تحریر ۔۔۔ مظہر سلیم حجازی
پہلا منظر
پچیس سال قبل ، ایک دور تھا جب پیشے کے لحاظ سے وکیل ، وہ شخص میرے ٹیبل پہ ایک سائل بن کر آیا ، اسے میرے بینک سے سرکار کے بےروزگاروں کے لئیے منصوبے سے اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئیے قرض درکار تھا ، اس نے قرض لئیے اور ان قرضوں سے بھائی بیرون ملک بھیج دئیے ، ازاں بعد قرض نہ چکا سکنے کے باعث نادھندہ بھی ھوا ۔۔۔۔
دوسرا منظر
بھائیوں کی بیرون ملک آمدن سے اس نے ہمارے ضلع کا سب سے بڑا فوڈ بزنس شروع کیا ، بزنس کیا شروع کیا لاھور تا راولپنڈی اس کے گاہکوں کی لائن لگ گئی۔ آج بلا مبالغہ یہ صاحب ہمارے ضلع کے اپنے شعبے کے بگ باس کہے جا سکتے ہیں
تیسرا منظر
آج اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اس پرانے واقف کی خیریت دریافت کی جائے ، پس خیال آتے ھی سواری کا رخ موڑا اور کئی ایکڑ پر محیط اس کاروباری مرکز کے صدر دروازے پر پہنچا تو ملازم نے بتایا کہ صاحب موجود ہیں ، ملازم کی رہنمائی میں عمارت کے ایک زیر تعمیر حصہ میں پہنچا جہاں صاحب ایک واجبی سی کرسی پر براجمان مستریوں کے کام کی نگرانی کر رھے تھے
چوتھا منظر
قریب پہنچ کر اسلام علیکم کہا اور پہلی نظر میں ھی میں نے پہچان لیا کہ یہ صاحب تو وہ ھی ہیں ، بس پچیس سال پہلے والی وجاھت نہیں اور نہ ھی تندہی ۔۔۔۔۔۔
تاخیر سے وعلیکم السلام کی آواز آئی تو محسوس ھوا کہ صاحب کی طبیعت ناساز ھے ،
میں نے قدرے بلند آواز میں اپنا تعارف کروایا تو صاحب بولے کہ ":پہچانا نہیں "
یہ سن کر گویا میرے تن بدن میں بجلی دوڑ گئی کہ یہ صاحب یا تو اوور سمارٹ بن رھے ہیں اور یا پھر امر ربی وارد ھو چکا ھے کہ یہ صاحب اب اپنے حواس اور اوسان پر قابو رکھنے سے قاصر ہیں ۔۔۔۔
جب زور دے کر یاد کروایا تو پھر بھی جواب ندارد ، اسی اثنا میں مجھے موصوف کو غور سے دیکھنے کے لئیے چند ساعتیں میسر آ چکی تھیں ، یہ ارب پتی تقریبا 52 سالہ " بزرگ " کاروباری شخصیت دو مختلف رنگوں کی بغیر استری شلوار قمیض میں ملبوس تھے اور اس بے ڈھب ادھ کھلے گریبان والی قمیض سے ان کا پیٹ باھر آنے کی تگ و دو میں مصروف
، جبکہ ان کے پاؤں میں قینچی نما چپل تھی اور ان کے بائیں پاؤں کے ٹخنے سے انگلیوں تک سوجن کا ایک ابھار تھا جبکہ دوسرے پاؤں کے ایک زخمی حصے پر باوجود دوائی کی رنگت کے
ان گنت مکھیاں بھنبھنا رھی تھیں اور صاحب ان مکھیوں کی کارروائی سے بالکل بے پرواہ تھے ۔ گویا محسوسات بھی جواب دے چکے تھے ۔
ضلع منڈی بہاوالدین میں عوامی خوراک کے سب سے بڑے پروڈیوسر اور فروخت کنندہ کا یہ حال دیکھ کر میری زبان پر توبہ کے علاؤہ اور کچھ نہ تھا ۔
چند منٹ نا اپنائیت اور عدم واقفیت کے اس تپتے ماحول میں رہنے کے بعد میں اجازت کا طالب ھوا ۔
پانچواں منظر
میرا ایک ہمدم دیرینہ ایک سادہ سے گھر کا رہائشی ، عمر بھی تقریبا 52 سال ھی ، کاروبار کے جھمیلوں سے آزاد مختصر سی تنخواہ کے ساتھ ایام زندگی کو خوب بسر کر رھا ھے ۔۔۔۔۔۔۔
نہ بیماریوں کا آزار نہ لمبے حسابات کی فکر ، نہ یادداشت کا مرض نہ نسیان کا عادی ملاقاتی جاننے والا ھو یا انجان سب ملنے کے بعد یہی سمجھتے ہیں گویا دہائیوں کی دوستی ھو
کہاں ایک ارب پتی ، جسے ایک ھی وقت میں مکھیوں کے ٹولے کی کاٹ کا احساس نہیں ، آنے والے کی پہچان نہیں اور جانے والے کا نام یاد نہیں ، جس عمر میں لوگ اپنے تجربات سے اپنے معاشرے کی نئی نسل کو مستفید کر رھے ھوتے ہیں اس طرح کے خالصتا دنیا دار اور پیسے کے ڈھیر پر بیٹھے لوگ ڈاکٹروں کی تجربہ گاہ بن چکے ھوتے ہیں
اور
دوسری طرف سادہ ، کم وسائل یافتہ مگر استغنا اور زندگی سے بھر پور لوگ ، خواہشات کے بے لگام گھوڑے کے مسافر نہیں بلکہ صبر اور رضا کی کشتی سے ساحل مراد پانے کے تمنائی ۔۔۔۔
جو صرف زندگی گزار نہیں رھے بلکہ زندگی کا ھر گزرا لمحہ ان پہ فخر کرتا ھے
جو توکل علی اللہ کی دولت سے مالامال بھی ہیں اور مخلوق کے دکھ درد کے ساجھی بھی ۔۔۔۔ جو پروردگار کی نعمتوں پہ شاکر بھی ہیں اور قانع بھی ۔۔۔۔۔
آئیے پروردگار سے لمبے حسابات والے مال و دولت نہیں
بلکہ صحت ، تندرستی ، صفت غنا ، قناعت ، رزق حلال ، سماج کی خدمت ، عزیز و اقربا سے تعلقات ، دوستوں کی خبر گیری ، ہمساوں کی دلجوئی اور کم وسائل یافتہ طبقات کی اعانت جیسی توفیقات کی درخواست کریں ۔۔۔۔۔
خوشیوں کا ایک ھی راستہ ھے جو دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کے بعد ھی کھلتا ھے 🌺
خوشی اور غم کا تعلق مال و دولت کے زیادہ یا کم ھونے سے نہیں بلکہ دستیاب وسائل اللہ کی رضا کے لئیے وقف کرنے سے ھے ۔۔۔۔🌹
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں