بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا منظور احمد شاہ (رح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✏ تحریر و ہدیۂِ عقیدت:- احمد ثبات قریشی الہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بے شک اللہ کے بندوں میں سے اُس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں یقیناً اللہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔(سورۃ الفاظر 28/35)
رب العالمین نے نبوت کے بعد اگر فضیلت عنایت فرمائی ہے تو وہ صاحبانِ حق علماء کو عنایت فرمائی ہے یہ وہ احباب ہیں کہ جو انبیاء کے وارث ہیں۔بے شک نبوت کا دروازہ جنابِ خاتم النبیین (صل اللہ علیہ وعلٰی آلہ واصحابہ وسلم) کے بعد ہمیشہ کیلیئے بند ہو چکا ہے اور آقا کریم رؤف و رحیم (صل اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم) کے بعد نہ ہی کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی مثلِ نبی لیکن آپ(صل اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم) کا پیغام کوچہ کوچہ کریہ کریہ پہنچانے کی ذمہ داری علماءِ اکرام جس خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے ہیں وہ لائقِ تحسین ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ایسی ہی ایک نابغہ روزگار شخصیت کی ولادت اپنے وقت کے معروف عالمِ دین حضرت مولانا چراغ علی شاہ(رحمتہ اللہ علیہ) کے گھر 24 رجب المرجب 1339 ھ /15 دسمبر 1930 ء موضع چوہان ضلع فیروزپور(انڈیا) میں ہوئی۔آپ کا خاندانی سلسلۂِ نسب حضرت سید امام مسلم (حضرت مسلم بن عقیل رض) سے جا ملتا ہے۔آپ حسبی نسبی قریشی ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔حضرت منظور احمد شاہ صاحب(رح) کے والدِ گرامی اپنے وقت کے معروف عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ طبیب بھی تھے اس کے علاوہ جامع مسجد جلال آباد میں خطابت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے
آپ(رحمتہ اللہ علیہ) نے فارسی اور صَرف کی کتب (مکمل) اپنے والدِ بزرگوار سے ہی پڑھیں۔اور پھر جلال آباد غربی فیروز آباد کے مدرسہ امداد العلوم میں زیرِ تعلیم رہے۔تقسیمِ ہند کے بعد آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کا خانوادہ ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور ساہیوال کے موضع ڈھپئی میں سکونت اختیار کی۔بعد ازاں آپ (رحمتہ اللہ علیہ) نے موضع ٹوانہ میں مولانا ابوالسیر مولانا محمد اسماعیل فاضل بصیر پوری سے کنز الدقائق، قدوری اور کافیہ وغیرہ کی کتب پڑھیں۔ مشکوٰۃ شریف اور جلالین شریف کا درس پاکپتن شریف کے مولانا الحاج محمد شریف نقشبندی سے لیا اور پھر اہلِ سنّت کی مرکزی درسگاہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور میں داخل ہوئے۔ یہاں آپ دو تین سال تک فقیہہ اعظم ابوالخیر مولانامفتی محمد نور اللہ نعیمی سے شرف تلمذ حاصل کرتے رہے اور بالآخر اسی دار العلوم سے 1952ء میں سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔ آپ نے درسِ نظامی کے نصاب کی تکمیل کے علاوہ میڑک، فاضل عربی اور فاضل فارسی کے امتحانات بھی پاس کیئے۔ جامعہ اسلامیہ بہاولپور سے درجہ تخصص (ایم اے) کی ڈگری حاصل کی۔ علاوہ ازیں آپ علماء اکیڈمی کوئٹہ و پشاور کے بھی فاضل ہیں۔
آپ نے 1954ء میں سلسلۂِ عالیہ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ شیخ الاولیاء حضرت میاں علی محمد آف بسّی شریف کے حلقۂِ ارادت میں بیعت اختیار کی۔ تائیدِ خداوندی سے آپ نے 66 سے زائد مرتبہ حجِ بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ انور سے مشرّف ہوئے۔اس حوالے سے آپ(رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے تھے کہ پہلی بار میں اپنی والدہ کو حج کے لیئے لے کر گیا اور وہاں ان کی بہت ہی ذیادہ خدمت کی ایک روز والدہ محترمہ بیت اللہ شریف کے صحن میں بیٹھ کر بارگاہِ ربی میں عرض گزار ہوئیں کہ "اے میرے رب! میرے بیٹے نے میری بہت خدمت کی ہے۔تو اسے ہر سال اپنے گھر میں حاضری کی توفیق عطا فرما"۔فرماتے ہیں میں نے دل میں سوچا کہ میں تو ایک غریب آدمی ہوں پہلے ہی بڑی مشکل سے حج بیت اللہ کی حاضری نصیب ہوئی ہے والدہ نے محبت میں دعا تو دے دی خیر اللہ جانے اور اس کا کام جانے۔فرماتے ہیں اس کے بعد ہر سال ہی کوئی نہ کوئی دوست یا محبت کرنے والا خود ہی میرے اخراجات اٹھاتا اور مجھے اپنے ساتھ بیت اللہ شریف کی زیارت کے لیئے لے چلتا۔اور میں اللہ کا شکر گزار ہوتا کہ اس نے میری والدہ کی دعا کو شرفِ قبولیت عطا فرمائی۔ہمیشہ زور دیتے کہ اپنے ماں باپ کی بے لوث خدمت کرو اور ان سے دعائیں وصول کرو کہ ان کی دعائیں ہی کامیابی کی ضمانت ہیں۔
1952ء میں آپ نے درسِ نظامی کی تحصیل کے بعد ساہیوال کے محلّہ حیدری سے تبلیغِ دین کا آغاز کیا۔ صحیح عقائد کی ترویج اور اصلاحِ معاشرہ کے فرائض، بے شمار رکاوٹوں کے باوجود احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ مسجد قصاباں بیرونِ غلّہ منڈی میں خطابت فرمائی اور پھر سنہری مسجد گول چکر میں تشریف لائے جہاں وفات تک تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں آپ نے ایک دینی ادارہ کی بنیاد ڈالی جو پہلے دار العلوم عربیہ اور پھر جامعہ حنفیہ کے نام سے موسوم ہوا۔ بارہ سال اسی دار العلوم میں مہتمم اور مدّرس کے طور پر کام کرنے کے بعد آپ نے 1963ء میں ایک نیا دار العلوم جامعہ فریدیہ کے نام سے قائم کیا۔
پاکستان بننے کے بعد مرزائیت کے ناسور کو ختم کرنے کی خاطر مسلمانانِ پاکستان نے دومرتبہ (1953ء اور 1974ء) تحریک چلائی جو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیّت قرار دیا۔ ان دونوں تحریکوں میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ 1953ء کی تحریک میں آپ نے ساہیوال میں دورے کیے اور مرزائیوں کے عقائد سے عوام کو روشناس کرایا۔ ’’مرزائیوں سے بائیکاٹ کی شرعی حیثیت‘‘ نامی رسالہ دس ہزار کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کیا۔ مختلف باطل فرقوں کے مبلّغین بالخصوص مشہور عیسائی پادریوں سے آپ کے بہت سے مناظرے ہوئے اور انہی مناظروں میں اسلام کی حقّانیت کا اقرار کرتے ہوئے ایک ہزار سے زائد عیسائی آپ(رح) کے دستِ حق پر حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔
تحریر ہر دور میں ہی دعوت و تبلیغ کا بہترین ذریعہ رہی ہے الفاظ تو ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں لیکن تحریر ایک سند کے طور پر ہمیشہ رہتی ہے۔رب العالمین جب کسی بندے پر انعام فرماتا ہے تو اسے تحریر کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ اس کی تحریر آنے والی نسلوں کے لیئے راہِ ہدایت بنے اور لکھاری کے لیئے صدقۂِ جاریہ کا باعث بن پائے ۔یہی انعام رب العالمین نے حضرت منظور احمد شاہ صاحب (رحمتہ اللہ علیہ) پر بھی فرمایا۔آپ(رحمتہ اللہ علیہ) نے میدانِ تحریر میں کافی کام کیا ہے۔ آپ کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
حضور الحرمین۔آئینہ حق۔مقالۂ علمیّہ۔لاتثلیت فی التوحید۔مسیح کون ہے۔بہائی اصول۔اسلام اور ماہِ صیام۔اسلام اور انفاق فی سبیل اللہ۔اسلام اور حفظانِ صحّت۔اسلام اور سوشلزم۔اسلام اور عید قربان۔فلسفۂ زکوٰۃ۔فلسفۂ جہاد۔علِم القرآن۔جنگِ مصر۔مرزائیوں سے بائیکاٹ کی شرعی حیثیت۔
فیوضاتِ فریدی۔فیوضات فریدی مختلف دینی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے
الفریدی کے نام سے آپ کی سرپرستی میں ایک ماہوار تبلیغی رسالہ بھی شائع ہوتا رہا۔اس کے علاوہ بعض افراد کی رائے میں کل سو سے زائد چھوٹے بڑے رسائل و کتابچے آپ(رحمتہ اللہ علیہ) نے مختلف موضوعات پر تحریر فرمائے
حقیقت یہ ہے کہ حضرت منظور احمد شاہ صاحب(رحمتہ اللہ علیہ) کی علمی و دینی خدمات کا شمار چند سطور میں کرنا ناممکن ہے اس کے لیئے رسائل کے رسائل بھی شاید کم پڑ جائیں
علم و فضل کا یہ ماہتاب 27 ذوالحج (1440ھ) /25 اگست 2019ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کو ساہیوال میں سپردِ خاک کیا گیا۔پوری دنیا میں آپ کے بےشمار شاگردان آج بھی دینِ اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔
دعا ہے کہ رب العالمین حضرت(رحمتہ اللہ علیہ) کی تمام تر دینی و ملی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کے قائم کردہ اداروں و تالیفات کو تاقیامت قائم و دائم رکھے اور ان کے باعث دینِ حق کی ہمیشہ خدمت ہوتی رہے اور حضرت(رحمتہ اللہ علیہ) کے لیئے صدقۂِ جاریہ کا باعث بنے اور ہم سب کو بھی صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ بالخیر فرماتے ہوئے جنابِ خاتم النبیین (صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم) کا ساتھ و شفاعت نصیب فرمائے آمین یا الرحم الراحمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں