف اتنا عرصہ سو پائے۔
اگر تین سو شمسی سال کو گوگل میں لکھ کر قمری سال میں تبدیل کریں تو 309 سال بنتے ہیں قرآن کہتا:
" اور اصحاب کہف اپنے غار میں نو اوپر تین سو سال رہے"
سبحان اللہ کیا اعدادوشمار اور حکمت ہے میرے رب کی۔ یہ چند نوجوان تھے باقی پوری سلطنت گمراہ اور بادشاہ ظالم تھا جو انہیں پتھر مار مار کر مارنا چاہتے تھے لیکن جب ان نوجوانوں نے رب پہ بھروسہ کیا تو اس نے ان کے لئیے راہ نکالی اور ہمارے لئیے اس میں ایک سبق چھوڑ دیا۔
ترکی کے شہر Tarsus میں ایک غار موجود جسے اصحاب کہف کی غار مانا جاتا ہے۔ اصحاب کہف کا واقعہ عیسائی مذہبی کتابوں اور رومی تاریخ میں بھی The Seven Sleepers کے نام سے موجود ہے. لیکن جو قرآن نے بالکل سائینس کے موافق بیان کیا ایسا بیان کسی کتاب میں نہیں ملتا۔

روشن تاریخ
نام کے معنی جانیے
مشہور اشاعتیں
بلاگ آرکائیو
-
▼
2021
(246)
-
▼
جنوری
(17)
- کیلنڈر مصطفائی تحریک پاکستان 2021
- 🌈 مرکزی آفس میں مرکزی امیر مصطفائی تحریک محترم غل...
- مصطفائی تحریک کے ذمہ داران کے سکولز کا شاندارQAT ...
- سقوط غرناطہ (2جنوری 1492) بشکریہ حافظ محمد زوار ن...
- 👂 کیا واقعی انسان 309 سال تک سو سکتا ہے؟ بشکریہ ع...
- 18 جنوری سے نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک سکول ک...
- مستقبل میں تعلیم کیسی ہوگی۔ 💻 بشکریہ AERI ۔
- محترم سلیم اختر غوری صاحب صوبائی صدر مصطفائی تحریک...
- قائدِ طلباجناب محترم اعظم رانجھا صاحب کی مصطفائی ...
- ◼ میں ہزارہ ہوں ! تحریر :عارف انیس
- مصطفائی تحریک یونین کونسل پبر والا جھنگ کی میٹنگ ...
- لاہور : 💫 قومی تعلیمی کنونشن 9 جنوری زیر اہتما...
- حکیم محمد سعید ایک ہمدرد -
- مصطفائی تحریک نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ کی ماہان...
- روشن تاریخ : 15 نومبر 1991 محفل نعت تاندلیانوالہ
- قائد طلبا برادر اعظم رانجھا مرکزی صدر انجمن طلبا ا...
- پائی کوائن کی مائننگ اور بیلچہ سپلائرز
-
▼
جنوری
(17)
آفیشل لوگو
👂 کیا واقعی انسان 309 سال تک سو سکتا ہے؟ بشکریہ عبدالستار چشتی
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
مصطفائی ویڈیو پورٹل
نیوز آرٹیکلز
کالمز
محترم احباب تاریخ کو محفوظ کرنے کے نقطہ نظر سےمصطفائی نیوز
(روشن تاریخ تصاویر کے آئینے میں) کے نام سے ایک سلسلہ شروع کر رہا ہے۔ جس میں سن دو ہزار (2000 ء ) سے پہلے کے پوسٹر، بروشئر، تصاویر اور دعوتی کارڈ مصطفائی نیوز میں پوسٹ ہو سکیں گے ۔
احباب متذکرہ بالا میٹیریل ان باکس میں سینڈ کر سکتے ہیں ۔ مصطفائی نیوز میں اپ لوڈ کردیا جائے گا ۔ تصویر کے لئے ضروری ہے ساتھ دو لائنیں جس میں تاریخ،پروگرام، شخصیات کے نام گرامی لازمی تحریر ہوں۔
(روشن تاریخ تصاویر کے آئینے میں) کے نام سے ایک سلسلہ شروع کر رہا ہے۔ جس میں سن دو ہزار (2000 ء ) سے پہلے کے پوسٹر، بروشئر، تصاویر اور دعوتی کارڈ مصطفائی نیوز میں پوسٹ ہو سکیں گے ۔
احباب متذکرہ بالا میٹیریل ان باکس میں سینڈ کر سکتے ہیں ۔ مصطفائی نیوز میں اپ لوڈ کردیا جائے گا ۔ تصویر کے لئے ضروری ہے ساتھ دو لائنیں جس میں تاریخ،پروگرام، شخصیات کے نام گرامی لازمی تحریر ہوں۔
مقصد تاریخ کو محفوظ کرنا۔اور ضرورت پڑنے پر مصطفائی نیوز سے دستیاب ہو سکیں۔ فی الحال صرف سن دو ہزار ( 2000 ء ) سے پہلے کا ریکارڈ،اس کے بعد کے ریکارڈ کے لیے دوبارہ درخواست کی جائے گی۔ شکریہ
ایڈیٹر : مصطفائی نیوز ای میگزین
اداریہ
روشنی کی کرن.
مصطفائی تحریک پاکستان اپنےقیام سے لے کر اب تک وطن عزیز میں ایک پرامن،ترقی یافتہ اور عدل و انصاف پر مبنی مصطفائی معاشرہ کی تشکیل کے لیے سرگرم عمل ہے- فکری و عملی محاذ پر اپنی جہدِ مسلسل کے تقریباً ۲۸ سال ہونے پر مصطفائی تحریک کے کارکنان ملک بھر میں معیاری تعلیم کے ترویج،عشق رسول کے فروغ اور سماجی خدمات کے ذریعے اپنا حصہ شامل کر رہے ہیں-جن میں مصطفائی رضاکاروں کے جذب دروں اور ٹھوس عملی کاوشوں کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ...... آن لائن .. مصطفائی نیوز کی عملی و سماجی حلقوں میں وسیع پیمانے پر پذیرائی کے لئے مصطفائی رضاکار اس حسین گلدستہ کی تیاری میں اپنا کردار ادا کرئیں۔ اور نا مساحد حالات ،قلت وسائل اور معاشرتی سطح پر چھائی عمومی بےحسی اور اہم قومی مسائل و امور سے لاتعلقی کے خوفناک رجھان کے باوجود مصطفائی تحریک اور اس سے وابستہ افراد و ادارے ایک شمع فروزاں کی حثیت رکھتے ہیں جسے مصطفائی کارکن اپنے خون جگر سے روشن رکھے ہوئے ہیں-ہمیں امید ہے۔ کہ محبت رسول کی مشعل تھامے اور خدمت انسانیت کا بیڑا اٹھائے مصطفائی رضاکار پہلے سے زیادہ عزم و ہمت اور یقین کامل کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے-ہم مصطفائی رضاکاروں سے ایک بار پھر ملتمس ہیں کہ وہ اپنے افکار و تاثرات،ماضی کی یادوں اور مستقبل کے خوابوں پر بنی اپنی قیمتی نگارشات اور اس مشکل کی گھڑی میں ملک بھر میں اپنی خدمات کی اطلاع دیں۔ تاکہ عام لوگوں میں بھی خدمت اور کاروان خیر کے اغراض و مقاصد اور کامرانیوں سے آگاہی کا سلسلہ مسلسل اگے بڑھتا رہے-آمین
محمد عابد ضیائی
چیف ایڈیٹر ماہنامہ مصطفائی نیوز کراچی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں